<div style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="display: none" id="1167597258719S"> </span><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><span class="mine">شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمۃ والرضوان،بانی جامعہ نظامیہ <br /> حج کرنے کے فضائل اور اس کے ترک کی وعیدیں جو وارد ہیں جن کا ذکر انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ آئے گا‘ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بعضے عبادتیں صرف بدنی ہیں جیسے نماز‘ روزہ وغیرہ اور بعضے صرف مالی جیسے زکاۃ‘ صدقات وغیرہ اور حج دونوں قسم کی عبادتوں کا جامع ہے‘ اس میں مال بھی خاطر خواہ خرچ ہوتا ہے اور سفر کی مصیبتیں بھی جھیلنی پڑتی ہیں‘ سفر گو ایک ایسی مصیبت ہے کہ اس کی وجہ سے چار رکعت کی دو رکعت کردی گئیں جس سے ظاہر ہے کہ وہ باعث تخفیف عبادت ہے‘ اور یہاں سفر ہی عبادت ٹھہرایا گیا‘ ایسی مشقت کی عبادت پر متقضائے رحمت الٰہی یہی تھا کہ اس کا ثواب بھی حد سے زیادہ ہو‘یہی وجہ ہے کہ حج کے بعد آدمی کو اپنی مغفرت کا یقین کرنا چاہئے‘ چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ جو شخص عرفات پر کھڑا ہو یعنی حج کے دن اور اس کے خیال میں یہ بات ہو کہ اس کی مغفرت نہیں ہوئی تو اس سے بڑھ کر گنہگار کوئی نہیں۔<br /> ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ ایک روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضور میں مسجد منیٰ میں بیٹھا تھا کہ دو شخص حاضر ہوئے ایک انصاری اور دوسرا ثقفی‘ دونوں نے سلام عرض کرکے کہا: یا رسول اللہ! ہم آپ سے کچھ پوچھنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں‘ فرمایا: اگر چاہتے ہو تو میں خود کہہ دوں کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو ورنہ تم ہی پوچھو! انہوں نے کہا: حضرت ہی خبر دیں تو بہتر ہے! انصاری نے ثقفی سے کہا کہ تم عرض کرو‘ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ؟ میرے سوالات مع جوابات ارشاد فرمائیے! حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اس غرض سے آئے ہو کہ جب تم اپنے گھر سے بیت اللہ کے ارادے سے نکلو تو اس کا تمہیں کیا نفع ہوگا؟ اور بعد طواف کے دو رکعت پڑھو تو کیا نفع ہوگا؟ اور صفا و مروہ کی سعی‘ عرفات میں عرفہ کے روز کھڑے رہنے کے‘ رمی جمرات‘ قربانی اور طواف زیارت میں کیا کیا فوائد ہیں؟ ان سوالات کو سُن کر انہوں نے کہا: اس خدا کی قسم ہے جس نے آپ کو مبعوث کیا ہے ان ہی سوالات کے دریافت کی غرض سے میں حاضر ہوا تھا‘ پھر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اپنے گھر سے بقصد بیت الحرام نکلتے ہو تو تمہاری اونٹنی ایک ایک قدم اٹھاکر جو زمین پر رکھتی ہے تو ایک ایک نیکی تمہارے لئے لکھی جاتی ہے اور ایک ایک گناہ مٹایا جاتا ہے ‘<br /> پھر طواف کے بعد دو رکعت پڑھو گے تو اس کا ثواب ایسا ہے جیسے تم نے ایک غلام آزاد کیا جو اولاد اسماعیل علیہ السلام سے ہو‘ اور صفا و مروہ کی سعی کا ثواب ستّر غلاموں کے آزاد کرنے کے برابر ہے‘ پھر جب میدان عرفات میں کھڑے ہوتے ہو تو خدائے تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماکر فرشتوں سے بطور فخر فرماتا ہے: دیکھو میرے بندے دور دور سے کیسے پریشان حال میرے لئے آئے ہیں اور ان کا مقصود فقط میری رحمت ہے‘ اگر ان کے گناہ ریگستان کی ریگ کے برابر ہوں‘ بارش کے قطروں کے برابر یا کفِ دریا (جھاگ) کے برابر ہوں تو بھی ان کو میں نے بخش دیا‘ اور ان کو ارشاد ہوتا ہے کہ اب تم لوٹو اس حالت میں کہ تمہاری مغفرت ہوگئی‘ پھر جب تم رمی جمار کرتے ہو تو ایک ایک کنکری کے ساتھ ایک ایک گناہِ کبیرہ جو مہلک ہے بخش دیا جاتا ہے‘ پھر تمہاری قربانی کا ثواب خدائے تعالیٰ کے پاس جمع رہے گا‘ پھر جب تم سر کے بال منڈھواتے ہو تو ایک ایک بال کے بدلے میں ایک ایک نیکی ملتی ہے اور ایک ایک گناہ مٹایا جاتا ہے‘ اور جب بیت اللہ کا طواف کرو تو وہ طواف ایسی حالت میں ہوگا کہ تمہارا کوئی گناہ باقی نہ رہے گا‘ اور ایک فرشتہ کہے گا کہ اب از سر نو عمل شروع کرو تمہارے سب پچھلے گناہ محو ہوگئے۔<br /> اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص خدا کے واسطے حج کرے اور اس میں بیہودہ باتیں اور فسق و فجور نہ کرے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوجائے گا جیسے ابھی پیدا ہوا۔<br /> اور فرماتے ہیں: جو شخص مناسک حج ادا کرے اور مسلمان لوگ اس کے ہاتھ اور زباں سے سلامت رہیں یعنی کسی کو ایذا نہ دے تو جتنے گناہ اس نے کئے سب معاف ہوجائیں گے اور فرماتے ہیں: حاجی جو مانگے اس کی دعا قبول ہے‘ قیامت کے روز وہ اپنی قرابت کے چار سو شخصوں کی شفاعت کرے گا۔<br /> </span></span></span><span style="display: none" id="1167597267244S"> </span><span class="mine"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><center><center><span style="font-size: large"><center><strong>حج کے روحانی فوائد و برکات </strong><br /> حج کی فرضیت میں کئی منافع اور اغراض ہیں‘ منجملہ ان کے عقلی اور ایمانی امتحان بھی ملحوظ ہے کیونکہ نہ عقل قبول کرسکتی ہے نہ ایمان حکم کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ چار دیواری میں اپنی ذات سے رہتا ہو اور وہ اس کا گھر ہو! مگر اس کو ’’بیت اللہ‘‘ کہنا اور اس کا طواف کرنا اور اسی کی طرف سجدہ کرنا ضروری ٹھہرایا گیا۔<br /> اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ اکثر عالی فطرتوں کو خواہش ہوا کرتی ہے کہ مصائب سفر اور مشقتیں اٹھاکر اپنے مالک کی پیشگاہ میں حاضر ہوں اور اپنی عقیدت اور محبت کا ثبوت دیں‘ چونکہ حق تعالیٰ جسمانیت سے منزہ ہے جس کے لئے کوئی مقام ایسا نہیں ہوسکتا جس کی نسبت یہ کہا جائے کہ خدائے تعالیٰ وہاں ساکن ہے‘ اس وجہ سے ان کو اپنا شوق و ذوق ظاہر کرنے کی کوئی صورت نہ تھی‘ رحمت الٰہی نے ان کی تمنا پوری کرنے کی یہ تدبیر کی کہ ایک مقام خاص بنام ’’بیت اللہ‘‘ زمین پر بنایا جائے تاکہ ان جانباز عشاق کی تمنائیں پوری ہوں‘ یہی بات اس حدیث شریف سے مستنبط ہوتی ہے کہ جب آدم علیہ السلام جنت سے اتارے گئے‘ حق تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک گھر زمین پر اتارتا ہوں جس کے گرد طواف کیا جائے گا‘ جس طرح میرے عرش کے گرد طواف کیا جاتا ہے اور اس کے پاس نماز پڑھی جائے گی جس طرح میرے عرش کے نزدیک پڑھی جاتی ہے‘ پھر نوح علیہ السلام کے طوفان کا زمانہ جب آیا تو وہ گھر اٹھالیا گیا‘ اس کے بعد ہر چند کہ انبیاء علیہم السلام اس کا حج کیا کرتے تھے مگر اس کا مقامِ خاص انہیں معلوم نہیں رہتا تھا یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السلام نے وہاں اس کی بنیاد قائم کی۔