Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Scholarly Articles

آخرت کی فکرہی حسن انجام


اس خاکی پتلے کا یہ سمجھنا کہ میں ہوں! یا اپنے حواس و خواص کو اپنا سمجھنا سخت نادانی ہے۔ یہ تو آج ہے کل نہ ہوگا۔ جیسے اس جسم کا سایہ روشنی میں ہے تاریکی میں ندارد۔ بس تو اس کو چھوڑ اور اپنی اصل و حقیقت کو تلاش کر جو اس سے بلند و بالاتر ہے۔
کار خود کن کارِ بیگانہ مکن
بر زمینِ دیگران خانہ مکن
کیست بیگانہ تنِ خاکی تو
کز براے اوست غمناکی تو
ترجمہ: اپنا کام کر غیروں کا کام نہ کر
دوسروں کی زمین پر مکان نہ بنا
بیگانہ کون ہے تیرا مٹی کا یہ جسم
کہ جس کے لئے تو غم خواری کیا کرتاہے
غور کرو! یہ جسم کہاں سے آیا اور کہاں جائے گا؟ وہ عدم سے آیا اور وہیں اس کی بازگشت ہوگی۔ ہمہ تن غلیظ و ناپاک گریہ و زاری کرتا ہوا ماں کے پیٹ سے اس جہان میں آیا اور زمانہ کا تختۂ مشق بنا اور طرح طرح کی احتیاجوں میں پھنسا۔
لڑکپن بے تمیزی اور محتاجی Ú©Û’ عالم میں بسر ہوا‘ ماں باپ Ù†Û’ جو کھلایا سو کھایا‘ جو پہنایا سو پہنا‘ نیند آئی تو سورہا‘ جاگا تو کھیل کود میں مصروف رہا‘ اتنا ہوش کہاں تھا کہ بُرا بھلا سمجھتا۔
جوانی تو دیوانی مشہور ہی ہے‘ بالکل جذبات Ú©ÛŒ پریشانی میں گذری‘ اس Ú©Û’ نشہ Ù†Û’ اجازت ہی نہیں دی کہ زمانہ Ú©Û’ نشیب Ùˆ فراز کا تجربہ حاصل کرے۔
پیری (بڑھاپا) بے اعتدالیوں Ú©Û’ باعث وقت سے پہلے پیری Ù†Û’ آدبایا۔ قوت Ú¯Ú¾Ù¹ÛŒ‘ ضعف بڑھا‘ امید زندگی منقطع ہوئی‘ وہ بے وفا حواس جن Ú©Û’ مزہ Ú©Û’ لئے جوانی کھوئی کج ادائی کرنے Ù„Ú¯Û’Û” بینائی Ù†Û’ آنکھ چرائی‘ سیاہ Ùˆ سفید Ú©ÛŒ تمیز نہ رہی۔ قوت شامہ (سونگھنے Ú©ÛŒ قوت) بھی نکتوڑے کرنے Ù„Ú¯ÛŒ‘ اب خوشبو Ùˆ بدبو کیسی دونوں یکساں ہیں۔ قوت سامعہ (سننے Ú©ÛŒ قوت) آنا کانا کرنے Ù„Ú¯ÛŒ‘ اچھی بری بات برابر ہوئی۔ ذائقہ Ù†Û’ منہ بنایا‘ نہ میٹھا بھاتا ہے نہ کھارا۔ لامسہ (چُھوکر محسوس کرنے Ú©ÛŒ قوت) بھی بے حس ہوگئی‘ سختی نرمی محسوس نہیں ہوتی۔ ہاضمہ میں Ú©Ù…ÛŒ ہوگئی‘ صحت میں بھی فرق آگیا قوی مضمحل اور ہوش مختل ہوگئے‘ عقل میں فتو رآگیا‘ نسیان (بھول) کا غلبہ ہوا‘ دیگر اعضاء Ù†Û’ بھی جواب دے دیا۰ کوئی کہے تو سن نہ سکا۔ ہاتھ رعشہ (لرزہ) سے کانپنے Ù„Ú¯Û’ تو پاؤں چلنے میں لڑکھڑاتے ہیں‘ چہرہ پر جھریاں پڑگئیں‘ تیر سا قد کمان بن گیا‘ امنگیں دل میں بہت آئیں مگر ضعف Ú©Û’ سبب کوئی بر نہ آئیں اس سے مزاج اور بھی چڑچڑا ہوگیا۔ غصہ بڑھا‘ زبان Ú©Ú¾Ù„ÛŒ‘ اوپر والوں (نوکروں) Ú©Ùˆ اَجیرن ہوا‘ اس درماندگی میں زندگی وبالِ جان ہوگئی۔
