<div style="text-align: right"><span style="font-family: Tahoma"><span style="font-size: medium"><span class="mine">18!ربیع الثانی 1430 ھ م 15 اپریل 2009 ء بروز چہارشنبہ بعد نماز عصر تلاوت قرآن کریم کا اہتمام کیا گیا قبل از مغرب ختم پڑھا گیا‘ نماز مغرب کے بعد محدث دکن حضرت ابوالحسنات ‘ حضرت ابوالبرکات و حضرت ابوالخیرات رحمۃ اللہ علیہم کی بارگاہوں میں چادر گل پیش کی گئی۔ بعد ازاں قرأت کلام مجید سے جلسہ کا آغاز ہوا۔ نعت شہ کونین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پیش کی گئی‘ پھر نبیرۂ حضرت محدث دکن حضرت ابوالفیض سید عطا اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری مدظلہ العالی کی دستار بندی عمل میں آئی‘ حضرت ابوالفیض نے فرمایا کہ میں دادا جان‘ والد صاحب قبلہ اور بھائی جان کے مشن کو آگے بڑھاؤں گا۔ میں اپنے پورے اوقات اسی کے لئے وقف کردوں گا۔ میرا مقصد یہی ہے کہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلوں۔ اس موقع پر آپ نے اسلاف کی اتباع و پیروی کے جذبہ کا اظہار فرمایا اور ان کے کام کو پھیلانے اور عام کرنے کا اعلان فرمایا۔<br /> اس موقع پر زجاجۃ المصابیح کا ترجمہ نور المصابیح جلد ہفت دہم (۱۷) کی رسم اجراء عمل میں آئی‘ نیز اربعین ابوالحسنات کی بھی رسم اجراء ہوئی۔ عمدۃ المحدثین حضرت مولانا محمدخواجہ شریف شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب و مقرب بندوں کو دنیا و آخرت عطا فرماتا ہے‘ اُن کے آستانوں سے مخلوق خدا کو اللہ کی عطا اور اس کے محبوب بندوں کی تقسیم سے دنیا و آخرت کی بھلائیاں نصیب فرماتا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ العالی نے نور المصابیح جلد ہفدہم (۱۷) کے بارے میں فرمایا کہ اس میں مخلوق کی ابتداء اور انبیاء کرام کے ذکر کا بیان ہے۔ نور المصابیح کا یہ حصہ احادیث شریفہ کا ایک مفید و دلچسپ مجموعہ ہے۔<br /> مفکر حضرت مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے اپنے خطاب میں فرمایا‘ مسلمان قرآن کریم اور حدیث شریف پر عمل کرتے ہیں‘ اس کے خلاف کسی کی بات نہیں مانتے۔ قرآن کریم اور حدیث شریف کو سمجھنا‘ اس کے معانی و مفاہیم کو جاننا ہر شخص کا کام نہیں ۔ فقہاء کرام‘ ائمہ اعلام کو اللہ تعالیٰ نے قرآن فہمی‘ حدیث دانی کی نعمت سے نوازا ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ ‘ امام شافعی‘ امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ نے جو مسائل و احکام بیان کئے ہیں وہ قرآن کریم اور حدیث شریف کا خلاصہ اور لب لباب ہے‘ ان میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا نجات کا ضامن ہے۔ جلسہ کے اختتام پر حضرت ابوالخیر سید رحمت اللہ شاہ نقشبندی قبلہ دامت برکاتہم نے رقت انگیز دعا فرمائی۔ اس وقت حاضرین مجلس پر رقت طاری رہی۔ جلسہ کے بعد نماز عشاء ادا کی گئی۔<br /> 19! ربیع الثانی 1430ھ مطابق 16! اپریل 2009ء بروز پنجشنبہ بعد نماز عصر ختم قرآن اور ختم خواجگان کا اہتمام ہوا۔ بعد نماز مغرب جلسہ کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت اور نعت حبیب پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہوا۔ حضرت ابوالفیض سید عطا اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری مدظلہ العالی نے خطاب کیا اور فرمایا کہ میرے آنے کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ میں آخرت کیلئے توشہ تیارکرلوں اوراپنے بزرگوں کے طریقہ پرچلتے ہوئے انکے مشن کوآگے بڑھاوں۔