<p style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">از: حضرت ابوالحسنات محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ </span></span></p> <p style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">بسم ا ﷲالرحمن الرحیم</span></span></p> <p style="text-align: right"><span style="font-family: traditional Arabic"><span style="font-size: large">سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آَيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1) </span></span><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندہ کو شب کیوقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جسکے گردا گردہم نے برکتیں کر رکھی ہیں لے گیا ‘ تا کہ ہم ان کواپنے کچھ عجائبات دکھلائیں بے شک اللہ تعالی بڑے سننے والے ‘ بڑے دیکھنے والے ہیں</span></span></p> <p style="text-align: right"><b><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">مقدمہ</span></span></b></p> <p style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">واقعہ معراج پر جو شبہات کئے جاتے ہیں ان شبہوں کے جواب میں مقدمہ ذیل پیش ہے : <br /> واقعہ معراج پر جو شبہے کئے جاتے ہیں ان شبہوں کے جواب مے لئے معراج شریف کے واقعہ کو’’ سبحٰن الذی‘‘سے شروع کیا گیا ہے ۔ <br /> واقعہ معراج پر شبہ کا تفسیر ’’ سبحٰن الذی ‘’ سے جواب <br /> سبحان کے معنی ہیں :۔ <br /> خدائے تعالیٰ کی ذات ہر ایک قسم کے نقصان سے پاک ہے ‘ اور عاجز و کمزور بے قدرت ہونے سے بھی پاک ہے ‘‘۔ <br /> معراج کے واقعہ کو لفظ ’’ سُبحان ‘‘ سے شروع کرنے سے یہ غرض ہے کہ جب معراج کے عجیب و غریب واقعہ کا جاہل و نادان ‘ کمزور عقل والے ‘ روحانیت سے دُور رہنے والے ضرور انکار کریں گے اور طرح طرح کے شبہے پیش کریں گے تو یہ شبہے معراج کے واقعہ پر ہی منحصر نہیں رہتے بلکہ خدائے تعالیٰ کے قدرت تک پہنچتے ہیں ‘ گویا خدائے تعالیٰ میں قدرت نہیں کہ معراج کراسکے ‘ اس لئے ا ﷲ تعالیٰ ان شبہوں کو دُور کرنے کے لئے واقعہ معراج بیان کرنے سے پہلے ارشاد فرماتا ہے کہ : ۔ <br /> ’’سبحان الذی ‘‘ <br /> معراج کس نے کرائی ؟ وہی قدرت والا خدا تو ہے جو ہر ایک طرح کی عاجزی اور کمزوری سے پاک ہے ‘ تو پھر تم کو معراج کے واقعہ میں کیوں شبہ ہے ۔ </span></span></p> <p style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">واقعہ معراج پر شبہ کا دوسرا جواب </span></span></p> <p style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">تم ہمارے نبی کو سمجھے ہی نہیں اپنا جیسا یا اپنی طرح کا انسان سمجھ کر اور خود پر قیاس کر کے ان کے معراج سے انکار کر رہے ہو ‘تمہارا قیاس ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک طوطی نے قیاس کیا تھا جس کو مولا نا نے مثنوی میں ایک نقل کے پیرایہ میں لکھا ہے :۔ </span></span></p> <p style="text-align: right"><b><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">حکایت </span></span></b></p> <p style="text-align: right"><span style="font-size: large"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0">ایک سوداگر نے ایک طوطی کو پالا تھا وہ بہت بولتی تھی ‘ اور باتیں کرتی تھی ‘ جس کی وجہ سے دوکان بہت بارونق تھی ‘ ایک دن سوداگر کسی کام کو گیا اور طوطی پنجرہ کے باہر بیٹھی تھی ‘ بلی نے اس پر حملہ کیا ‘ وہ خوف زدہ ہو کر ایک طرف اُڑی ‘ اور روغن بادام کی ایک شیشی سے ٹکرائی ‘ شیشی گری اور سب روغن ضائع ہو گیا ‘ سوداگر جب واپس آیا ‘ اور روغن بادام کی شیشی کو گرا ہوا پایا تو طوطی پر اسے بہت غصّہ آیا ‘ اسے یہاں تک مارا کہ گنجا کر دیا ‘ اس کے بعد طوطی نے بولنا بند کر دیا ۔ دوسری مرتبہ آقا نے اس سے باتیں کیں ‘ اس نے جواب ہی نہ دیا جب کئی دن اسی طرح ہو گئے تو وہ اپنی حرکت پر بہت نادم ہوا ‘ اور خود کو کوسنے لگا کہ میرے یہ ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے ‘ جن سے میں نے اس کو مارا تھا ‘ میری دکان کی رونق ہی جاتی رہی ‘ جب کسی طرح طوطی نہ بولی تو اس نے درویشوں ‘ بزرگوں سے دُعا کرانا شروع کی ‘ مگر پھر بھی نہ بولی ‘ اتفاق سے ایک دن اس کی دوکان کے سامنے سے ایک گنجا فقیر گذرا تو طوطی نے اس کو پکارا اور کہا ؂ <br /> از چہ کل باکلاں آمیختی <br /> تو مگر از شیشہ روغن ریختی <br /> از قیاس سش خندہ آمد خلق را <br /> کو چو خود پنداشت صاحب دلق را<br /> اے گنجے! تو گنجوں میں کیوں کر آملا ‘ معلوم ہوتا <br /> ہے کہ تو نے بھی شیشی میں سے تیل گرایا ہوگا ۔ <br /> طوطی کے اس قیاس پر سب لوگوں کو ہنسی آگئی کہ <br /> اس نے گنجے فقیر کو بھی اپنے ہی اوپر قیاس کیا ۔ <br /> یہی حال واقعہ معراج پر قیاس کرنے والوں کا ہے ۔ مولانا اسی قیاس کے نسبت فرماتے ہیں ؂ <br /> جملہ عالم زیں سبب گمراہ شد <br /> کم کسی زابدال حق آگاہ شد <br /> گفت اینک ما بشر ایشاں بشر <br /> ویاشاں بستہ ‘ خوابیم و خور<br /> یہ سب اس وجہ سے گمراہ ہوئے کے انہوں نے پیغمبروں کو خود پر قیاس کیا ‘ اور یہ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر بھی تو ہماری طرح آدمی ہیں۔ <br /> مولانا اس کے بعد فرماتے ہیں : ۔ <br /> کارپاکاں را قیاس از خودم یگر <br /> گرچہ مانددر نوشتن شیر و شیر<br /> پاکوں کو اپنے پر قیامت مت کر اگرچہ شیر و شیر لکھنے میں مشابہ ہیں ‘ شیر نقصان رساں ہے اور دودھ نفع رساں۔ <br /> قوت روح کی تمثیل کے ذریعہ واقعہ معراج پر شبہ کا تیسرا جواب <br /> جن لوگوں کی روح جسم کی کثافت میں دب کر جسم کی طرح مٹی ہو گئی ہے ‘ وہ لوگ خود پر ان حضرات کو بھی قیاس کرتے ہیں جن کی روح نے جسم کو بھی اپنا سا لطیف بنالیا ہے ‘ ان شبہ کرنے والوں نے روح کی قوت کو سمجھا ہی نہیں ۔ <br /> مندرجہ ذیل چند تمثیلوں پر غور کرنے سے روح کی قوت واضح ہو گی :۔ <br /> ۱۔ مٹی کی قوت سے پانی کی قوت بڑھکر ہے ۔ <br /> پانی کی قوت سے ہوا کی قوت زیادہ ہے ۔ <br /> ہوا کی قوت سے آگ کی قوت بڑھکر ہے بلکہ آگ کی قوت سب سے زیادہ ہے ۔ اسی واسطے ریل گاڑی کی بھاپ جو پانی اور ہوا سے بنی ہے اس قدر قوی ہے کہ ایک دن میں ہزاروں من بوجھ کہاں سے کہاں لے جا پھینک دیتی ہے ۔ <br /> جس میں خالص آگ ہو ‘ جیسے تار ہے تو اس تار سے ایک منٹ میں سینکڑوں کوس حرکت ہوجاتی ہے ‘ یہ کام بھاپ سے نہیں ہو سکتا ۔ <br /> ۲۔اسی طرح غول بیابانی جن میں ہوائی جز زیادہ ہے ‘ وہ ایسی قوت کے کام کرتے ہیں جواِن خاکی پتلوں سے نہیں ہو سکتے ۔ <br /> ۳۔ اجنّہ میں ناری اجزا زیادہ ہیں ‘ اس لئے اجنّہ سے زیادہ قوی افعال بہ نسبت غول بیا بانی کے سرزد ہوتے ہیں ۔ <br /> ۴ ۔اجنّہ سے زیادہ لطیف مادہ فرشتوں میں ہے ‘ اس لئے وہ اجنّہ سے زیادہ قوی کام کرتے ہیں ۔ <br /> ۵ ۔ روح میں فرشتوں سے زیادہ لطافت ہے ‘ اس لئے روح فرشتوں سے زیادہ قوی کام کرسکتی ہے ۔ <br /> مگر روح جسم کی کثافت میں دب کر کچھ بھی نہیں کر سکتی ‘ جب بہ سبب ریاضت و مجاہدہ روح پر سے جسمانی کثافت چھَٹی اور وہ خدا ئے تعالیٰ کے طرف بالکلیہ متوجہ ہو گئی تو اس پر خدا ئے تعالیٰ کے انوار ایسے چمکتے ہیں جیسے آئینہ میں آفتاب ‘ آفتاب کے طرح آئینہ بھی نگاہ نہیں ٹھرتی ‘ روح کا بھی یہی حال ہو جاتا ہے ۔ <br /> ۶ ۔ آگ کی صحبت میں لوہا سرخ ہوکر آگ کی طرح جلانے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ <br /> ۷ ۔ پھول کی صحبت سے مٹی معطر ہوکر پھولوں کی طرح دماغ کو معطر کرنے لگتی ہے ۔ <br /> صاحبو ! پہلے سے ہی روح ،کل مخلوق ‘ جن اور فرشتوں وغیرہ سے قوی ہے ‘ پھر جب خدا سے ایسا تعلق پیدا کرلے ‘ جیسے لوہا آآگ سے ‘ تو اس روح کی قوت کو کیا پوچھتے ہو ‘ ایسی روح وہ وہ کام جو کسی مخلوق سے نہ ہوسکیں کر دکھاتی ہے ‘ انھیں کاموں کو معجزہ اور کرامت کہتے ہیں ۔ <br /> حاصل ان تمثیلوں کا یہ ہے کہ :۔ <br /> جب معمولی روح کی یہ قوت ہے تو تمام روحیں جس روح سے بنی ہوں اور اس روح کو سب سے زیادہ خدائے تعالیٰ سے تعلق ہو تو اس روح کی قوت کا کیا ٹھکانا ہے ‘ ایسی روح کی لطافت جسم پر غالب آکر جسم کو بھی روح کی طرح لطیف کردیا ہو ‘ اور وہ روح مع جسم اگر تھوڑی دیر میں مکہ معظمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں پر ہوتے ہوئے عرش پر پہنچے تو کیا تعجب ہے۔ <br /> نظام شمسی کی تمثیل کے ذریعہ واقعہ معراج پر شبہ کا چوتھا جواب <br /> قطع نظر اس کے رات، دن کا آنا ‘ طلوع و غروب کا ہونا ‘ یہ سب حرکت فلک سے ہے ‘ اگر حرکتِ فلک موقوف ہوجائے تو وہ وقت جو موجود ہے وہی رہے گا ‘ ممکن ہے کہ بوقت معراج ا ﷲ تعالیٰ نے تھوڑی دیر کے لئے حرکتِ فلک موقوف کردی ہو ۔ <br /> معزز مہمان کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے دنیا میں بھی یہ قاعدہ ہے کہ جب بادشاہ کی سواری نکلتی ہے تو سڑک پر دوسروں کا چلنا بند کر دیا جاتا ہے ‘ اسی طرح ا ﷲ تعالیٰ نے حضرت ؑ کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اگر آسمان ‘ چاند ‘ سورج ‘ سب کی حرکت کو اس رات کچھ دیر کے لئے بند کردیا ہو ‘ تاکہ جو چیز جہاں ہے وہیں رہے ۔ پس آفتاب جس جگہ تھا اسی جگہ رہا ‘ ستارے جہاں تھے وہیں رہے ‘ کوئی بھی اپنی جگہ سے ہلنے نہ پایا ‘ تو اس میں کیا تعجب ہے ۔ حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم جب معراج سے فارغ ہو گئے ‘ فلک کو حرکت کی اجازت ہو گئی ‘ ظاہر ہے حرکتِ فلک جس جگہ موقوف ہوئی تھی ‘ وہیں سے شروع ہوگی ‘ آپ کے سیر میں چاہے کتنا ہی وقت صرف ہوا ہو ‘ مگر دنیا والوں کے اعتبار سے سارا قصّہ ایک ہی رات میں ہوا ۔ <br /> عشقیہ پیرا یہ میں واقعہ معراج پر شبہ کا پانچواں جواب <br /> عاشقانہ جواب مولانا نظامی نے یہ دیا ہے ؂ <br /> تن او کہ صافی تراز جان ماست <br /> اگر آمد وشدبہ یک دم رواست <br /> آپ کا جسم مطہر ہمارے روح سے زیادہ لطیف تھا ‘ اگر ایک لحظہ میں آئے ‘ اور گئے ہوں تو ہوسکتا ہے ۔ <br /> خیال کی تمثیل کے ذریعہ واقعہ معراج پر شبہ کا چھٹا جواب <br /> یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خیال انسانی ذرا سی دیر میں بہت دور پہنچ جاتا ہے ‘ آپ اسی وقت عرش کاتصور کیجئے تو ایک لمحہ سے بھی کم میں خیال عرش پر پہنچ جائے گا ‘ خیال کی حرکت بہت سریع و تیز ہے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیال روح کی ایک قوت ہے ‘ روح نہایت لطیف چیز ہے ‘ اس کے سیر کو کوئی روک نہیں ‘ مولانا نظامی فرماتے ہیں کہ ’’ رسول ا ﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کا جسم بارک تو ہمارے خیال سے بھی پاکیزہ تر ہے ‘ جب خیال ذرا سی دیر میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے تو آپ کا جسم اطہر زمین سے آسماں تک اور وہاں سے عرش تک ذرا سی دیر می¬