<div style="text-align: right"><span style="font-family: alvi Nastaleeq v1.0.0"><span style="font-size: 22px">یہ کوئی نیا عنوان نہیں ہے مگر ہرآنے والے دن اس کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھتی جارہی ہے ، بعض مخالف اسلام طاقتیں اور خواہش نفس کا شکار تنظیمیں اس کی مخالفت کرتی رہی ہیں ، موجودہ حالات میں پوری دنیا کے اندریہ مسئلہ نہایت اہم مسائل سے بن گیا ہے۔ <br /> <br /> لمحۂ فکر: <br /> آج مساوات اور آزادی نسواں کے نام سے عورتوں کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ تم کب تک گھر کی چار دیواری کے اندرقید وبندکی آہنی زنجیروں میں جکڑی رہوگی ؟<br /> <br /> اب آزادی کا دور ہے اور تمہیں اس جان لیوا قید سے باہر آکر مردوں کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے زندگی کے ہر شعبہ میں حصہ لینا ہے ، دلفریب نعروں کے ذریعہ عورت کو گھر کی خوشگوار وعصمت مآب فضاء سے نکال کر سٹرکوں ، بازاروں ، کلبوں اور پارکوں میں لایا گیا ، اسے دفتروں ومحکموں میں تھکا دینے والے مختلف کاموں پر لگایا گیا ، دکانوں اور ہوٹلوں میں تفریح طبع کا ذریعہ بنایا گیا یہاں تک وہ عورت جس کے سر پر اسلام نے عزت و وقار کا قیمتی تاج رکھا تھا ، جس کو اخلاق وحیاء کی عظیم چادر بخشی تھی اور عفت وعصمت کی خلعت فاخرہ پہنائی تھی آج وہ تجارتی اداروں کے لئے ایک شو پیس اور تفریحی چیز بنادی گئی ، وہ کلب پارکوں اور تھیٹروں میں عریاں ونیم عریاں ہوکر جنسی بے راہ روی اور خواہشات نفسانی کی تکمیل کا ذریعہ بنادی گئی – <br /> <br /> صد افسوس یہ سب کچھ آزادی نسواں کے نام پر کیا گیا ، عورت گھر کے اندر ملکہ بن کراپنے اور اپنے شوہر ، ماں باپ ، بھائی ، بہن اور اولاد کے لئے خانہ داری کا نظم ونسق چلائے تو اس کو قید وغلامی کا نام دیا جائے لیکن وہی عورت بے پردہ ہوکر اجنبی مردوں کے لئے کھانا پکائے اور ان کے کمروں کی صفائی کرے ، ہوٹلوں اور جہازوں میں ان کی میزبانی کرے ، دکانوں پر گاہکوں کا استقبال کرے ، دفاتر اور محکموں میں افسربالا کی نازبرداری کرے تو اسے حریت اور آزادی کا نام دیا جائے ۔ <br /> <br /> خرد کا نام جنوں رکھدیا جنون کا خرد <br /> <br /> <br /> جو چاہے تیرا حسن کرشمہ سازی کرے <br /> <br /> <br /> یہ سب کچھ عورت کی آزادی کے نام سے ہورہا ہے ، اس کو پردہ سے نکال کر اجنبی مردوں کی حرص وہوس کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور عورت کی عفت وعصمت اور حیاداری کی کوئی قیمت باقی نہ رہی - <br /> <br /> ان حالات کے تناظر میں پردہ کا مسئلہ دور حاضر کے سلگتے مسائل میں سے ہوگیا ہے۔ <br /> <br /> اسلام میں عورت کی آزادی پر نہایت زور دیا گیا ہے اور ہرگز یہ گوارا نہیں کیا گیا کہ عورت باندی و کنیز بن کر رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی عصمت وعفت کا اسی قدر پاس ولحاظ رکھا گیا اور یہ بغیر پردہ کے ممکن نہیں ‘ اس کا ایک عام مشاہدہ ہے کہ دس مرد اگر کہیں سے گذرجائیں تو ان کو کوئی دیکھتا بھی نہیں لیکن ایک عورت گذرتی ہے تو نظریں اس کی طرف اٹھنے لگتی ہیں -<br /> <br /> اللہ تعالی نے عورت کی ساخت میں ایک قوت جاذبیت رکھی ہے ، اگر اس کے لئے کوئی انتظام نہ ہو تو ہزاروں فتنے جنم لیں گے، جوآگ کے شعلوں کی طرح تہذیب وثقافت کی فلک بوس عمارت کو چشم زدن میں بھسم کرکے رکھدینگے، چنانچہ اسلام نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ سارے انسان خواہ مرد ہو کہ عورت اللہ کے بندے ہیں ،سب کے سب حضرت آدم و حضرت حوا علیہما السلام کی اولاد ہیں ، مرد و عورت آپس میں کسی کے غلام نہیں ، سماج میں دونوں مساوی ہیں البتہ ان میں تخلیقی قوتوں کے اعتبار سے فرق ضرور ہے ، اسی لئے دونوں کا دائرہ عمل جداگانہ ہے ، سماجی نظام کی تکمیل میں دونوں برابر کے شریک ہیں ، مرد تدبیر مملکت کےلئے ہے تو عورت تدبیرمنزل کےلئے -<br /> <br /> اسلام نے یہ بتایا کہ عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہے:<br /> <br /> <span style="font-family: traditional Arabic">وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى –<br /> </span><br /> اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے کو دکھاتی نہ پھرو۔ (سورۃ الاحزاب:33) <br /> <br /> اس سے ظاہر ہے کہ نمائش کے لئے بن سنور کر نکلنا درست نہیں البتہ کسی ضرورت کے لئے باہر نکلنا شرعا جائز ہے چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے :<br /> <br /> <span style="font-family: traditional Arabic">قَدْ أَذِنَ اللَّهُ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِكُنَّ-<br /> </span><br /> ترجمہ: تم کو اپنی ضرورتوں کے لئے باہر نکلنے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے- <br /> <br /> (صحیح بخاری شریف ، کتاب النکاح ،باب خروج النساء لحوائجہن، حدیث نمبر:4836) <br /> <br /> لیکن اس کے لئے اصول وقوانین دے گئے ہیں کہ وہ کس طرح پردہ کا اہتمام کریں کیونکہ پردہ ان کی عفت وعصمت کا محافظ ہے اور عفت وعصمت عورت کا جوہر ہے ، جس عورت کا یہ جوہرداغ دار ہوجاتاہے وہ اخلاق کی بلندی سے اتر کر قعر مذلت میں جا پڑتی ہے اس لئے پردے کا حکم دیا گیا۔ <br /> <br /> حجاب کے درجات <br /> <br /> اسلام نے عورت کے اصولی طور پر گھر میں رہنے اور بوقت ضرورت باہر نکلنے ہردو صورتوں میں پردے کے معتدل ومتوازن حدود وقیود مقرر کئے ہیں ۔ <br /> <br /> پہلا درجہ: <br /> <br /> حجاب کے سلسلہ میں پہلا درجہ حجاب اشخاص کا ہے کہ عورتوں کا شخصی وجود اور ان کی نقل وحرکت مردوں کی نظروں سے مستور ہو ، وہ اپنے گھروں میں رہیں اور ان کے لباس وپوشاک پر بھی اجنبی مردوں کی نظرنہ پڑے ، یہ اعلیٰ درجہ کا پردہ ہے چنانچہ اس سلسلہ میں باری تعالی کا ارشاد ہے:<br /> <br /> <span style="font-family: traditional Arabic">وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى –<br /> </span><br /> اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے کو دکھاتی نہ پھرو۔ (سورۃ الاحزاب:33) <br /> <br /> اور ارشاد خداوندی ہے:<br /> <br /> <span style="font-family: traditional Arabic">وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ –<br /> </span><br /> ترجمہ:اور جب عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ (سورۃ الاحزاب:53)<br /> <br /> جامع ترمذی ،سنن ابوداؤد اور مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے:<br /> <br /> <span style="font-family: traditional Arabic">عَنْ نَبْهَانَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَيْمُونَةَ قَالَتْ فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ أَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أُمِرْنَا بِالْحِجَابِ ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : احْتَجِبَا مِنْهُ ! فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَلَيْسَ هُوَ أَعْمَى لَا يُبْصِرُنَا وَلَا يَعْرِفُنَا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ ؟