Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Scholarly Articles

شیخ الاسلام ایک جامع کمالات داعئی حق


حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ امام ابوالبرکات حافظ محمد انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمۃ والرضوان کو اللہ سبحانہ وتعالی نے دینی ودنیوی فوقیت اور علمی سیادت وقیادت سے بہرہ ور فرمایا ، آپ اپنے وقت کے علماء ربانےین کے امام ومقتدیٰ تھے ،آپ کو تمام علوم دینیہ شرعیہ، تفسیر ، حدیث ،فقہ، تاریخ وسیرت ، منطق ، وفلسفہ کلام وعقائد میں کمال براعت اور مہارت تامہ ویدطولیٰ حاصل تھا ۔
آپ کا خاندان فاروقی ہے، چنانچہ سیدنا عمر بن خطاب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے فیضان علمی سے آپ کو حظ وافرسرفراز ہوا، آپ کے خاندان میں اولیاء کرام اور مجددین عصرگزرے ہیں اور ایسی عظمت وجلالت کے مالک کہ جن کے دور میں ان کے علمی پایہ اورمرتبہ کی کوئی اور شخصیت نہیں تھی۔ حضرت خواجہ بابافریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ جیسے مجددین آپ کے اجداد میں ہیں۔
آپ کے خاندان کے کتنے ایک بزرگ ، قضاۃ اور قاضی القضاۃ کے عہدئہ جلیلہ پر متمکن رہے ہیں، اسی کی برکت تھی کہ اللہ جل وعلانے حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کو تمام علوم دینیہ میں تبحراورعلمی گہرائی وگیرائی سے سرفراز فرمایا اورفقہی بصیرت میں ایسا ملکہ عطافرمایا کہ آپ اپنے تمام معاصرین واقران پرفائق وممتاز تھے اورہرکوئی آپ کے علم وفضل ، رفعت وجلالت کی مدح وثناء میں رطب اللسان ہے۔
علم فقہ انسان کی زندگی کا لائحہ عمل ہے ۔اسی سے دین ودنیا کی صلاح وفلاح قائم ہے ، علم فقہ ، خالق ومخلوق کے درمیان رابطہ کو مضبوط ومستحکم کرتا ہے اور حقوق وفرائض بھی اسی سے معلوم ہوتے ہیں، اگر فقہ نہ ہوتو حیوانیت کے سوا کچھ نہیں، علم فقہ دراصل قرآن کریم اور حدیث شریف کا نچوڑ اورمہکتاہوا عطر ہے کہ عالم کی باغ وبہار اور بادنسیم کی بھینی مہکتی ہوئی خوشبو اوردنیا میں امن وسلامتی کا نظام وقیام سب اسی سے ہے ۔علم فقہ کو مضبوط تھا منادر اصل قرآن وحدیث کو مضبوطی سے تھامنا ہے ، اور یہ بات قطعی ہے کہ قرآن وحدیث کو تھامنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا ۔
حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان نے اپنی گراں قدر تصانیف بالخصوص حقیقۃ الفقہ ، حصہ اول ودوم میں اسی سے بحث فرمائی ہے ۔ اورہر مسئلہ دلائل قرآن ، وبراہین حدیث سے مدلل ومبرہن فرمایا ہے آپ کا اسلوب مخاطب کو مطمئن کردیتا ہے ۔اورہر مخاطب اگرچہ مخالف ہوا سکو پوری رغبت کے ساتھ قبول کرلیتا ہے ۔اور اس میں حلاوت ولذت محسوس کرتا ہے ،ایک فقیہ کے لئے جتنے علوم میں مہارت اوردسترس کی ضرورت ہے ۔حضرت علیہ الرحمہ کو ان سب پر کامل عبور تھا۔حضرت نے اپنی تالیفات کے ذریعے قوم کی خیرخواہی فرمائی ہے۔آپ کا انداز ہر کسی کے ساتھ ناصحانہ ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے ہر انسان کے دل میں حضرت کی محبت ڈالدی ہے، دنیائے علم وفن میں آپ کا شہرہ ہے۔
حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ Ù†Û’ اپنی شاہکار تصنیف ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ Ú©Û’ ذریعے علم فقہ Ú©ÛŒ حقیقت تقلید Ú©ÛŒ ضرورت ØŒ اور عدم تقلید سے ہونے والے فساد پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے اورغیر مقلدین Ú©Û’ لئے ترک تعصب Ú©Û’ سلسلہ میں خیرخواہی اورنصیحت فرمائی ہے ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ حصہ اول میں آپ Ù†Û’ فقہ Ú©ÛŒ ضرورت فقیہ Ú©Û’ فرائض ،فقیہ اور مجتھد Ú©Û’ مابین فرق ،ضرورت اجتہاد ØŒ قیاس جائزوناجائز ØŒ احکام کا معلول بعلت ہونا ØŒ امام صاحب کا امام اعظم ہونا ØŒ اورسب میں افقہ ہونا ØŒ Ú©Ù„ احادیث کا امام صاحب Ú©Û’ پیش نظر ہونا اور محدثین امام صاحب Ú©Û’ دعاگو ہیں ØŒ اس جیسے اہم مضامین Ú©Ùˆ آپ Ù†Û’ بڑی جامعیت Ú©Û’ ساتھ بیان فرمایا ہے ØŒ اسی طرح حصہ دوم میں تدوین فقہ اور تقلید Ú©ÛŒ ضرورت اورتقلید انسان Ú©ÛŒ فطرت میں داخل ہے ،محدثین امام صاحب Ú©ÛŒ تقلید کیا کرتے تھے اورتقلید Ú©Ùˆ باعث نجات سمجھتے تھے ۔تمام مقلدین عامل بالحدیث ہیں ،مذاہب اربعہ Ú©ÛŒ حقانیت ØŒ اس طرح Ú©Û’ اہم ترمضامین پر قرآن وحدیث سے مدلل بحث فرمائی اور ان Ú©Ùˆ ثابت کیا ہے، علم فقہ میں آپ کا مرتبہ آپ Ú©Û’ علمی گہرائی وگیرائی ،معانی ومطالب Ú©ÛŒ بلندی ØŒ آپ Ú©Û’ اسلوب استدلال اورطریقہ استخراج سے معلوم ہوتی ہے ØŒ مختصرعبارت میں طویل مضامین Ú©Ùˆ بیان کرنا آپ کا طرئہ امتیاز ہے۔
ایک فقیہ کے لئے اتبدائی جن امور کی ضرورت ہے ان میں سب سے پہلے عربی زبان اوراس کے علوم بلاغت سے کامل معرفت ضروری ہے اوردوسری بات قرآن وحدیث سے متعلق تمام علوم پربصیر ت کا ہونا اور روایت ودرایت سے متعلق تمام مباحث کا احاطہ کرنا اور مراتب حدیث ومراتب اصحاب حدیث اورطبقات فقہاء وطبقات کتب فقہ سے کلی واقفیت لازمی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ ان تمام علوم ومعارف میں یکتائے روزگار تھے ۔ زبان عربی اوراس کے آداب میں جو آپ کو قدرت کاملہ حاصل تھی اس کا اندازہ آپ کی متعدد کتابوں میں جگہ جگہ علمی مباحث سے بخوبی کیا جاسکتا ہے مثلاً آیت توقیر سے متعلق آپ نے جو علمی بحث فرمائی ہے وہ نہایت ہی اہم اورآپ کی خدا داد قابلیت کا نتیجہ ہے ۔
اس آیت Ú©ÛŒ تفسیر میں مفسرین کرام Ù†Û’ یہ وضاحت فرمائی کہ تعظیم وتوقیر تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ مراد ہے لیکن تسبیح اللہ تعالی Ú©ÛŒ مراد ہے ’’ وتسبحوہ‘‘ میں ’’ہ‘‘ جو ضمیر منصوب ہے اس کا مرجع اللہ تعالی ہے کیونکہ تسبیح کلمہ تنزیہ ہے اوروہ اللہ تعالی Ú©Û’ لئے ہی مختص ہے ۔لیکن اس تفسیر پر ایک زبردست اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ ’’وتعزروہ وتوقروہ‘‘ Ú©ÛŒ ضمیر کا مرجع اللہ تعالی ہوتو یہ انتشار مرجع قرار پائے گا ØŒ جو بغیر کسی قرنیہ Ú©Û’ پسند نہیں ØŒ اور کلام بلیغ Ú©Û’ شایان نہیں لیکن حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان Ù†Û’ اس اعتراض Ú©Ùˆ دفع کرتے ہوئے بڑی مبسوط علمی بحث فرمائی ہے اورارشاد فرمایا کہ ’’یہ سب تکلف اس وجہ سے کرنے Ú©ÛŒ ضرورت ہوتی ہے کہ تسبیح Ú©Û’ معنی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ نسبت صادق نہیں آتے اوراگر تسبیح Ú©Û’ معنی بحسب مناسبت مقام لئے جائیں تو پھر کسی قسم کا اشکال باقی نہیں رہتا کیونکہ حق تعالی Ú©ÛŒ تنزیہ الوہیت سے متعلق ہے یعنی اس میں کوئی ایسا امر نہیں جو شان الوہیت Ú©Û’ منافی ہواوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ تنزیہ‘ رسالت سے متعلق ہوگی یعنی حضرت میں کوئی بات ایسی نہیں جوشان رسالت Ú©Û’ منافی ہوچنانچہ اس قسم Ú©ÛŒ تنزیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ خود حق تعالی Ù†Û’ فرمائی: وماہو علی الغیب بضنین ØŒ ولوکنت فظا غلیظا القلب لا انفضوا من حولک ØŒ عزیز علیہ ماعنتم ØŒ ماکان محمد ابااحد من رجالکم Û”
