<div style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">شعبان میں روزہ رکھنا حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہایت محبوب ہے۔ استقبال رمضان کے نام سے 29 یا 30 شعبان کو روزہ رکھنے سے حدیث شریف میں منع کیا گیا۔ چنانچہ جامع ترمذی شریف میں ارشاد مقدس ہے لاتقدموا الشھر بیوم ولا بیومین الا ان یوافق ذلک صوما کان یصومہ احدکم ۔ <br /> ترجمہ : ماہ رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ مت رکھو، مگریہ کہ کوئی شخص کسی دن روزے رکھتا تھااور وہ دن اتفاق سے آخری شعبان کا ہوا تو کوئی حرج نہیں۔(ترمذی ج1،ابواب الصوم ، باب ماجاء فی لا تقدموا الشہربصوم حدیث نمبر: 620، ص147) <br /> اس منع کی علت بیان کرتے ہوئے صاحب مجمع البحار فرماتے ہیں ویستریح قبلہ فیحصل نشاط فیہ وقیل لئلا یختلط النفل بالفرض (مجمع بحار الانوار ج4ص233) <br /> ترجمہ:تاکہ رمضان سے پہلے راحت حاصل ہو اور رمضان میںنشاط باقی رہے اور یہ بھی کہا گیا تاکہ نفل کا فرض سے اختلاط نہ ہو۔ <br /> سب سے افضل روزوں سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا گیا تو فرمایا صیام شعبان تعظیما لرمضان (الغنیۃ لطالبی طریق الحق ج1ص187) <br /> یعنی ماہ شعبان کے روزے رمضان کی تعظیم کی خاطر سب سے افضل روزے ہیں۔ <br /> اور ارشاد فرماتے ہیں من صام اخریوم الاثنین من شعبان غفرلہ۔ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق ج1 ص187)جو ماہ شعبان کے آخری دوشنبہ کو روزہ رکھے اس کے گناہوں کی مغفرت کردی گئی۔ <br /> اس روایت کے تحت حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : <br /> یعنی آخر اثنین فیہ لا اخریوم من الشھر لان استقبال الشھر بالیوم والیومین فیہ منھی عنہ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق ج1 ص187) <br /> یعنی شعبان کا آخری دوشنبہ نہ کہ آخری دن کیونکہ ماہ شعبان کے آخری ایک یا دو دن روزہ رکھ کر استقبال رمضان کرنا ممنوع ہے۔ <br /> حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں کثرت سے روزوں کا اہتمام فرماتے: <br /> ام المؤمنین سید تنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : کا ن رسول اللہ صلی علیہ وسلم یصوم حتی نقول لا یفطر ویفطر حتی نقول لا یصوم ومارأیت رسول اللہ صلی علیہ وسلم استکمل صیام شہر قط الاشہررمضان ومارأیتہ صام فی شہرا کثر من صیامہ فی شعبان(الغنیۃ لطالبی طریق الحق ،ج1،ص186) <br /> حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں روزوں کا اس قدراہتمام فرماتے یہاں تک کہ ہم سمجھتے کہ آپ افطار نہیں فرمائیں گے اورکبھی روزوں کا اہتمام نہیں فرماتے حتیٰ کہ ہم سمجھتے،کہ اب تو روزہ نہیں رکھیں گے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوماہ رمضان کے سوا کسی مہینہ میں کامل روزہ رکھتے نہیں دیکھااور ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزوں کا اہتمام فرماتے نہیں دیکھا۔ <br /> عن عائشۃ قالت :لم یکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی شہر اکثر صیاما منہ فی شعبان لانہ ینسخ فیہ ارواح الاحیاء فی الاموات ،حتی ان الرجل یتزوج وقد رفع اسمہ فیمن یموت ،وان الرجل لیحج وقدرفع اسمہ فیمن یموت۔ <br /> حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے بڑھ کر کسی مہینہ میں کثرت سے روزہ نہیں رکھتے کیونکہ اس میں زندوں کی روحیں انتقال کرنے والوں میں لکھ دی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ آدمی نکاح کرتا جب کہ اس کا نام ان لوگوں میں اٹھالیا ہوتا ہے جوانتقال کرنے والے ہوں گے اور یقینا آدمی حج کرتا ہے جبکہ اس کا نام مردوں میں شمار کیا جاتاہے۔ (ابن مردویہ، ابن عساکر،درمنثور۔سورئہ دخان۔) <br /> عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ کان یصوم شعبان کلہ فسالتہ؟قال ان اللہ یکتب فیہ کل نفس میتۃ تلک السنۃفاحب ان یاتینی اجلی واناصائم۔ <br /> حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکمل شعبان میں روزے رکھتے ۔ میں عرض کیا تو فرمایا اس سال انتقال والے ہر نفس کو اللہ تعالیٰ اس رات میں لکھتا ہے میں چاہتا ہوں کہ میرا وقت وصال بحالت روزہ آئے۔ (ابویعلی ،درمنثور۔سورئہ دخان۔) <br /> مسند احمدوسنن نسائی میںحدیث شریف ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو دیگر مہینوں میں اس قدر روزوں کا اہتمام کرتے ہوئے نہیں دیکھا ،جس قدر آپ شعبان کے مہینہ میں روزے رکھاکرتے ہیں۔ <br /> حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رجب اور رمضان کے درمیان کا یہ وہ مہینہ ہے جس میں لوگ اہتمام نہیں کرتے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں رب العالمین کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں،تو میں یہ چاہتاہوں کہ میں روزہ کی حالت میں رہوں اور میراعمل پیش کیا جائے۔(سنن نسائی ، کتاب الصیام ، باب صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم بأبی ھووامی ،ج1،ص321، حدیث نمبر :2317، مسند امام احمد ، مسند الانصار حدیث نمبر20758) <br /> اورام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میںہے ،آپ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا ،یا رسول اللہ مالی اری صیامک فی شعبان فقال صلی اللہ علیہ وسلم یا عائشۃ انہ شھر ینسخ ملک الموت فیہ اسم من یقبض روحہ فی بقیۃ العام فأنا احب ان لاینسخ اسمی الا وأنا صائم۔ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق ج1ص 187درمنثور ۔سورۃ الدخان۔1) <br /> ترجمہ: یا رسول اللہ !(صلی اللہ علیہ وسلم )میںماہ شعبان میں آپ کے روزے کا اہتمام دیکھتی ہوں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ائے عائشہ !یہ وہ مہینہ ہے جس میں ملک الموت اس شخص کا نام لکھتے ہیں جس کی روح باقی سال میں قبض کی جائے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا نام لکھا جائے اور میں روزہ کی حالت میں رہوں۔ <br /> یاد رکھنا چاہئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ میں روزہ کی حالت میں رہوں اور میرا نام لکھا جائے، دراصل امت کو روزہ کی اہمیت بتانے اور اس کے اہتمام کی ترغیب دینے کی خاطر ہے۔ ورنہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک لکھنا حضرت عزرائیل کے لیے سعادت اور نامۂ اسماء میں لکھا جانا اس نامہ کی فضیلت کی بات ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ رکھنا روزہ کو فضیلت بخشنے کے لیے ہے ورنہ آج بھی غیر مسلم بھوکے پیاسے رہتے ہیں ان کے اس عمل کو نہ روزہ کا نام دیا جاسکتا ہے نہ ثواب کی بشارت اور خود اہل اسلام بھی بلانیت اوقات مقررہ میں بھوکے پیاسے رہیں یا رات میں بھوکے رہیں تو وہ روزہ نہیں بن سکتا کیونکہ جملہ عبادات دراصل سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری اداؤں اور مقدس فرامین کا نام ہے اور روزہ کا عین مقصود شہوتوں کو توڑنا ،شہوات اور نفس کی مخالفت کرناہے۔ <br /> سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یہ ہے کہ انسان کے ساتھ رہنے والا قرین شر بھی آپ کی معیت کی برکت سے آپ کا تابع فرمان ہوگیا،حضور کی نسبت خواہشات کا تصور بھی العیاذ باللہ ایمان کے منافی ہے۔ <br /> حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم حتمی یقینی طور پر اپنے وصال مبارک کا دن ،مہینہ، سال اور تاریخ سب جانتے ہیں اسی لیے آپ کو معاذ اللہ ایسی کوئی فکر لاحق نہیں ہوئی جو عام انسانوں کو اپنی موت کے خوف میں ہوتی ہے،یہ فرمانا صرف وصال حق کے اہتمام اور تعلیم امت کی خاطرتھا،چنانچہ مخبرصادق علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہ کرام کو اپنے وصال کی خبر اشارۃ ًپہلے ہی عطا فرمائے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری شریف کتاب المناقب ج۱،ص ۵۱۶میں ہے عن ابی سعیدالخدری قال خطب رسول اللہ صلی علیہ وسلم الناس وقال ان اللہ خیرعبدابین الدنیاوبین ماعندہ فاختار ذلک العبدماعنداللہ قال فبکی ابوبکر فتعجبنا لبکائہ ان یخبر رسول اللہ علیہ وسلم عن عبدخیرفکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو المخیر۔</span></span></div>