<span lang="AR-SA" style="text-align: right; text-indent: 0.5in; font-size: 22pt;">حضور</span><span lang="ER" style="text-align: right; text-indent: 0.5in; font-size: 22pt;">صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم</span><span lang="AR-SA" style="text-align: right; text-indent: 0.5in; font-size: 22pt;"> علم وحکمت کے معلم اور قاسم۔بارگاہ رسالت میں ادنی گستاخی‘غضب الہی کی موجب</span> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align:right;text-indent:.5in;direction: rtl;unicode-bidi:embed"><span dir="LTR" style="font-size:22.0pt"><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align:right;direction:rtl;unicode-bidi: embed"><span lang="AR-SA" style="font-size:22.0pt">مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی صاحب اور مولانا مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی صاحب کی مخاطبت</span><span dir="LTR" style="font-size:22.0pt"><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align:right;direction:rtl;unicode-bidi: embed"><span dir="LTR" style="font-size:22.0pt"><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align:right;direction:rtl;unicode-bidi: embed"><span lang="AR-SA" style="font-size:22.0pt"> ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر کے زیر اہتمام مسجد ابو الحسنات پھول باغ جہاں نما حیدرآباد میں ’’عظمت مصطفی ‘‘پر توسیعی لکچرس دئے گئے ،اس موقع پر مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی صاحب دامت برکاتہم مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ نے بعنوان’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلممعلم کتاب وحکمت‘‘لکچر دیا۔مولانا نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمعلوم ومعارف کا مبنع اور سرچشمہ ہیں،علم ظاہر وباطن کے وہ بحر بے کراں ہیں کہ ہر اک اس سے سیراب ہوتا ہے۔آپ نہ صرف علم وحکمت کے معلم ہیں بلکہ ان کے قاسم بھی ہیں،آپ ہی کی وساطت سے دنیا کو علم وحکمت کی دولت لازوال ملتی ہے۔مولانا نے کہا کہ سورئہ بقرہ کی آیت نمبر129میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین اوصاف عالیہ کا ذکر جمیل کیا گیا ہے:<o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align:right;text-indent:.5in;direction: rtl;unicode-bidi:embed"><span lang="AR-SA" style="font-size:22.0pt">1)آپ آیات سناتے ہیں،2)کتاب وحکمت سکھاتے ہیں،3)تصرف روحانی سے دلوں کا تزکیہ فرماتے ہیں۔انہوں نے ’’حکمت‘‘کے متعدد معانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہرچیز کو اس کے محل میں رکھنا’حکمت‘کہلاتا ہے۔حکمت کو سنت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور ’’احکام قرآنی کی ایسی تشریح جس سے منشأ ربانی معلوم ہو‘‘حکمت کہا جاتا ہے۔مولانا نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمان علم کے ساتھ حکمت سے بھی آراستہ ہوں اور علم وحکمت کے انوار سے دنیا کو منور کریں۔سورئہ بقرہ کی آیت نمبر269میں فرمایا گیا’جس کو حکمت ودانائی سے نوازا گیا یقینا اس کو خیر کثیر عطا کیا گیا۔اس موقع پر مولانا نے علم وحکمت کے درمیان فرق کو واضح کیااور کہا کہ علم الگ چیز ہے اور حکمت الگ شئی ہے،یہی وجہ ہے کہ اسماء الہیہ میں ’علیم‘کا مستقل ذکر ہے اور’حکیم ‘کا مستقل۔قرآن کریم میں 36مقامات پر اللہ تعالی کے ’علیم‘و’حکیم‘ہونے کا تذکرہ کیا گیا ۔ان کا علحدہ ذکر کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ علم وحکمت دونوں کے درمیان فرق ہے۔دعوت دین وتبلیغ اسلام کا کام حکمت کے ذریعہ ہی کیا جاسکتا ہے،غیر تربیت یافتہ مبلغ‘دشمن سے بھی زیادہ ضرررساں ہوسکتا ہے۔اس موقع پر مولانا نے ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر کی علمی وتحقیقی خدمات کی ستائش کی اور کہا کہ ریسرچ سنٹر‘ملت کی فکری وتعمیری تشکیل میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔<o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align:right;text-indent:.5in;direction: rtl;unicode-bidi:embed"><span lang="AR-SA" style="font-size:22.0pt">’’آداب بارگاہ رسالت‘قرآن کریم کی روشنی میں‘‘عنوان پر لکچر دیتے ہوئے مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی صاحب دامت برکاتہم شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ نے کہا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بارگاہ مصطفی کے آداب مختلف انداز میں بیان کئے ہیں،حاضری کے آداب،کلام کا لہجہ اور گفتگو کا انداز کس طرح ہونا چاہئے ‘بیان فرمایا ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کی معزز ومکرم ہستی کے دربار کے آداب دنیا والے بیان کرتے ہیں لیکن سرورکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی بارگاہ عالی جاہ کے آداب خالق کونین نے بیان کئے ہیں۔اللہ تعالی نے سورئہ حجرات کی پہلی آیت میں اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ کلام میں اور کسی کام میں آپ سے آگے نہ بڑھیں،ارشاد خداوندی ہے؛ترجمہ:اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہو،بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔کوئی اللہ تعالی کے آگے نہیں بڑھ سکتا،اس کے باوجودآیت کریمہ میں اللہ سے آگے نہ بڑھنے کا حکم دیا گیا تاکہ دنیاپر یہ بات آشکار ہوجائے کہ رسول سے آگے بڑھنا اللہ تعالی سے آگے بڑھنا ہے۔اور ’’واتقوا اللہ‘‘(اللہ سے ڈرتے رہو)کے حکم کے ذریعہ آگاہ کردیا گیا کہ بارگاہ اقدس میں کسی قسم کی بے ادبی نہ ہونے پائے۔مفتی صاحب نے کہا کہ قرآن کریم میں نہ صرف‘کلام میں آپ سے آگے بڑھنے سے منع کیا گیا بلکہ گفتگو کا موقع ملنے پر بلند آواز سے کلام کرنے سے بھی منع کیا گیا،اور حکم دیا گیا کہ آواز پست ہو،عامیانہ انداز میں گفتگو نہ ہو،انداز تکلم آداب والا ہو،تکریم وتعظیم کے القاب والفاظ سے شرف کلام حاصل کیا جائے،اور بے ادبی ہونے پر تمام اعمال اکارت کردئے جانے کی وعید سنائی گئی ۔مفتی صاحب نے کہا کہ اللہ تعالی نے بارگاہ اقدس میں اس لفظ کے کہنے پر بھی پابندی عائد کردی جس کا دوسری زبان میں بے ادبی کا معنی نکلتا ہے۔دیگر انبیاء کرام کو اللہ تعالی نے نام لے کر خطاب کیا لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے کر کبھی خطاب نہیں فرمایابلکہ ایسے القاب وکلمات سے آپ کو خطاب کیا جو آپ کی نبوت ورسالت ،عظمت ورفعت پر دلالت کرتے ہیں۔سلام ودعاء پر محفل کا اختتام عمل میں آیا۔مولانا حافظ محمد خالد علی قادری استاذ جامعہ نظامیہ نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔</span><span dir="LTR" style="font-size:22.0pt"><o:p></o:p></span></p> <p class="MsoNormal" dir="RTL" style="text-align:right;direction:rtl;unicode-bidi: embed"><span dir="LTR"><o:p> </o:p></span></p>