Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

News

وباکے دور میں سماجی فاصلہ (سوشل ڈسٹنسنگ)بنائے رکھنا‘حدیث شریف سے ثابت


وباکے دور میں سماجی فاصلہ (سوشل ڈسٹنسنگ)بنائے رکھنا‘حدیث شریف سے ثابت

بلاتفریق مذہب ‘انسانیت کی بنیاد پر ہرایک کی مدد کریں۔ مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی حیدرآباد کا آن لائن خطاب

محقق مسائل جدیدہ حضرت مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی صاحب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد، وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر نے ’’کرونا وائرس‘ایک تنبیہ اور درس عبرت ‘‘کے عنوان پرآن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے،بندوں پر نوازشات کی پیہم بارش کرتاہے،نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے،انعام واکرام سے نوازتاہے تا کہ خوش حالی اور نعمتوں میں بندے اس کی شکرگزاری کرتے رہیں، اورانہیں تکالیف و آزمائش،بیماریوں اور مصائب سے گزارتا ہے تا کہ بندے ایسے حالات میں اپنے خالق ومالک کی بارگاہ میں رجوع ہوں،توبہ واستغفار کریں۔

سورۃ الاعراف کی آیت نمبر168میں ہے:" وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ"۔

ترجمہ:اور ہم نے انہیں خوشحالیوں اور بدحالیوں سے آزمایا؛تاکہ وہ لوٹ آئیں۔اللہ تعالی نے قرآن کریم میں سابقہ امتوں کے احوال بیان کرکے سمجھایا کہ تکلیف اور مصیبت کے وقت بارگاہ ایزدی سے کٹنا نہیں چاہئے بلکہ اسی کی طرف رجوع ہوں اور توبہ واستغفار کیا جائے۔مصیبتوں میں کترانا ، نعمتوں پر اترانا‘ مومن کا شیوہ نہیں۔

 

زمین پرجب ظلم واستبداد،سرکشی وعناداوربے حیائی وعریانیت عام ہوجاتی ہے،لوگوں کے ساتھ نارواسلوک کیا جاتا ہے تو قدرت کا قہر نازل ہوتا ہے۔سابقہ امتوں پر مختلف قسم کے عذاب آئے،ان پر خسف ومسخ کا عذاب آیاکہ کسی کو زمین میں دھنسادیا گیا تو کسی کے چہرے بدل دئے گئے،بندے جس قدر گناہوں میں عجلت کرتے ہیں اگر اللہ تعالی عذاب میں بھی عجلت فرمائے تو زمین پر کوئی زندہ نہیں رہ سکتا۔ گناہوں کی کثرت کے باوجوداس امت پر مجموعی طور پر عذاب اس لئے نہیں آتا کہ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا واسطہ موجود ہے۔

مسلمان ہر حال میں اللہ تعالی پرتوکل کرے،اس کے ہرفیصلہ پر راضی رہے،یقینا صحت وتندرستی ایک عظیم نعمت ہے لیکن بندۂ مومن کے لئے بیماری بھی رحمت اور گناہوں کا کفارہ ہے۔

احتیاطی تدابیر اوراسباب اختیار کرنا ،حفاظتی اقدامات کرناتوکل کے خلاف نہیں۔حکومت اور وزارت صحت کی جانب سے دی گئی ہدایات پر عمل کیا جائے۔لاک ڈاؤن کے دوران گھروں پر ہی رہیں۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم سنو کہ کسی مقام میں طاعون پھیل گیا ہے تو تم اس طاعون زدہ مقام میں نہ جاؤ اور جس علاقہ میں تم ہو وہاں اگر طاعون آگیا ہے تو اس مقام سے مت نکلو!۔(بخاری ومسلم)۔

مسلمان پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اللہ تعالی کے حکم کے بغیر کوئی چیز اثرانداز ہوسکتی ہے اور نہ ہی کوئی بیماری آسکتی ہے۔اس اعتقاد کے ساتھ مسلمانوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے،حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہو آلہ وسلم کی خدمت بابرکت میںبنی ثقیف کا ایک وفد آیا،اس میں ایک جذامی صاحب تھے،آپ نے اس جذامی صاحب سے غائبانہ بیعت لی،اور احتیاط کا طریقہ بتلایا۔آج وزارت صحت کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ کروناوائرس کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ سماجی دوری (سوشل ڈسٹنسنگ)رکھی جائے،جبکہ یہ احتیاطی تدبیرحدیث شریف سے ثابت ہے،آپ ؐنے ارشاد فرمایا:تم جذامی (متاثرہ شخص)پرمسلسل نظر مت ڈالو،جب تم ان سے گفتگو کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک یا دو نیزوں کا فاصلہ رہے۔وباکے دور میں متاثرہ شخص سے سماجی دوری بنائے رکھنا حدیث شریف سے ثابت ہوتا ہے۔

طب اور سائنس کی بے مثال ترقی کے سبب جو لوگ اپنے زعم میں نہ جانے کیا کیا کہہ رہے تھے ’کروناوائرس‘‘نے سب کو اضطراب و بحران میں مبتلا کر دیا ہے،طب کے سارے ماہرین سرجوڑ کر اس کا ویکسین تیار کرنے کی کوشش کے با وجود تا حال اس کا کوئی ویکسین تیار نہ کر پائے،کرونا وائرس نے غفلت میں ڈوبی ہوئی دنیا کو متنبہ کردیا کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انسان خدا کی قدرت کے آگے مجبور ہے۔کرونا وائرس کو آج لاعلاج بیماری سمجھا جارہا ہے،لیکن یہ بات یاد رکھی جائے کہ اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دوا اور شفا رکھی ہے،تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام کے نظام کو چیالنج کرنے والے بھی آج اسلام کی عظمت کا اعتراف کررہے ہیں۔آج ڈاکٹرس اور ماہرین طب وہی مشورہ دے رہے ہیں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا۔

ان تمام چیزوں پر پابندی عائد کی جارہی ہے جس کو اسلام نے پہلے ہی سے حرام کررکھا ہے۔اسلامی نظام پر اگر غور کیا جائے تو پتا چلے گا کہ اسلام نے جن چیزوں کوحرام قرار دیا ہے ان کا استعمال یا تو جسم کے لئے ضرررساں ہے،یا روح کے لئے نقصاندہ ہے،یا اخلاق کو بگاڑنے والا ہے یا عقل میں خرابی پیداکرنے والا ہے۔

جسم،روح،عقل اور اخلاق کو نقصان پہنچانے والی تمام چیزوں سے ہمارے آقا علیہ السلام نے منع کیا ہے۔جو لوگ جنسی بے راہ روی کا شکار تھے،بے حیائی کو فروغ دے رہے تھے،’’میراجسم میری مرضی‘‘کے نعرے لگارہے تھے ’’کروناوائرس‘‘ایک چیالنج اور قدرت کی طرف سے ایک جواب بن کرآیا ہے۔اجنبیوں کے ساتھ بے محابا گفتگوکرنے والے ،نامحرموں سے معانقہ کرنے والے آج ہاتھ ملانے سے کترارہے ہیں۔

اسلام میں پاکی کی بڑی اہمیت ہے،پاکیزگی کو عبادات کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ایک وقت تھا کہ لوگ اسلام کے نظام طہات پر حرف گیری کرتے تھے لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ سینیٹائزر استعمال کیا جارہا ہے، دن میں کئی مرتبہ ہاتھ ،منہ دھونے کی تلقین کی جارہی ہے؛جبکہ اسلام میں طہارت کا باقاعدہ ایک نظام ہے،اسلام کی ہر چھوٹی بڑی کتاب میں پاکی کا بیان ہے،اسلام میں وضو مقرر کیا گیا ہے،اور ہر نماز کے لئے نیا وضو کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، کم از کم پنج وقتہ نمازوں کے لئے بھی وضو کیا جائے تو دن میں پندرہ مرتبہ ناک صاف کرنے،کلی کرنے اور ہاتھ دھوتے رہنے سے کیا کوئی جراثیم باقی رہ سکتے ہیں؟

ڈاکٹرس،طبی عملہ اور حکومت کی محنت قابل ستائش ہے،انسانیت کے تئیں کی جانے والی خدمات قابل قدر ہیں۔ شدید مرض کے سبب کسی سے نفرت نہ کی جائے ،کرونا وائرس کے سبب انتقال کرنے والوں کو برا اور حقیر نہ جانیں،اور نہ ہی انہیں منحوس سمجھاجائے،اللہ تعالی بیماری کے ذریعہ بندہ کو گناہوں سے پاک کردیتا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جوکوئی تمہیں ،وباء ،سزا،بیماری لاحق ہوتی اللہ تعالی اس کوتمہارے لئے گناہوں کا کفارہ بنادیتا ہے۔اللہ تعالی بڑا بردبار ہے کہ اس دنیوی آزمائش کے بعد دوبارہ پھراسے آخرت میں سزا دے۔اللہ تعالی جسے دنیا میں معاف کردے اللہ کرم والا ہے کہ آخرت میں بھی معاف فرمادیگا۔

اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ بے احتیاطی کی جائے، احتیاط کرنے کے باوجود اگر بیماری لاحق ہوجائے تو گناہوں کا کفارہ قرار پائے گی۔بے احتیاطی کرنے والے اللہ تعالی کے پاس جوابدہ ہوں گے۔

اس کٹھن گھڑی میں قوم کے سرمایہ داروں کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ غرباء کی مدد کریں،اور ضروری نہیں ہے صرف کھانا ہی کھلایا جائے یا اناج تقسیم کیا جائے؛بلکہ ضرورت مند کی ضرورت کے پیش نظر‘رقم،دوا‘یا جس چیز کی انہیں حاجت ہو‘پوری کرنے کی کوشش کریں۔اس بات کا بھی لحاظ رکھا جائے کہ غربیوں کی مدد کرتے وقت تصویر کشی نہ کی جائے، ان کی عزت نفس کا خیال رکھیں،اس طور پر تعاون کریں کہ سیدھے ہاتھ نے کیا دیا ہے بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے۔علماء کرام وائمہ ومؤذنین کا خیال رکھیں،زکوۃ کی رقم کے علاوہ پاکیزہ مال سے سادات کرام کا بھی تعاون کریں۔بلاتفریق مذہب ومسلک ‘انسانیت کی بنیاد ہر ایک کی مدد کرناچاہئے۔لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں نمازوں اور دعاؤں کا اہتمام کریں، تفسیر،حدیث،سیرت النبی اسلامی کتب کا مطالعہ کریں،اپنے بچے جس مضمون میں کمزور ہوں انہیں تیار کرائیں،ایک بہتر لائحہ عمل بناکر اپنے اوقات کو کارآمد بنائیں۔

نشست کے اختتام پر حضرت ضیاء ملت دامت برکاتہم نے کروناوائرس کی وباسے حفاظت کے لئے رقت انگیز دعاء کی۔