Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

تذکرہ حضرت ابو الخیرسید رحمت اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ


تذکرہ حضرت ابو الخیرسید رحمت اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ

عارف باللہ فیض درجت سیادت مآب حضرت ابوالخیرسیدرحمت اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ کاتعلق حیدرآباد دکن کے ایک علمی وروحانی خانوادہ سے ہے،آپ زبدۃ المحدثین عارف باللہ ابوالحسنات حضرت سیدعبداللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ کے شہزادہ وخلیفہ تھے۔

حضرت ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ کی حیات طیبہ اپنے والد بزرگوار حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ اور اپنے برادر اکبر حضرت ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ کی مبارک زندگی کی آئینہ دارتھی۔

اللہ تعالی نے آپ کوشریعت وطریقت ہردوعلوم سے سرفرازفرمایاتھا،آپ کی ذات منبع فیض سے نہ صرف اہلیان دکن نے بلکہ ملک وبیرون ملک کے لاکھوں افراد نے اکتساب فیض کیا۔

آپ پر ہمیشہ اتباع سنت کا غلبہ رہا کرتا،آپ سے کوئی خلاف سنت عمل سرزد نہیں ہوتا، ہر حال میں شریعت کو مقدم رکھتے ۔

نسب مبارک:

آپ کا سلسلہ نسب مبارک چھیالیس(46)واسطوں سے امیر المؤمنین سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے ۔

تقریبا 1931ء میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔

رشد وہدایت اور سلوک کے سلسلہ میں آپ کی گراں قدر خدمات ہيں،آپ کی روحانی خدمات کو اہل اسلام فراموش نہیں کرسکتے،آپ کئی علمی وتحقیقی اداروں کی سرپرستی فرمایا کرتے تھے،ہند وبیرون ہند حضرت قبلہ کے مریدین ومتوسلین ہزاروں سے متجاوز لاکھوں میں ہیں اور ایک عالم نے آپ سے فیض حاصل کیا۔

آپ اعلی صفات کے حامل ، متواضع ، حلیم الطبع ، کم سخن ، خوش گفتار ، متبع شریعت بزرگ تھے ۔آپ ہر ایک سے شفقت اورنرمی سے پیش آتے،آپ کی طبعیت میں نہایت سادگی تھی۔

حضرت قبلہ ایسی بزرگانہ شان رکھتے تھے کہ اسلاف کرام کا نمونہ اور بعد والوں کے لئے پیشوا ومقتداء تھے،آپ کی عادات مبارکہ سنت کریمہ کی آئینہ دار تھیں،آپ اعلی صفات کے حامل،منکسر المزاج،حلیم وبردبار،شیریں گفتار بزرگ تھے،شریعت کی پابندی ،سنت کی اتباع وپیروی لازمی طور پر کیا کرتے۔

حضرت ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مثالی زندگی گزاری ہے،آپ کے شب وروز قرآن کریم وحدیث شریف کی عملی تفسیرتھے،آپ پراِتِّباعِ سنت کا ایسا غلبہ تھاکہ سفروحضرمیں کوئی سنت ترک نہ ہوتی،ہمیشہ ذکرالہی میں مصروف رہاکرتے۔

جب آپ مریدین اور رجوع ہونے والے حضرات کو نصیحت فرماتے تو نصیحت کا یہ اثر ہوتا کہ آدمی عملی طور پر اسے قبول کرلیتا۔

انابت و توجہ الی اللہ

جوبندہ کثرت سے ذکرکرتا ہے،اپنے قلب کواللہ تعالی کی طرف متوجہ رکھتا ہے اورہرمعاملہ میں اسی پرتوکل واعتمادکرتاہے تواللہ تعالی اس بندہ کودارین کی فوزوفلاح عطاکرتاہے،ذکرکے ذریعہ جب بندہ اپنے قلب کوآبادکرتاہے تووہ قلب تجلیات الہیہ کا مرکزبن جاتا ہے،سورہ مزمل کی آیت نمبر8/9میں اللہ تعالی کاارشادہے:

وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا ۔ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا.

