<div style="text-align: right"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><span style="font-size: large">حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت صلی ا ﷲ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ مسجد اقصیٰ میں لے گئے ‘ حضرت صلی ا ﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ تمام پیغمبر وہاں پہلے سے جمع تھے ‘ میری نظر سب سے پہلے ایک دراز قد خوبصورت بزرگ پر پڑی ‘ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم یہ آپ کے باپ حضرت آدم علیہ السلام ہیں ۔ میں نے ان کو سلام کیا ‘ حضرت آدم علیہ السلام نے بڑی محبت سے میرے سلام کا جواب دیا ‘ اس کے بعد ایک اور بزرگ پر نظر پڑی ‘ جن کا سر سفید اور چہرہ نورانی تھا ۔ان کی صورت میرے چہرے سے ملتی جلتی تھی ‘ جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا یہ جناب کے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ‘ بعد ازاں میں نے اور ایک دراز قد بزرگ کو دیکھا ان کے متعلق بھی دریافت کیا ‘ معلوم ہوا کہ یہ حضرت موسیٰ کلیم ا ﷲ ہیں‘ اسی طرح یکے بعد دیگرے دوسرے پیغمبروں سے ملاقات ہوئی ‘ ان ملاقاتوں کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے اذاں دی ‘ انکی اذان سے آسمان کے دروازے کھلے ‘ فرشتے اس قدر اترے کہ پوری مسجد اور پورا جنگل حتی کہ زمین و آسمان فرشتوں سے بھر گیا ‘ بعد ازاں جبرئیل علیہ السلام نے تکبیر فرمائی صفیں درست ہوئیں ‘ تمام پیغمبر اور سب فرشتے صفیں باندھ کر کھڑے ہو گئے ‘ مگر اس وقت تک امام کی جگہ یعنے مصلیٰ خالی تھا کوئی امام مصلیٰ پر نہیں تھا اور نہ کسی کی ہمت ہوتی تھا کہ مصلیٰ پر چلا جائے البتہ ہر ایک پیغمبر کو اس وقت نماز پڑھانے کی تمنا تھی ۔ <br /> حضرت جبرئیل علیہ السلام صفوں سے باہر آئے اور رسول ا ﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کا دستِ مبارک پکڑ کر فرمایا :۔ ’’ اے امام الاولین و الآخرین مصلّی پر تشریف لے چلئے آپ کس کا انتظار فرماتے ہیں ‘ کیا آپ سے زیادہ افضل کوئی اور آئے گا ‘ میں مشرق سے مغرب تک ‘ جنوب سے شمال تک زمین سے آسماں تک پھرا ہوں ‘ مجھے قسم ہے رب العزت کی آپ سے زیادہ افضل کسی کو نہیں پایا ؂ <br /> آفاق ہا گرویدہ ام مہر بتاں ورزیدام<br /> بسیار خوباں دیدام لیکن تو چیزے دیگری<br /> تمام دنیا میں پھرا ہوں میں نے <br /> مقبولانِ بارگاہ کو دیکھا ہے میں بہت سے بزرگ ہستیوں سے ملا ہوں لیکن آپ کچھ اور ہی ہیں آپکے جیسا کسی کو نہیں پایا ہوں آج کی امامت کے قابل صرف آپ ہی ہیں یہ کہ کر حضرت صلی ا ﷲ علیہ وسلم کو مصلی پر کھڑا کر دیا ‘ حضرت صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے دوگانہ پڑہا یا‘ جب حضرت صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا یا سید المرسلین اس وقت آپ کے پیچھے کو ن کون ہیں ‘ حضرت صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے معلوم نہیں ‘ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور سارے رسل اور ساتوں آسمانوں کے فرشتے اس نماز میں آپ کے پیچھے موجود تھے ۔ <br /> اس کے بعد تمام پیغمبر حضرت صلی ا ﷲ علیہ وسلم کو حلقہ میں لے کر کھڑے ہوئے سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بطور خطبہ کے جو فرمایا اس کے الفاظ یہ تھے ‘ خدا کا شکر ہے جس نے مجھے ’’خُلّت ‘‘ کا مرتبہ عطا فرمایا ‘ اور نمرود کی آگ کو مجھ پر گلزار کیا ‘ اور میری نسل میں بکثرت انبیاء پیدا کئے ‘ ان کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے فرمایا: <br /> الحمدﷲحق تعالیٰ نے مجھے ہمکلامی کا مرتبہ عطا فرمایا ‘ فرعون کو میرے ہاتھ سے غارت کیا ‘ بنی اسرائیل کو اس کے تکلیفوں سے نجات دلائی ‘ اور بہت سے معجزے میرے ہاتھ سے دکھلائے ‘ انکے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کھڑے ہوئے فرمایا الحمدﷲخدا نے مجھ کو بادشاہت دی ‘ اور مجھ پر زبور نازل فرمائی ‘ لوہے کو میرے ہاتھ پر نرم فرمایا ‘ پہاڑ جنگل میرے لئے مسخر کر دئے اور مجھے حکمت سے فیصلے کرنا سکھایا ‘ ان کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام اٹھے اور فرمایا الحمدﷲ ‘ خدائے تعالیٰ نے ہوا کو میرے لئے مسخر کیا ‘ انسان اور جنات اور چوپائے میرے تابع کئے ‘ مجھے جانوروں کی بولیاں سکھائیں ‘ اور بہت بڑا ملک مجھ کو عطا کیا ‘ ان کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اٹھے اور فرمایا کہ الحمد ﷲخدائے تعالیٰ نے مجھے اپنے حکم سے پیدا کیا اور مجھے توریت و انجیل بغیر استاد کے سکھائی ‘ مٹی کا جانور بناکر پھونک سے زندہ کر کے اڑاتا تھا ‘ مادر زاد اندھے کو چنگا ‘ اور کوڑھی کو اچھا کرتا تھا ‘ مردہ کو جِلاتا تھا ‘ خدا کے حکم سے شیطان مجھ سے دور رہتا تھا خدا نے مجھ کو زندہ آسمان پر اٹھایا ۔ <br /> حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ہمارے آقا ئے نامدار صلی ا ﷲ علیہ و سلم اٹھے اور فرمایا ہر ایک پیغمبر نے خدا کی تعریف کی ‘ اب میں بھی بیان کرتا ہوں الحمد ﷲرب العالمین سب تعریف اس خدا ئے تعالیٰ کے لئے ہے جس نے مجھے تمام جہاں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ‘ تمام عالم کے لئے مجھ اکیلے کو پیغمبر اور ہادی بنایا ’ مجھ پر وہ قرآن مجید اتارا ’ جو حق اور باطل میں پورے طور سے فرق کرتا ہے ۔ ا ﷲ تعالیٰ نے اس قرآن میں ہر ایک اصول بیان فرمادئے ‘ ا ﷲ تعالیٰ نے میرا سینہ کھول دیا ‘ میرے ذِکر کو اپنے ذِکر کے ساتھ ملایا ‘ کوئی جگہ میرے ذکر سے خالی نہ چھوڑی ‘ مجھ کو سب سے اوّل نبوت عطا فرمائی ‘ سب کے بعد خاتم الانبیاء بناکر بھیجا ‘ مجھے رؤف و رحیم کا خطاب عطا فرمایا ‘ میری امّت کو ساری امتوں پر بزرگی دی ‘ میری پوری امّت کو منصب نبوت یعنے مرتبہ ‘ امر معروف عطا کیا ‘ انھیں دنیا میں سب سے پیچھے بھیجا ‘ مگر آخرت میں سب سے پہلے بخشے گا اور جنت میں سب سے اول داخل کرے گا ۔ جب حضرت صلی ا ﷲ علیہ و سلم نےخطبہ ختم فرمایا ‘توحضرت ابراہیم علیہ السلام نے فیصلہ کے طور پر فرمایا اے پیغمبروں کی جماعت ! محمد صلی ا ﷲ علیہ و سلم نے اپنے وہ وہ فضائل بیان فرمائے کہ بلا شک وہ تم سب پر فضیلت لے گئے اور سب سے بڑھ گئے اس لئے اگلے پیغمبروں نے جو باتیں بیان کیں وہ جلدی فنا ہونے والی یا صرف جسم پر اثر ڈالنے والی تھیں ‘ جیسے سلیمان اور داؤد علیہما السلام کے معجزے ‘ یہ سب فانی معجزے ہیں ‘ بخلاف حضرت صلی ا ﷲ علیہ و سلم کے معجزے اور فضائل ‘ روحانی اور باقی رہنے والے ہیں اور حضرت نے اپنی امّت کو بھی بزرگی دلوائی جو کسی پیغمبر میں یہ بات نہیں ۔ <br /> اس کے بعد فوراً حضرت صلی ا ﷲ علیہ و سلم کے سامنے دو برتن لائے گئے ‘ ایک میں دودھ ‘ اور ایک میں شراب تھی ‘ حضرت صلی ا ﷲ علیہ و سلم نے شراب سے نفرت فرمائی ‘ دودھ کا برتن لے کر نوش فرمایا ‘ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا آج آپ کی اس نفرت سے شراب آپ کی امّت پر حرام ہو جائے گی ‘ دودھ کو آپ نے جو پسند فرمایا ‘ گویا آپ نے اپنی امّت کے لئے ہدایت اور دینداری کو اختیار فرمایا اور آپ نے گمراہی سے امّت کو بچا لیا ‘ یہاں سے فارغ ہو کر حضرت صلی ا ﷲ علیہ و سلم بیت المقدس سے باہر آگئے۔ <br /> باب دوم <br /> دوسرا باب ان واقعات کے بیان میں جو بیت المقدس سے سدرۃ المنتہی تک کی سیر میں پیش آئے <br /> بیت المقدس کے دروازہ پر ایک سڑھی لگائی گئی ‘ جس پر سے چڑھ کر آپ آسمانِ اوّل پر تشریف لے جا ئیں گے ‘ قبل اس کے کہ حضرت صلی ا ﷲعلیہ و سلم کا اس سیڑھی سے چڑھ کر آسمانوں کی سیر کا سلسلہ شروع کیا جائے ‘ سیڑھی کی توصیف اور حضرت صلی ا ﷲ علیہ و سلم کے سیڑھی پر چڑھتے وقت کی شوکت اور عظمت سے متعلق کچھ لکھا جاتا :۔ <br /> بیت المقدس کے دروازہ پر جو سیڑھی لگائی گئی ‘ اس کی ایک پٹری سونے کی، دوسری چاندی کی اور ان پر جواہرات سے جڑاؤکام کیا ہوا تھا ‘ یہ سیڑھی نہایت خوبصورت تھی ‘ جس پر سے بنی آدم کے ارواح بعد موت چڑھتی ہیں ‘ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض مرنے والے آنکھیں پھاڑ کر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں وہ اسی سیڑھی کا دوسرا سرا آسمان کے دروازے سے ملا ہوا ہے ‘ بعد مرنے کے اسی سیڑھی سے مرنے والے کی روح کو آسمان کے طرف لے جاتے ہیں خواہ مسلمان ہو یا کافر ‘ جب دونوں روحیں آسمان کے دروازے پر پہنچتی ہیں تو مسلمان کی روح کے لئے آسمان کا دروازہ کھلتا ہے کافر کی روح کے لئے نہیں کھلتا ‘ آسمان تک لیجا کر کافر کی روح کو واپس کردیتے ہیں ‘ اس وقت بڑی حسرت اور ندامت ہوتی ہے ‘ مسلمان کی رو ح کو اعلیٰ علیین میں لیجاتے ہیں اور کافر کی روح کو سجیین میں ۔ <br /> حضرت صلی ا ﷲ علیہ و سلم سیڑھی پر چڑہتے وقت اس سیڑھی کے دونوں طرف فرشتے زمین سے آسمان تک صفیں باندھ کر کھڑے تھے ‘ حضور صلی ا ﷲ علیہ و سلم نے فرمایا یہ سب فرشتے مجھ کو ادب سے سلام کر رہے تھے ‘ اس سیڑھی کے نچلے حصہ پر ان فرشتوں کا افسر ایک بہت بڑا قوی ہیکل فرشتہ کھڑا تھا ‘ اس نے مجھ کو سلام کیا اور بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا یا رسول اﷲصلی ا ﷲ علیہ و سلم ‘ آدم علیہ السلام پیدا ہونے کے پچیس ہزار سال پہلے سے مجھ کو اس سیڑھی کے سرے پر ٹھرا یا گیا ہے ‘ اس دن سے آپ کی محبت میرے دل میں ہے زبان سے ہمیشہ آپ پر درود وسلام بھیجتاہوں آپ کے یہاں آنے کا انتظار میں تھا خدا کا شکر ہے آج آپ کی ملاقات کی دولت سے سرفراز ہوا ۔ <br /> جب دولہا آتا ہے تو کیا کیا تیاریاں ہوتی ہیں ‘ ہر چیز قرینے سے رکھی جاتی ہے ۔ ایک ایک کام پر ایک ایک شخص مقرر ہوتا ہے ‘ ہر شخص کے دلوں پر خوشی ہوتی ہے یہاں بھی یہی حال تھا ‘ آسمانوں میں طرح طرح کے تیاریاں ہو رہی تھیں اپنے اپنے مرتبوں سے پیغمبروں کو ٹھیرا یا گیا تھا ‘ ہر ایک فرشتہ خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھ&