Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

News

عارف باللہ حضرت سید محمد بادشاہ بخاری نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ


عارف باللہ حضرت سید محمد بادشاہ بخاری نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ

�9جمادی الاولیٰ1434Ú¾ �م22 مارچ �بروزجمعہ ‘106 سالہ عرس سراپا قدس آفتاب برج حقیقت‘ ماہتاب فلک شریعت‘ گنجینۂ معرفت‘ شیخ وقت‘ قطبِ دوران‘ عارف باللہ حضرت سید محمد بادشاہ بخاری نقشبندی مجددی قادری المعروف حضرت سید پیر بخاری شاہ صاحب قبلہ قدس سرہ اور86سالہ عرس سراپا قدس صاحبزادہ حضرت ایشاں کلیم طور سینائے ولایت ،حضرت پیر سید شاہ غوث محی الدین بخاری نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ Ú©Û’ موقع پر حضرت ابوالحسنات محدث دکن سید عبداللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ Ú©ÛŒ کتاب"گلزار اولیاء" سے حضرت سید پیر بخاری شاہ صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ Ú©ÛŒ شخصیت مقدسہ ‘ تعلیمات شریفہ� اور احوال جمیلہ پر مشتمل مضمون �ہدیۂ ناظرین کیا جاتا ہے :

سالک مجذوب و مجذوب سالک ،باقی باللہ مرشدنا و مولانا حضرت سید پادشاہ صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ

آپ کا سلسلۂ نسب حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت قدس سرہ سے ملتا ہے، آپ کے جد اعلیٰ بخارا شریف کے رہنے والے تھے مگر چند پشت سے آپ کے اجداد شہر کرنول میں رونق افروز رہے۔ اس لحاظ سے آپ کا مولد کرنول ہے۔

�آپ علم ظاہری Ùˆ باطنی Ú©Û’ عالم متبحر تھے‘ اور حیدرآباد دکن میں ایک عہدہ جلیلہ Ú©Û’ باعث زینت رہے اور کئی سو روپیہ آپ Ú©ÛŒ ماہوار تھی، چونکہ لڑکپن ہی سے آپ Ú©ÛŒ طبیعت درویشانہ واقع ہوئی تھی‘ اس لئے باوجود تموّل ظاہری Ú©Û’ زاہدانہ زندگی بسر فرماتے تھے‘ آپ Ú©ÛŒ ہر بات سے ترک دنیا Ú©Û’ آثار ظاہر ہوتے تھے، رات دن سخت ریاضت Ùˆ مجاہدے میں گزارتے تھے‘ بلحاظ ملازمت Ú©Û’ جب تک آپ عدالت Ú©ÛŒ کرسی پر رونق افروز رہے ’’دست بکار دل بیار‘‘ کا نمونہ بن کر خلق خدا Ú©Ùˆ زبانِ حال سے سکھاتے تھے کہ اگر ایسی دنیا Ú©ÛŒ جائے تو وہ مذموم نہیں بلکہ سراسر محمود ہے۔

آپ Ù†Û’ نسبت قادریہ عالیہ ،اپنے خاندان میں حاصل Ú©ÛŒ اور طریقہ عالیہ نقشبندیہ کا سلوک عارف باللہ حضرت شاہ سعد اللہ صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ �سے طئے فرمایا- جن کا مزار اقدس حیدرآباد دکن Ú©Û’ محلہ اردو(شریف ،گھانسی بازار) میں زیارت گاہ خلق ہے- پھر تو آپ کا مجاہدہ اس قد ر بڑھا کہ دائم الصوم Ùˆ قائم اللیل جس کا ادنیٰ نمونہ تھا‘ چونکہ خدائے تعالیٰ Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ اور ہی منظور تھا ‘ ملازمت Ú©Û’ بھول بھلیوں میں آپ تھوڑے دنوں Ú©Û’ لئے بھی پھنسے رہنے Ú©Û’ لئے نہیں بنائے گئے تھے‘ اس لئے آپ Ù†Û’ یہ عادت کرلی تھی کہ عدالت کا معینہ وقت، سرکاری کام میں صرف فرماکر جو وقت بچ جاتا اس Ú©Ùˆ حضرت حاجی مستان شاہ صاحب مجذوب رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ú©ÛŒ حضوری میں گزارتے۔

������� حضرت شاہ سعد اللہ صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ �پیر طریقت تھے تو یہ مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ �پیر صحبت۔

�ایک روز آپ نے مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ �سے کچھ نصیحت کرنے کی درخواست کی-

مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: قطعہ ذیل کو حرز جاں بنالو! �لاکھ نصیحتوں کی یہ ایک نصیحت ہے:

قطعہ

بندہ ہماں بہ کہ زتقصیر خویش

عذربدرگاہِ خدا آورد

بندہ وہی بہتر ہے کہ عبادت کرکے عبادت میں اپنی کوتاہیوں کا عذر اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کرتا رہے۔

ورنہ سزاوار خداوندیش

کس نتواند کہ بجا آورد

ورنہ کسی سے نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کے لائق، عبادت کرسکے۔

مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ù†Û’ اپنے وصال مبارک Ú©Û’ قریب، آپ سے پینے Ú©Û’ لئے پانی مانگا، آپ Ù†Û’ جلدی سے پانی لادیا‘ مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ù†Û’ تھوڑا سا پانی Ù¾ÛŒ کر باقی اپنا پس خوردہ پانی آپ Ú©Ùˆ پینے Ú©Û’ لئے ارشاد فرمایا‘ آپ فوراً اس Ú©Ùˆ Ù¾ÛŒ گئے ‘ او ربے ہوش ہوکر زمین پر گر گئے ‘ Ú¯Ùˆ تھوڑی دیر بعد ہو Ø´ آگیا مگر دل، دنیا اور اہل دنیا سے پھر گیا۔

�سرکاری کام کیا چاہتے ہیں لیکن کیا نہیں جاتا، دل بے اختیار خلوت و گوشہ نشینی کی طرف مائل ہوگیا، آپ دو چار دن اسی شش و پنج میں رہے۔ اس عرصہ میں وہ وقت قریب آگیا کہ لوگ حضرت ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ کا گذشتہ قصہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں 1297ھ ہے۔

�حاجی مستان شاہ صاحب مجذوب رحمۃ اللہ تعالی علیہ� پر نزع کا عالم ہے اور آپ حسب عادت مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ú©ÛŒ حضوری میں حاضر ہوئے ہیں، جب سرکاری کام یاد آگیا تو آپ Ù†Û’ اٹھنے کا ارادہ فرمایا‘ مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ù†Û’ فرمایا: بیٹھ جا ‘ پھر آپ بیٹھ گئے،تھوڑی دیر Ú©Û’ بعد جب پھر آپ Ù†Û’ اٹھنا چاہا تو مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ù†Û’ فرمایا بیٹھ جا‘ پھر آپ بیٹھ گئے، ایسا ہی جب تیسری مرتبہ آپ Ú©Û’ اٹھنے پر مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ù†Û’ بیٹھ جا !فرمایا ،تو آپ سب Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ چھاڑ کر مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ �ہی Ú©Û’ ہورہے۔

�جب مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ �کا انتقال ہوگیا تو لوگوں نے ان کو کفناکر اُجالہ شاہ صاحب قدس سرہ کی درگاہ کے قریب دفنادیا۔ آپ مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ �کی قبر کے پاس آخر دم تک بیٹھے رہے، آپ پر کیفیت جذبہ کی طاری تھی، اہل و عیال کا کچھ خیال تھا، نہ گھر کی خبر تھی نہ نوکری کی فکر ۔

�نواب تراب علی خان سالار جنگ بہادر بہت� چاہتے رہے کہ یہ نیستان معرفت کا شیر پھر دنیا Ú©Û’ تنگ پنجرہ میں مقید ہوجائے مگر یہ بیٹھنا Ú©Ú†Ú¾ معمولی بیٹھنا نہیں تھا‘ کسی دل جلے Ú©Û’ بٹھانے سے بیٹھنا پڑا تھا، اسی لئے اس کوہ ثبات Ú©Ùˆ کسی دنیا دار Ú©ÛŒ باتوں Ú©Û’ تیز جھونکے اپنی جگہ سے نہ ہلاسکے‘ سچ پوچھئے تو سدھ ہی کس میں تھی‘ ایک دل تھا وہ تو دلدار Ù†Û’ Ù„Û’ لیا، اب دل ہی کہاں سے لائیں جو اوروں Ú©Ùˆ دیں‘ اس وقت آپ اس شعر Ú©Û’ مصداق بنے ہوئے تھے� :

