Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Scholarly Articles

ایمان کی نفیس توضیح


حدیث شریف: حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ: جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ دیا اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہی دوستی یا دشمنی کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہی کسی کو برے کام سے منع کیا اس کا ایمان کامل ہوا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کمالِ ایمان یہ ہے کہ تقاضائے عقل تقاضائے طبیعت پر غالب آجائے۔ ایمان صرف عقائد اور عمل کا نام نہیں ہے بلکہ اُن کیفیات کا نام ہے جن سے رفتہ رفتہ مومن کا قلب مزین Ùˆ رنگین ہوجائے‘ یعنی متابعت شریعت میں وہ لطف Ùˆ لذت محسوس ہونے Ù„Ú¯Û’ جو طبعی مرغوبات میں محسوس ہوتی ہے۔ نماز Ú©Û’ وقت نماز‘ ماہ رمضان شریف میں روزے‘ اور نصاب شرعی پر زکوٰۃ ادا کرنے Ú©ÛŒ اتنی خواہش ہو جیسے کہ سردی میں گرم Ú©Ù¾Ú‘Û’ اور گرمی میں Ù¹Ú¾Ù†ÚˆÚ© حاصل کرنے Ú©ÛŒ ہوتی ہے۔ اور یہ کیفیت اُسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ نفس اپنی سرشت Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر شریعت غرّاء Ú©Û’ بالکل تابع ہوجائے ‘اُسی کا نام ’’نفس مطمئنہ‘‘ بھی ہے۔ جب نفس میں یہ ذوق پیدا ہوجائے تو بلا تکلف شریعت پر دائمی عمل میسر آجائے گا اور اُس وقت وہ ایمان حاصل ہوگا جو بڑی حد تک زوال Ú©Û’ خطرہ سے مامون ہوگا۔ صوفیائے کرام Ú©ÛŒ اصطلاح میں اس کا نام ’’ولایت کبریٰ‘‘ ہے اور شریعت غرّاء میں اسی Ú©Ùˆ ایمان کامل کہتے ہیں۔
حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایمان Ú©Û’ یہ معنی ہیں کہ ماسوی اللہ سے قطع تعلق کردے اور جس شئے Ú©ÛŒ طرف دل مائل ہو اُس سے اجتناب کرے۔ اور فرماتے ہیں اگر زبان سے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہے اور دل میں اعتقاد نہ ہو ‘یہ منافقوں کا ایمان ہے۔
حضرت ابو محمد حریری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایمان کی سلامتی اور دین کا نتیجہ اور تن کی دُرستی تین چیزوں میں ہے:
(۱) اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا۔
(۲) منہیات (منع کی ہوئی چیزیں) سے بچنا۔
(۳) غذاء میں حلال کا خیال رکھنا۔
اور فرمایا: جو شخص خدائے تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اُس کا باطن درست رہتا ہے‘ اور جو شخص منہیات سے پرہیز کرتا ہے اُس کا باطن روشن ہوجاتا ہے۔ اور جو شخص غذاء Ú©Ù… کھاتا ہے اس کا نفس محنت Ú©Ø´ بنتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کا عوض معرفت Ú©ÛŒ پاکیزگی اور تقویٰ کا انجام حُسنِ خُلق ہے‘ اور بھوک Ú©ÛŒ برداشت کا نتیجہ تندرستی اور اعتدال طبیعت ہے۔
حدیث شریف: حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ: مسلمان بندہ جب تک اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام چیزوں بلکہ اپنی جان سے زیادہ دوست نہ رکھے تب تک اس کا ایمان مکمل نہیں۔
حضرت پیرانِ پیر غوثِ اعظم دستگیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ Ú©Û’ ساتھ دل کا عقد اور پیوند ہوجائے اور نفع Ùˆ نقصان سب Ú©Ú†Ú¾ اللہ تعالیٰ ہی Ú©ÛŒ طرف سے سمجھے‘ ماسویٰ اللہ جن Ú©ÛŒ طرف دل مائل ہو‘ اُن سب Ú©Ùˆ دل سے دور کیا جائے۔