ترجمہ:اورتم اپنے رب کے نام کا ذکرکیاکرو،اورسب سے کٹ کراسی کے ہوجاؤ،جومشرق ومغرب کا مالک ہے؛اس کے سواکوئی معبود نہیں،پس اسی کواپناکارساز بنائے رکھو۔

حضرت ابوالخیررحمۃ اللہ علیہ کی مبارک زندگی ان آیات بیانات کی آئینہ دارتھی۔ اللہ تعالی سے آپ کے تعلق کی یہ کیفیت تھی کہ جب اللہ تعالی کا نام لیتے توآنکھوں میں آنسوآجاتے، بارگاہِالہی میں بے انتہاء عاجزی وانکساری کے ساتھ نِیازمَندِی کے نذرانے پیش کرتے۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ سلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آپ کا ذکر شریف ہوتا ،یا نام مبارک لیتے تو آب دیدہ ہوجاتے۔

آپ ظاہری علوم میں کمال رکھتے تھے اورولایت کے اعلیٰ منصب پرفائز ہونے کے ساتھ نہایت مُتَوَاضِع اورمُنْکَسِرُالْمِزاج بزرگ تھے، آپ کا صبروشکر مثالی تھا،زہدوقناعت کے ساتھ کم گوئی کی صفت سے بھی متصف تھے، ضرورت سے زائد بات نہیں کرتے‘ جب کچھ ارشاد فرماتے تو اُس میں قیمتی نصیحتیں ہوا کرتیں ، آپ مریدین پرخصوصی توجہ فرماتے تھے، مریدین کی زندگیوں میں برکت رہتی ، آپ کی برکت سے اُن کی روحانی اور جسمانی بیماریاں دور ہوجایا کرتیں، اگرکسی کوخلاف شریعت عمل کرتادیکھتے تونہایت عمدہ طریقہ سے اس کونصیحت فرماتے،نتیجۃًوہ شخص ہمیشہ کے لئے اس گناہ سے تائب ہوجاتا۔

نصائح وہدایات:

آپ یہ ارشاد فرماتے تھے کہ ایسی بات نہ کرو کہ لوگ کہیں چپ ہوجاؤ، ایسی جگہ نہ بیٹھو کہ لوگ کہیں کہ اُٹھ جاؤ، ایسا کام نہ کرو کہ لوگ کہیں رک جاؤ۔

آپ کی مجلس میں بیٹھنے والا اگر کچھ سوال کرنا چاہتا لیکن ہمت نہ ہوتی تو آپ اپنی فراست سے اس کو جان لیتے اور نام ذکر کئے بغیر ایسی بات ارشاد فرماتے جس میں اس کا جواب بھی ہوتا اور دوسروں کے لئے نصیحت وخیر خواہی ہوتی ۔

آپ کی نصیحت کا انداز اِس طرح شیریں تھا کہ اگر کوئی عبد الرحمن نامی شخص کو رحمن کہہ کر بلاتا تو آپ مسکراکر فرماتے: بابا ! رحمن کو ساری مخلوق طلب کر رہی ہے ، کیا آپ کو رحمن مل گئے ! تو وہ شخص فورًا سمجھ جاتا کہ مجھے رحمن نہیں بلکہ عبدالرحمن کہنا چاہئے کیونکہ رحمن تو صرف اللہ تعالی ہی ذات ہے ۔

حضرت ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ اکثر وبیشتر مریدین کو نصیحت فرماتے کہ اولیاء اللہ کے پاس جاؤ تو ادب واحترام کے ساتھ جانا، وہاں کی کسی چیز پر تبصرہ وتنقید نہ کرنا ، جتنا باادب رہوگے صاحب مزار سے اتنا ہی فیض حاصل ہوگا۔ الغرض حضرت قبلہ کی مبارک زندگی سے ہر ایک کو فیض ملا، حضرت کے مریدین میں سے ہر ایک کا یہ تجزیہ رہتا تھا کہ حضرت سب سے زیادہ مجھ کو چاہتے ہیں ۔ اتنی زیادہ مریدین پر عنایت وشفقت ہوتی تھی ۔

مسند رشد وہدایت:

آپ کو اپنے والد گرامی حضرت محدث دکن رحمة اللہ علیہ سے خلافت حاصل تھی،۔ آپ حضرت ابو الخیرات سید انوار اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے وصال مبارک کے بعد بحیثیت سجادہ نشین حضرت محدث دکن رحمة اللہ علیہ 1425 ھ سے مسلسل خلق خدا کو فیضیاب کرتے رہے۔

ہزارہاں افراد نے آپ سے اکتساب فیض کیا، ملک وبیرون ملک آپ کے مریدین ومتوسلین کی کثیر تعداد ہے ، آپ کے دست حق پرست پر کئی ایک علماء کرام وحفاظ صاحبان نے بیعت کی ۔

آپ کی صحبت بابرکت وہ فیض اثر تھی کہ جس کو صحبت میسر آجائے وہ دنیا سے بے رغبت ہوکر آخرت کی طرف متوجہ ہوجاتا۔

انداز عبادت

حضرت ابوالخیررحمۃ اللہ علیہ تہجدگزار،شب زندہ دار بزرگ تھے،رات کے اوقات میں تدبروتفکرکے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے،اس وقت آپ پرعجیب رقت طاری رہتی۔دن کے اوقات میں مخلوق کی رشدوہدایت کا فریضہ انجام دیتے۔بلالحاظ مذہب وملت خلق کثیرنے آپ سے استفادہ کیا۔

نمازوں کا اہتمام

حضرت ابوالخیررحمۃ اللہ علیہ نے اپنے قلب کودنیوی علائق سے بالکل پاک رکھاتھا،وہ اپنے معمولات میں کبھی فرق آنے نہ دیتے،زندگی بھرآپ کا یہ معمول رہا کہ نمازپنجگانہ جماعت کے ساتھ مسجد میں ادافرماتے،کبھی سفردرپیش ہوتاتوسفر اس طرح ترتیب دیتے کہ دوران سفر بھی ہرنمازمسجدمیں جماعت کے ساتھ اداہوتی۔

آپ کی حیات‘خوف وخشیت سے عبارت تھی،آپ اپنے مشائخ طریقت کے کمالات کے مظہراورآنے والوں کے لئے نمونہ ہیں۔

وصال مبارک:

حضرت ابو الخیر سید رحمت اللہ شاہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال مبارک بعمر 80 سال،28/شوال المکرم 1432ھ م 27/سپٹمبر 2011ء کو ہوا۔

نماز جنازہ بعد نماز ظہر تاریخی مکہ مسجد میں ادا کی گئی،حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین نقشبندی مجددی قادری دامت برکاتہم مفتی جامعہ نظامیہ نے نماز جنازہ کی امامت کی،ہزاروں مریدین،معتقدین،واستگان سلسلہ عالیہ نقشبندیہ قادریہ کے علاوہ معزز علماء کرام،مفتیان عظام،مشائخ طریقت،دانشوران قوم وملت ،قائدین کے علاوہ مختلف ریاستوں سے آئے ہوئے حضرات کی کثیر تعداد موجود تھی۔

نقشبندی چمن،مصری گنج ،حیدرآباد میں حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ کے پائن شریف میں آپ کی بارگاہ مرجع خلائق ہے۔

اولاد امجاد:

حضرت ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ کو تین شہزادگان اور چارشہزادیاں ہیں:

حضرت مولانا ڈاکٹر سید صبغت اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری دامت برکاتہم،حضرت مولانا سید نعمت اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری دامت برکاتہم اور حضرت مولانا سید سعد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ اور چار شہزادیاں ہیں۔

کرامات:

حضرت ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ کی کئی کرامات وواقعات ہیں ‘یہاں چند ذکر کئے جاتے ہیں:

کرامت اول:

ایک مرتبہ حضرت ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ نماز عصر کے بعد کسی کام سے چھتہ بازار کے قریب گئے ،وقت زیادہ ہوگیا ، حتی کہ مغرب کی اذان بھی شروع ہوگئی؛لیکن حضرت قبلہ نے کار چلانے والے حضرت سیدی ابوالبرکات کے مرید خاص سے فرمایا :چلئے! مغرب کی نماز حسینی علم حضرت قبلہ کی مسجد میں ہی پڑھیں گے ، کار میں ساتھ رہنے والوں نے سونچا کہ اذان ہورہی ہے ، نمازِمغرب میں قراء ت بھی مختصر ہوتی ہے ،پہنچنے تک جماعت ملے گی یا نہیں ، لیکن جب حسینی علم پہنچے تو یہ دیکھ کر تعجب میں پڑگئے کہ یہاں پر مسجد میں ابھی تک مغرب کی اذان بھی نہیں ہوئی ،اذان کے بعد سبھوں نے حضرت قبلہ کے ساتھ باجماعت مغرب کی نماز ادا کی ۔