یکے بین ویکے دان ویکے گوی

یکے خواہ ویکے خواں ویکے جویٔ

دیکھو تو ایک Ú©Ùˆ دیکھو‘ جانو تو ایک Ú©Ùˆ جانو‘ کہو تو ایک ہی Ú©Ùˆ کہو‘ چاہو تو ایک ہی Ú©Ùˆ چاہو ‘ Ù¾Ú‘Ú¾Ùˆ تو ایک کا ہی نام Ù¾Ú‘Ú¾Ùˆ اور ڈھونڈو تو ایک ہی Ú©Ùˆ ڈھونڈو۔

سوائے پنج وقتہ نمازو Úº Ú©Û’ آپ کوئی کام ہی نہیں کرسکتے تھے، نہ پہننے کا ہوش تھا نہ کھانے کا خیال‘ کسی Ù†Û’ پہنادیا پہن لیا‘ کسی Ù†Û’ کھلادیا کھالیا۔ لوگوں Ù†Û’ خیال کیا کہ یہ قلب ہی ہے شائد پلٹی کھائے، چندے انتظار بھی کیا، جب سب Ú©Ùˆ مایوسی ہوگئی تو آپ Ú©Û’ لئے مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ú©ÛŒ قبر Ú©Û’ پاس ہی نواب تہنیت یارالدولہ بہادر Ú©ÛŒ تحریک پر نواب تراب علی خان سالار جنگ مدار المہام بہادر Ù†Û’ خزانہ صرف خاص سے اپنے نیابت Ú©Û’ زمانہ میں خانقاہ بنوادی، جس میں آپ عرصہ تک فروکش رہے Û”

�ایک زمانہ Ú©Û’ بعد پھر نواب تہنیت یار الدولہ Ú©ÛŒ تحریک سے نواب لائق علی خاں سالار جنگ ثانی مدار المہام Ù†Û’ پختہ مسجد اور رہنے Ú©Û’ لئے حجرے‘ØŒ مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ú©ÛŒ قبر Ú©Û’ متصل ہی سدی عنبر خانساماں Ú©ÛŒ نگرانی میں تیار کروائے۔

�پھر ایک مدت Ú©Û’ بعد نواب آسمان جاہ بہادر Ù†Û’ اپنی مدار المہامی Ú©Û’ عہد میں مسجد‘ مینار او رسائبان وغیرہ تیار کراکے مسجد Ú©ÛŒ تعمیر مکمل فرمادی‘ آج تک وہ مسجد اپنے بانیوں Ú©ÛŒ یادگار میں قائم Ùˆ موجود ہے۔

آپ Ù†Û’ اپنی ساری عمر اسی مسجد اور اسی حجرہ میں گذاری‘ جہاں گوشہ نشینی اختیار Ú©ÛŒ تھی۔ طالبان کرامت Ú©Û’ لئے اس سے بڑھ کر اور کیا کرامت چاہئے کہ آپ تیس چالیس سال تک ایک ہی جگہ بیٹھے رہے۔

مجذوب صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ú©Û’ مزارِ اقدس Ú©Ùˆ چھوڑکر ایک لحظہ Ú©Û’ لئے بھی نہ ہٹے‘ خدا Ù†Û’ چاہا کہ آپ مسندِ ارشاد پر رونق افروز ہوکر طالبانِ حق Ú©Ùˆ مستفیض فرمادیں، اس لئے فنا فی اللہ Ú©Û’ ساتھ بقابا اللہ کا بھی درجہ عنایت ہوا۔

�جو لوگ خدا کی جستجو میں مدتوں سر ٹکراتے پھرتے تھے ان کو آپ دم بھر میں کہیں سے کہیں پہنچادیتے تھے۔

�اس نوید جاں فزا Ú©Û’ سنتے ہی سینکڑوں مردہ دل دوڑ پڑے،آپ Ú©ÛŒ توجہ باطنی Ù†Û’ آبِ حیات کا اثر دکھلایا، سب زندہ دل ہوکر اطراف Ùˆ اکناف میں پھیل گئے‘ ہزارہا دنیا دار اپنی اپنی مرادیں Ù„Û’ کر آتے اور اس در دولت سے کامیاب ہوکر جاتے۔

�آپ Ú©ÛŒ توجہ باطنی کا یہ ادنیٰ کرشمہ تھا کہ دل‘ دلدار کا ہوجاتا اور دنیا سے سخت نفرت ہوجاتی‘ بے اختیار یہی بندھا رہتا کہ یا جنگل جنگل بھٹکتا پھرے یا کسی حجرہ کا دروازہ بندکرکے دنیا Ùˆ اہل دنیا Ú©Ùˆ خیرباد کہہ Ú©Û’ رات دن یاد الٰہی میں مشغول رہے۔

�آپ مثنوی شریف Ú©Û’ Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ اور سننے Ú©ÛŒ اکثر رغبت دلایا کرتے ‘ خود آپ Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ سینکڑوں اشعار زبانی یاد تھے، اکثر مجلسوں میں اس Ú©Û’ برجستہ اشعار بڑے ذوق Ùˆ شوق سے سناتے‘ اس وقت ساری مجلس پر عجیب محویت اور بیخودی چھاجاتی، در Ùˆ دیوار سے حیرت ٹپکتی تھی‘ تمام اُمراء Ùˆ عہدہ داران سلطنت اور خاص کر حضور نظام بھی درِ دولت پر آتے‘ ان سے بھی ویسی ہی ملاقات فرماتے جیسے عام لوگوں سے،علماء Ùˆ فضلاء سے نہایت کشادہ پیشانی سے ملتے تھے اور ان Ú©Û’ حاضر ہونے سے نہایت خوش ہوتے تھے۔

کئی مدار المہاموں کا دور آپ Ù†Û’ دیکھا، ہر ایک Ù†Û’ آپ Ú©Û’ لئے Ú©Ú†Ú¾ منصب یا یومیہ جاری کرنا چاہا‘ آپ کا دنیا سے پلٹا اور لوٹا ہوا متوکل دل ہرگز اس Ú©Ùˆ قبول نہ فرمایا، اکثر ایسا ہوا ہے کہ یومیہ وغیرہ Ú©ÛŒ سند‘ خدمت اقدس میں پیش Ú©ÛŒ گئی‘ آپ Ù†Û’ یہ فرماکر رد کردیا کہ شائد یہ کسی اور بخاری Ú©ÛŒ ہوگی،مجھے اس Ú©ÛŒ Ú©Ú†Ú¾ ضرورت نہیں ہے-

�لوگوں کے نذرانے و� ہدایا بدقت قبول فرماتے اور اس کو بستر کے نیچے ڈال دیتے، اکثر سائل حاضر ہوا کرتے تو اُن کو اس میں سے لے کر مٹھی بند کرکے اس طرح دیتے کہ کسی کو خبر بھی نہ ہو کہ آپ نے کیا عطا فرمایا۔

�مریدوں پر آپ کی ایسی نظر عنایت رہتی کہ ہر شخص یہی سمجھتا تھا کہ آپ کو سب سے زیادہ مجھ ہی سے خاص محبت ہے، اتباعِ سنت اور ذرا ذرا سے مسائل پر بھی عمل کرنا آپ کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھردیا گیا تھا ۔

�یوں تو آپ سے سینکڑوں کرامات ظاہر ہوئے مگر سب سے زیادہ وہ کرامت قابل ذکر ہے جو آپ کے انتقال کے بعد آپ سے ظاہرہوئی: زندگی ہی میں آپ نے اپنے خلفاء سے فرمادیا تھا کہ ہماری تجہیز و تکفین سنتِ نبوی کے موافق ہونی چاہئے۔حدیث شریف میں یہی آیا ہے اور فقہاء بھی لکھتے ہیں اور امام الصوفیہ حضرت محی الدین ابن عربی �رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بھی بہت زور دیا ہے کہ نماز جنازہ مسجد میں نہیں ہونی چاہئے،� اس لئے ہماری نماز جنازہ مسجد میں نہ پڑھائی جائے،یہ وصیت آپ کے انتقال کے بعد لوگوں کے دلوں سے بھولی گئی۔

�حیدرآباد میں قاعدہ تھا کہ اکثر جنازہ بہت تزک Ùˆ احتشام Ú©Û’ ساتھ مکہ مسجد میں Ù„Û’ جاتے، وہیں نماز جنازہ پڑھائی جاتی ‘ حسب قاعدہ سب لوگ آپ کا بھی جنازہ مکہ مسجد Ú©Ùˆ Ù„Û’ جانے تیار ہوگئے حتیٰ کہ ہزارہا بندگان خدا جنازہ کا انتظار کرتے ہوئے مکہ مسجد ہی میں ٹھہرے رہے‘ چونکہ آپ کا موضع اقامت شہر سے باہر تھا‘ ایک قاعدہ ہے کہ شہر Ú©Û’ باہر کا جنازہ شہر Ú©Û’ اندر لانے Ú©Û’ لئے حضور نظام سے اجازت طلب Ú©ÛŒ جاتی، باوجودیکہ حضور نظام آپ Ú©Û’ نہایت معتقد تھے ‘ گھنٹوں وقت گذر گیا اجازت Ú©Û’ ملنے میں بہت دیر ہوگئی،مجبوراً �اُجالے شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ �کی درگاہ Ú©Û’ Ú©Ú¾Ù„Û’ میدان میں ہزارہا خلق خدا Ú©ÛŒ جماعت Ú©Û’ ساتھ آپ Ú©ÛŒ نماز جنازہ ادا Ú©ÛŒ گئی۔