غلط کار تھی یہ ہماری نظر
کہ ہم اپنی کوشش کا سمجھے اثر
ہمارے تشخص نے کھویا ہمیں
ہماری خودی نے ڈبویا ہمیں
تردد میں غوطے لگایا کیے
اسی فکر میں سر کھپایا کیے
ہوا ہم کو دیوانگی کا خلل
یہ تھوڑی سی فرصت‘ یہ طولِ امل
یہ دنیا Ú©Û’ دھندے‘ معیشت کا غم
یہ دولت Ú©Û’ پھندے‘ یہ جاہ Ùˆ حشم
یہ خواہش Ú©Û’ جذبے‘ یہ راحت Ú©ÛŒ چاہ
ہمارے لئے بن گئے سنگِ راہ
ہمیں وہم نے سخت دھوکہ دیا
نہ کرنا تھا جو کام ہم نے کیا
یہ دنیا کے دھوکے کی ٹٹی ہے سب
ہمیشہ رہی اس کی ہم کو طلب
دیے بے بہا لعل ہم نے فضول
عوض میں لیا کیا ہی خاک و دھول
کٹی عمر غفلت میں اپنی تمام
گیا دن گزر‘ ہو آئی ہے شام
ایسی حالت میں بیماری کا سامنا ہوا تو بلاکی مصیبتیں جھیلنی پڑیں‘ رہی سہی طاقت Ù†Û’ ایک بخار میں جواب دے دیا‘ صورت تو پہلے ہی بے رونق تھی‘ ایک رات Ú©Û’ تپ میں اتنا سا منہ Ù†Ú©Ù„ آیا‘ دردِ سر Ù†Û’ ایسا سر اُٹھایا کہ سر اُٹھانا دشوار ہوگیا‘ ناتوانی ایسی بڑھی کہ کروٹ لینی مشکل ہوگئی‘ ہر چیز Ú©ÛŒ احتیاج (ضرورت) اور خود درماندہ حاصل ہو تو کیونکر ہو‘ اس محتاجی اور بے بسی Ù†Û’ جو رنج دیا اس کا صدمہ بیماری سے بھی زیادہ ہوا‘ یگانوں او ربیگانوں Ù†Û’ منہ موڑا‘ یار Ùˆ آشنا Ù†Û’ ساتھ چھوڑا‘ عزیز Ùˆ اقارب خدمت سے اکتا گئے‘ اوپر والے (نوکر وغیرہ) خبر گیری سے گھبراگئے‘ دعاء مانگتے ہیں کہ کہیں جلدی سے جھگڑا Ú†Ù„Û’Û” زندگی Ú©ÛŒ سرگذشت تو درد انگیز تھی ہی‘ یہ آخری وقت تو او ربھی عبرت خیز ہوا:
(Û±) وہ جسم جس Ú©ÛŒ حفاظت Ùˆ آسائش میں تمام عمر بسر Ú©ÛŒ‘ دم نکلتے ہی ایسا بھاری پڑا کہ لحظہ بھر رکھنے کا کوئی روادار نہ ہوا یا تو زمین میں ملاکر خاک میں ملادیا یا دہکتی Ø¢Ú¯ میں جلاکر اڑادیا۔
(Û²) وہ جسم جو اکیلے گھر میں اندھیرے سے ڈرتا‘ آندھی سے گھبراتا‘ بارش سے بچتا‘ بادل Ú©ÛŒ گرج سے سہم جاتا تھا‘ اب تن تنہا گورِ تنگ Ùˆ تاریک میں پڑا ہے۔ سنسان رات ہے‘ چٹیل میدان ہے‘ گھٹا Ú©ÛŒ تاریکی‘ بجلی Ú©ÛŒ Ú†Ù…Ú©‘ برسات Ú©ÛŒ جھڑیاں‘ جاڑے Ú©ÛŒ شدت‘ آندھی Ú©Û’ جھونکے‘ ہوا Ú©Û’ سناٹے سہہ رہا ہے‘ اف تک نہیں کرسکتا
(Û³) وہ جسم جس Ú©Ùˆ علم کا غرور‘ ہنر کا تکبر اور حکمت کا گھمنڈ تھا اب نہ علم Ù†Û’ مدد Ú©ÛŒ اور نہ حکمت Ú©ÛŒ Ú©Ú†Ú¾ Ú†Ù„ÛŒ‘ نہ ہنر Ù†Û’ کام دیا‘ سب خاک میں مل گئے۔ زار Ùˆ نزار ذلیل Ùˆ خوار بے یار Ùˆ مددگار بے ہو Ø´ بے خبر خاموش پڑا ہے۔
