<div style="text-align: right"><span style="font-family: Tahoma"><span style="font-size: medium"><span class="mine">مئی 18، 2009 ء بروز اتوار میسور روڈ 26 بنگلور مسجد آمر کلیمی میں بستی کے ذمہ داران نے ایک عظیم الشان امام اعظم کانفرنس منعقد کی ،جس میں بحیثیت مہمانان خصوصی خطاب کے لئے شمالی ہند سے حضرت علامہ مولانا ضیاء المصطفی قادری رضوی امجدی دامت برکاتہم العالیہ بانی وناظم الجامعۃ الامجدیۃ اور جنوبی ہند سے حضرت علامہ مولانا مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ بانی وصدر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر کومدعو کیا گیا ،مولانا محمد اکبر علی خان رضوی نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔<br /> بانی وصدر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر دامت برکاتہم العالیہ نے سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایاکہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی مبارک زندگی زہد و ورع‘ تقوی وطہارت ، خوف وخشیت ،تقرب وانابت میں گزاری ، جس کی بدولت خالق کائنات نے آپ کے سینۂ اقدس کو شرح فرمادیا تھا ، امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کواللہ تعالی نے غیرمعمولی قوت حافظہ وطاقت استدلال اورملکہ استنباط عطافرمایا ‘آپ نے بفیضان مصطفوی کتاب وسنت سے 83000، تراسی ہزارمسائل مستنبط فرمائے ہیں ، امام اعظم نے کتاب وسنت کے مقابل اپنی رائی نہیں پیش کی بلکہ کتاب وسنت سے مسائل کا حل نکالاہے ۔آپ کے بیان کردہ مسائل کے بارے میں شافعی بزرگ امام شعرا نی نے فرمایا:میں نے تحقیق وتتبع کرکے دیکھا،امام اعظم کے اقوال یاآپ کے تلامذہ کے اقوال میں سے ہرہرقول کو قرآن کریم کی آیت سے یاحدیث شریف سے یاصحابی کے اثرسے یاپھرکتاب و سنت کی اصل پر کئے جانے والےقیاس صحیح سے ماخوذ پایا ۔ <br /> امام اعظم کی ولادت باسعادت 80ھ؁ اوروصال 150ھ؁ میں ہوا۔ آپ کے جلیل القدر تلامذہ کی روایت کردہ احادیث شریفہ سے کتب احادیث مالامال ہیں۔امام بخاری علیہ الرحمہ نے صحیح بخاری میں بائیس احادیث ایسی درج کی ہیں جسمیں امام بخاری اورحضورصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے درمیان صرف تین واسطے ہیں ،یہ انکے لئے ایک عظیم شرف کی بات ہے لیکن ان میں سے بیس احادیث شریفہ میں حنفی محدثین انکے اساتذہ ہیں ،مکی بن ابراہیم حنفی محدث ہیں ،امام اعظم کے شاگرد خاص ہیں جن سے امام بخاری نے گیارہ ثلاثیات، ابوعاصم ضحاک النبیل سے چھ ثلاثیات اورمحمدبن عبداللہ انصاری سے تین ثلاثیات روایت کی۔ <br /> یہ بیس ثلاثیات سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ان اساتذہ سے ہیں جو امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے شاگرد وفیضیافتگان ہیں‘ اگر ان حنفی محدثین کی وساطت درمیان سے نکال دی جائے تو امام بخاری کے پاس صرف دو ثلاثیات باقی رہ جاتی ہیں۔