�نماز سے فارغ ہوتے ہی سنا گیا کہ اجازت مل گئی‘ اس وقت آپ Ú©ÛŒ وصیت یاد آئی، سب بے اختیار کہہ اٹھے: اللہ رے آپ کا شریعت Ú©Û’ مسائل پر عمل کرنا کہ انتقال Ú©Û’ بعد بھی آپ Ù†Û’ اپنا کوئی کام خلاف مسئلہ ہونے نہ دیا-

�انہیں کہتے ہیں متشرع ‘ایسے ہوتے ہیں اہلِ طریقت Ùˆ حقیقت۔

�غرض آپ Ú©Û’ تفصیلی احوال Ú©Û’ لئے کئی دفتر غیر کافی ہیں‘ چونکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ Ú©ÛŒ نسبت‘ حُبیت� تھی اور آپ Ú©Ùˆ بھی یہی نسبت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے خلافۃً ملی تھی‘ اس لئے جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ Ú©Ùˆ کوئی اور مرض نہ تھا‘ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ عشق Ùˆ محبت ہی Ù†Û’ گھلا گھلا کر جان Ù„ÛŒ تھی، اسی طرح آپ Ú©Ùˆ بھی کوئی اور مرض نہ تھا، یہی عشق تھا جو گھلادیا اور ضعیف Ùˆ ناتواں بنادیا۔

�غرض بڑھتا بڑھتا یہی ضعف باعث وصال ایزدی ہوا، Ú©Ù… نصیب دکن Ùˆ غمزدہ حیدرآباد Ú©ÛŒ آنکھوں میں دنیا تیرہ Ùˆ تار ہوگئی، عاشقانِ حق تو لٹ گئے‘ کہیں Ú©Û’ نہیں رہے‘ طالبان صادق Ú©ÛŒ کمریں ٹوٹ گئیں‘ دل پاش پاش ہوگئے‘ کلیجے چھلنی بن گئے-

�آہ ! حیدرآباد Ú©ÛŒ آنکھوں کا تارا جاتا رہا، برج حقیقت کا آفتاب‘ فلک شریعت کا مہتاب‘ اُجالا شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ �والی مسجد Ú©Ùˆ اپنا مشرق بناکر اپنی نورانی شعاعوں سے ایک عالم Ú©Û’ دلوں Ú©Ùˆ روشن کرتارہا Û” "Ú©Ù„ نفس ذائقۃ الموت (ہر ایک Ú©Ùˆ موت کا مزہ چکھنا ہے)" Ú©ÛŒ مغرب میں منہ چھپاکر ہم غلاموں Ú©Ùˆ دائمی مفارقت کا داغ دے گیا۔

�شفیق روحانی باپ کا سایہ ہم خادموں کے سر سے اٹھ گیا اور اٹھا بھی تو ایسا اٹھا کہ پھر اس زندگی میں ملنے کی امید ہی نہیں ۔

�ایسی حالت میں خادم تو خادم سارا عالم بھی جس قدر رنج کرے تھوڑا ہے۔

�شب جمعہ وقت تہجد جمادی الاولی Ú©ÛŒ دسویں تاریخ 1328؁ھ Ú©ÛŒ شب ہے، قاری یسین شریف پڑھتا ہوا" قیل ادخلی الجنۃ" پر پہنچا ہے کہ قطب دوران ،فرد وقت ‘ سالک مجذوب Ùˆ مجذوب سالک ،باقی باللہ مرشدنا مولانا حضرت سید محمد پادشاہ صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہم مہجوروں Ú©Ùˆ یوں ہی تڑپتا Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر فردوس بریں Ú©Ùˆ سدھارے۔

�انا للہ وانا الیہ راجعون۔

�قطعہ: تاریخ وفات طبعزاد جناب مولوی سید شاہ عبداللطیف صاحب قادری ساکن تماپور�� ؂

کہ سید پادشاہ صاحب بخاری

گئی فردوس اعلیٰ کو سواری

کہ سنہ کی فکر میں تھا دل ہمارا

جو ہے منظور حق �ہاتف پکارا

��� 1328

�

�

ہائے افسوس! اس گنجینۂ معرفت کو اس جذب و سلوک کے خزانہ کو حاجی مستان شاہ مجذوب کے پہلو میں زیر زمین دفنا دیا اور اوپر سے چار اُنگل کا مٹی کا ڈھیر لگادیا۔

�دیکھنے والو! آؤ دیکھو مسنون قبر ایسی ہوتی ہے‘ سنت نبوی علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام Ú©Û’ شیدائیو �سنو !سنن پر مٹنا اس Ú©Ùˆ کہتے ہیں-

�بار غم سے کسی قدر ہلکا ہونے Ú©Û’ لئے دل تو بہت Ú©Ú†Ú¾ کہنا چاہتا ہے‘ لیکن یہ محل، عدم گنجائش Ú©ÛŒ شکایت کررہا ہے، اس لئے غم Ú©Û’ گھونٹ Ù¾ÛŒ کر میرے آقا سے سُنے ہوئے چند نصائح Ù„Ú©Ú¾ کر Ú†Ù¾ ہوجاتا ہوں۔

�منجملہ ان نصائح کے جن کو میں نے آپ کی مبارک محفلوں میں سنا ہے یہ ہیں۔

1۔ اگر کسی معاملہ میں کوشش کی گئی اور نتیجہ خلاف مرضی نکلا تو اس کے لئے ہرگز رنج نہ کیا جائے بلکہ بہت ہی آہ و زاری کے ساتھ اپنی کوشش پر کثرت سے استغفار پڑھے۔ میں نے عرض کیا حضور! استغفار کا یہ کیا موقع ہے؟ ارشاد فرمایا انسان کو مباح اور جائز معاملہ میں کوشش تو ضرور ہے پھر جب دیکھے کہ سارا بنا بنایا کام بگڑگیا اور ہماری ساری کوشش رائیگاں گئی تو سمجھے کہ خدا کی یہی مرضی تھی اور ہم نے آج تک خدا کی مرضی کے خلاف کوشش کی ہے اس لئے اس کے خلاف کرنے پر جس کا اب علم ہوا ہے کثرت سے استغفار کیا جائے۔

2Û” وجدو شوق ‘ چیخ Ùˆ تڑپ‘ طریقہ نقشبندیہ مجددیہ Ú©Û’ بالکل مخالف ہے‘ اگر کسی مجددی Ú©ÛŒ ایسی حالت ہوگئی ہو تو وہ� ازالہ Ú©Û’ قابل ہے۔ اس طریقہ نقشبندیہ مجددیہ کا جس پر رنگ چڑھا ہے اس Ú©ÛŒ حالت ظلی طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم Ú©Û’ جیسی ہوجاتی ہے۔ اس Ú©Ùˆ وہ اطمینان Ùˆ سکینہ‘ اور وہ وقار Ùˆ تواضع Ùˆ انکسار‘ اور وہ دوام حضور‘ اور وہ اعلیٰ پیمانہ پر احسان حاصل ہوتا ہے (احسان Ú©ÛŒ تعریف یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ Ú©ÛŒ ایسے طریق سے عبادت Ú©ÛŒ جائے کہ یہ عبادت کرنے والا گویا خدائے تعالیٰ Ú©Ùˆ دیکھ رہا ہے‘ اگر یہ رتبہ حاصل نہ ہوسکے تو Ú©Ù… سے Ú©Ù… یہ تصور تو جمے کہ خدائے تعالیٰ اس Ú©Ùˆ دیکھ رہا ہے اور یہ بات انتہائی درجے Ú©Û’ خلوص Ú©Û’ بعد ہوتی ہے) جیسے صحابہ کرام Ú©Ùˆ حاصل تھا۔

انہیں کی طرح امر معروف اور نہی عن المنکر اس کی عادت ہوجاتی ہے۔

3Û” سنت نبوی Ú©ÛŒ پیروی کرو اور اہل دنیا سے ہمیشہ بچتے رہو‘ اور یہ بات خوب سمجھ لو کہ جو اہل دنیا Ú©Û’ پاس جائے گا وہ ذلیل Ùˆ خوار ہوگا‘ اور جو ان سے دور رہے گا‘ اس Ú©Û’ پاس وہ سب کتوں Ú©ÛŒ طرح دوڑتے ہوئے آئیں Ú¯Û’Û”

4۔ فقر و فاقہ اس طریقہ عالیہ کے لئے لوازمات سے ہے۔

5Û” نکاح اور صحبت اغنیاء مبتدی Ú©Û’ لئے سم قاتل‘ اور فیض Ú©Û’ لئے سد ذوالقرنین ہے۔

