Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

News

اسرار استغفار و فضیلت رمضان


اسرار استغفار و فضیلت رمضان

     استغفار Ú©Û’ معنی:استغفار باب استفعال سے مصدر ہے،  بمعنی مغفرت چاہنا-

ثلاثی مجرد،باب"غفر یغفر غفرانا" بمعنی بخشنا ، ڈھاپنا ، چھپانا، عرب کا قول" غفرت الخزانۃ فی التراب "(خزانہ کو میں زمین میں چھپایا) اس لحاظ سے استغفار کے معنی بندہ کا اپنے آپ کوخدا کے حوالہ کردینا ، عام طورپر استغفار گناہوں وغیرہ کے لئے کیا جاتا ہے (مگر بعض علماء ربانیین حضرت والد ماجد پیرومرشد علامہ سید ابراہیم ادب رضوی رحمۃ اللہ علیہ نے ) استغفار کی سات صورتیں بتلائی ہیں۔

 Ø§Ø³ØªØºÙØ§Ø± Ú©ÛŒ سات صورتیں:

     (1)گناہوں کا استغفار ØŒ یعنی اپنے گناہوں Ú©Ùˆ خدا Ú©ÛŒ رحمت میں چھپانا۔

     (2)عبادتوں کا استغفار مثلا نمازوغیرہ عبادات میں مختلف وسوسے اور خیالات کا آنا جن سے حضورِ قلبی میں فرق اور کمال میں نقص آجاتا ہے ØŒ اس لئے استغفار Ú©Û’ ذریعہ تلافی Ú©ÛŒ جاتی ہے Û”

     (3)Ø´Ú©ÙˆÛ‚ قسمت کا استغفار ،حدیث قدسی" عن ابی ہند الداری قال رسول اللہ قال اللہ تبارک وتعالیٰ من لم یرض بقضائی ویصبر علی بلائی  فلیلتمس ربا سوائی "(طبرانی کبیر، من یکنی ابوہند ج 22حدیث نمبر:807،مطبوعہ بیروت)

ترجمہ:جوکوئی میری قضاوقدر(قسمت )پرراضی نہ ہو میری نعمتوںکاشکر نہ کرے ، میری آزمائش پر صبر نہ کرے، میری عطاپر قناعت نہ کرے تو اسے چاہے کہ میرے سوا کوئی اورخدا ڈھونڈلے۔

حدیث  Ù¾Ø§Ú© سے واضح ہوا کہ شکوئہ قسمت درست نہیں مگر کبھی نہ کبھی رنج والم ØŒ دکھ درد ØŒ بیماری وغیرہ امور میں Ø´Ú©ÙˆÛ‚ قسمت ØŒ Ø´Ú©ÙˆÛ‚ قضاوقدر ہوجاتا ہے اس لئے Ø´Ú©ÙˆÛ‚ قسمت سے استغفار کیا جاتاہے۔

     واقعہ: کسی بزرگ Ú©Û’ مکان کا جھگڑا عدالت میں پیش ہوا، بالآخر فیصلہ بزرگ Ú©Û’ خلاف ØŒ رشتہ دار Ú©Û’ موافق ہوا ØŒ صبح حضرت Ù†Û’ مجلس استغفار منعقد فرمائی ØŒ مریدین Ù†Û’ عرض کیا کہ حضور آج خلاف معمول مجلس استغفار منعقدکی گئی؟ تو حضرت Ù†Û’ جواب دیا کہ گھر ہمارا تھا ہم Ù†Û’ مقدمہ لڑا، مگرتحت قضاء الہی فیصلہ اس Ú©Û’ حق میں ہوا، گویا ہم فیصلہ الہی Ú©Û’ خلاف مقدمہ Ù„Ú‘Û’ اس لئے مجلس استغفار منعقد Ú©ÛŒ گئی۔

     (4)افعال کا استغفار ØŒ اپنے افعال Ú©Ùˆ اللہ Ú©Û’ افعال Ú©Û’ حوالے کرنا یعنی کوئی فعل منشاء خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ خلاف نہ ہو۔