-</span><br /> <br /> ترجمہ:سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما حضرت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھیں ، اتنے میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں سے ارشاد فرمایا : ان سے پردہ کرو!حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تونا بینا ہیں ، ہم کو تو وہ دیکھ نہیں سکتے ، آپ نے جواب میں فرمایا: کیا تم بھی نابینا ہو؟ اور فرمایا : تم ان کو نہیں دیکھ سکتیں ۔<br /> <br /> (جامع ترمذی ، کتاب الأدب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال،حدیث نمبر:2702- <br /> <br /> سنن ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی قولہ عز وجل وقل للمؤمنات یغضضن من أبصارہن ، حدیث نمبر:3585- <br /> <br /> مسند امام احمد ، مسند الأنصار رضی اللہ عنہم، حدیث أم سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر: 2702) <br /> <br /> مجمع الزوائد اور کنز العمال میں حدیث مبارک ہے :<br /> <br /> عن على أنه كان عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : أي شئ خير للمرأة ؟ فسكتوا ، فلما رجعت قلت لفاطمة : أي شئ خير للنساء ؟ قالت: لا يراهن الرجال- فذكرت ذلك للنبى صلى الله عليه وسلم ، فقال : أنها فاطمة بضعة منى. <br /> <br /> ترجمہ:حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، میں ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھا ، آپ نے صحابہ کرام سے سوال فرمایا : عورت کے لئے کیا چیز بہتر ہے ؟ " صحابہ کرام نے سکوت اختیار کیا ، پھر جب میں اپنے گھر گیا تو فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :عورتوں کے لئے بہتریہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد ان کو نہ دیکھیں ۔ میں نے ان کا یہ جواب حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ذکر کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" صدقت انها بضعة منی" انہوں نے سچ کہا ہے ، بے شک وہ میرا پارۂ جگر ہے ۔<br /> <br /> ( مجمع الزوائد : باب أی شء خیر للنساء ،ج4، ص255- کنز العمال، باب فی ترغیبات النساء وترہیباتہن، حدیث نمبر:46012) <br /> <br /> دوسرا درجہ: <br /> ضرورت کے وقت عورت کو جب باہر نکلنا پڑے تو حکم دیا گیا کہ وہ کسی برقع یا لمبی چادر کو سرسے پیر تک اوڑھ کر نکلے ، اس طرح کہ بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہواور وہ خوشبولگائے ہوئے نہ ہو، بجنے والا کوئی زیور نہ پہنے ، راستہ کے کنارے پر چلے ، مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:<br /> <br /> <span style="font-family: traditional Arabic">يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ-<br /> </span><br /> ترجمہ: اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی ازواج مطہرات و بنات طیبات اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیجئے کہ اپنے اوپر ایک بڑی چادر اوڑھ لیں ، اس سے بآسانی ان کا شریف زادی ہونا معلوم ہوجائے گا ، انہیں ستایا نہیں جائے گا۔(سورۃ الاحزاب: 59) <br /> تیسرا درجہ: <br /> گھر کے اندر رشتہ داروں ، عزیزوں ، ملازمین واحباب کے آنے جانے اور انفرادی واجتماعی طور پر کھانے پینے سے منع نہیں کیا گیا البتہ اس سلسلہ میں اصولی ہدایات دی گئیں :<br /> <br /> <span style="font-family: traditional Arabic">وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آَبَائِهِنَّ أَوْ آَبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ <br /> </span><br /> ترجمہ: اور آپ حکم فرمادیجئے ایماندار عورتوں کو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور حفاظت کیا کریں اپنی عصمتوں کی اور نہ ظاہر کیا کریں اپنی آرائش کو مگر جتنا اس سے خود بخود نمایاں ہو اور ڈالے رہیں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ، نہ ظاہر ہونے دیں اپنی آرائش کو مگر اپنے شوہروں کے لئے یا اپنے باپ کے لئے یا شوہر کے باپ کے لئے یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوند کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں کے لئے اپنے بھانجوں کےلئے یا اپنی ہم مذہب عورتوں پر یا اپنی باندیوں پر یا اپنے ایسے نوکروں پر جو عورت کے خواہشمند نہ ہوں یا ان بچوں پر جو عورتوں کی پوشیدہ چیزوں سے واقف نہ ہوں اور نہ زور سے ماریں اپنے پاؤں زمین پر کہ معلوم ہوجائے وہ بناؤسنگار جس کو وہ چھپائے ہوئے ہیں اور رجوع کرو اللہ کی طرف تم سب اے ایمان والو تاکہ تم بامراد ہوجاؤ۔(سورۃ النور:31) <br /> <br /> جہاں تک مرد اور عورت کے تعلق کا مسئلہ ہے تو اس میں بعض ایسے رشتے آتے ہیں جو فطرۃ عورت کی عصمت وعفت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں یہ وہ رشتے ہیں جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح کرنا حرام ہے ، ان کو محارم کہتے ہیں جیسے باپ ، دادا ، نانا، بھائی چچا، ماموں ، بھتیجا، بھانجہ ، پوتا ، نواسہ، خسر، وغیرہ اور بہت سے وہ رشتے ہیں جن سے نکاح کرنا جائز ودرست ہے ان کو غیر محارم کہا جاتاہے جیسے چچازاد بھائی ، ماموں زاد بھائی ، خالہ زاد بھائی ، پھوپھی زاد بھائی ، دیور جیٹھ وغیرہ - <br /> <br /> اوریہ ایک فطری بات ہے کہ تمام رشتے آپس میں برابر نہیں ہوسکتے ، بعض تو وہ ہیں جن کی طرف نظریں اٹھتی ہی نہیں اور وہ خود اس کی عفت وعصمت کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں ، اور بعض تو وہ ہیں جن کی طرف نظریں اٹھ سکتی ہیں اس لئے اسلام نے پردہ کے احکام میں بھی فرق کردیا ہے ، اس لحاظ سے اس کی دوقسمیں بنتی ہیں۔ <br /> <br /> عورت کے پردہ سے متعلق احکام قرآن مجید کی سات آیات میں بیان کئے گئے ہیں! <br /> <br /> سورۂ نور کی تین آیات اور سورۂ احزاب کی چار آیات -<br /> <br /> پردے کے بارے میں تقریبا ستر(70) احادیث شریفہ میں احکام بتلائے گئے ہیں -<br /> <br /> شوہر سے پردے کا تو کوئی مسئلہ نہیں وہ اپنی بیوی کے سرسے لیکر قدم تک کے ہر حصۂ بدن کو دیکھ سکتا ہے تاہم آداب میں یہ بات داخل ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی شرمگاہ کو نہ دیکھیں - <br /> <br /> وقال الحنفية من الادب ان يغض کل من الزوجين النظر عن فرج صاحبه -<br /> <br /> (الموسوعۃ الفقھیہ ، ج31،ص:53)<br /> <br /> البتہ باپ دادا اور دیگر محارم سے پردے کے سلسلہ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ عورت ناف سے لیکر گھٹنے تک ، پیٹ پیٹھ اور ران کو مستور رکھے ۔<br /> <br /> محارم میں سے کسی کو بھی ان اعضاء کے دیکھنے کی اجازت نہیں ، ان کے علاوہ دیگر اعضاء جیسے چہرہ ، سر، پنڈلی اور بازو وغیرہ تو اس کو دیکھنے میں شرعا کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو جیسا کہ ہدایہ کتاب الکراہیۃ میں ہے:<br /> <br /> وينظر الرجل من ذوات محارمه الی الوجه والراس والصدر والساقين والعضدين ولاينظر الی ظهر ها وبطنها وفخذها ، والاصل فيه قوله تعالی " ولا يبدين زينتهن الا لبعولتهن الاية ۔<br /> <br /> والمراد الله اعلم مواضع الزينة وهي ماذکرنا فی کتابنا ويدخل فی ذلک الساعد والاذن والعنق والقدم لان کل ذلک موضع الزينة بخلاف الظهر والبطن والفخذ لانها ليست مواضع الزينة <br /> <br /> (هداية کتاب الکراهية، ص 461<br /> </span></span></div>