6۔ درجۂ کمال کو وہ شخص پہنچے گا جس کو شیخ کامل ملے اور شیخ کامل کے قریب ایک حجرہ ہو اور وہ اس حجرہ میں رات دن ذکر و شغل میں غرق رہے اور بے ضرورت حجرے سے باہر نہ نکلے۔

7Û” یہ جو مشہور ہے کہ امام ربانی قدس سرہ العزیز مسئلہ وحدت الوجود Ú©Û’ منکر تھے‘ بالکل غلط اور سراسر افتراء ہے بلکہ امام صاحب Ù†Û’ یہ فرمایا ہے کہ توحید وجودی منجملہ معارف قلب Ú©Û’ ہے Ú¯Ùˆ اس Ú©Û’ ارباب اہلِ ولایت ہیں لیکن کمال ابھی اس Ú©Û’ اور پرے ہے وہ یہ ہے کہ ان العبد عبد والرب رب (یعنی عبد عبد ہی ہے اور رب رب ہی ہے) کا ظہور ہونے Ù„Ú¯Û’‘ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ علیہم Ú©ÛŒ یہی نسبت تھی۔

8۔ حیات طیبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے کل امور اللہ تعالیٰ کے تفویض کردیں۔ انقلاب احوال کو بیٹھا دیکھا کرے کہ شہنشاہ قادر کس طرح بناتے اور بگاڑتے ہیں او رپھر بگڑے ہوئے اور الجھے ہوئے کو سلجھاتے جاتے ہیں۔ واقعات اور حوادثات کو دیکھے مگر دم نہ مارے اور کبھی چوں و چرا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور اس کے غیبی خزانوں کو یاد کرکے دل کو ہمیشہ قوی کرے اور ہمت دلاے اور اپنی ذات سے اور سارے جہاں سے بالکل مایوس ہوجائے۔

9Û” محبت Ú©ÛŒ علامت یہ ہے کہ کمال رغبت اور نہایت خوشی سے محبوب پر اپنی ساری خواہشات Ú©Ùˆ قربان کردیں۔ جو محبوب Ú©Û’ خلاف کرے اور اس Ú©ÛŒ بلاوں سے بھاگے اور پھر بھی اس سے محبت کا دعویٰ کئے جائے وہ جھوٹا اور مغرور ہے‘ باوجود اس جھوٹی محبت Ú©Û’ یوں سمجھتے ہیں کہ میں محبوب Ú©Û’ پاس مقبول ہوں وہ شقی ہے مہجور ہے۔

10Û” لوگ کہتے ہیں کہ اس طریقہ Ú©ÛŒ تحصیل میں پانچ Ú†Ú¾ سال ہم Ú©Ùˆ مفت ضائع کرنے پڑیں Ú¯Û’‘ پھر یہ بھی نہیں معلوم کہ آخر کار ہوتا کیا ہے اس لئے کہ انجام نامعلوم ہے ‘ کیا معلوم کہ اس مدت میں Ú©Ú†Ú¾ حاصل ہوتا بھی ہے کہ نہیں‘ جو لوگ اس طرح کہتے اور ایسا خیال کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان Ú©ÛŒ تقدیر میں یہ دولت ہی نہیں ہے۔ پانچ Ú†Ú¾ سال خدائے تعالیٰ Ú©ÛŒ یاد میں صرف بخل کررہے ہیں وہ یہ بتائیں کہ ساری عمر کس چیز Ú©Û’ لئے صرف Ú©ÛŒ گئی اور ان Ú©Ùˆ اس سے کیا حاصل ہوا‘ سالک Ú©Ùˆ چاہئے کہ طلب سے ہرگز ملول اور دل تنگ نہ ہوئے‘ سختیاں جھیلے صدمے سہے‘ مگر اس در Ú©Ùˆ نہ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Û’ اور یہ سونچے کہ کوئی سائل اگر کسی کریم Ú©Û’ در پر پڑا رہے تو وہ اس Ú©Ùˆ اپنے در سے محروم لوٹانے سے شرماتا ہے تو بھلا ایسا کریم کہ جس Ú©Ùˆ جو مانگے وہ دینا ایک ٹکڑا روٹی کا دینے سے زیادہ آسان ہے‘ کیا وہ اپنے در سے خالی ہاتھ واپس کرے گا نہیں ہرگز نہیں‘ لیکن سالک Ú©Ùˆ کوشش اور صبر ضرور ہے۔

11Û” دوام ذکر اور صحبت شیخ سے نسبت کا حاصل ہونا لازمی ہے لیکن یہ نسبت Ú©Ú†Ú¾ اس تدریج سے حاصل ہوتی ہے کہ سالک خود اس Ú©Ùˆ نہیں سمجھ سکتا ہے اس Ú©Ùˆ یہی معلوم ہوتا ہے کہ مجھ Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ حاصل نہیں ہوا۔ سالک Ú©ÛŒ مثال بالکل اس شخص Ú©ÛŒ سی ہے جس Ù†Û’ اپنے بچے Ú©Ùˆ خطاطی Ú©Û’ لئے خوش نویس Ú©Û’ پاس بھیجا‘ خوش نویس اس Ù„Ú‘Ú©Û’ Ú©ÛŒ ہر روز Ú©ÛŒ صلاح جمع کرتا گیاچند روز Ú©Û’ بعد اس بچے Ú©Û’ باپ Ù†Û’ خوش نویس سے پوچھا کہ بچہ تو بہت روز سے Ù„Ú©Ú¾ رہا ہے لیکن اب تک اس Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ حاصل نہ ہوا۔ خوش نویس Ù†Û’ اس کا پچھلا مشق جو Ú©Ú†Ú¾ جمع تھا باپ Ú©Û’ سامنے لا رکھا‘ باپ Ù†Û’ دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہر روز Ú©Ú†Ú¾ نہ Ú©Ú†Ú¾ خط سدھر گیا ہے۔ ابتدائی خط Ú©Ùˆ آج Ú©Ù„ Ú©Û’ خط سے Ú©Ú†Ú¾ نسبت ہی نہیں‘ زمین Ùˆ آسمان کا فرق ہوگیا ہے‘ لیکن اس فرق Ú©Ùˆ باپ Ù†Û’ سمجھا نہ بچے Ù†Û’Û” اسی طرح سالک Ú©ÛŒ حالت روز بروز سدھرتی جاتی ہے‘ مگر اس Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ خبر نہیں ہوتی۔ اب رہی یہ بات کہ نسبت بتدریج کیوں حاصل ہوتی ہے ØŸ اس Ú©Ùˆ یوں سمجھو کہ اگر کسی فقیر Ú©Ùˆ کثیر مال بے مشقت مل جائے تو وہ اس Ú©Ùˆ نہایت بے قدری سے اڑا دے گا۔ بخلاف اس Ú©Û’ اگر اس Ú©Ùˆ مال کثیر بتدریج ملے تو وہ اس Ú©ÛŒ قدر کرے گا اور اس سے نفع Ù„Û’ گا۔ اسی طرح اگر بے مشقت ایک دم سے نسبت حاصل ہوگی تو وہ بے قدری سے تباہ کردی جائے گی۔

12Û” قلب Ú©ÛŒ دوا پانچ چیزیں ہیں:Û” تدبر سے قرآن شریف پڑھنا‘ پیٹ Ú©Ùˆ خالی رکھنا‘ قیام لیل‘ سحر Ú©Û’ وقت تضرع کرنا‘ صالحین Ú©ÛŒ صحبت اور ان Ú©Û’ ساتھ مجالسہ کرنا۔

13۔ بندہ کو حق تعالیٰ سے اسی قدر قرب ہوگا جس قدر اس کو خلق سے بُعد ہوگا۔

14Û” اس پر Ú©Ù„ اولیاء اللہ کا اتفاق ہے کہ جس شخص Ú©ÛŒ غذا حرام سے ہوگی‘ وہ الہام اور وسوسہ میں Ú©Ú†Ú¾ فرق نہ کرسکے گا۔

15Û” ذوالنون مصری Ù†Û’ فرمایا ہے کہ لوگوں Ú©ÛŒ حالت میں فساد اور ان Ú©Û’ قلوب ناکارہ Ú†Ú¾ وجہ سے ہوگئے ہیں۔ اعمال آخرت Ú©Û’ لئے ضعف نیت رکھتے ہیں‘ ان Ú©Û’ ابدان شہوات Ú©Û’ لئے رہن ہوگئے ہیں‘ باوجود قرب اجل Ú©Û’ طول امل ان پر غالب ہے‘ مخلوق Ú©ÛŒ رضا Ú©Ùˆ حق Ú©ÛŒ رضا پر ترجیح دے رکھے ہیں‘ اپنے ہوا اور خواہشات Ú©Û’ پیچھے پڑگئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ سنت Ú©Ùˆ پس پشت پھینک دیتے ہیں‘ سلف Ú©ÛŒ تھوڑی سی لغزش Ú©Ùˆ اپنے لئے حجت بناتے ہیں اور ان Ú©Û’ بہت سارے مناقب Ú©Ùˆ دفن کرتے یعنی چھپاتے ہیں‘ اس میں ان Ú©ÛŒ تقلید نہیں کرتے۔