     (5)صفات کا استغفار ØŒ حیات ØŒ علم ØŒ ارادہ، سمع ØŒ بصر، قدر ت، کلام وغیرہ صفات Ú©Ùˆ خدا Ú©Û’ حوالے کرنا، پس اس Ú©ÛŒ تجلی حیات Ú©Û’ پر تو سے Ø­ÛŒ(زندہ) ہے ۔اس Ú©ÛŒ صفت علم Ú©Û’ پر تو سے علیم (جاننے والا )ہے ۔اس Ú©ÛŒ صفت ارادہ Ú©Û’ پر تو سے مرید(ارادہ کرنے والا )ہے ۔جس قدر استغفار Ú©Û’ ذریعہ اپنے صفات Ú©Ùˆ خدا Ú©Û’ صفات Ú©Û’ حوالہ کرے گا اسی قدر صفات الہیہ Ú©Û’ تجلیات اس Ú©Û’ صفات پر جلوہ گرہوں Ú¯Û’ Û”

     (6)وجود کاا ستغفار ØŒ اپنے وجود Ú©Ùˆ خدا Ú©Û’ وجود Ú©Û’ حوالہ کرنا یعنی خدا Ú©Û’ وجود Ú©Û’ پر تو سے موجود۔

     (7)ذات کاا ستغفار:اب رہا اپنی ایک حقیقت یعنی ذات کا اعتبار پس اس Ú©Ùˆ بھی خداکی ذات Ú©Û’ حوالہ کرنا، جب افعال ØŒ صفات ØŒ وجود ØŒ ذات سب Ú©Ú†Ú¾ اللہ Ú©Û’ حوالہ کردیا تو مرتبہ فانی فی اللہ باقی باللہ میں داخل ہوا اور بقابقد رفنا ہوگی یعنی جس قدر فانی فی اللہ ہوگا اسی قدرباقی باللہ ہوگا۔

حدیث شریف :

     قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ لیغان علی قلبی وانی لا ستغفراللہ فی الیوم مائۃ مرۃ۔  (مسلم ØŒ کتاب الذکر باب 12جلد ثانی ص 346مطبع اصح المطابع )

     حضور صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا: میر Û’ قلب پر غین (بادل ) آتاہے تو میں روزانہ سومرتبہ استغفار پڑھتا ہوں Û”

 ØºÛŒÙ† (بادل ) سے مرادانوار Ú©Û’ بادل یا امت Ú©Û’ گناہوں Ú©Û’ بادل ØŒ جس طرح گناہوں Ú©Û’ بادل حجاب بنتے ہیں اسی طرح انوار Ú©Û’ بادل بھی حجاب بنتے ہیں، استغفار گناہوں Ú©Ùˆ زایل کرنے کا ذریعہ، شد ت انوار Ú©Ùˆ رفع کرنے کا وسیلہ ØŒ اور عذاب Ú©Û’ دفع ہونے اور خدا کوخوش کرنے کا نسخہ ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے :

 Ø¹Ù† انس ان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للہ اشد فرحا بتوبۃ عبدہ حین یتوب الیہ من احد Ú©Ù… کان علی راحلتہ بارض فلا Ûƒ فانفلتت منہ وعلیہا طعامہ وشرابہ فا یس منہا فاتی شجرۃ فاضطجع فی ظلہا قد ائیس من راحلتہ فبین ہو کذالک اذہوبہا قائمۃ عندہ فاخذ بخطامہا ثم قال من شدۃ الفرح اللہم انت عبدی وانا ربک أخطأ من شدۃ الفرح Û”

     (مسلم کتاب التوبہ جلد 2ص355مطبع اصح المطابع )

     حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا: کہ جب بندہ خدا Ú©ÛŒ طرف توبہ (استغفار ) Ú©Û’ ذریعہ رجوع ہوتا ہے تو خدا Ú©Ùˆ نہایت خوشی ہوتی ہے (جس Ú©ÛŒ مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ یوں فرمائی) کہ ایک شخص بےآب وگیاہ جنگل میں سواری پر سفر کررہا تھا ،کسی منزل پر اس Ú©ÛŒ سواری اس سے چھوٹ گئی، جس پر اس کا توشہ، پانی تھا ØŒ اب اس Ú©Û’ پیش نظر موت ہوگئی ،عالم حسرت ویاس میں کسی درخت Ú©Û’ نیچے لیٹ گیا، بے خودی سی کیفیت طاری ہوئی ØŒ پھر اچانک کیا دیکھتا ہے کہ اس Ú©ÛŒ سواری اس Ú©Û’ پاس موجود ہے اور سازوسامان جوں کا توں موجود ہے ،تو فرط مسرت سے خدا سے معکوس خطاب کیا ’’ اللہم انت عبدی وانا ربک ‘‘اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرارب ØŒ انتہائی فرط مسرت Ú©Ú†Ú¾ کا Ú©Ú†Ú¾ کہدیا ۔کہنا تو یہ چاہتا تھا کہ تومیرا رب میں تیرا بندہ ہوں Û”(جس طرح اس مسافر Ú©Ùˆ انتہائی خوشی ہوئی اس سے زیادہ خوشی خدا Ú©Ùˆ ہوتی ہے جب بندے استغفار کرتے ہیں Û”)

استغفار درحبیب پر :  

استغفار کے لئے زماں ، مکاں کی قید نہیں، کسی بھی مقام پر استغفار کیا جاسکتا ہے ،عام حکم ہے ۔ استغفار خدا کو محبوب ہے پس اسے محبوب چیز در محبوب پر ادا ہونا خدا کو محبوب ہے، اس لئے ارشاد خداوندی ہے : ولوانہم اذ ظلموا انفسہم جاءوک فاستغفروا اللہ واستغفر لہم الرسول لو جدوا اللہ توابا رحیما (النساء 64)

جب بندے اپنے نفسوں پر ظلم وزیادتی کر بیٹھتے ہیں تو (اے حبیب صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )یہ آپ کے درپر آئیں ، خدا سے استغفار کریں ، اور حضور (صلی اللہ علیہ وسلم )ان کیلئے سفارش کریں تو ایسی صورت میں وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا پائیں گے ‘‘۔

 Ø§Ø³ØªØºÙØ§Ø± حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےدرپر ہو یہ اس لئے کہ ظالم ØŒ مجرم وہ صرف خدا کا مجرم نہیں بلکہ رسول کا بھی مجرم ہے ،جب دررسول پر حاضر ہوکر استغفار کرنے Ù„Ú¯Û’ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غلام Ú©Ùˆ معاف فرمائیں تو خدا بھی معافی دیدیگا، اب اگر دررسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچنا متعذر (عذریا مجبور ) ہوتو علماء ØŒ اولیاء Ú©Û’ در پر پہنچ جاؤ کیوں کہ یہ نائبین رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

رمضان المبارک کی عظمت :

     رمضان المبارک وہ عظمت والا مہینہ ہے جس میں نفل فرض Ú©Û’ برابر اور فرض ستر(70) فرض Ú©Û’ برابر اجر وثواب میں ہوتا ہے حتی کہ روزہ دار کا سونا بھی عبادت قرار دیا گیا جب روزہ دار Ú©Û’ سونے کا یہ عالم تو بحالت بیدار ÛŒ روزہ دارکی عبادت کا کیا عالم ہوگا؟ ایسے عظمت والے مہینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ امت پر کس قدر شفقت ورافت اور کرم فرمایا کہ کہیں ایسے مہینے میں نقص نہ آئے چار چیزوں Ú©ÛŒ طرف توجہ دلائی۔

چار چیزوں کا سوال :

     (1)جنت کا سوال (2)دوزخ سے پناہ ØŒ باقی دوچیزیں نہایت ہی اہم ہیں Û”(3)کثرت سے استغفار (4)کثرت سے لا الہ الا اللہ کا ذکر Û”

     رمضان المبارک میں کثرتِ استغفار او رکثرت لا الہ الا اللہ کا ذکر کیوں کروایا جارہا ہے ØŸ حضور صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ ہر قول وفعل میں صدہا حکمتیں ہیں ØŒ جب حکمت ظاہر ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے Û”