(Û´) وہ جسم جس Ú©Ùˆ تاج Ùˆ تخت‘ بہت سے ملکوں کا بے شمار چیزوں کاغرّاء Ùˆ دعویٰ تھا‘ اب دو ڈھائی گززمین اور چار پانچ گز Ú©Ù¾Ú‘Û’ Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ بھی اپنے ساتھ نہ Ù„Û’ جاسکا۔
(Ûµ) وہ جسم جو نشہ حکومت میں سرمست Ùˆ بادۂ دولت سے سرشار تھا جس Ú©Ùˆ کسی Ú©Û’ Ø¢Ú¯Û’ سرجھکانا یا زمین پر قدم رکھنا ناگوار تھا‘ اب نقشِ پا Ú©ÛŒ طرح ایک جہاں Ú©Û’ روندنے میں آرہا ہے اور کسی کا Ú©Ú†Ú¾ نہیں بگاڑ سکتا۔
(Û¶) وہ جسم جس Ú©Ùˆ ذرا سے مار Ú©ÛŒ تاب‘ گرد Ùˆ غبار Ú©ÛŒ سہار نہ تھی‘ اب اس Ú©ÛŒ چھاتی پرمنوں مٹی کا ڈھیر پڑا ہے۔
(Û·) وہ جسم جو پھول سے زیادہ نازک اور نسیم صبح Ú©Û’ جھونکوں سے میلا ہوجاتا تھا‘ جس Ú©Ùˆ پھولوں Ú©ÛŒ سیج پر Ú©Ù„ نہ پڑتی تھی‘ اب نہ اس Ú©Ùˆ تکیہ میسر ہے نہ بستر‘ فرش خاک ہے اور کنکر پتھر۔
(۸) وہ جسم جو قصر شاہانہ اورایوان زرنگار کو اپنے آرام کے لئے کافی نہ سمجھتا تھا اب اس کو خاک ہوکر دوسروں کا خشتِ(اینٹ) مزار بننا پڑا۔
(Û¹) وہ جسم جس Ú©Û’ ہوش Ùˆ حواس ایسے سانحہ سن کر بجا نہ رہتے تھے‘ اب اس پر یہ سب واقعات گزر رہے ہیں اور وہ دم نہیں مار سکتا‘ انجام کار اگر دفن کیا گیا تو سڑگل کر کیڑے Ù…Ú©ÙˆÚ‘ÙˆÚº Ú©ÛŒ غذا بنا‘ اگر جَلایا گیا تو خاک سیاہ ہوکر برباد ہوا۔اور جن Ú©Ùˆ ان دونوں صورتوں (دفن کرنا یا جلانا) میں سے کوئی نصیب نہ ہوئی تو مُردار خوار پرندوں اور جانوروں Ù†Û’ تکا بوٹی کرڈالی۔ ان ساری مصیبتوں Ú©Û’ علاوہ زندگی ابتداء سے انتہاء تک ہمیشہ ہی قید میں Ú©Ù¹ÛŒ اور کبھی آزادی نصیب نہ ہوئی۔
ولادت کا آغاز زندانِ رحم سے ہوا‘ وہاں سے چھوٹا تو آغوش مادر میں گرفتار ہوا‘ یہاں سے رہائی ملی تو استاد Ú©Û’ حوالات میں بند ہوا‘ یہاں سے جان بچی تو آداب Ùˆ مراسم میںکی قیس‘ قانون سلطنت Ú©ÛŒ قید‘ احکام مذہب Ú©ÛŒ قید‘ ان سب قیدوں میں ایسا پھنسا کہ مرتے دم تک چھٹکارا نصیب نہ ہوا۔ آخر کار قبر میں حبسِ دوام کیا گیا۔ جسم Ú©ÛŒ خود تو یہ درگت بنی اب اس Ú©ÛŒ صحبت کا اثر سنئے! لباس Ù†Û’ مصاحبت اختیار Ú©ÛŒ تو بدبو آنے Ù„Ú¯ÛŒ‘ میلا کچیلا ہوگیا‘ غذا Ù†Û’ رفاقت Ú©ÛŒ تو وہ پلید Ùˆ نجس ہوکر جدا ہوئی‘ ہوا پیٹ میں گئی تو خراب ہوکر باہر Ù†Ú©Ù„ÛŒ‘ پانی پیٹ میں گیا تو ناپاک پیشاب ہوکر واپس آیا۔ غرض جس کا حال وہ ہو اور صحبت کا اثر یہ ہو اس پر جان دینا اور اس Ú©Ùˆ اپنا ماننا: دیدہ Ùˆ دانستہ دوسرے Ú©ÛŒ بلا اپنے سر لینا اور مفت عذاب میں پھنسنا ہے۔
از:مواعظ حسنہ
حضرت ابوالحسنات محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