16Û” خواجگان نقشبندیہ علیہم الرحمۃ سے جو فیض لینا چاہے‘ اس Ú©Ùˆ چاہئے کہ ہمیشہ تین باتوں کا لحاظ رکھے۔ جب کوئی ایسا عمل صادر ہو جو ان حضرات کا پسندیدہ ہے تو ہرگز اپنے عمل Ú©Ùˆ نہ دیکھے‘ اور نہ یہ سمجھے کہ میں بھی Ú©Ú†Ú¾ ہوں اور کبھی اپنے میں انانیت نہ آنے دے بلکہ پہلے سے زیادہ متواضع Ùˆ منکسر رہے‘ اگر کوئی ایسے عمل کا مرتکب ہوجائے جس Ú©Ùˆ وہ حضرات ناپسند فرماتے ہیں تو یہ نہ سمجھے کہ میں ان Ú©Û’ پاس مردود ہوگیا ہوں‘ ہرگز مایوس نہ ہو‘ ان Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر کہیں اور نہ بھٹکے ‘ جب وہ کوئی Ø­Ú©Ù… فرمائیں تو نہایت خوش دلی سے عجلت Ú©Û’ ساتھ اس Ú©ÛŒ تکمیل کرے‘ اسی سے مقصود ملے گا۔

17۔ جو شخص نماز تہجد میں سورہ ےٰسین پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد دعا کرے تو وہ دعا مقبول ہوتی ہے۔

18۔ ایک روز آپ نے وہ خمیسہ نہایت ذوق و شوق سے ارشاد فرمایا جس کو حضرت خالد نے حاجی رحمۃ اللہ علیہ کے شعر پر تضمین فرمایا ہے

گرچہ در صورت ذرات جہاں جلوہ گری

گاہ در حور نمایندہ وگہ در بشری

اگرچہ ظاہر اسارے جہاں Ú©Û’ ذرہ ذرہ میں آپ جلوہ گر ہیں‘ کبھی آپ حور میں دکھائی دیتے ہیں تو کبھی انسان میں

لیک چوں ذات تواز رنگِ حدوثت بری

نہ بشر خوانمت اے دوست نہ حور و نہ پری

لیکن جبکہ آپ کی ذات حدوث کے رنگ سے خالی ہے اور پاک ہے تو اس لئے اے دوست نہ آپ کو بشر کہتا ہوں نہ حور و پری

ایں ہمہ برتو حجابست و چیزے دگری

یہ تمام چیزیں آپ پر پردہ بنے ہوئے ہیں اور آپ کچھ اور ہی ہیں

19Û” ایک روز آپ Ù†Û’ فرمایا مولانا حمیدا لدین صاحب نزع Ú©ÛŒ حالت میں تھے ان Ú©Û’ صاحبزادے مولانا حسام الدین Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ دیکھا کہ وہ نہایت پرشوق Ùˆ مضطرب ہیں۔ عرض کیا ابا جان اس وقت آپ مضطرب کیوں ہیں؟ آخر اس اضطراب Ú©ÛŒ وجہ کیا ہے؟ مولانا حمید الدین صاحب Ù†Û’ کہا بیٹا کیا کہوں اس وقت مجھ سے وہ چیز مانگتے ہیں جو نہ میرے قبضہ Ùˆ ملک میں ہے نہ میں Ù†Û’ اس Ú©Û’ حصول کا کوئی طریقہ ہی سیکھا ہے۔ اس وقت قلب سلیم کا مطالبہ ہورہا ہے کیا کروں کہاں سے انہیں لادوں۔ مولانا حسام الدین Ù†Û’ عرض کیا ابا جان تھوڑی دیر قلب سے میری طرف متوجہ ہوجائیے‘ یہ کہہ کر آپ Ù†Û’ اپنے والد Ú©Ùˆ بہت ہی زور Ú©ÛŒ توجہ دی‘ ایک گھنٹہ Ú©Û’ بعد مولانا حمید الدین صاحب Ù†Û’ اپنے قلب میں نہایت ہی اطمینان Ùˆ سکینہ پایا فوراً آنکھیں کھول دیں اور کہا بیٹا تم Ú©Ùˆ خدا تعالیٰ جزائے خیر دے‘ افسوس میں Ù†Û’ اپنی عزیز عمر بے قدری سے ضائع کردی۔ مجھ Ú©Ùˆ چاہئے تھا کہ اپنی ساری عمر اس پیارے طریقہ Ú©ÛŒ تحصیل میں صرف کردیتا۔ خیر جو ہوا سو ہوا اب خدا کا شکر ہے اور ہمارے صالح اولاد Ú©Û’ خیر Ùˆ برکات ہیں کہ آج ہم نہایت ہی اطمینان سے قلب سلیم لئے ہوئے دنیا سے جاتے ہیں۔

یہ واقعہ سناکر حضرت نے حاضرین کو فرمایا کہ لوگو! حضور قلب کا ملکہ صحت ہی میں حاصل کرلو ورنہ جب مرض الموت میں دماغ اور طبیعت کی ساری قوتیں مضمحل ہورہی ہوں او رہر چیز میں انحطاط اور فتور� آگیا ہو تو ایسے وقت میں بھلا حضور قلب کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے؟ یہ متعذر بلکہ نامکن ہے۔

یہ نمونہ ہے آپ کے سودمند نصائح کا۔ یہ ناچیز اسی دردولت کا ادنیٰ خادم ہے۔ میں نے اپنے کسی دینی بھائی کو ایک خط لکھا ہے اور اس میں قلب کی بگڑی ہوئی حالت سدھرنے کے لئے نو تدبیریں بتلائی ہیں۔ گو اس خط کی عبارت او رمضامین میرے ہی ہیں مگر حقیقت میں وہ خط میرے آقا ہی کی مشعل معرفت و سراج حقیقت سے سلگایا ہوا چھوٹا سا چراغ ہے۔ اس لحاظ سے اس خط کو بیسویںنصیحت یا انیسویں نصیحت کی شرح یا قلب سلیم کی تفسیر کہنا بے جا نہ ہوگا۔ اس لئے وہ خط ذیل میں ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے۔

برادر دینی و محب راہ یقینی جعل اللہ قلوبنا و قلوبکم سلیمۃً

السلام علیکم Ùˆ رحمۃ اللہ Ùˆ برکاتہ ‘ میرے نام آیا ہوا آپ کا خط اس وقت میرے سامنے رکھا ہوا ہے آج تک اس کا جواب نہ دے سکا‘ اب اس Ú©Û’ جواب Ú©Û’ پیرایہ میں Ú©Ú†Ú¾ اپنے دلی خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں سنو اور بغور سنو اور اس پر عمل کرنے Ú©ÛŒ کوشش کرو۔

�

�

نصیحت گوش کن جاناں کہ از جاں دوست تردارند

جوانانِ سعادت مند پند پیر دانارا

ہماری نصیحت سنو! عزیزو ‘ سعادت مند نوجوان پیر دانا Ú©ÛŒ نصیحتوں Ú©Ùˆ جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ ہم Ú©Ùˆ نلدرگ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Û’ ہوئے ایک زمانہ ہوگیا وہاں آنے Ú©Ùˆ ہر چند جی چاہتا تھا پر قدم نہ اٹھتا تھا‘ نہ اٹھے بجائے ہمارے کوئی شاعر ہوتا تو اس کا بار فلک کج رفتار Ú©Û’ سر تھوپتا لیکن ہم تو ÚˆÙ†Ú©Û’ Ú©ÛŒ چوٹ ہانکے پکارے کہہ دیتے ہیں�� Ø‚

چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے جفاکاری میں

کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں

ہاں خوب یاد آیا ہم Ú©Ùˆ رسمی طور پر آپ Ú©ÛŒ مزاج پرسی کرنی چاہئے تھی مگر یہ صرف ظاہر داری ہے چنداں اس سے دلچسپی نہیں ‘ آئیے تھوڑی دیر Ú©Û’ لئے اصلاح قلب Ú©Û’ تدابیر سونچیں۔

پہلی تدبیر:

دنیا Ú©ÛŒ بے ثباتی اور اس Ú©ÛŒ ناپائیداری Ú©Ùˆ نظر عبرت سے دیکھا کرو‘ دنیا بے گھروں کا گھر ہے یہ دار فانی گذشتی اور گذاشتی ہے۔ اس کا دادا پرلے درجہ کا احمق ہے۔ کیسے کیسے سلاطین نامدار شاہان Ø°ÛŒ الاقتدار کہ جن Ú©Û’ رعب Ùˆ داب کا سکہ ایک جہاں پر جما ہوا تھا اور روئے زمین پر جن Ú©ÛŒ دھاک بیٹھی ہوئی تھی آج وہ کس بے بسی اور کسمپرسی Ú©Û’ عالم میں Ù¾Ú‘Û’ ہوئے ہیں۔ اف اس بے وفا دنیا Ù†Û’ ان بیچاروں Ú©Ùˆ کیسے کیسے سبز باغ دکھلاکر بھلاوا دے کر زیر زمین سلادیا۔ پھر بھی اس Ú©Ùˆ ان حرمان نصیبوں پر Ú©Ú†Ú¾ ترس نہ آیا۔ آئندہ نسلوں Ú©ÛŒ عبرت Ú©Û’ لئے بے تاج Ùˆ تخت‘ فرش خاک پر زیر زمین Ù¾Ú‘Û’ ہوئے بادشاہوں پر مٹی کا ایک ڈھیر لگاکر قبر Ú©Û’ نام سے مشہور کیا گیا۔ ہائے اس جفاکر دنیا Ù†Û’ اپنے ظلم Ú©Û’ ہوا Ú©Û’ جھونکوں سے اس تودہ خاک Ú©Ùˆ اڑاکر بے نشان ہی بناکے چھوڑا

نہ گور سکندر نہ ہے قبردارا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

آہ آہ! آپ Ù†Û’ نہ ایسا ظالم کہیں دیکھا ہوگا نہ سنا ہوگا‘ کروڑوں خانماں برباد ہوگئے‘ ان بیچاروں کا کوئی نام لیوا نہیں رہا۔ اگر کہیں ان Ú©ÛŒ نسل میں کہیں جیتی جاگتی نشانی بھی ہے تو اوروں Ú©Û’ دروں پر بھیک مانگتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ شعر

اللہ رے فلک کی تلون مزاجیاں

رکھتا نہیں کسی کو کبھی ایک حال پر

او بے وفا دنیا! کیا کوئی اپنے دوستوں Ú©Û’ ساتھ ایسا ہی سلوک کیا کرتا ہے جیسا کہ تو Ù†Û’ کیا‘ کیسے کیسے مہ جبینوں Ú©Ùˆ تو Ù†Û’ خاک میں ملادیا‘ ان Ú©ÛŒ اٹھتی ہوئی جوانی پر بھی تجھے Ú©Ú†Ú¾ رحم نہ آیاان کا نہ چھپنے والا حسن ‘ ان Ú©ÛŒ ٹوٹی پھوٹی قبروں سے Ù†Ú©Ù„ Ù†Ú©Ù„ کر اپنے دیکھنے والوں Ú©Ùˆ آٹھ آٹھ آنسو رلارہا ہے ادھر زلفوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے تو ادھر کا کلوں کا ‘ ان کا نازک نازک کلائیاں اور ان Ú©Û’ سارے جوڑ بند ایک دوسرے جدا ہوکر کہیں Ù¾Ú‘Û’ ہوئے ہیں‘ ان کا نرم Ùˆ نازک جسم Ú©Ùˆ جس Ú©Ùˆ پھولوں Ú©ÛŒ سیج اپنی کرختگی Ú©ÛŒ وجہ سے اٹھا اٹھا کر بار بار بٹھا دیا کرتی تھی آج وہ مور Ùˆ مار Ú©ÛŒ غذا بن رہا ہے یہ بیچارے اگر تیرا Ú©Ú†Ú¾ کر نہ سکے تو کیا عجب ہے کیونکہ ازل Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ کسی Ú©Û’ مقابلہ Ú©Û’ لئے پیدا ہی نہیں کیا گیا۔ ہاں تعجب ہے تو ا س بات کا ہے‘ حیرت ہے تو اس Ú©ÛŒ ہے کہ کیسے کیسے شہ زور� ............ شیردل نامور بہادروں Ú©Ùˆ تو Ù†Û’ نیچا دکھا Ú©Û’ چھوڑا۔ عرب سے رجم تک جن Ú©ÛŒ شجاعت کا شہرہ تھا۔ ایک زمانہ جن کا لوہا مان لیا تھا ہائے وہ آج سب Ú©Ú†Ú¾ سمجھتے ہیں کہتے ہیں‘ سنتے ہیں مگر چند لمحے بھی گزرنے نہیں پاتے کہ جو Ú©Ú†Ú¾ کہا سنا تھا عمر بے لقا Ú©ÛŒ طرح ملیا میٹ ہوا جاتا ہے‘ پھر وہی ہم ہیں او روہی ہماری قدیم غفلت‘ اس اندھیر کا کہنا۔ خیر اب

تک زمانہ جس طرح گزرا گزرا‘ اب تو ہم Ú©Ùˆ سنبھلنا چاہئے او ردنیا Ú©ÛŒ Ú©ÛŒ بے ثباتی اور اس Ú©Û’ نشیب Ùˆ فراز Ú©Û’ خیالات Ú©Ùˆ اپنے دل Ú©Û’ آغوش میں محبت Ú©Û’ ساتھ اس طرح پالیں کہ ایک لحظہ نظروں سے اوجھل نہ ہو۔

دنیا نہیں کسی کی ہمیشہ قیام گاہ

جو ہے یہاں وہ تیر قضا کا نشانہ ہے

دنیا میں کوئی داغ سے خالی جگر نہیں

بے داغ چرخ پر بھی تو روشن نہیں

دنیا نہیں ہے کچھ بھی جو دیکھا بہ چشم غور

اس پر وہ مبتلا ہے کہ جس کو نظر نہیں

دوسری تدبیر

ظلمات نفسانیہ Ùˆ کدورت طبیعہ کا ازالہ اور قلب Ùˆ روح Ú©Ùˆ حق تعالیٰ Ú©Û’ ساتھ ایک خاص نسبت کا پیدا ہونا اور اسرار Ùˆ علوم شریفہ کا القاء خدائے تعالیٰ Ú©Û’ ذکر Ú©ÛŒ مواظبت اور ریاضت Ùˆ مجاہدات Ú©ÛŒ کثرت پر ‘ اور عام مخلوق سے دور رہئے اور خلوت اختیار کرنے پر موقوف ہے۔ حضرت حامی رحمۃ اللہ علیہ Ù†Û’ جو وصیت Ú©ÛŒ ہے وہ بھی اسی Ú©Û’ قریب قریب ہے آپ Ù†Û’ فرمایا کہ خدائے تعالیٰ سے سب Ú©Ú†Ú¾ ہوسکتا ہے پر تجربہ Ú©ÛŒ بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کا دوست او راس کا ولی ہونا بے ان چار چیزوں Ú©Û’ ذرا غیر ممکن ہے اگر کسی Ú©Û’ دل میں خدائے تعالیٰ Ú©Û’ دوست بننے Ú©ÛŒ گدگدی سی Ù„Ú¯ÛŒ ہو تو اس Ú©Ùˆ ان چار چیزوں پر جان توڑ کوششوں سے عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ایک تو عزت Ùˆ گوشہ نشینی کہ جس Ú©ÛŒ بدولت انسان بہت سارے گناہوں سے بچ سکتا ہے۔ یہ اس کا ادنی نفع ہے اور دوسرے خاموشی‘ اس Ú©Û’ متعلق کسی Ù†Û’ کیا خوب کہا ہے ‘ بغیر Ú©Ú†Ú¾ کہے Ú©Û’ کسی Ú©Ùˆ ہم Ù†Û’ پچھتاتے ہوئے نہیں دیکھا ہے اور جب دیکھا ہے تو کہنے Ú©Û’ بعد ہی اپنی کہی ہوئی بات پر نادم ہوکے پچھتاتے ہوئے پایا ہے۔ تیسرے جوع یعنی اکثر روزہ رہا کرے اور جب کھائے تو کسی قدر عادت سے Ú©Ù… کھائے۔ اشعار

اندرون از طعام خالی وار

تادر و نور معرفت بینی

اپنے اندر کو کھانے سے خالی رکھ

تاکہ تو اس میں نورِ معرفت دیکھے

تہی از حکمتی بہ علت آں

کہ پری از طعام تا بینی

حکمت سے تو اس وجہ سے خالی ہے کہ ناک تک تو نے پیٹ کو کھانے سے بھر دیا ہے۔

چوتھے سحر یعنی شب بیداری

ہر گنج سعادت کہ خداداد حافظ

ازین دعائے شب ودرد سحری بود

اللہ تعالیٰ نے حافظ کو معرفت کے جو خزانے دیتے ہیں۔ وہ راتوں کی دعاؤں اور پچھلی رات کے وظیفوں کی برکت سے دیا ہے۔

