Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Scholarly Articles

اِسلام اور مسلمان کی تعریف و تفاصیل


اسلام پہلے علم کا اور علم کے بعد عمل کا نام ہے۔ ایک شخص علم کے بغیر غیر مُسلم ہوسکتا ہے کیونکہ وہ غیر مسلم پیدا ہوا ہے۔ مگر کوئی شخص علم کے بغیر مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ انسان پیدائش ہی سے مسلمان نہیں ہوا کرتا بلکہ علم سے مسلمان ہوتا ہے۔ جب تک اس کو یہ علم نہ ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کیا ہیں اور وہ اُن پر ایمان لاکر عمل کیسے کرسکتا ہے!! پس معلوم ہوا کہ جہالت کے ساتھ مسلمان ہونا اور مسلمان رہنا غیر ممکن ہے۔
ہر شخص جو مسلمان Ú©Û’ یہاں پیدا ہوا‘ جس کا نام مسلمانوں کا ہو‘ جس کا لباس مسلمانوں کا سا ہو اور جو اپنے آپ Ú©Ùˆ مسلمان کہتا ہو‘ حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے۔ بلکہ مسلمان وہ شخص ہے جو اسلام Ú©Ùˆ جانتا بھی ہو اور پھر جان بوجھ کر اس Ú©Ùˆ مانتا ہو۔ مسلم اور غیر مسلم میں فرق صرف نام Ùˆ لباس کا نہیں ہے بلکہ ان دونوں Ú©Û’ درمیان اصلی فرق علم کا ہے۔ وہ غیر مسلم ہے جو نہیں جانتا کہ خداوند عالم کا اُس سے اور اُس کا خداوند عالم سے کیا تعلق ہے اور اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ مرضی Ú©Û’ موافق دنیا میں زندگی بسر کرنے کا سیدھا راستہ کیا ہے۔
جو شخص یہ جانتا ہی نہ ہو کہ اسلام اور کُفر میں کیا فرق ہے اور توحید Ùˆ شرک میں کیا امتیاز ہے‘ اس Ú©ÛŒ مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص اندھیرے میں ایک تنگ Ùˆ تاریک راستہ پر Ú†Ù„ رہا ہو‘ ہوسکتا ہے کہ سیدھی راہ پر چلتے چلتے خود بخود اس Ú©Û’ قدم دوسرے راستہ Ú©ÛŒ طرف مڑجائیں اور اس Ú©Ùˆ یہ خبر بھی نہ ہو کہ وہ سیدھی راہ سے ہٹ گیا ہے۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شیطان اس Ú©Ùˆ بھٹکاکر کہیں سے کہیں Ù„Û’ جائے۔ یہ خطرات اس شخص Ú©Ùˆ اسی لئے تو پیش آتے ہیں کہ اس Ú©Û’ پاس خود کوئی روشنی نہیں ہے اور خود اپنے راستہ Ú©Û’ نشان نہیں دیکھ سکتا۔ اگر اس Ú©Û’ پاس روشنی ہو تو وہ راستہ بھولے گا اور نہ اس Ú©Ùˆ کوئی بھٹکا سکے گا۔ اسی پر قیاس کرلیجئے کہ مسلمان Ú©Û’ لئے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ وہ خود اسلام Ú©ÛŒ تعلیمات سے ناواقف ہے خود یہ نہیں جانتا کہ قرآن شریف کیا سکھلاتا ہے اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہدایت دے گئے ہیں‘ اس جہالت Ú©ÛŒ وجہ سے وہ خود ہی بھٹک سکتا ہے اور شیطان بھی اس Ú©Ùˆ بھٹکا سکتا ہے۔ اگر اُس Ú©Û’ پاس علم Ú©ÛŒ روشنی ہو تو وہ زندگی Ú©Û’ ہر قدم پر اسلام Ú©Û’ سیدھے راستے Ú©Ùˆ دیکھ سکے گا۔ ہر قدم پر کفر Ùˆ شرک اورگمراہی اور فسق Ùˆ فجور جو ٹیڑھے راستے درمیان میں آئیں Ú¯Û’ اُن Ú©Ùˆ پہچان کر اُن سے بچ سکے گا اور جو کوئی راستہ میں اس Ú©Ùˆ بھٹکانے والا ملے گا اُس Ú©ÛŒ دو چار باتیں ہی سن کر وہ خود سمجھ جائے گا کہ یہ بھٹکانے والا آدمی ہے اُس Ú©ÛŒ پیروی نہیں کرنی چاہئیے۔
مُسلم Ú©Ùˆ غیر مُسلم سے جدا کرنے والے صرف دو امور ہیں: ایک علم دوسرا عمل۔ یعنی پہلے تو اُسے یہ جاننا چاہئیے کہ اس کا مالک کون ہے؟ اُن Ú©Û’ احکام کیا ہیں؟ ان Ú©ÛŒ مرضی پر چلنے کا طریقہ کیا ہے؟ Ú©Ù† کاموں سے وہ خوش ہوتے ہیں اور Ú©Ù† کاموں سے ناراض؟ پھر جب یہ باتیں معلوم ہوجائیں تو دوسری بات یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ Ú©Ùˆ مالک کا غلام بنادے‘ جو مالک Ú©ÛŒ مرضی ہو اُس پر Ú†Ù„Û’ اور جو اپنی مرضی ہو اُس Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دے۔