امریکہ کا راکٹ:

     ایک مثال پر غور فرمائے کہ امریکہ Ú©Û’ سائنس داں جب راکٹ Ú©Ùˆ چاندپر بھیجنا چاہتے تھے تو راکٹ Ú©Ùˆ جوہر ÛŒ توانائی سے چاند Ú©ÛŒ سمت حوالہ کیا گیا او رجوہری طاقت Ú©Û’ ذریعہ زمین Ú©ÛŒ کشش Ú©Ùˆ توڑتے ہوئے ایک ایسے حصہ پر پہنچا جہاں سے زمین Ú©ÛŒ کشش Ú©ÛŒ انتہا او رچاند Ú©ÛŒ کشش کا آغاز ہوتا ہے تو وہاں راکٹ پہنچ کررک گیا ایک دھماکہ (فائر) کیا گیا جس Ú©ÛŒ وجہ راکٹ چاند Ú©ÛŒ کشش (فضا)میں داخل ہوگیا۔ بلاتشبیہہ وتمثیل ہر بندہ سرتاپاؤں راکٹ ہے، اس راکٹ کا مطلوب ومقصود چاند ØŒ اور اس راکٹ کا مطلوب ومقصودخدا اور رسول ØŒ اس راکٹ Ú©Ùˆ جوہری توانائی سے چاند Ú©Û’ حوالہ کیا گیا اور اس راکٹ Ú©Ùˆ استغفار Ú©Û’ ذریعہ خدا اور رسول Ú©Û’ حوالہ کیا جاتا ہے Û”

     اس راکٹ Ú©Ùˆ روکنے والی صرف زمین Ú©ÛŒ ایک کشش تھی ØŒ اور اس راکٹ Ú©Ùˆ روکنے والی کئی کششیں ہیں (جن کا ذکر Ø¢Ú¯Û’ آئے گا) جس طرح امریکی راکٹ Ú©Ùˆ رکنے پر فائر کیا جاکر چاند Ú©ÛŒ فضاء میں داخل  کیا گیا ،اسی طرح اس راکٹ Ú©Û’ رکنے پر لا الہ الا اللہ کا فائر کیا جاتا ہے ØŒ وہا Úº ایک فائر کیا جاتا ہے ØŒ یہاں کئی کشش ہیں ان سب Ú©Ùˆ توڑنے Ú©Û’ لئے باربار کثرت سے لا الہ الااللہ Ú©Û’ فائر Ú©ÛŒ ضرورت ہے جس طرح وہ راکٹ فائر Ú©Û’ ذریعہ چاند Ú©ÛŒ فضامیں داخل ہوجاتا ہے یہ مطلب نہیں کہ وجود انسانی اڑاکر چلاجاتا ہے ØŒ یہیں بیٹھے بیٹھے خدا کا تقر ب نصیب ہوتا ہے بلکہ واصل خدا ہوجاتا ہے Û”

     حضرت شاہ خاموش قدس سرہ کاشعر

کونسی جاہے کہ جس جاپہ ترانور نہیں

پر ان آنکھوں سے تجھے دیکھنا دستور نہیں

محبوب کے باعث عذاب نہیں :

     جب کوئی چیز خدا Ú©ÛŒ محبوب ہوتی ہے تواس Ú©Û’ باعث عذاب نہیں آتا چونکہ استغفار خدا Ú©Ùˆ محبوب ہے اس لئے ارشاد ربانی ہے : وماکان اللہ معذبہم Ùˆ ہم یستغفرون جو استغفار کرتے ہیں خدا انہیں عذاب نہیں دیتا Û”

     اور سب سے زیادہ محبوب خداکے پاس جناب رسالت مآب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اس لئے ارشاد ربانی وماکان اللہ لیعذبہم وانت فیہم(الانفال 33)جن میں حضور ہوں Ú¯Û’ خدا انہیں عذاب نہیں دے گا۔

از:حضرت مولانا سید شاہ طاہر رضوی قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ صدر الشیوخ جامعہ نظامیہ

www.ziaislamic.com