Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

حضرت خواجہ بندہ نوازرحمۃ اللہ علیہ، شخصیت وتعلیمات


حضرت خواجہ بندہ نوازرحمۃ اللہ علیہ، شخصیت وتعلیمات اللہ تعالی ہرزمانہ میں اپنے محبوب و مقرب بندگان خاص ‘اولیاء کرام وبزرگان دین کو پیدا فرماتا ہے ،انہیں اپنے قرب کی راہوں سے آشناکرتاہے ، جس کے سبب وہ مردانِ باخدا ہمیشہ راہِ حق پر گامزن رہتے ہیں ، قرب مولی اور وصالِ حق کی لذتوں سے سرشار ہوتے ہیں اور اللہ رب العزت کے انعامات سے مالا مال ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اتباع صالحین ‘ حکم خداوندی رب العالمین نے اپنے کلام مجید میں ان مقدس ہستیوں کی پیروی کا حکم فرمایا: وَاتَّبِعْ سَبِیلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ - جوشخص میری طرف رجوع ہوااس کے راستہ کی پیروی کرو‘پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹناہے ، پھر میں تمہیں بتاؤںگا جوتم کرتے تھے۔(سورۃ لقمن ۔ 15) اتباع صالحین کی برکت جو بندگانِخدا صراط مستقیم کو اپناناچاہتے ہیں ‘ اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ورضا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خوشنودی کے لئے اپنا ہرقدم راہِ حق کی طرف بڑھاناچاہتے ہیں ؛سورۂ لقمٰن میں وارد حق تعالی کا یہ ارشاد ان کی رہنمائی کررہاہے۔ اتباع صالحین کی برکت اور ان کی پیروی کی اہمیت کو بتاتے ہوئے حضرت ابو محمد سہل بن عبد اللہ تستری نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے: قولہ:(وَاتَّبِعْ سَبِیلَ مَنْ أَنَابَ) یعنی من لم یہتد الطریق إلی الحق عزَّ وجلَّ فلیتبع آثار الصالحین لتوصلہ برکۃ متابعتہم إلی طریق الحق ، ألا تری کیف نفع اتباع الصالحین کلب أصحاب الکہف، حتی ذکرہ اللہ تعالی بالخیر مراراً ۔ (جو میری طرف رجوع ہوا ؛ اس کے راستہ کی پیروی کرو)یعنی جو راہِ حق کی ہدایت نہ پائے تو اسے چاہئے کہ وہ صالحین کرام کے نقش قدم پرچلے !تاکہ ان کی پیروی کی برکت اُسے راہِ حق تک پہنچادے ،کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ صالحین کرام کی پیروی نے اصحابِ کہف کے کتے کو کس قدر نفع پہنچایا!یہاں تک کہ اللہ تعالی نے متعدد مرتبہ اس (کتے کا اپنے کلام میں) بھلائی کے ساتھ ذکر فرمایا۔(تفسیرالتستری ۔ سورۃ لقمٰن ۔15) ذکرالہی میں مصروف‘عبادت وبندگی میں مشغول ایسے ہی بندوں کے بارے میں ارشاد نبوی ہے : ہم الجلساء لایشقی بھم جلیسہم۔ یہ وہ ہمنشین ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بدنصیب نہیں ہوتا۔ (صحیح البخاری،کتاب الدعوات ، باب فضل ذکراللہ عزوجل ، حدیث نمبر:6408۔ صحیح مسلم ، کتاب الذکروالدعاء والتوبۃ،باب فضل مجالس الذکر،حدیث نمبر:7015۔مسند احمد،مسندابی ھریرۃ،حدیث نمبر: 7629) یہ وہ مردانِ باخدا ہیں جو اپنے اخلاق وکردار‘عادات واطوار کے ذریعہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہِ نجات دکھاتے ہیں ،ضلالت وگمراہی اورظلم وبربریت کی گھٹاٹوپ تاریکیوں سے ہدایت واعتدال‘احسان وعدل کی راہ پر گامزن کرتے ہیں اوران کے نفوس کا تزکیہ اور قلوب کا تصفیہ کرتے ہیں ، باطن کی صفائی کے لئے اورادواذکار کی تلقین کرتے ہیں ، عقائد حقہ کی تعلیم دیتے ہیں اوراعمال صالحہ و اخلاق حسنہ کی تربیت کرتے ہیں۔ قطب الاقطاب ، فردالافرادحضرت بندگیٔ مخدوم سید محمد حسینی خواجہ بندہ نواز گیسودراز رحمۃاللہ علیہ سرزمین دکن میں انہی مقربان بارگاہ کے سردار اورصالحین امت کے سرخیل کہلاتے ہیں۔ نام مبارک اور القابِ مبارکہ حضرت بندہ نواز علیہ الرحمۃ کا اسم گرامی ’’سید محمد‘‘اور کنیت شریف ’’ابو الفتح‘‘ ہے ،القاب مبارکہ میں ’’صدرالدین،الولی الاکبر الصادق،بندہ نواز،گیسو دراز،بلند پرواز اور شہباز ‘‘سرفہرست ہیں۔ آپ کی ولادت باسعادت چار (4)رجب المرجب721 ؁ھ سرزمین دہلی میں ہوئی، آپ امام عالی مقام سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد امجاد سے ہیں،آپ کانسب مبارک بائیسویں پشت میں امام الانبیاء سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے ،جب آپ کی عمر شریف چار (4)برس ہوئی تو اپنے بزرگ والدین کے ساتھ دہلی سے دولت آباد (اورنگ آباد‘مہاراشٹرا)منتقل ہوئے۔ تعلیم اوربیعت آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے بزرگ والد ین او رنانا جان سے حاصل کی اور حفظ قرآن کریم تکمیل کیا،بعدازاں اکابر امت واساطین علم ومعرفت سے علوم و معارف کے قیمتی جواہرحاصل کئے ۔ حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ والدہ ماجدہ اوربھائی کے ہمراہ دہلی تشریف لائے ،اس وقت آپ کی عمر مبارک پندرہ (15)سال تھی،جبکہ والد بزرگوار وصال فرماکر چار (4)سال ہوچکے تھے،16رجب736؁ھ میںپیرطریقت شیخ الاسلام حضرت خواجہ نصیرالدین محمودچراغ دہلوی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت کی سعادت حاصل کی،اکتساب علوم شریعت ، اسرار طریقت میں شب وروزہمہ تن مصروف ہوگئے ۔ ضروری حد تک علم ظاہر حاصل کرلینے کے بعد آپ نے مرشد گرامی سے عرض کیا کہ اگر حضرت اجازت مرحمت فرمائیں تواسی حد تک علم ظاہر کی تعلیم پر اکتفاء کرلوں اور علم باطن کی تعلیم میں ہمہ تن مشغول ہوجاؤں،پیر ومرشد نے ارشاد فرمایا’’خَیر ہِدایہ وبَزدَوِی ورِسالہ شَمسیہ وکَشَّاف ومفتاح صحائف اِیں ہَمَہ رَا مرتب کن! مرا بتو کاریست ‘‘ہدایہ ،اصولِ بزدوی ،رسالہ شمسیہ ،تفسیرِکشاف ،مفتاح العلوم،ان سب کتابوں کو توجہ سے پڑھئے! کیونکہ ہمیں آپ سے ایک عظیم کام لینا ہے ۔ چنانچہ مرشد گرامی کے حکم کی تعمیل میں آپ نے بڑی عرق ریزی وجانفشانی سے ان تمام کتابوں کو مکمل کیا ،بعد ازاں پوری یکسوئی کے ساتھ علوم باطن کی تحصیل میںمنہمک اور سلوک وریاضت میں مستغرق ہوگئے۔(سیر محمدی فارسی، ص16,17) نعمت خلافت سے سرفرازی حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ ریاضت ومجاہدہ میں مصروف رہے اور آپ پر پیرومرشد کی خصوصی عنایت وتوجہ تھی‘جس کی وجہ آپ روحانی مدارج طے کرنے لگے اور عرفانی مقامات پرفائز ہونے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے حضرت بندہ نواز رحمۃاللہ علیہ قرب الہی کے اعلی ترین مقام پرمتمکن ہوئے، شیخ گرامی حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بلاطلب ،نعمت خلافت سے سرفراز فرمایا اور قبل وصال اپنا جانشین مقرر فرمایا،شب جمعہ اٹھارہ(18)رمضان757؁ھ میں شیخ گرامی نے بعمر بیاسی (82)سال وصال فرمایا ، جبکہ بندہ نواز کی عمرشریف چھتیس (36)برس تھی۔ حضرت بندہ نواز رحمۃاللہ علیہ سجادۂ ٔولایت پرمسند نشین ہوکر مرشد گرامی شیخ الاسلام حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین کی حیثیت سے بندگانِ خدا کو سلسلہ چشتیہ بہشتیہ میں داخل فرمانے لگے اور مریدین ومتوسلین آپ کی ذات قدسی صفات کے ذریعہ عوارف ومعارف ،حقائق ودقائق کے فیضان سے بہرہ مند ہونے لگے۔ خانوادۂ عالیہ چالیس سال کی عمر شریف میں حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولاناسید احمد بن مولانا سید جمال الدین مغربی رحمۃاللہ علیہ کی صاحبزادی حضرت سیدہ بی بی رضا خاتون رحمۃ اللہ علیہاسے عقد نکاح فرمایا ، ان کے بطن مبارک سے دو(2)صاحبزادے اورتین (3)صاحبزادیاں تولدہوئیں،حضرت مولاناسید حسین المعروف سید محمد اکبرحسینی رحمۃاللہ علیہ اور حضرت مولاناسید یوسف المعروف سید محمداصغر حسینی رحمۃاللہ علیہ ، دونوں صاحبزادے عالم ربانی وعارف باللہ ہوئے ۔ حضرت مولاناقاضی عبدالمقتدر ، حضرت مولانا خواجگی نحوی اورحضرت مولانا نصیرالدین قاسم رحمۃاللہ علیہم جیسے باکمال اساتذہ کرام سے علوم شریعت ، معقولات ومنقولات کی تعلیم حاصل کی، آپ اپنے بڑے صاحبزادہ حضرت مولاناسید محمد اکبر حسینی رحمۃاللہ علیہ کے علم وفضل او رریاضت ومجاہدہ سے بے پناہ خوش ہوتے تھے ،آپ کے خانوادۂ عالیہ کے جملہ نفوس قدسیہ علم شریعت ومعرفت کے آفتاب وماہتاب ہوئے ہیں۔ حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ گرامی کے وصال مبارک کے بعد چوالیس(44) سال دہلی ہی میں تعلیم وتربیت ‘رشدوہدایت کا فریضہ انجام دیا،بعد ازاں اسّی(80)سال کی عمر شریف میں دہلی سے رَختِ سفر باندھا،دوران سفر گوالیار، رادھیر ودیگر مقامات میں سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ کے فیوض وبرکات پھیلاتے ہوئے دولت آباد شریف تشریف لائے ،والد بزگوار کی مزار مبارک کی زیارت فرمائی،بیاسی (82)برس کی عمرشریف میںسرزمین گلبرگہ شریف رونق افروز ہوئے اور اسی مقام کوہمیشہ کے لئے مرکزفیض بنایا۔ حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ‘مسلکِ اہل سنت وجماعت اہل حق نے ہر دور میں بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک ومشرب سے متعلق حقائق کوواشگاف کیااور روز روشن کی طرح اس بات کو واضح کردیا کہ حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی مسلک اہل سنت وجماعت کے مطابق گزاری اور اسی کی نشرواشاعت فرمائی،مذہب حنفی کی تشریح وتوضیح فرمائی ،طریقہ صوفیہ کی ترویج و تبلیغ فرمائی اور سالکین کے تزکیہ وتصفیہ میںاپنے انفاس قدسیہ سے ہر ہرنَفَس کو وقف فرمادیا اوربندگانِ خدا کی تعلیم وتربیت میں اپنی حیات مقدسہ کے ایک ایک لمحہ کو صرف فرمادیا تھا، آپ کی گراںقدر تصنیفات و تالیفات، تحقیقات وتعلیقات اورآپ کے مواعظ وارشادات ، مکتوبات وملفوظات عقائد مسلک حق کی عکاسی کرتے ہیں،چنانچہ آپ کے شہزادئہ اکبر جوامع الکلم میں صفحہ 68،67پر حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے رقمطرازہیں: ’’ بہت سے لوگ حضرت امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت کے بارے میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں،کوئی انہیں نبی اور خدا تک کہہ دیتا ہے او ر اس طرح غلاتیہ، بیانیہ ، نُصیریہ ،صالحیہ(الملل والنحل للشھرستانی) بہت سے گروہ پیدا ہوگئے ہیں۔ ہر ایک کے بارے میں تفصیل بیان کرنا تو بہت طویل بات ہے ،لیکن حق مذہب یہ ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ صحابۂ کرام میں افضل ہیں ،ان کے بعد عمررضی اللہ عنہ، ان کے بعد عثما ن رضی اللہ عنہ، ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کے بعد تمام صحابہ اور اولیا ء کرام ۔اور اس کے علاوہ جو کچھ توہمات اور پراگندہ خیالی ہے وہ گمراہی ہے ‘‘۔(جوامع الکلم ،ص68،67) خوف الہی ،عبادت وطاعت ‘امتیاز اہل بیت امام الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا حق تعالیٰ سے خوف وخشیت رکھنا، بارگاہ الہی سے تعلق اور بندگی کا اظہار کرنا ان کی امتیازی شان کو آشکار کرتا ہے ، ، بارگاہ رسالت سے رشتہ اور نسبت کے باوجود خوف خدا اور طاعت الہی ہمیشہ ان کا وصف خاص رہا، ان کی اس فضیلت کو بیان کرتے ہوئے حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: اہل بیت میں دو چیز یں عام طور پر پائی جاتی ہیں او ران سے کسی کو بھی خالی نہ دیکھو گے؛ ایک تو خوف خدا ‘دوسرے عبادت وطاعت الہی ، اس میں کوتاہی ان میں سے کسی میں نہیں دیکھی جاتی ۔(جوامع الکلم،ص89) اتباع سنت‘ راہ سلوک کی شرط اولین معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ پر گامزن رہنا ، آپ کی دلنواز اداؤں کو اپنا نا ، پاکیزہ سنتوں پر عمل کرناہی دارین میں سعادت اور کا میابی کی بنیاد ہے ، اتباع سنت سے انحراف اوراسوئہ حسنہ کی خلاف ورزی اہل اللہ اور بندۂ مومن کا شیوہ نہیں، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی حق وصداقت کا معیار، اللہ تعالیٰ سے محبت کاتقاضا اور اس کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے حسنِ عقیدت کا اظہار ہے ،اس روشن حقیقت کوبیان کرتے ہوئے حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اگرکوئی نااہل اس راہ سلوک میں قدم رکھ دیتا ہے تو اسے بڑی فضیحت (رسوائی)ہوتی ہے اور وہ اس میں کامیاب نہیںہوتا، کیونکہ اس راہ میں صادق(راست باز) ہی کامیاب ہوسکتا ہے ، صوفیہ کے یہاں کچھ علامتیں مقرر ہیں جن سے وہ اہل اور نااہل کی تمیزکرلیتے ہیں ،ابویزید رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں ایک آدمی کو زہدوتقوی اور باطنی صفائی میں بہت شہر ت حاصل تھی ،ابویزیدرحمۃ اللہ علیہ اس کو دیکھنے کے لئے گئے ،اتفاق سے وہ آدمی اپنے گھر سے مسجد جارہا تھا ،چلتے چلتے قبلہ کی طرف منہ کرکے اس نے تھوک دیا ، ابویزیدرحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :جس کے اعضاء و جوارح حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں اور آداب کے خوگر وعادی نہیں ہوئے ہیں؛وہ اپنے دعویٔ بزرگی میں کیسے صادق ہوسکتا ہے ؟اور وہ اسی جگہ سے بغیرملاقات کئے واپس چلے گئے۔