<div style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے اس امت کو خیر الامم بنایا اور اپنی بے پایاں رحمتوں اور بیکراں نعمتوں سے سرفراز فرمایا،اور ایسی مقدس راتیں عطا فرمائي جو اپنے خصائص و فضائل، برکات و رحمتوں میں امتیازی شان اور اونچا مقام رکھتی ہیں ،انہيں مقدس ومتبرک راتوں میں شب براءت بھی ہے، ان حقائق کا اظہار02 اگسٹ!2009ء بروزاتوار بعد نمازمغرب مسجد ابوالحسنات پھول باغ میں ہفتہ واری لکچر کے موقع پر حضرت ضیاء ملت مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر نے کیا-<br /> حضرت مفتی صاحب قبلہ نے سلسلۂ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مفسرین وعلماء کی ایک جماعت نے کہا کہ سورہ دخان کی ابتدائي آیات میں جس رات کو" لیلۃ مبارکۃ "کہا گیا اس سے پندرہ شعبان کی شب، شب براء ت مراد ہے،شب براء ت کے فضائل وخصوصیات متعدد احادیث شریفہ میں وارد ہیں چنانچہ سنن ابن ماجہ، مسنداحمد،شعب الایمان وغیرہ میں حدیث پاک ہے،سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ شب براء ت میں بندوں کی طرف مغفرت و رحمت کی تجلی فرماتا ہے اور مشرک و کینہ پرور،بدعقیدہ کے سوا تمام مخلوق کو بخشش عطافرماتا ہے-<br /> اس رات کو شب براءت اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ براء ت کے معنی چھٹکارا پانے کے ہیں اوراس مقدس رات گنہگاروں کو بخشش کا پروانہ ملتاہے، نیک بختوں ،سعادت مندوں اور صالحین کو قرب حق کا مژدہ سنایا جاتا ہے ۔ <br /> الغنیۃ لطالبی طریق الحق میں روایت مذکور ہے ،سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا :شعبان کی پندرھویں رات میرے پاس جبرئیل نے حاضر ہوکر عرض کیا :اے پیکر حمدوثنا !اپنا سرانور آسمان کی جانب اٹھائیے میں نے کہا یہ کونسی رات ہے ،جبرئیل نے عرض کیا اس رات اللہ تعالی رحمت کے تین سودروازے کھولتا ہے اور ہر اس شخص کی بخشش فرمادیتا ہے جس نے اس کے ساتھ کچھ شریک نہ کیا ہوسوائے یہ کہ وہ جادوگر ہویا کاہن ہویا شراب کا عادی ہو یا ہمیشہ کا سود خوار اور زناکار ہو کیونکہ ان لوگوں کو نہیں بخشا جائے گا یہاں تک کہ و ہ توبہ کرلیں ، پھر جب چوتھائی رات ہوئی تو جبرئیل نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا : اے پیکر حمد وثنا!اپنا سرا نور اٹھائیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرانور اٹھایا تو جنت کے دروازکھلے ہیں پہلے دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے اس رات رکوع کیا، دوسرے دروازہ پر ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے اس شخص کیلئے خوشخبری ہے جس نے اس رات سجدہ کیا ،تیسرے دروازہ پر ایک فرشتہ نداءدے رہا ہے بشارت ہے اس شخص کیلئے جس نے اس رات دعاکی ، چوتھے دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے اس رات ذکر کرنے والوں کیلئے مثردہ ہے ، پانچویں دروازہ پر ایک فرشتہ آوازدے رہا ہے خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو اس رات خوف الہی سے روئے ، چھٹے دروازہ پرایک فرشتہ منادی ہے اس رات اطاعت کرنے والوں کیلئے بشارت ہے ، ساتویں دروازہ پر ایک فرشتہ آوازدے رہا ہے کیا کوئی مانگنے والاہے کہ اس کی مانگ پوری کی جائے اورآٹھویں دروازہ پر ایک فرشتہ اعلان کررہا ہے کیا کوئی بخشش کا طلبگارہے کہ اسے بخش دیا جائے ،میں نے کہا اے جبرئیل یہ دروازے کب تک کھلے رہتے ہیں جبرئیل نے عرض کیا رات کے ابتدائی حصہ سے فجر طلوع ہونے تک پھر عرض کیا :اے پیکر حمدوثنا!یقینااس رات اللہ تعالی قبیلۂ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدار بندوں کو دوزخ سے آزاد فرمایاہے۔ سلسلۂ خطاب جاری رکھتے ہوئے حضرت مفتی صاحب قبلہ نے کہا کہ شب براء ت میں اذکار و وظائف، عبادات و تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا احادیث شریفہ سے ثابت ہے چنانچہ ابن ماجہ شریف میں حدیث پاک ہےکہ حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتےہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تو اسکی رات میں قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج ڈوبتے ہی آسمان دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتاہے، اور فرماتاہے کیا کوئی مغفرت کا طلبگار ہے کہ میں اس کو بخشدوں کیا کوئی رزق چاہنے والا ہے کہ میں اس کو رزق عطا کروں کیا کوئی مصیبت کا مارا ہوا ہے کہ میں اس کو عافیت دوں، کیا کوئی ایساہے؟ کیاکوئی ایسا ہے؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو۔ <br /> علاوہ ازیں اس مبارک شب میں زیارت قبور کا بھی اہتمام کیا جائے،احادیث شریفہ میں مزارات کی زیارت سے متعلق عام اجازت کے علاوہ بطورخاص شب براء ت میں زیارت کرنے کا ثبوت ملتا ہے ، جامع ترمذی شریف ،سنن ابن ماجہ شریف ،مسند احمد ،وغیرہ میں حدیث پاک ہے :ام المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ایک رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرہ میں نہ پائی ،میں نے دیکھا آپ بقیع میں تشریف فرما ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں اندیشہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے خیال کیا کہ آپ کسی اور زوجۂ مطہرہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ شب براء ت کو آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے- اس مبارک رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بقیع شریف تشریف لے جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات بھی زیارت قبورمسنون ومستحب ہے۔اور یہ بات حقیقت سے نہایت بعید ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شب براء ت میں صرف ایک بار زیارت قبور کے لیے تشریف لے گئے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے جب بھی حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی باری ہوتی اس رات بقیع شریف تشریف لے جاتے۔ جیساکہ صحیح مسلم شریف،میں حدیث مبارک ہے (حدیث نمبر:974) <br /> یہ بات پوشیدہ نہیں کہ جو عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یا چند مرتبہ فرمایا ہو اس پر امت کی پابندی و مواظبت سے وہ سنت بدعت نہیں ہوتی بلکہ بقدر پابندی عمل کرنے والا اجروثواب کا مستحق ہوتاہے۔</span></span></div>