Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

News

جہیز کی رسم معاشرہ کے لئے ایک ناسور


جہیز کی رسم معاشرہ کے لئے ایک ناسور

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اکل حلال اور صدق مقال کی تعلیم دی اور ناروا طریقہ سے دولت حاصل کرنے اور حرام مال کھانے سے منع کیا ہے،دور حاضر میں لوگ سائنس وٹکنالوجی اور عصری علوم کے لحاظ سے ترقی تو کررہے ہیں لیکن تہذیب وتمدن اخلاق وکردار کے لحاظ سے وہ زوال وانحطاط کا شکار ہیں،معاشرہ کو تباہ کرنے والی ایک فرسودہ رسم’’جہیز‘‘ہے،جو ہمارے سماج کے لئے ایک ناسور بن چکی ہے۔معاشرہ کو اس قبیح رسم سے پاک کرنا اشد ضروری ہے۔

جہیز کےمطالبہ سے معاشرہ پر مرتب ہونے والے اثرات

جہیز کا مطالبہ کرنا مذہبی وسماجی ہر لحاظ سے برا ہے،جہاں جہاں یہ مکروہ رسم ہے وہاں لوگ مشکلات سے دوچارہیں،جہیز کے نام پر اس طرح مطالبات بڑھ گئے ہیں کہ عام آدمی تو کجا متوسط آمدنی والے بھی ان کی تکمیل نہیں کرسکتے۔

ایسے وقت سرپرست پریشانی کے عالم میں یا تو خودکشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں یا سودی قرض حاصل کرکے لڑکے والوں کے مطالبات پورے کرتے ہیں اور بعض افراد جنہیں مالی اسباب فراہم نہیں ہوتے وہ کفریہ کلمات بھی کہہ دیتے ہیں۔

جہیز کے اس قبیح رواج کے سبب کئی لڑکیاں ان بیاہی بیٹھی ہوئی ہیں کیونکہ ماں باپ ان کی شادی کے اخراجات کے متحمل نہیں ،اگر لڑکیاں غلط راستہ پر قدم بھی رکھتی ہیں تو ماں باپ انہیں نہیں روک پاتے۔

شادی کے اخراجات تکمیل نہ کرپانے کے خوف سے بعض لوگ حج جیسے عظیم فریضہ کی ادائی سے رک رہے ہیں۔

جہیز کا مطالبہ'دیگر مذاہب کی دین

نکاح بقاء نوعی کا ذریعہ ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی سنت کریمہ قرار دیا ہے،نکاح کی بدولت عزت وآبرو کا تحفظ ہوتا ہے،لہذانکاح کو بیجارسوم سے پاک کیا جائے اور سنت کے مطابق انجام دیاجائے۔

تاریخ اسلام میں کسی صحابی سے متعلق یہ نہیں ملتا کہ انہوں نے جہیز کا مطالبہ کیا ہو،دراصل یہ دیگر مذاہب کی دین ہے جو مسلم معاشرہ کو تباہ کررہی ہے،دیگر مذاہب میں چونکہ باپ کے مرنے کے بعد بیٹی کو وراثت نہیں ملتی اسی لئے باپ‘بیٹی کی شادی کے موقع پر اسے بھر پورطریقہ سے جہیز دیتا ہے اور باپ کے مرنے کے بعد لڑکی‘ مال متروکہ میں حصہ دار نہیں قرار پاتی لیکن مذہب اسلام نے عورت کووراثت کا حق دیا ہے۔

جہیز کے مطالبہ کی ممانعت

کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ بلاضروت شدیدہ کسی کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلائے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لاَ تَحِلُّ لِغَنِىٍّ وَلاَ لِذِى مِرَّةٍ سَوِىٍّ إِلاَّ لِذِى فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِيُثْرِىَ بِهِ مَالَهُ كَانَ خُمُوشًا فِى وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَرَضْفًا يَأْكُلُهُ مِنْ جَهَنَّمَ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُقِلَّ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُكْثِرْ Û”

ترجمہ:مالداراورسلیم الاعضاء شخص Ú©Û’ لئے مانگناحلال نہیں ہے سوائے خاک نشین تنگدست Ú©Û’ یا شدیدحاجت مندکے اورجو شخص لوگو Úº سے مال میں اضافہ Ú©Û’ لئے سوال کرے تویہ (سوال کرنا)اس Ú©Û’ لئے بروزقیامت اس Ú©Û’ چہرے پرکھروچے اورخراش Ú©ÛŒ صورت میں ہوگا اور دوزخ Ú©Û’ انگارے Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں نمودار ہوگا جسے وہ کھائے گا ،جس کا جی چاہے وہ اپنے لئے یہ عذاب Ú©Ù… کرے یا بڑھائے Û”(جامع ترمذی،ابواب الزکوۃ، Ø¨Ø§Ø¨ ما جاء من لا تحل له الصدقة.حدیث نمبر655)