یہ علم Ùˆ عمل ہے جس Ú©ÛŒ وجہ سے مسلمان خدائے تعالیٰ کا پیارا بندہ ہوجاتا ہے او راُس پر خدائے تعالیٰ Ú©ÛŒ رحمت نازل ہوتی ہے اور خدائے تعالیٰ اُس Ú©Ùˆ عزت عطاء فرماتے ہیں۔ غیر مسلم یہ علم نہیں رکھتا اور علم نہ ہونے Ú©ÛŒ وجہ سے اُس کا عمل بھی نہیں ہوتا‘ اس لئے وہ خداوند تعالیٰ کا نافرمان بندہ ہوتا ہے اور خدائے تعالیٰ اُس Ú©Ùˆ اپنی رحمت سے محروم کردیتے ہیں۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کو زیادہ پہچانتا ہے اور اُن کی زیادہ فرمانبرداری کرتا ہے وہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ عزت والا ہے۔
حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ایک بت فروش مسمّی آزر Ú©Û’ گھر پیدا ہوئے‘ لیکن انہوں Ù†Û’ اللہ تعالیٰ Ú©Ùˆ پہچانا اور اُن Ú©ÛŒ فرمانبرداری Ú©ÛŒ‘ اس لئے اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اُن Ú©Ùˆ ایک اُولوالعزم پیغمبر بنادیا جن پر ان شاء اللہ تعالیٰ مسلمان تاقیامِ قیامت نمازوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ ساتھ تحفۂ درود Ùˆ سلام ارسال کرتے رہیں Ú¯Û’Û”
حضرت سیدنا نوح علیہ السلام Ú©Û’ فرزند ایک پیغمبر Ú©Û’ گھر پیدا ہوئے مگر انہوں Ù†Û’ نہ اللہ تعالیٰ Ú©Ùˆ پہچانا اور نہ ان Ú©ÛŒ فرمانبرداری Ú©ÛŒ‘ اس لئے اللہ تعالیٰ Ù†Û’ ان Ú©Û’ خاندان Ú©ÛŒ Ú©Ú†Ú¾ پرواہ نہ Ú©ÛŒ اور انہیں ایسا سخت عذاب دیا جس پر دنیا عبرت حاصل کرتی ہے۔
پس خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک انسانوں میں جو کچھ فرق ہے وہ علم و عمل کے لحاظ سے ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتیں صرف ان ہی کے لئے ہیں جو ان کو پہچانتے ہیں اور ان کے بتلائے ہو ئے سیدھے راستے کو جانتے ہیں اور ان کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ جن لوگوں میں یہ صفات نہیں ہیں ان کو اس رحمت میں کوئی حق نہیں پہونچتا۔
مکان Ú©Û’ دیکھنے سے آپ Ú©Ùˆ معلوم ہوگا کہ اس میں ستون ہوتے ہیں‘ چھت ہوتی ہے‘ دیواریں بھی ہوتی ہیں اور اس مجموعہ Ú©Ùˆ مکان کہتے ہیں۔ پھر اس مکان Ú©ÛŒ کوئی بنیاد بھی ہوتی ہے جس پر وہ مکان قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح اسلام بھی ایک مجموعہ کا نام ہے اس Ú©Û’ اجزاء بھی ہیں اور بنیاد بھی ہے یعنی ارکان خمسہ (پانچ ارکان) اسلام Ú©Û’ بنیادی اصول ہیں جن Ú©Û’ بغیر اسلام قائم نہیں رہ سکتا‘ اس Ú©Û’ ساتھ ہی تصدیق قلبی کا بھی ایک اہم ترین جُزو ہے جو مسلمان Ú©Û’ دل میں پوشیدہ رہتا ہے۔ حدیث شریف:Û” حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ: پانچ ارکان جن Ú©Ùˆ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اسلام میں فرض قرار دیا ہے:
(۱) توحید و اقرارِ رسالت (۲) نماز (۳) روزہ (۴) زکوٰۃ (۵) حج
Û± تا Û³ Ú©ÛŒ ادائی ہر مسلمان Ú©Û’ لئے فرض ہے‘ Û´ اور Ûµ مالدار مسلمانوں پر فرض ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو شخص صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود زکوٰۃ اداء نہ کرے اس کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔
اسلام Ú©ÛŒ خوبی یہ ہے کہ دُنیا Ú©Û’ سامنے عملاً اعلیٰ تہذیب کا نمونہ پیش کرے۔ اسلام جو اس کا مدّعی ہے وہ روزِ اول ہی سے اپنے حلقہ بگوشوں (مسلمانوں) سے یہ تقاضہ کرنے لگتا ہے کہ وہ اپنے عمل سے اس Ú©Û’ دعویٰ کا ثبوت پیش کریں‘ جو مسلمان اس Ú©Û’ تقاضہ Ú©Ùˆ پورا کرتے ہیں ان کا اسلام سچا اور کامل ہوتا ہے۔
اسلام خداوندِ تعالیٰ کی رضامندی کی ایک زبردست دستاویز ہے اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے لئے غیر فانی ناقابل ترمیم دستور العمل ہے۔
اسلام کی حقیقت بیان ہونے سے معلوم ہوگا کہ کامل مسلمان کون ہے۔ اسلام کے پانچ اجزاء ہیں ۔ جب مکان کے متعلق ستون چھت دیوار یہ سب کچھ جزو نہ ہوں تو مکان نہیں کہلاتا اور نہ اس سے کچھ فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ ایسے ہی اسلام کے پانچ اجزاء ہیں:
(Û±) پہلا جزء عقائد:Û” مسلمانوں Ú©Û’ عقائد پر غور فرمائیے کہ کس قدر مذہب اسلام سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اسلام میں تو اپنے جملہ کاروبار ہر دینی Ùˆ دنیوی Ú©Ùˆ اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے انجام دینا چاہئیے۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ملازمین سرکار اپنے عہدیداروں Ú©Û’ عمل پر اور تجارت پیشہ اپنے غیر مسلم پڑوسیوں Ú©Û’ طرز عمل پر اور زراعت پیشہ اپنے پڑوسی غیر مسلم کاشتکاروں Ú©Û’ طریقہ پر غیر اسلامی اصول پر کاربند ہیں۔ مثلاً ملازمین سرکار غیر مسلم عہدہ داروں Ú©Ùˆ خوش کرنے Ú©Û’ لئے ان Ú©Û’ منشاء Ú©Û’ موافق اور تجارت پیشہ غیر مسلم تاجروں Ú©ÛŒ طرح دیوالی وغیرہ میں پوجا پاٹ بھی کرتے ہیں‘ زراعت پیشہ بھی غیر اسلامی عیدوں اور اماوس پولا کارونی اُگادی وغیرہ Ú©ÛŒ تہوار مناتے ہیں! غرض سینکڑوں ایسی حرکات کئیے جاتے ہیں جن سے عقائد پر ضرب پڑتی ہے۔
(۲) دوسرا جزء دینیات:۔ نماز کتنے مسلمان پڑھتے ہیں؟ جماعت میں کون شریک رہتے ہیں؟ زکوٰۃ کون کون اداء کرتے ہیں؟ حج کو کتنے لوگ جاتے ہیں۔
(Û³) تیسرا جزء معاملات:Û” اس Ú©Ùˆ تو مسلمانوں Ù†Û’ شریعت سے بالکل ہی خارج کر رکھا ہے۔ سارا خیال یہ ہے کہ جس طرح بھی ہوسکے دولت سمیٹی جائے۔ کھانے میں بھی اچھی اچھی چیزیں ملیں‘ پھر کسی Ú©ÛŒ زمین داب Ù„ÛŒ تو Ú©Ú†Ú¾ پرواہ نہیں‘ دیے ہوئے قرض Ú©ÛŒ مع سود ڈگریاں کرالی جاتی ہیں تو Ú©Ú†Ú¾ غم نہیں۔ رہن Ú©ÛŒ آمدنی پر نازاں ہیں کوئی فکر نہیں۔
(Û´) چوتھا جزء معاشرت یا طرز زندگی:Û” اس Ú©ÛŒ جو درگت ہوتی ہے اس سے بھی سب واقف ہیں‘ شادی Ùˆ غمی میں جو جی چاہا کیا جاتا ہے‘ کسی عالم سے پوچھنے Ú©ÛŒ ضرورت نہ علمائے دین سے فتویٰ لینے Ú©ÛŒ حاجت۔ عورتوں Ù†Û’ جو Ú©Ú†Ú¾ کہہ دیا وہ کرلیا‘ گویا عورتیں ہی شریعت Ú©ÛŒ مفتی ہیں۔ عورتوں کا فتویٰ ہوگیا تو کافی ہے۔ یاد رکھو! حدیث شریف میں آیا ہے:
’’وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پائے Ú¯ÛŒ جن Ú©ÛŒ سردار عورت ہو ‘‘
السلام علیکم کہنا شعائر اسلام سے ہے۔ اس سے بیزارگی اور ’’آداب عرض‘‘ وغیرہ سے خوش!!
پانچواں جزء اخلاق:Û” عوام تو عوام ان کا ذکر ہی کیا ہے‘ Ù¾Ú‘Ú¾Û’ Ù„Ú©Ú¾ÙˆÚº Ú©Û’ اخلاق خراب سے بھی خراب ہیں۔
غرض عقائد ایسے‘ اعمال Ú©ÛŒ یہ حالت‘ معاملات خراب‘ اخلاق بگڑے ہوئے‘ معاشرت (طرز زندگی) خلاف شریعت‘ خدائے تعالیٰ سے محبت نہ ان کا خوف Ùˆ ڈر۔ ان حقائق پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ کامل مسلمان کتنے ہیں اور برائے نام مسلمان کتنے۔
مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس یہ قاعدہ ہے کہ جب یہ دین چھوڑتے ہیں تو دنیا بھی ان سے رخص&am