پھر جس لحاظ سے کہ حضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ سلم Ú©Û’ ہاتھ Ú©Ùˆ اپنا ہاتھ فرمایا تو اسی لحاظ سے حضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ سلم Ú©ÛŒ تسبیح حق تعالی Ú©ÛŒ تسبیح ہوجائے تو کیا تعجب ہے بہر حال ’’ تسبحوہ ‘‘ Ú©ÛŒ ضمیر بھی رسولہ Ú©ÛŒ طرف پھر سکتی ہے‘‘ Û”( مقاصد الاسلام حصہ یازدہم ص 14ØŒ مجلس اشاعۃ العلوم ØŒ حیدرآباد1339Ú¾(
قارئین کرام !اس علمی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت کو علوم عربیہ وبلاغت پر ہی دسترس حاصل نہیں بلکہ آپ علوم تفسیر میں بھی بڑی دقیق نظررکھتے تھے اور آپ فنافی الرسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وصحبہ وسلم کے درجہ پر فائز نظرآتے ہیں۔ چونکہ فقیہ کے لئے جن علوم میں مہارت ضروری ہے منجملہ ان کے تفسیر بھی ہے ، اورحضرت شیخ الاسلام کو علوم قرآن میں کامل عبور ودستگاہ تام حاصل تھی ۔ آپ کی تصانیف میں جگہ جگہ اس کی روشن دلیلیں موجود ہیں ،علم فقہ میں آپ کا تفوق آپ کی گراں بہا کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے تمام علوم حدیث ، روایت ودرایت ، سند ومتن ،علل حدیث ، علم رجال اور اس کے متعلقات پر بھی آپ کو کمال بصیرت حاصل تھی۔
’’الکلام المرفوع فیما یتعلق بالحدیث الموضوع‘‘ اور حدیث شریف میں آپ کا قلمی مخطوطہ بنام ’’ انتخاب الصحاح ‘’ جو عربی زبان میں ہے آپ Ú©Û’ علم حدیث میں کمال تبحر پر شاہد عدل ہے ،آپ Ú©ÛŒ علم وفضل میں بلند ÛŒ کا ہم کیا اندازہ کرسکتے ہیں۔آپ Ú©Û’ اساتذہ اجلہ اورآپ Ú©Û’ پیرومرشد بھی آپ Ú©Û’ علم فقہ ہی میں نہیں بلکہ تمام علوم ظاہر وباطن Ú©Û’ جامع ہونے Ú©ÛŒ تعریف وتوصیف فرمائے ہیں، جو ایک سند Ú©ÛŒ حیثیت رکھتے ہیں چنانچہ آپ Ú©Û’ جلیل القدر استاذ حضرت علامہ عبدالحی فرنگی محلی علیہ الرحمہ جو امام فقہ مانے جاتے ہیں اور شرح وقایہ وہدایہ پر حواشی جو آپ Ú©ÛŒ فقاہت Ú©ÛŒ روشن دلیل ہیں پھر حدیث شریف میں وہ مقام بلند کہ موطاامام مالک پر آپ کا حاشیہ اس Ú©ÛŒ گواہی دیتا ہے نیز منطق وفلسفہ میں بھی آپ ماہر اورصاحب تصانیف کثیرہ ہیں،’’حل المغلق فی بحث المجہول المطلق ‘‘ جیسی تصنیف لطیف میں بایں الفاظ آپ کا ذکر فرمایا ہے Û”
’’ الفتھا حین قراء Ûƒ الذکی المتوقد المولوی الحافظ انورااللہ بن المولوی محمد شجاع الدین الحیدرآبادی ‘‘ میںنے یہ رسالہ اس وقت تالیف کیا جبکہ زیرک وفہیم طالب علم مولوی حافظ محمد انوار اللہ بن مولوی محمد شجاع الدین حیدرآبادی میرے پاس تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔
اور آپ کے پیرومرشد شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ جو اہل اللہ اور خاصان خدا سے ہیں ،عاشق رسول اور مقام فنائیت پر فائز تھے جن کی تمام دنیا میں شہر ت ہے ، آپ نے انوار احمدی کی تقریظ میں حضرت شیخ الاسلام کو ان &