حضرات فقہاء کرام نے صراحت کی ہے کہ شادی کے موقع پر لڑکی والوں کا لڑکے سے مال کا مطالبہ کرنا مال سُحْت ہے جو رشوت کے حکم میں آتاہے۔اسی طرح لڑکے والوں کا لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا بھی ناجائز وحرام ہے،چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِل Û”

ترجمہ:اے ایمان والو!آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طور پر نہ کھایا کرو۔(سورۃ النساء: 29)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلند کردار اور اعلی ظرف کا حامل بنایا ہے،آپ نے شخصیتوں کی اس طرح تعمیر کی کہ مانگنے والوں کو عطا کرنے والا بنادیا۔

شرح معانی الاثار حدیث شریف ہے  Ú©Û ایک صحابی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©ÛŒ خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے گھر والوں Ú©ÛŒ حالت یہ ہے کہ میرے لوٹنے تک بھوک Ú©Û’ سبب ان میں سے کسی Ú©ÛŒ موت واقع ہوجائے گی،آپ Ù†Û’ دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟انہوں Ù†Û’ عرض کیا کہ ایک پیالہ اور ٹاٹ ہے۔آپ Ù†Û’ صحابۂ کرام سے فرمایا:تم میں سے کون ایسا شخص ہے جو 'ان دوچیزوں Ú©Ùˆ ایک درہم Ú©Û’ بدلہ خریدلے؟ایک صحابی تیار ہوگئے،آپ Ù†Û’ دوبارہ اعلان فرمایا کہ انہیں دو درہم Ú©Û’ بدلہ کون خریدے گا؟ ایک صحابی Ù†Û’ انہیں دو درہم Ú©Û’ بدلہ خرید لیا،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ù†Û’ ان سے فرمایا :ایک درہم سے گھر والوں Ú©Û’ لئے کھانا Ù„Û’ جاؤ اور ایک درہم سے کلہاڑی خریدلو اور جنگل سے Ù„Ú©Ú‘ÛŒ کاٹ کر فروخت کرو۔آپ Ù†Û’ اپنے مبارک ہاتھ سے کلہاڑی میں دستہ لگایا،اور فرمایا کہ دس دن Ú©Û’ بعد واپس آنا۔دس دن Ú©Û’ بعد جب وہ صحابی حاضر ہوئے تو عرض کرنے Ù„Ú¯Û’ : اب میری زندگی برکتوں سے مالامال ہے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ { Ø£ÙŽÙ†ÙŽÙ‘ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ØŒ فَشَكَا إلَيْهِ الْفَاقَةَ ØŒ ثُمَّ عَادَ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ØŒ لَقَدْ جِئْت مِنْ عِنْدِ أَهْلِ بَيْتٍ ØŒ مَا أَرَى أَنْ أَرْجِعَ إلَيْهِمْ حَتَّى يَمُوتَ بَعْضُهُمْ Ø¬ÙÙˆØ¹Ù‹Ø§ ØŒ قَالَ انْطَلِقْ هَلْ تَجِدُ مِنْ شَيْءٍ .فَانْطَلَقَ فَجَاءَ بِحِلْسٍ وَقَدَحٍ ØŒ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ØŒ هَذَا الْحِلْسُ ØŒ كَانُوا يَفْتَرِشُونَ بَعْضَهُ وَيَلْتَفُّونَ بِبَعْضِهِ ØŒ وَهَذَا الْقَدَحُ كَانُوا يُشْرِبُونَ فِيهِ .فَقَالَ مَنْ يَأْخُذُهَا مِنِّي بِدِرْهَمٍ ØŸ فَقَالَ رَجُلٌ : أَنَا ØŒ فَقَالَ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ ØŸ فَقَالَ رَجُلٌ : أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ ØŒ قَالَ هُمَا Ù„ÙŽÙƒ .فَدَعَا بِالرَّجُلِ فَقَالَ اشْتَرِ بِدِرْهَمٍ طَعَامًا لِأَهْلِك ØŒ وَبِدِرْهَمٍ فَأْسًا ثُمَّ ائْتِنِي فَفَعَلَ ØŒ ثُمَّ جَاءَ ØŒ فَقَالَ انْطَلِقْ إلَى هَذَا الْوَادِي فَلَا تَدَعَن فِيهِ شَوْكًا وَلَا حَطَبًا ØŒ وَلَا تَأْتِنِي إلَّا بَعْدَ عَشْرٍ فَفَعَلَ ØŒ ثُمَّ أَتَاهُ فَقَالَ بُورِكِ فِيمَا أَمَرْتنِي بِهِ Û”(شرح معانی الاثار،کتاب النکاح)

مقام غورہے! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی نازک حالت میں بھی صحابی کو مانگنے کی اجازت نہیں دی بلکہ محنت کرکے اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کرنے کی تعلیم دی۔

اگر نوجوان تیار ہوجائیں کہ وہ ہرگز جہیز کا مطالبہ نہیں کریں گے تو قریب ہے کہ سماج سے جہیز کی لعنت دفع ہوجائے گی اور ایک صالح معاشرہ قائم رہے گا۔

از:مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر حیدرآباد الہند

www.ziaislamic.com