<br /> اس سے ظاہر ہے کہ جس طرح فرشتوں کے لئے آسمانوں میں عرش ہے‘ انسانوں کے لئے زمین پر کعبہ شریف ہے اور عرش کو جو نسبت حق تعالیٰ کے ساتھ ہے وہی نسبت بیت اللہ کو ہے‘ اگر خدائے تعالیٰ کو کسی مقامِ خاص کی ضرورت ہوتی تو عرش‘ قدیم ہوتا حالانکہ قرآن شریف سے اس کا حادث ہونا ثابت ہے‘ اس سے ظاہر ہے کہ الرحمن علی العرش استوی اور فرشتوں کے عرش کو گھیرے رہنے کی جو خبر دی ہے اس سے بھی اظہار تزک و احتشام اور کرّ و فرِشاہی مقصود ہے۔<br /> <center><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><strong>ادائی حج کے لئے عرفہ‘ مزدلفہ و منیٰ مقرر کرنے کی حکمتیں</strong> </span></span></center><br /> امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ حج کے روز لوگ اس پہاڑ کے پاس (یعنی عرفات میں) کھڑے ہوتے ہیں جو حدِّ حرم سے باہر ہے اور حرم میں نہیں کھڑے ہوتے؟ فرمایا اس لئے کہ کعبہ‘ بیت اللہ ہے اور حرم‘ باب اللہ ‘ جب بندے اپنے خدا کی بارگاہ میں وفد بن کر آتے ہیں تو وہ پہلے دروازے کے باہر کھڑے کئے جاتے ہیں تاکہ نہایت عاجزی اور تضرع کریں‘ پھر اس نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ مشعر حرام کے پاس بھی وقوف ہوتا ہے؟ فرمایا جب اندر آنے کی انہیں اجازت ہوئی تو وہ اندر تو آگئے مگر پھر دوسرے پردے کے پاس یعنی مزدلفہ میں روکے جاتے ہیں تاکہ پھر وہاں تضرع اور عاجزی کریں اور اس کے بعد قربانی گزراننے کی اجازت ہوتی ہے جو باعث تقرب ہے اور وہاں تمام گناہوں اور میل کچیل سے پاک و صاف ہوکر اصلاح وغیرہ بنواکر باطہارت و زینت‘ زیارت کرنے کی اجازت ہوتی ہے (اسی وجہ سے اس طواف کا نام طواف الزیارۃ ہے)‘ پھر اس نے پوچھا ایام تشریق میں روزے کیوں منع کئے گئے؟ فرمایا: اس لئے کہ اُن دنوں لوگ خدائے تعالیٰ کی مہمانی میں ہوتے ہیں اور مہمان بغیر اجازتِ میزبان کے روزہ نہیں رکھ سکتا‘ پھر اس نے پوچھا کہ کعبہ شریف کا پردہ پکڑنے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا وہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص کسی کا قصور کرتا ہے اور جب اس سے ملاقات ہوتی ہے تو اس جرم کی معافی کے لئے اس کا دامن پکڑکر معافی چاہتا ہے۔<br /> غرض کہ حق تعالیٰ نے اس عالم مجازی میں ایک مقام خاص میں دربار کا نقشہ قائم فرمایا تاکہ عشاقِ بارگاہ کبریائی وہاں جاکر اپنے دل کی بھڑاس نکالیں‘ جن لوگوں کو مذاق محبت ہے اور عشق کی چاشنی چکھ چکے ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ اپنے معشوق کی طرف جب کسی چیز کی نسبت ہوجاتی ہے تو اس کے ساتھ ایک خاص قسم کا ایسا تعلق ہوتا ہے جو دوسری کسی چیز سے نہیں ہوتا ‘ چنانچہ مجنوں کا قصہ مشہور ہے کہ لیلیٰ کی گلی سے ایک کتے کو نکلتے دیکھا تو بے ساختہ اس کے قدموں پر جاگرا اور رو رو کر کہنے لگا کہ یہ میری معشوقہ کی گلی کا کتا ہے۔<br /> اب کہئے کہ محبان بارگاہِ الٰہی کا اس گھر کے ساتھ کیسا تعلق ہونا چاہئے جس کو حق تعالیٰ نے اپنا گھر فرمادیا اور تمام دربار داری کے لوازم وہاں قائم کئے؟ اہل ایمان چونکہ محبان بارگاہِ کبریائی ہیں‘ اس بیت اللہ کی عظمت کو اُن ہی کے دل جانتے ہیں دوسرے اس کو کیا جانیں! زیادہ سے زیادہ اگر وہ قدر کریں گے تو آرائش ظاہری کی قدر کریں گے‘ جیسا کہ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: <br /> دیدم بہ در کعبہ دے مغبچہ میگفت<br /> کایں خانہ بدیں خوبی آتشکدہ بایستے<br /> جن کو خدا اور رسول صلی الل&am