<br /> مفتی صاحب قبلہ نے مزید فرمایاکہ امام اعظم کے جلیل القدر شاگرد محدث عبد الرزاق جن کی نسبت دنیائے علم جانتی ہے کہ آپ علم حدیث شریف میں غیر معمولی مہارت تامہ رکھتے تھے جن سے صحاح ستہ صحیح بخاری‘ صحیح مسلم‘ سنن ابوداود‘ سنن نسائی‘ سنن ترمذی‘ سنن ابن ماجہ‘ سنن دارمی اور مسنداحمد بن حنبل ان آٹھ کتابوں میں 2496روایات موجودہیں‘ جس ایک شاگرد سے اتنی روایات ان کتب حدیث میں آئی ہیں وہ خود امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مداح ہیں‘ انہوں نے اپنی مصنف میں امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے احادیث شریفہ روایت کی ہیں۔<br /> یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ کا پایۂ علمی اس قدر مستحکم تھاکہ ان کی نسبت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "کل حدیث لایعرف ابن معین فلیس ہو بحدیث "جس حدیث کو یحیی بن معین نہیں جانتے وہ فی الواقع حدیث ہی نہیں‘ایسے جلیل القدرمحدث امام اعظم کے مسلک پرفتوی دیاکرتے تھے اورانکا بیان ہے : الفقہ فقہ ابی حنیفۃوعلیہ ادرکت الناس- معتبر ومستند فقہ امام اعظم کی فقہ ہے‘ اس پر میں نے اپنے دور کے محدثین کرام کو عمل کرتے ہوئے پایاہے ۔ یاد رہے کہ یحیی بن معین ان ائمہ میں سے ایک ہیں جن کے سامنے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تالیف کرنے کے بعد پیش کی تھی ‘ انہوں نے جب سند تصدیق وتصویب عطا فرمائی تب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو بازار علم میں لایا‘اگر امام اعظم کے پیروکاروںکو بدعتی ،گمراہ یا مشرک کہا جائے تو ان گمراہ اور بدعتی محدثین سے سند حاصل کرنے والے امام بخاری کی کتاب کی حیثیت شرعی بھی مجروح ہوجاتی ہے‘ونیز امام بخاری نے 21 اکیس حنفی محدثین سے روایات لی ہے اس لئے ہم ازراہ خیرخواہی مشورہ دیتے ہیں کہ اس طرح اختلاف وانتشار کا شکار ہونے کے بجائے اکابر پر کامل اعتماد و اعتبار کرتے ہوئے ان کی تحقیقات سے استفادہ کیا جائے ‘ اگر کسی کو اس راہ سے ہٹ کر کسی اور راہ پر چلنے کاشوق ہو تو اس کی اپنی مرضی کی بات ہے تاہم جو ان مقدس ہستیوں سے وابستہ رہ کر مسائل پر عمل کررہے ہیں انہیں نشان ملامت نہ بنایاجائے۔<br /> آج اعداء دین مختلف جہتوں سےدین اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں‘ تمام صلاحیتوں کو مجتمع کرکے ان رکیک حملوں کا جواب دینا وقت کا اہم تقاضہ ہے‘ بجائے اس کے باہم ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کرنا یقیناً شرعاًبھی درست نہیں اور عقلا بھی درست نہیں ،دین ودیانت کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے اس طریقہ کو بالکلیہ ترک کردینا چاہئے۔ <br /> سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے حضرت مفتی صاحب قبلہ نے فرمایا:قرآن کریم اور احادیث شریفہ اسلامی قانون کی اساس وبنیاد ہے ، جن میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا مکمل حل موجود ہے ،قرآن کریم عام فہم اور آسان ہونے کے باوحود اس میں آیات محکمات و متشابہات بھی ہیں جن کو سمجھنا اور ان سے مسائل کا حل نکالنا عام انسان تو کجا ایک ماہرِ زبان کے لئے بھی آسان بات نہیں کیونکہ محض زبان پر عبور ہونے کیوجہ سے قانون کی نزاکتوں کو سمجھنا آسان نہیں ہے –چونکہ ہر دور کے تقاضے مختلف رہے ہیں جس کی بنا انسان کو ہر وقت نئے مسائل درپیش ہوتے رہتے ہیں ، مثلاً دور حاضر کے مسائل میں شیر بزنس اس کی کونسی صورتیں جائز ہیں اور کونسی ناجائز ہیں ، فکس ڈپازٹ کروانا کیسا ہے ، کسی چیز کی آن لائن خرید وفروخت ، اپنے قبضہ میں آنے سے قبل کسی چیز کو بیچ دینا ، لائف انشورنس کا شرعی حکم ، اس طرح کے سینکڑوں مسائل ہیں جن کو انسان اپنے علم ودانش ، فہم وادراک سے حل نہیں کرسکتا ، لہذا ضروری ہے کہ وہ کسی ایسے امام مجتہد کی تقلید کرے جو ان مسائل کا حل قرآن کریم و حدیث شریف کی روشنی میں بیان کرتے ہوں ۔