خواب و خورت ز مرتبہ عشق دور کرد

انگہ رسی بدوست کہ بے خواب و خورشوی

کھانا اور سونا تجھ کو مرتبہ عشق سے دور ڈالا ہے اللہ کی قربت تجھ کو اسی وقت حاصل ہوگی جبکہ تو زیادہ کھانا اور سونا چھوڑدے

تیسری تدبیر

حق تعالیٰ نے تین چیزوں کو تین چیزوں میں پوشیدہ کر رکھا ہے۔

������� (1)اپنی رضامندی Ú©Ùˆ اپنی اطاعت میں چھپایا ہے لہٰذا کسی طاعت Ú©Ùˆ حقیر نہ سمجھے‘ شائد رضائے الٰہی اسی میں ہو۔

������� (2) اپنی ناراضگی کو اپنی نافرمانی میں مخفی کردیا ہے اس لئے کسی نافرمانی کو تھوڑی نہ سمجھنا چاہئے کیونکہ شائد اللہ پاک کا قہر و غضب اسی نافرمانی میں ہو۔

�(3) اپنی ولایت کو اپنے بندوں میں پوشیدہ کررکھا ہے۔ لہٰذا اس کے بندوں میں کسی بندے کو حقیر نہ سمجھنا چاہئے کیونکہ شائد اللہ تعالیٰ کا ولی وہی ہو۔

�

�

چوتھی تدبیر

حضرت مرشدی روح اللہ روحہ و نور ضریحہ (اللہ تعالیٰ ان کی روح کو منور کردے اور ان کی قبر شریف کو نور سے بھردے) نے مجھ سے بارہ فرمایا ہے کہ مرید کو چاہئے کہ اپنے مرشد سے نہایت خلوص اور صدق دل سے محبت رکھے۔

�ربط القلب بالشیخ بالمودۃ والاخلاص -

یعنی مرشد Ú©Û’ ساتھ دلی محبت رکھتا شرائط سلوک سے ہے اور مرشد Ú©ÛŒ صورت Ú©Ùˆ ہمیشہ نظروں Ú©Û’ سامنے رکھے۔ الشیخ فی قومہ کا لنبی فی امتہ یعنی مرشد اپنے مریدوں میں ایسا ہی ہے جیسے نبی اپنی امت میں اور یہ حدیث مرصاد العباد ہے میں ہے اور علماء امتی کانبیآء بنی اسرائیل سے بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے میں Ù†Û’ حضرت سے ایک روز یہ بھی سنا ہے کہ جو فقیر شرع کا پابند اور صاحب درود ہو‘ اس Ú©ÛŒ صحبت اور خدمت Ú©Ùˆ غنیمت جانو او رسچے دل سے اس Ú©Û’ ساتھ محبت رکھو‘ اس لئے کہ کونو مع الصادقین جو حق تعالیٰ کا فرمان ہے سچ ہے‘ اچھوں Ú©ÛŒ صحبت ضرور Ú©Ú†Ú¾ رنگ لائے Ú¯ÛŒ‘ اس وجہ سے قرآن مجید اورحدیث شریف نہایت ہی پر اثر الفاظ میں نیک صحبت اورکی رغبت دلارہے ہیں۔ شعر

باعاشقاں نشیں و غم عاشقی گریں

باہر کہ نیست عاشق کم کن از وقریں

عاشقوں Ú©Û’ ساتھ بیٹھا کرو اور عشق اپنے اندر پیدا کرو‘ جو عاشق نہیں ہے اس Ú©Û’ پاس مت Ù¾Ú¾Ù¹Ú©ÙˆÛ”

اگر بظاہر مرشد سے کسی Ú©ÛŒ دوری ہوگئی ہو تو Ú©Ú†Ú¾ مضائقہ نہیں ‘ مرشد Ú©ÛŒ صورت کاتصور جمانا اور ان Ú©Û’ بتلائے ہوئے وظیفہ پر مداومت کرنا ان Ú©ÛŒ جسمانی صحبت کا مزہ دے جاتا ہے۔

پانچویں تدبیر

ان کتابوں Ú©Û’ جن Ú©Û’ اوراق میں اولیاء اللہ Ú©ÛŒ مقدس سوانح عمریاں Ú†Ú¾Ù¾ÛŒ ہوتی ہیں اور بات بات میں اپنے دیکھنے والوں Ú©Ùˆ تڑپا دیتی ہیں‘ ان Ú©Ùˆ ضرور دیکھا یا سنا کرو۔ ایسی ہی کتابوں Ú©ÛŒ بدولت اطاعت Ú©ÛŒ ہمت اور ریاضت Ú©ÛŒ رغبت دن دونی رات Ú†ÙˆÚ¯Ù†ÛŒ ہوجاتی ہے۔ عبادت میں کامل نام Ú©Ùˆ بھی پاس نہیں آنے پاتی۔ کیسی ہی مصیبت کیوں نہ آجائے اس میں نہایت صبر Ùˆ استقلال سے کام لیا جائے گا۔ خدائے تعالیٰ Ù†Û’ بزرگوں Ú©Û’ احوال Ú©Ùˆ دنیا Ú©ÛŒ محبت دلوں سے Ú©Ù… کرنے اور نفس Ú©Ùˆ رزایل بشری سے پاک Ùˆ صاف بنانے میں عجیب اثر رکھا ہے۔ میں نہایت وثوق Ú©Û’ ساتھ آپ Ú©Ùˆ باور کراتا ہوں کہ جب آپ کسی بزرگ کا حال پڑیں Ú¯Û’ تو آپ Ú©Ùˆ ایسا معلوم ہوگا کہ میں اسی بزرگ Ú©ÛŒ حضوری میں حاضر ہوں۔ وہ ارشاد فرمارہے ہیں اور میں سن رہا ہوں اور ان Ú©Û’ فیض کا دریا Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ والوں اور سننے والوں Ú©Û’ دلوں میں موجیں مارتا ہوا امڈتا چلا آئے گا۔ غرض ایسے پُرآشوب زمانہ میں اپنے بیگانوں سے بجز رنج اور غم Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ نہ پائے گا۔

بھاگ ان پردہ فرشوں سے کہاں کے بھائی

بیچ ہی ڈالیں جو یوسف سا براد رہوئے

ہاں آپ کو اگر ایسے دوست کی طلب ہو جو ہمیشہ آپ کا دل بہلاتا رہے اور کبھی آپ اس کی صحبت سے نہ اکتا جائیں تو وہ کتاب ہے وہ ایسی ہی ہے

دریں زمانہ رفیقے کہ خالی از خلل است

صراحیٔ مئے ناب و سفینۂ غزل است

اس فتنہ Ú©Û’ زمانہ میں ایسے جو خرابیوں سے خالی ہوں وہ دو ہیں‘ ایک تو مرشد ہے جن کا دل محبت الٰہی سے بھرا ہوا ہو‘ دوسرے نصیحتوں اور اولیاء اللہ Ú©Û’ احوال Ú©ÛŒ کتابیں۔

چھٹی تدبیر

اگر آپ منزل مقصود تک پہنچنا ہی چاہتے ہوں او رحق تعالیٰ Ú©Û’ مقرب بننے کا شوق آپ Ú©Ùˆ بے چین ہی کررہا ہو‘ اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ اصحابہ وسلم Ú©Û’ دربار میں Ú©Ù„ Ú©Û’ دن آپ سرخ رو جانا چاہتے ہوں تو خدائے تعالیٰ Ú©Û’ ٹھرائے اور خاص Ùˆ عام Ú©Û’ لئے اس Ú©Û’ پسند کئے ہوئے قانون شریعت پر اس طرح جمے رہے کہ کسی مخالف Ú©ÛŒ مخالفانہ تقریر Ú©ÛŒ باد صر صر کا جھونکا آپ پر Ú©Ú†Ú¾ بھی اثر کرنے نہ پائے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ اصحابہ وسلم� پیروی Ú©Ùˆ عبادات اور عادات میں لازم Ùˆ ضروری جانئے‘ شرع کا خلاف کرکے شرع والے Ú©ÛŒ محبت کا دم مارنا

اور ان کے مقرب بننے کی فکریں کرنا مجنونوں کے حرکات سے کچھ کم نہیں۔ اشعار

خلاف پیمبر کسے رہ گزید

کہ ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید

پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا جو خلاف کرے

یاد رکھو کہ وہ منزل مقصود کو ہرگز نہ پہنچ سکے گا

محال است سعدی کہ راہِ صفا

تو آں رفت جزدرپئے مصطفےٰ

سعدی صفائی باطن کا طریقہ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر اگر حاصل کرنا چاہیں تو یہ محال ہے۔

ساتویں تدبیر

عنقریب ہم کو یہاں سے چلنا اور ایک دوسرا ہی عالم بسانا ہے جب تک ہم یہاں رہیں مسافروں کی طرح رہیں اور خدائے تعالیٰ کے سوائے کسی سے دل نہ لگائیں اور جب وقت آجائے تو اس مصیبت کدہ کو اس دار لمحن کو نہایت خوشی سے خیرباد کہتے ہوئے چل کھڑے ہوں۔