<br /> بعد ازاں فیض درجت حضرت مولاناالحاج ابوالخیر سید رحمت اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری دامت برکاتہم نے ’’اصلاح قلب کی اہمیت‘‘ کے عنوان پروعظ فرمایا۔ آپ نے اپنے خطاب میںقلب کی تعمیرواصلاح کی اہمیت بیان فرمائی اوراصلاح قلب کی تدابیرپرتفصیلی روشنی ڈالی،آپ نے اصلاح قلب کی پہلی تدبیربیان کرتے ہوئے فرمایاکہ دنیا کی بے ثباتی اور اس کی ناپائیداری کو نظر عبرت سے دیکھا کرو‘ دنیا بے گھروں کا گھر ہے یہ دار فانی گذشتی اور گذاشتی ہے۔ اس کا دادا پرلے درجہ کا احمق ہے۔ کیسے کیسے سلاطین نامدار شاہان ذی الاقتدار کہ جن کے رعب و داب کا سکہ ایک جہاں پر جما ہوا تھا اور روئے زمین پر جن کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی آج وہ کس بے بسی اور کسمپرسی کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں۔ اف اس بے وفا دنیا نے ان بیچاروں کو کیسے کیسے سبز باغ دکھلاکر بھلاوا دے دے کر زیر زمین سلادیا۔ پھر بھی اس کو ان حرمان نصیبوں پر کچھ ترس نہ آیا۔ آئندہ نسلوں کی عبرت کے لئے بے تاج و تخت‘ فرش خاک پر زیر زمین پڑے ہوئے بادشاہوں پر مٹی کا ایک ڈھیر لگاکر قبر کے نام سے مشہور کیا گیا۔ ہائے اس جفاکر دنیا نے اپنے ظلم کے ہوا کے جھونکوں سے اس تودہ خاک کو اڑاکر بے نشان ہی بناکے چھوڑا ۔<br /> <b>شعر</b><br /> نہ گور سکندر نہ ہے قبردارا<br /> مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے<br /> آہ آہ! آپ نے نہ ایسا ظلم کہیں دیکھا ہوگا نہ سنا ہوگا‘ کروڑوں خانماں برباد ہوگئے‘ ان بیچاروں کا کوئی نام لیوا نہیں رہا۔ اگر کہیں ان کی نسل میں کہیں جیتی جاگتی نشانی بھی ہے تو اوروں کے دروں پر بھیک مانگتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ <br /> شعر<br /> اللہ رے فلک کی تلون مزاجیاں<br /> رکھتا نہیں کسی کو کبھی ایک حال پر<br /> او بے وفا دنیا! کیا کوئی اپنے دوستوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا کرتا ہے جیسا کہ تو نے کیا‘ کیسے کیسے مہ جبینوں کو تو نے خاک میں ملادیا‘ ان کی اٹھتی ہوئی جوانی پر بھی تجھے کچھ رحم نہ آیا،ان کا نہ چھپنے والا حسن ‘ ان کی ٹوٹی پھوٹی قبروں سے نکل نکل کر اپنے دیکھنے والوں کو آٹھ آٹھ آنسو رلارہا ہے‘ ادھر زلفوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے تو ادھر کا کلوں کا ‘ ان کا نازک نازک کلائیاں اور ان کے سارے جوڑ بند ایک دوسرے جدا ہوکر کہیں کے کہیںپڑے ہوئے ہیں‘ ان کا نرم و نازک جسم کو جس کو پھولوں کی سیج اپنی کرختگی کی وجہ سے اٹھا اٹھا کر بار بار بٹھا دیا کرتی تھی آج وہ مور و مار کی غذا بن رہا ہے‘ یہ بیچارے اگر تیرا کچھ کر نہ سکے تو کیا عجب ہے کیونکہ ازل نے ان کو کسی کے مقابلہ کے لئے پیدا ہی نہیں کیا تھا۔ ہاں تعجب ہے تو ا س بات کا ہے‘ حیرت ہے تو اس کی ہے کہ کیسے کیسے شہ زور پپلیتن شیردل نامور بہادروں کو تو نے نیچا دکھا کے چھوڑا۔ عرب سے عجم تک جن کی شجاعت کا شہرہ تھا۔ ایک زمانہ جن کا لوہا مان لیا تھا ہائے وہ آج کسی بے بسی کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں چارخانے چت پڑے ہیں ،لطف یہ ہیکہ ہم سب کچھ سمجھتے ہیں کہتے ہیں‘ سنتے ہیں‘ مگر چند لمحے بھی گزرنے نہیں پاتے کہ جو کچھ کہا سنا تھا عمر بے لقا کی طرح ملیا میٹ ہوا جاتا ہے‘ پھر وہی ہم ہیں او روہی ہماری قدیم غفلت‘ اس اندھیر کاکیا کہنا۔ خیر اب تک زمانہ جس طرح گزرا گزرا‘ اب تو ہم کو سنبھلنا چاہئے او ردنیا کی بے ثباتی اور اس کے نشیب و فراز کے خیالات کو اپنے دل کے آغوش میں محبت کے ساتھ اس طرح پالیں کہ ایک لحظہ نظروں سے اوجھل نہ ہو۔اشعار: <br /> دنیا نہیں کسی کی ہمیشہ قیام گاہ<br /> جو ہے یہاں وہ تیر قضا کا نشانہ ہے<br /> دنیا میں کوئی داغ سے خالی جگر نہیں<br /> بے داغ چرخ پر بھی تو روشن قمر نہیں<br /> دنیا نہیں ہے کچھ بھی جو دیکھا بہ چشم غور<br /> اس پر وہ مبتلا ہے کہ جس کو نظر نہیں<br /> دوسری تدبیر<br /> ظلمات نفسانیہ و کدورت طبیعہ کا ازالہ اور قلب و روح کو حق تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص نسبت کا پیدا ہونا اور اسرار و علوم شریفہ کا القاء خدائے تعالیٰ کے ذکر کی مواظبت اور ریاضت و مجاہدات کی کثرت پر ‘ اور عام مخلوق سے دور رہنے اور خلوت اختیار کرنے پر موقوف ہے۔ حضرت جامی رحمۃ اللہ علیہ نے جو وصیت کی ہے وہ بھی اسی کے قریب قریب ہے‘ آپ نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ سے سب کچھ ہوسکتا ہے پر تجربہ کی بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کا دوست او راس کا ولی ہونا بے ان چار چیزوں کے ذرا غیر ممکن ہے‘ اگر کسی کے دل میں خدائے تعالیٰ کے دوست بننے کی گدگدی سی لگی ہو تو اس کو ان چار چیزوں پر جان توڑ کوششوں سے عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ایک تو عزت و گوشہ نشینی کہ جس کی بدولت انسان بہت سارے گناہوں سے بچ سکتا ہے۔ یہ اس کا ادنی نفع ہے اور دوسرے خاموشی‘ اس کے متعلق کسی نے کیا خوب کہا ہے ‘ بغیر کچھ کہے کے کسی کو ہم نے پچھتاتے ہوئے نہیں دیکھا ہے اور جب دیکھا ہے تو کہنے کے بعد ہی اپنی کہی ہوئی بات پر نادم ہوکے پچھتاتے ہوئے پایا ہے۔ تیسرے جوع یعنی اکثر روزہ رہا کرے اور جب کھائے تو کسی قدر عادت سے کم کھائے۔ اشعار<br /> اندرون از طعام خالی وار<br /> تادر و نور معرفت بینی<br /> اپنے اندر کو کھانے سے خالی رکھ<br /> تاکہ تو اس میں نورِ معرفت دیکھے<br /> تہی از حکمتی بہ علت آں<br /> کہ پری از طعام تا بینی<br /> حکمت سے تو اس وجہ سے خالی ہے کہ ناک تک تو نے پیٹ کو کھانے سے بھر دیا ہے۔<br /> چوتھے سحر یعنی شب بیداری۔اشعار: <br /> ہر گنج سعادت کہ خداداد حافظ<br /> ازین دعائے شب ودرد سحری بود<br /> اللہ تعالیٰ نے حافظ کو معرفت کے جو خزانے دیتے ہیں۔ وہ راتوں کی دعاؤں اور پچھلی رات کے وظیفوں کی برکت سے دیا ہے۔<br /> خواب و خورت ز مرتبہ عشق دور کرد<br /> انگہ رسی بدوست کہ بے خواب و خورشوی<br /> کھانا اور سونا تجھ کو مرتبہ عشق سے دور ڈالا ہے‘ اللہ کی قربت تجھ کو اسی وقت حاصل ہوگی جبکہ تو زیادہ کھانا اور سونا چھوڑدے<br /> تیسری تدبیر<br /> حق تعالیٰ نے تین چیزوں کو تین چیزوں میں پوشیدہ کر رکھا ہے۔<br /> (۱) اپنی رضامندی کو اپنی اطاعت میں چھپایا ہے لہٰذا کسی طاعت کو حقیر نہ سمجھے‘ شائد رضائے الٰہی اسی میں ہو۔ (۲) اپنی ناراضگی کو اپنی نافرمانی میں مخفی کردیا ہے اس لئے کسی نافرمانی کو تھوڑی نہ سمجھنا چاہئے کیونکہ شائد اللہ پاک کا قہر و غضب اسی نافرمانی میں ہو۔ (۳) اپنی ولایت کو ا&