<br /> اللہ تعالی کا حکم ہے : ’’یایہا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامرمنکم‘‘ (سورۃالنساء۔۵۹)ترجمہ: اے یمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور تم میں جو اولی الامرہے ان کی اطاعت کرو ۔<br /> ’’اولی الامر‘‘ سے مراد ائمہ مجتہدین ہیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت جابر بن عبداللہ ،حسن بصری ، حضرت عطاء بن ابی رباح اورحضرت عطاء بن السائب اورابوالعالیہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہے ۔ <br /> حضرت ابن ابو نجیح رحمہ اللہ نے امام مجاہد تابعی مکی رحمہ اللہ سے روایت نقل کیا ہے:عن ابن ابی نجیح عن مجاہد فی قولہ عزوجل ’’ واولی الامرمنکم‘‘ یعنی اولی الفقہ فی الدین والعقل۔ ترجمہ:حضرت ابن ابو نجیح رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ امام مجاہد رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد دین میں تفقہ اور فہم وبصیرت رکھنے والے فقہاء کرام ہیں۔<br /> امام بخاری رحمہ اللہ کے دادا استاذ،امام عبد ا لرزاق رحمۃ اللہ علیہ (متوفی،211) اپنی مجموعہ تفسیر میں فرماتے ہیں:عبد الرزاق قال :نا معمرعن ابن ابی نجیح عن مجاہد فی قولہ تعالی ’’ واولی الامرمنکم‘‘قال :ہم اہل الفقہ والعلم ۔ اولی الامر سے مراد فقہاء واہل علم ہیں۔ <br /> امام ابو جعفر طبری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ،310) نے اپنی کتاب جامع البیان فی تفسیر القرآن میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما،حضرت مجاہد ،حضرت ابن ابونجیح ،حضرت عطاء بن سائب،حضرت حسن بصری اور حضرت ابو العالیۃ رحمہم اللہ سے نقل کیا کہ ’’اولی الامر ‘‘سے مراد فقہاء واہل علم حضرات ہیں ۔ <br /> (تفسیر طبری ،ج8،ص500) <br /> صاحب تفسیر کبیر علامہ فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،حضرت حسن بصری ،امام مجاہد اور امام ضحاک رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے کہ اولی الامر سے مراد وہ علماء ہیں جوشریعت کے احکام بتلاتے ہیں اورلوگوں کودین سکھاتے ہے ۔ :المراد العلماء الذین یفتون فی الاحکام الشرعیۃ ویعلمون الناس دینھم ۔وھذاروایۃ الثعلبی عن ابن عباس وقول الحسن ومجاھد وضحاک۔(تفسیرکبیر۔سورۃالنسائ) <br /> ونیزفرماتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ صحابہ کرام وتابعین عظام کی ایک جماعت نے ’’ اولی الامر‘‘سے علماء مراد لیاہے،انہ لانزاع ان جماعۃ من الصحابۃ والتابعین حملوا قولہ’’ واولی الامرمنکم‘‘علی العلماء۔ (تفسیرکبیر۔سورۃالنساء) <br /> علامہ ابن کثیر جن کے قول کو غیرمقلدین قولِ فیصل مانتے ہیں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :وقال علی ابن ابی طلحۃ ،عن ابن عباس’’ واولی الامرمنکم‘‘ یعنی اھل الفقہ والدین ، وکذا قال مجاھد وعطاء والحسن الب