دوستی ہر چیز کی رب کے سوائے

سب جہنم تجھ کو پریشانی میں بھائے

عشق اس کا تجھ کو اے درویش بس

کبھی نہ کوئی بات کی تو کر ہوس

آٹھویں تدبیر

ہر حال میں ذکر الٰہی جاری رہے‘ کوئی عمل ذکر سے بہتر نہیں ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ اصحابہ وسلم Ù†Û’ جہاد Ùˆ سخاوت Ú©Ùˆ بھی ذکر Ú©Û’ مقابلہ میں ناچیز ثابت کیا ہے اکثر آپ فرمایا کرتے تھے کہ لوگو! اس کثرت سے اللہ تعالیٰ Ú©Ùˆ یاد کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں۔ خدائے تعالیٰ Ù†Û’ بھی قرآن مجید میں کئی جگہ ذکر Ú©ÛŒ رغبت دلائی ہے۔ ایک جگہ نہایت مختصر الفاظ میں اپنے مقرب بننے Ú©ÛŒ تدبیر سکھلاتی ہے۔ اذکر اسم ربک Ùˆ تبسل الیہ تبتیلا۔ یعنی ہمیشہ اپنے پروردگار کا نام لیتے رہو اور سب سے ٹوٹ پھوٹ کر اسی Ú©Û’ ہو رہو۔ غرض اس قدر ذکر Ú©ÛŒ کثرت Ùˆ مواظبت کیا کرو کہ کسی وقت بھی دل اس سے غافل نہ ہوسکے۔ شعر

مطلب یہ کہ یاد سے غافل نہ ہو کبھی

اس دل رُبا کے ذکر سے بیدار دل رہے

یوں تو ہر Ø°Ú©ÛŒ Ú©ÛŒ یہی شان ہے جس Ú©Ùˆ آپ سنتے ہوئے Ú†Ù„Û’ آرہے ہیں‘ پر صفائی قلب Ú©Û’ لئے مرشد Ú©Û’ بتلائے ہوئے ذکر Ú©Ùˆ خدائے تعالیٰ Ù†Û’ عجب اثر دے رکھا ہے۔ مرشد سے آپ Ú©Ùˆ جو Ú©Ú†Ú¾ پہنچا ہے اس Ú©Ùˆ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں جاری رکھتے اور جب آپ دنیا Ú©Û’ مشاغل سے Ú©Ú†Ú¾ فرصت ملے تو آنکھ بند کرکے مرشد Ú©ÛŒ صورت Ú©Ùˆ پیش نظر جماکے خدائے تعالیٰ Ú©ÛŒ یاد میں ہم تن مشغول ہوجائے۔ا س طرح سے آنکھ بند کئے ہوئے ذکر کنا صفائی قلب Ú©Û’ لئے اکسیر اعظم ہے‘ Ú¯Ùˆ دن کا ذکر بھی مفید ہے پر رات کا ذکر نہایت ہی موثر ہے۔

نویں تدبیر

اگر ہم دل Ú©Ùˆ آہنی آئینہ سے تشبیہ دیں تو Ú©Ú†Ú¾ بیجا نہیں‘ ابتداء تخلیق Ú©Û’ وقت ہمارا دل بالکل آئینہ Ú©ÛŒ طرح پاک اور نہایت شفاف ہے۔ جوں جوں ہم بڑھتے گئے اپنے ہاتھوں سے آپ ہی اس Ú©Ùˆ بگاڑ تے گئے۔ خدائے تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس پاک Ùˆ بے نیاز Ù†Û’ پھر اس بگڑے ہوئے دل Ú©Ùˆ سدھارنے Ú©Û’ بہت سارے اسباب مہیا کر رکھے ہیں۔ اس عالم میں بہت سی ایسی بھی چیزیں ہیں جو دل Ú©Ùˆ بگاڑنے اور اس Ú©Ùˆ سیاہ بنانے میں قوی اثر رکھتی ہیں۔ اس لئے ہم ان دونوں قسموں Ú©Û’ اشیاء Ú©ÛŒ ایک مختصر سی فہرست دیتے ہیں۔ اگر کسی دل میں سچی

طلب ہو تو اس کو چاہئے کہ بری چیزوں سے بچتا اور اچھی چیزوں پر عمل پیرا رہے۔ اس کے بعد آپ چند ہی روز میں دیکھ لیں گے کہ اس کا زنگ آلود دل جام جم بنا ہوا عالم ملکوت کا جلوہ دکھاتا رہے گا۔

دل بگاڑنے والی اور اس کو زنگ آلود بنانے والی اشیاء

معصیت، قوت حرام، حب مال، حب جاہ و حشمت، رشک و حسد، تعصب ناحق، عداوت، تکبر، ریا، بغض و کینہ، دروغ بیانی،� ضحک و قہقہہ، بداخلاقی، غیبت، چغلخور، غصہ، بے مروتی ، زبان سے فحش یا خرافات بکنا، حرص و طمع، بخالت، اپنی آپ تعریف کرنا، کسی سے اپنی تعریف سننے کی خواہش، اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا، غفلت، چاپلوسی و خبت، کسی کو ضرر پہنچنے سے خوش ہونا، تہور، لوگوں کی عیب جوئی، مکر و حیلہ، احکام الٰہی میں گفتگو اور اشتباہ کرنا یا ان کو ہنسی اور دل لگی میں اڑادینا۔

دل کو سدھارنے والی اور اس کو جلادینے والی اشیاء

توبہ، اکل حلال، صدق، مقال، نیکیاں، خاموشی، سخاوت، تواضع، حیا، مخلوق خدا پر شفقت کرنا، عیادت کرنا، ذکر، فکر، طہارت، ہمیشہ باوضو رہنا، نفس کا خلاف کرنا اور اس کی توبیخ کرتے رہنا، ریاضت و مجاہدہ، محاسبہ، مراقبہ، صبر، شکر، خوف خدا، امید رحمت، سوء خاتمہ سے ہمیشہ ڈرتے رہنا، زہد، صدق نیت، اخلاص، قضائے الٰہی پر راضی ہونا، توکل ، قناعت، خویشتن داری، پرہیزگاری، حلم و بردباری، عفو، ثبات و استقلال، شجاعت، کرم، حسن اخلاق، لانبی چوڑی امیدوں کو خیرباد کہہ کے ہر وقت موت کو یاد کرتے رہنا، سکرات کا خیال، قبر کی مصیبتوں کا سما ہمیشہ پیش نظر رکھنا، نکیرین کی ڈانٹ، قیامت کی بازپرس اور اس کے وحشت انگیز منظر کو نہ بھولنا، شوق دیدار و عشق الٰہی اور حضرت رسول مقبول محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم کی محبت واتباع

از طفیل خواجگانِ نقشبند

کارِ دنیا عاقبت مجمودباد

نقشبندی اولیاء کے طفیل سے

دنیا کا انجام خیر پر ہو

میرے اس رسالہ کا نچوڑ اور خلاصہ حضرت جامی علیہ الرحمہ کا یہ شعر ہے۔ اسی شعر پر میں اپنے رسالہ کو ختم کئے دیتا ہوں۔

جامیاؔ واقفِ دم باش عزیزاں رفتند

فکر عقبیٰ بکن آخر کہ تو ہم مہمانی

جامیؔ اپنی ہر سانس ذکر الٰہی میں نکالو۔ نقشبندی اولیاء اللہ جن کا ذکر تم Ù¾Ú‘Ú¾ Ú†Ú©Û’ ہو وہ سب دنیا سے Ú†Ù„ بسے‘ تم Ú©Ùˆ بھی کتنے دن رہنا ہے‘ آخرت Ú©ÛŒ فکر کرو‘ آخر تم بھی تو یہاں مہمان ہو‘ ایک دن تم Ú©Ùˆ بھی Ú†Ù„ بسنا ہے۔

�

�

اللھم اغفر لمولفہ ولوالدیہ ولکاتبہ ولمصححہ و لمن قراء� فیہ ولسائر المسلمین وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین و الصلوٰۃ والسلام علی خیر خلقہ سیدنا محمد و علی آلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین� ۔� آمین

اے اللہ مغفرت فرما اس کتاب کے مولف کی اور ان کے والدین کی اور اس کتاب کے لکھنے والے کی اس کتاب کے تصحیح کرنے والے کی اور جو اس کتاب کو پڑھے ان کی اور تمام مسلمانوں کی آخر کلام ہمارا یہ ہے کہ بہت تعریف اللہ رب العالمین کو سزاوار ہے اور رحمتِ کاملہ اور سلام نازل ہو سب مخلوق سے بہترین ذاتِ مبارک پر جن کا نام مبارک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ان کے تمام آل و اصحاب پر آپ کی رحمت کے طفیل سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

www.ziaislamic.com

�

�

