Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

News

شریعت مکمل ضابطۂ حیات اور قانون زندگی


شریعت مکمل ضابطۂ حیات اور قانون زندگی

     اللہ تعالی Ù†Û’ قرآن کریم کوتمام افرادانسانی Ú©Û’ لئے سرچشمۂ ہدایت بنایا،کلام ربانی Ú©ÛŒ آیات بینات ‘ہدایات ومعارف کاگنجینہ ہیں۔قرآن کریم میں زندگی Ú©Û’ نشیب وفرازکاحل،عقائد واعمال Ú©ÛŒ اصلاح وتربیت،معاشرت ومعاملات،اخلاق وآداب،تہذیب وتمدن سے متعلق جامع احکام وقوانین موجود ہیں۔

قرآن کریم کو اللہ تعالی اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل فرماکر آیات کی تبیین اور اجمال کی تفصیل آپ کے سپرد فرمادی ۔آپ کو تشریح کا حکم بھی فرمایا اور تشریع کا حق بھی دیا،اسی لئے آپ آیات قرآن کے شارح ومبَیّن بھی ہیں اور قانونِ اسلام کے شارع ومُقَنِّن بھی ۔

 Ø³ÙˆØ±Û‚ نحل میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:ترجمہ:اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم!بیشک ہم Ù†Û’ آپ Ú©ÛŒ طرف عظیم ذکر (قرآن)نازل کیا Ø› تاکہ آپ لوگوں Ú©Û’ لئے (اس Ú©Û’ احکام)خوب واضح فرمائیں جو‘ان Ú©ÛŒ طرف اتارے گئے ہیں Û” (سورۃ النحل:44)

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو شریعت کا ایک پاکیزہ نظام اور الہی قانون عطا فرمایا،جو ‘مکمل ضابطۂ حیات اور قانون زندگی ہے،خدائے تعالی کے نازل کردہ اس نظام میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی؛کیونکہ یہ اس ذات کا نازل کردہ نظام ہے جو ‘رب العالمین ہے،انسانی ضروریات کا جاننے والا،ان کی فطرت وطبیعت سے واقف،نفع وضرر،نقص وکمال اور صنفی کمزوری کا جاننے والا ہے،جس کے لئے ماضی،حال ومستقبل ‘سب یکساں ہے،اس کے بنائے ہوئے قانون میں تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا۔

سورۂ جاثیہ کی آیت نمبر18میں اللہ تعالی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے امت کو حکم دیا ہے:پھر ہم نے دین کے معاملہ میں تم کو صحیح راہ پر پختہ کردیا ہے،تو تم اس کی پیروی کرتے رہو اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرو جو بے علم ہیں۔یہ لوگ اللہ تعالی کے مقابلے میں تمہیں قطعاً کچھ فائدہ نہ پہنچاسکیں گے۔بیشک ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ومددگار ہیں،اور اللہ تعالی تو متقی وپرہیزگاروں کا دوست ومددگار ہے۔(45۔الجاثیۃ:18)

اسلام نے عورت کو اس کا مکمل حق دیا ہے،شرعی احکام میں اس کے لئے خصوصی رعایت رکھی گئی ہے،زمانہ جاہلیت میں عورت کو جینے کا حق بھی حاصل نہ تھا،حقیقی باپ خود اسے درگور کرکے اس کا حق زندگی چھین لیتا تھا،اسلام نے اسے حق زندگی عطا کیا ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے بعد جب حضرت ثویبہ نے ابو لہب کو بشارت دی کہ تمہارے بھائی حضرت عبد اللہ کے گھر لڑکا تولد ہوا ہے تو ابو لہب نے خوش ہوکر حضرت ثویبہ کو آزاد کردیا۔ یہ آپ کی آمد مبارک کا فیض تھا جو سب سے پہلے ایک عورت کو ملا،غلامی کی زندگی بسر کرنے والی ایک خاتون کو آپ کی نسبت سے آزادی مل گئی۔اسلام نے عورت کو تعلیمی،معاشی،سماجی اورسیاسی تمام حقوق دئے ہیں،دینی دنیوی ہر دوجہت سے کسی بھی میدان میں اسے نظر انداز نہیں کیا گیا،اجر وثواب ،اخروی درجات کے سلسلہ میں بھی اللہ تعالی نے صنف کا فرق نہیں رکھا،نیک عمل پر جتنا ثواب مرد کے لئے مقرر ہے اتنا ہی عورت کے لئے طئے ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو نہ صرف جینے کا حق دیا بلکہ لڑکی کی پیدائش کو سارے افراد خاندان کے حق میں باعث رحمت وبرکت قرار دیاہے،آپ نے ارشاد فرمایا:جب کسی شخص کو لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کی ایک جماعت کو بھیجتاہے،وہ فرشتے تمام گھر والوں سے کہتے ہیں:اے گھر والو!تم پر سلام ہو!اس لڑکی کو فرشتے اپنے پروں سے ڈھانک لیتے ہیں اور اپنے نورانی ہاتھوں کو اس کے سر پر پھیرتے ہیں،اور کہتے ہیں:ایک کمزور جان ہے جو کمزور جان سے نکلی ہے،اس کی نگہداشت کرنے والوں کی قیامت تک مدد کی جائے گی۔

جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے:جس شخص کو لڑکیوں کے سلسلہ میں کسی طرح آزمایا جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو وہ لڑکیاں اس شخص کے لئے دوزخ سے آڑ بن جاتی ہیں۔

آج یہ پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے کہ اسلام نے تعلیم کے میدان میں عورت کو نظر انداز کیا ہے جبکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

جب پہلی وحی کا نزول ہوا توحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کو وہ آیات سنائیں، سب سے پہلے آیات قرآنیہ کی سماعت کا شرف ایک عورت کوحاصل ہے۔

اسلام نے عورت کو ہرلحاظ سے عظمت عطا فرمائی ہے،اگر وہ بیٹی ہے تو رحمت وبرکت کا ذریعہ ہے،اگروہ بیوی ہے تو اسے تکمیل ایمان کا ذریعہ قرار دیا ،اگر وہ ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہونے کی بشارت دی۔ صنف نازک پر مہربانی اور نرمی کا برتاؤکرنے کی تاکید کی ہے،آپ نے اس سلسلہ میں مسلم وغیر مسلم خاتون کی قیدنہیں رکھی،عورت خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو بحیثیت عورت وہ قابل احترام ہے۔

اسلام نے کسی غیر مسلم عورت کے ساتھ نامناسب حرکت کرنے سے بھی منع کیا ہے۔اسلام کی نظر میں عورت معاشی لحاظ سے بھی بااختیار ہے،وہ ہرجائز چیز کی مالک بن سکتی ہے،حدود شریعت کا لحاظ کرتے ہوئے معاملات بھی کرسکتی ہے۔سیاسی اعتبار سے بھی وہ بااختیار ہے،اسے رائے دینے کا مکمل حق ہے۔

حضرت مریم رضی اللہ عنہا وآسیہ رضی اللہ عنہا کا قرآن کریم میں اہتمام سے ذکر کیا گیا ہے۔

از:ضیاء ملت حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی مجددی قادری دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر،حیدرآباد