ایمان قول Ùˆ عمل کا نام ہے‘ صرف کلمۂ شہادت کا پڑھنا تم سے قبول نہ کیا جائے گا اور نہ تمہیں نفع دے گا۔ اس لئے کہ ترکِ نماز Ùˆ روزہ Ùˆ صدقہ اور ارتکاب گناہ اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ نافرمانی Ùˆ مخالفت اور اس پر اصرار جیسے ناشائستہ افعال تم سے سرزد ہورہے ہیں، ایسی صورت میں کلمۂ شریف Ú©ÛŒ شہادت تمہیں کسی بات میں بھی نفع نہیں دے گی۔
جب تم لا الہ الا اللہ کہہ کر مدعی بنے تو تم سے تصدیق دعویٰ Ú©Û’ لئے گواہ طلب کئے جائیں Ú¯Û’‘ تم جانتے ہو کہ گواہ کیا ہیں؟ Ø­Ú©Ù… کا مان لینا اور تعمیل کرنا اور جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے باز آنا اور آفتوں پر صبر کرنا۔ اور تقدیر الٰہی Ú©Ùˆ تسلیم کرنا اس دعویٰ Ú©Û’ یہ گواہ ہیں۔ اور جب تم ان اعمال پر کاربند بھی ہوجاؤ Ú¯Û’ تو اخلاص Ú©Û’ بغیر قبول نہ کئے جائیں Ú¯Û’Û” قول بغیر عمل اور اتباعِ شریعت Ú©Û’ قبول نہیں۔
اصل ایمان یہ ہے کہ اپنے آپ Ú©Ùˆ کتاب (قرآن مجید) اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ ہدایات Ú©Û’ سپرد کردے Û” جو Ø­Ú©Ù… وہاں سے ملے اس Ú©Û’ Ø¢Ú¯Û’ سرجھکادے ان Ú©Û’ مقابلہ میں کسی Ú©ÛŒ نہ سنے Û” اپنے دل ‘ نہ اپنے افرادِ خاندان اور نہ دنیا والوں کی۔ یہ کیفیت جس میں پیدا ہوجائے وہی مومن ہے اور مسلم ہے۔ اور جو شخص اس کیفیت سے خالی ہو اُس Ú©ÛŒ حیثیت منافق سے زائد نہیں۔
حدیث شریف: حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ : دل سے اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا نام ایمان ہے۔ زبان سے اقرار کرنا اور ہاتھ پاؤں وغیرہ سے عمل کرنا ایمان کی خصوصیات ہیں۔ مومن کے دل میں ایمان اللہ تعالیٰ کا ایک پوشیدہ راز ہے اور اسلام ظاہر ہے۔
اور فرمایا ایمان برہنہ ہے‘ اس Ú©ÛŒ پوشاک پرہیزگاری ہے‘ اور حیاء اس Ú©ÛŒ زینت ہے‘ اور علم اس کا Ù¾Ú¾Ù„ ہے۔
حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کوئی شخص ایمان کی حقیقت کو نہ پہونچے گا جب تک کہ ان چار امور کی پابندی نہ کرے:
(۱) یہ کہ: فرائض بشرط سنت ادا کرے۔
(۲) یہ کہ: لقمۂ حلال بشرطِ زُہد کھائے
(۳) یہ کہ : ظاہر و باطن سے سب برے کام چھوڑ دے
(۴) تادمِ مرگ ان امور کا پابند رہے۔ س حضرت عبداللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: مومن میں کم سے کم یہ تین خصلتیں ہونا ضروری ہے:
(Û±) اگر کسی Ú©Ùˆ نفع نہ پہونچاسکے‘ تو نقصان بھی نہ پہونچائے۔
(Û²) اگر کسی Ú©Ùˆ خوش نہ کرے ‘ تو رنجیدہ بھی نہ کرے۔
(Û³) اگر کسی Ú©Ùˆ اچھا نہ کہہ سکے‘ تو برا بھی نہ کہے۔
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں Ù†Û’ تین آدمیوں Ú©Ùˆ دیکھا کہ ایک جنازہ Ú©Ùˆ اٹھائے لیے جاتے ہیں۔ ان تین آدمیوں Ú©Û’ سوا جنازہ Ú©Û’ ساتھ کوئی نہ تھا۔ میں Ù†Û’ میت کا حال دریافت کیا تو لوگوں Ù†Û’ کہا کہ یہ شخص نہایت درجہ کا بدکار‘ فاسق Ùˆ فاجر تھا۔ پھر میں Ù†Û’ اس پر نماز Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ اور اس Ú©Ùˆ قبر میں اتارا۔ اس Ú©Û’ بعد میں سایہ میں جاکر سورہا۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ آسمان سے دو فرشتے اترے اور اس Ú©ÛŒ قبر Ú©Ùˆ پھاڑا‘ ایک فرشتہ قبر میں گیا اور دوسرے فرشتے سے کہا تو اس Ú©Ùˆ اہل نار سے (دوزخی) Ù„Ú©Ú¾‘ اس کا کوئی عضو ایسا نہیں ہے کہ معاصی (گناہوں) سے آلود نہ ہو۔ اوپر والے فرشتے Ù†Û’ کہا :کہ میرے بھائی جلدی نہ کر‘ میت Ú©ÛŒ آنکھوں Ú©Ùˆ جانچ! اندر والے فرشتے Ù†Û’ کہا میں جانچ چکا ہوں اللہ عزو جل Ú©Û’ محارم دیکھنے سے بھری ہوئی ہیں‘ اوپر والے Ù†Û’ کہا اس Ú©Û’ کانوں کا امتحان کر!
اندر والے Ù†Û’ کہا اس Ú©Û’ کانوں کا بھی امتحان کرچکا ہوں۔ فواحش Ùˆ منکرات Ú©Û’ سننے سے بھرے ہوئے ہیں۔ اوپر والے Ù†Û’ کہا اس Ú©ÛŒ زبان کا امتحان کر! اندر والے Ù†Û’ کہا میں اس کا بھی امتحان کرچکا ہوں ممنوعات Ùˆ ارتکاب محرمات میں گفتگو کرنے Ú©Û’ ساتھ بھری ہوئی ہے۔ اوپر والے Ù†Û’ کہا اس Ú©Û’ ہاتھوں کا امتحان کر! اندر والے Ù†Û’ کہا میں ان کا بھی امتحان کرچکا ہوں‘ لذّات Ùˆ شہوات Ùˆ مال حرام Ú©Û’ لینے سے بھرے ہوئے ہیں۔ اوپر والے Ù†Û’ کہا اس Ú©Û’ پاؤں کا امتحان کر! اندر والے Ù†Û’ کہا ان کا بھی امتحان کرچکا ہوں‘ مذموم کاموں اور نجاستوں میں سعی کرنے Ú©Û’ ساتھ بھرے ہوئے ہیں۔ اوپر والے Ù†Û’ کہا اے میرے بھائی تو جلدی نہ کر مجھے قبر Ú©Û’ اندر آنے دے! پھر وہ خود قبر میں اتر کر Ú¯Ú¾Ú‘ÛŒ بھر تک میت Ú©Û’ پاس ٹھہرا رہا۔ اس Ú©Û’ بعد اپنے ہمراہی فرشتہ سے کہنے لگا میں Ù†Û’ اس Ú©Û’ دل کا معائنہ کیا ہے‘ اس میں نور ایمان Ú©ÛŒ ایک کرن پائی جس Ú©Ùˆ نور بسیط بننے دیر نہیں لگتی ØŒ تو تُو اس Ú©Ùˆ مرحوم Ùˆ سعید Ù„Ú©Ú¾! اس ایمان Ú©ÛŒ کرن Ú©Û’ طفیل میں مولیٰ سبحانہ Ùˆ تعالیٰ Ú©Û’ فضل Ùˆ کرم اور حمت Ù†Û’ اس Ú©Û’ گناہوں اور خطاؤں Ú©Ùˆ گھیرے میں لیا ہے؂
ازاں افیوں کہ ساقی کردہ بدمست
رفیقاں را نہ سر ماند نہ دستار
ترجمہ: جس افیون سے ساقی نے بدمست کردیا ہے
دوستوں کا سر رہے گا نہ دستار
خلاصہ یہ ہے کہ ایمان کامل میں اس منزل کا نام یقین ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عقل انسانی جب نشۂ یقین سے مخمور ہوجاتی ہے تو قلب ونفس اس قدر متاثر ہوجاتے ہیں کہ عالمِ غیب پر اُن Ú©Ùˆ محسوسات Ú©ÛŒ طرح یقین نصیب ہوجاتا ہے‘ فقر Ùˆ غنا (مفلسی Ùˆ تونگری) حیات Ùˆ ممات Ú©Û’ خرخشوں سے بے نیاز ہوجاتے ہیں‘ اسباب Ú©Û’ قید Ùˆ بند سے رستگاری میسر آجاتی ہے۔ یہ وہ ایمان جس پر مذہب Ú©ÛŒ تمام بنیاد قائم ہے۔ کوئی عقیدہ اپنے میں خواہ کتنی ہی رفعتیں کیوں نہ رکھتا ہو مگر اس نورِ ایمانی Ú©Û’ بغیرنظرِ شریعت میں وہ صرف ایک ظلمت کدہ اور از سر تا پا تاریکی ہے۔ کوئی عمل مجاہدات Ùˆ ریاضات Ú©Û’ خواہ کتنے ہی مراحل کیوں نہ طئے کرچکا ہو بغیر اس روح ایمانی Ú©Û’ ایک تنِ مردہ اور میدان قیامت میں بے وزن ہے۔
عقائد Ùˆ اعمال کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ کوئی بڑی سے بڑی نیکی بھی خواہ کتنی ہی صاف Ùˆ ستھری کیوں نہ ہو‘ اس سرمایۂ ایمان Ú©Û’ بغیر بارگاہِ بے نیاز میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ یہ ایمان عقائد اور اعمال اور نیتوں Ú©ÛŒ وہ واحد روح ہے‘ جس Ú©Û’ بعد کفر Ú©ÛŒ تاریکیاں چشمِ زدن میں کافور ہوسکتی ہیں‘ آتش کدۂ جہنم اس Ú©Û’ روبرو سرد ہوسکتا ہے‘ اور گلزار عدن اس کا ایک طئے شدہ معاوضہ بن جاتا ہے‘ ایک معمولی سجدہ، طاعات صد سالہ Ú©Û’ لئے مایۂ رشک اور اسی ایمان کامل کا صدقہ ‘بے شمار مدارج Ú©ÛŒ زیادتیوں کا مستحق بن سکتا ہے۔ غرض سعادتِ ابدی اسی ایمانِ کامل کا صلہ ہے‘ اور شقاوت ازلی اسی سے مح&am