کرامت دوم:

بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطہ اس قدر مضبوط ومستحکم تھا کہ حضرت کے بعض خادمین و وابستگان کو جب مدینہ منورہ کی حاضری نصیب ہوئی تواُن پر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سلام پیش کرتے وقت ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ حضرت ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ تشریف لاکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کررہے ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!یہ میرے مرید ہیں ۔

کرامت سوم:

اسی طرح جب مریدین ومعتقدین حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت لیکر اولیاء کرام وصالحین کی بارگاہوں میں جاتے تو عالم یہ ہوتا کہ وہاں پر حضرت ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ کو موجود پاتے اور دیکھتے کہ حضرت قبلہ اُن بزرگوں کے پاس اِن خادمین کو پیش کر کے فیضان سے مالا مال کررہے ہیں ۔

کرامت چہارم:

حضرت سیدی ابوالبرکات سید خلیل اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ ہی کے ایک مریدِخاص جو عالمِ باعمل ہیں اُن کا کہنا ہے کہ وہ ایک دعوت میں حضرت کی پشت کے پیچھے بیٹھ گئے اور وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے ذکر کرنا شروع کردئیے ، وہ تھوڑا سا ذکرکئے تھے کہ حضرت قبلہ نے اُن کو بلاکر اپنے دائیں جانب بٹھالیا اور اُن کا تعارف کراتے ہوئے فرمایاکہ " ماشاء اللہ ! یہ علمی مشاغل کے ساتھ ساتھ ذکر کا بھی بڑا خوب اہتمام کرتے ہیں "۔

اس طرح حضرت قبلہ قلبی احوال پرنظر رکھتے ،اگر کچھ غلطی ہوجائے توبڑے پیارے انداز میں نصیحت بھی فرماتے تھے ۔

کرامت پنجم:

ایک صاحب نے حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ حضرت ! مجھے بہت زیادہ قئے آتی ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: جاؤ میں دعا کرتاہوں ! اس فرمان پر مجھے اطمینان نصیب ہوا ، الحمد للہ ! اس کے بعد سے آج تک پانچ سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا ؛ لیکن کبھی قئے نہیں ہوئی۔

کرامت ششم:

اسی طرح ایک صاحب کا بیان ہے کہ ان کی لڑکی سخت بیمار تھی ، دواخانہ میں شریک کرلیا گیا، وہ صاحب حضرت قبلہ سے دعاؤں کی درخواست کئے تو حضرت قبلہ کی دعاء کا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ چوبیس گھنٹوں کے اندر لڑکی کی بیماری بالکل ختم ہوگئی ۔

بڑے بڑے ڈاکٹر س حیران تھے کہ اتنا جلد اس بیماری سے نجات پانا ممکن ہی نہیں تھا، یہ کوئی غیبی مدد ہوگی۔

ایسے واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہے کہ جو بھی حضرت قبلہ کی خدمت میں معروضہ کرتا بحکم الہی اسے مراد حاصل ہوجاتی۔

کرامت ہفتم:

حضرت ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ ایک متبحر عالم ہونے کے باجود سادگی کا یہ عالم تھا کہ وعظ بھی فرماتے تو اپنے والد گرامی کی نورانی تحریرات کو پڑھ کرسناتے، حضرت قبلہ اپنے دادا پیر عارف باللہ حضرت سید پیر بادشاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے عرس شریف میں نہایت اہتمام سے جاتے اور بعد نماز مغرب وعظ بھی فرماتے ،ایک مرتبہ آپ حسب معمول دیکھ کر وعظ فرمارہے تھے،اچانک بجلی چلی گئی،لائٹ بند ہونے کی وجہ سے مکمل اندھیرا ہوگیا تھا لیکن نہ حضرت کی آواز مبارک میں فرق آیا نہ آپ کا بیان موقوف ہوا، اندھیرے میں بھی آپ اسی طرح دیکھ کر پڑھ رہے تھے جیساکہ اجالے پڑھ رہے تھے۔

اللہ تعالی سے دعاء کہ بطفیل حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سے فیضان سے مالال فرمائے اور آپ کی تعلیمات وہدایات پر عمل کی توفیق بخشے۔آمین۔

از:ضیاء ملت تاج العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی مجددی قادری �دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ بانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹرو انوار العلوم ابو الحسنات

�www.ziaislamic.com