(جوامع الکلم89,90) نور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ نورانیت سمجھاتے ہوئے اور عقائد حقہ کی حامل جماعت کو ثبات واستقامت کی تعلیم دیتے ہوئے اپنی کتاب جواہر العشاق میں بیان فرمایا(جسے آپ نے حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے مکشوفات والہامات پر مبنی رسالہ کی شرح کرتے ہوئے تصنیف فرمایا)چنانچہ غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے ایک الہام کی شرح فرماتے ہوئے حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں : اللہ تعالی نے فرشتوں کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے پیدا کیا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نور سے ، اللہ تعالی فرماتا ہے ۔۔۔۔ بموجب حدیث قدسی: کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِےًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ ’’میں پوشیدہ خزانہ تھا ‘پس چاہا کہ پہچانا جاؤں‘‘ میں نے چاہا کہ جومیری شان ہے اور جو کچھ میرے جمال وکمال اور قدرت میں ہے اس کو ظاہر کروں ۔ (تو میں نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا )مزید آگے تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کافروں نے یہ بات نادانی سے کہی کہ’’ اَبَشَرٌ ےَّہْدُوْنَنَا‘‘ کیا بشر ہم کو راستہ بتاتے ہیں، پس حکم ہوا کہ کَفَرُوا‘‘ وہ لوگ کافر ہوگئے ،اتنا نہ سمجھ سکے کہ کَانَ ےَمْشِیْ وَلَاظِلَّ لَہٗ (آپ چلتے تھے او رآپ کا سایہ نہ تھا)حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے نور سے ہیں نورِ خدا کا سایہ کیسے ہوسکتا ہے؟انتہی ملخصاً(جواہر العشاق ،ص59) باطنی پاکیزگی کامفہوم قلب کی پاکیزگی اور باطن کا تزکیہ ہی دارین کی صلاح وفلاح اورکامیابی وکامرانی ہے اور سلوک کی بنیاد تخلیہ وتجلیہ پرہے ،اس کی توضیح کرتے ہوئے حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوبات میں تحریرفرمایا: تخلیہ سے مراد ہے ، اللہ جل شانہ کے سوااور سب طرف سے دل کو ہٹالینا ‘او رتجلیہ سے مراد ہے ،نفس کا تزکیہ اور جِلا،توجہِ تام کے ساتھ اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہونے اورنفس کو طرح طرح کی عبادتوں میں مشغول رکھنے سے جِلائِ باطن حاصل ہوتی ہے ،جس نے یہ دونعمتیں پالیں اسے دونوںجہاں کی نعمتیں مل گئیں ۔ خدائے عزوجل تک جو لوگ پہنچے ہیں ،وہ نفسانی خواہشات کے خلاف عمل کرنے ،اللہ کی یاد میں راتوں کو جاگنے ، دن میں روزے رکھنے اور کھانے پینے میں کمی کرنے اور دائمی طور پر متوجہ رہنے سے اس مرتبہ پر پہنچے ہیں ، اس نعمت کے حصول کے لئے ’’پیر ‘‘کی توجہ کی ضرورت ہے ،ہم سے جو پیرنے فرمایا ؛ہم اس پر چلے او ران کی اقتدا کی برکت سے فضل الہی ہمارے شامل حال ہوا اور تمام مرادیں مل گئیں ۔ ایک کلیہ (قاعدہ)ہے جو میں کہہ رہاہوں ،جزئیات کو اسی پر تطبیق دے لو! جہاں ہَوائے نفس ہو؛اسے ترک کردو !جہاں کوئی آرزوہو،اسے نظر سے دور کردو!، دیکھو تو پھر کیا کیا نعمتیں نصیب ہوتی ہیں ۔(مکتوبات بندہ نواز،ص48!49) سونے سے پہلے دن بھر کے عمل کا جائز ہ لینا چاہئے! بندئہ مومن جب دن گزارتا ہے تو ضرور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واتباع کی کوشش کرتا ہے ، اور شریعت مطہرہ کی روشنی میں اپنی عبادات اور معاملات کی تکمیل کرتا ہے،بسااوقات وہ غفلت کا شکار ہوجاتا ہے ‘ اسی لئے بزرگان دین نے احادیث کریمہ کی روشنی میں اپنے اعمال کے محاسبہ کی فکر دی کہ آدمی سونے سے پہلے دن بھر کئے گئے امور کا محاسبہ کرے ، نیکی وبھلائی پر شکر بجالائے او ر بدی و برائی پر استغفار کرے۔ سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے: عَنْ أَبِی یَعْلَی شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا ثُمَّ تَمَنَّی عَلَی اللَّہِ۔ ترجمہ:حضرت ابو یعلی شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ کی رضا کا تابع وفرمانبردار بنادے اور موت کے بعد والی زندگی کیلئے عمل کرے اورنادان وہ ہے جو نفس کو اس کی خواہش کا تابع بنا دے پھر اللہ کے بھروسہ پرآرزوئیں اور امیدیں باندھے رکھے ۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الزھد،باب ذکر الموت والاستعدادلہ،حدیث نمبر4401) اس سلسلہ میں حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ملاحظہ ہو :روزانہ سونے کے وقت آدمی کو اپنے دن بھر کے عمل اور قول کا جائز ہ لے کر سونا چاہئے، العیاذباللہ !اگر اس سے دن میں کوئی غلط اور بے ہودہ حرکت ہوگئی ہے تو اس سے اس کو توبہ و استغفار کرنا چاہئے اور کوشش کرنا چاہئے کہ آئند ہ اس طرح کی حرکت اس سے نہ ہواور اگر اس سے اچھا اور مستحسن کام ہوا ہوتو برابر اس پر ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے ، اللہ تعالیٰ سے اس پر استقامت کی دعا مانگے اور اللہ کا شکر ادا کرے ،جو آدمی اس پر عمل پیرارہے گا وہ قیامت کے دن حساب وکتاب سے بے خوف رہے گا، فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَّسِیْرًا ۔(جوامع الکلم،287،288) حضرت بندہ نوازرحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کالمحہ لمحہ انہی پاکیزہ تعلیمات اور خلق خداکی ہدایت ورہنمائی میں گزرا، آپ اپنی ذات میں ایک عابدوزاہد‘پاکبازوروشن ضمیر بزرگ رہے اور دوسروںکے لئے رشدوہدایت کے علمبردار‘اخلاق وکردار کا نمونہ ‘ خیروبھلائی میں امت کے مقتدا وپیشوا رہے۔ وصال مبارک گلبرگہ شریف میں بائیس سال تک رشدوہدایت اورعلم ومعرفت کا سلسلہ جاری رکھنے کے بعد ایک سوچار (104) سال چار (4)ماہ بارہ (12)دن کی عمر مبارک میں وصال فرمایا، روز شنبہ16!ذیقعدہ825ھ کو اشراق وچاشت کے درمیان آپ کی روح مبارک رفیق اعلی سے جاملی ۔ حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کی مبارک زندگی میں ہم سب کے لئے پیغام ہے کہ ہم خود غرضی ومادہ پرستی کواپنا مقصدِ زندگی نہ بنائیںبلکہ خداترسی اور خلق خدا کی خدمت اختیار کریں ، دنیا کی محبت دل سے نکال کر خالق کائنات ومالک حقیقی کی محبت دل میں بسائیں ، نفس کی پیروی کرنے کے بجائے نفس کو شریعت اسلامیہ کا تابع بنائیں ۔ آج بھی آپ کی تعلیمات وارشادات زخم خوردہ انسانیت کو نسخہ کیمیاء دے رہے ہیں،خوف ودہشت کے ماروں کو امن وسلامتی ‘راحت وآشتی بخش رہے ہیںاور خلق خدا کوفیوض وبرکات ‘انوار وتجلیات سے منوّر ومُجلیٰ کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہمیں اہل اللہ وصالحین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے اور ان کے علمی وروحانی فیوض وبرکات سے مالا مال فرمائے! از:ضیاء ملت حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی مجددی قادری دامت برکاتہم شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر و انوار العلوم ابو الحسنات