Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

غوث اعظم رضی اللہ عنہ علمی جلالت، فیضان اور تعلیمات


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنْ، وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِ الْاَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنْ، وَعَلٰی آلِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنْ، وَاَصْحَابِہِ الْاَکْرَمِیْنَ اَجْمَعِیْنْ،وَعَلٰی مَنْ اَحَبَّہُمْ وَتَبِعَہُمْ بِاِحْسَانٍ اِلَی یَوْمِ الدِّیْنْ۔
اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ، بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ : اَللّٰہُ يَجْتَبِیْ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَائُ وَيَہْدِیْ اِلَيْہِ مَن يُّنِيْبْ۔صَدَقَ اللّٰہ الْعَظِيم۔

ہر انسان کی تخلیق کا مقصد رب العالمین کی عبادت اور اس کی بندگی ہے۔ بندگانِ خدا اپنے مولیٰ کے حضور اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے عبادت کرتے ہیں، اسے راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ہمیشہ اس کی رضا حاصل کرنے کی فکر کرتے ہیں اور پروردگارِعالم انہیں د ارین میں اس کا صلہ عنایت فرماتا ہے، انہیں اپنی بارگاہ میںاعلی درجات مرحمت فرماتاہے، اپناخاص قرب عطا فرماتا ہے اور انہیںمقبولِ بارگاہ بناکر منصب ولایت سے سرفرازفرماتا ہے اوریہ ایسا عظیم منصب ہے جو رب العالمین اولیا ء کرام کو ان کی ریاضتوں اور مجاہدات کے صلہ میں عطا فرماتاہے اور بعض خوش نصیب وہ ہوتے ہیں جنہیں حق تعالی ریاضت ومجاہدہ کے بغیر ہی اپنی بارگاہ میں مقبول بنالیتا ہے اور درجۂ ولایت پر فائز فرماتاہے ، جیسا کہ ارشادِ رب العزت ہے :
اَللّٰہُ يَجْتَبِیْ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَائُ وَيَہْدِیْ اِلَيْہِ مَن يُّنِيْبْ۔اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی بارگاہ کے لئے چن لیتا ہے اور جو رجوع ہوتا ہے اسے اپنی طرف ہدایت دیتا ہے ۔ (سورۃ الشوریٰ ۔13)

پروردگار عالم جن اولیاء کا ملین ومحبوبین بارگاہ کو بغیر ریاضت ومجاہدہ، محنت ومشقت کے محض اپنی عطاوکرم سے چن لیتا ہے اور اپنا محبوب بنالیتا ہے اور انہیں اپنے خوانِ کرم سے انعام واکرام سے سرفراز فرماتاہے،انہی خاصانِ خدا،بزرگ وباعظمت، محبوب ومقرب نفوس قدسیہ میں بے مثال شان والی ہستی، محبوب سبحانی، قطب ربانی ، غوث صمدانی، قندیل نورانی ابومحمد محی الدین سیدنا عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رضی اللہ عنہ ہیں؛ جنہیں خدائے کریم نے اپنی بارگاہ میں خصوصی مقام عطا فرمایا ہے اورآپ کو تمام اولیاء کرام کا سردار اور ان کاپیشوا ومُقْتَدٰی بنایاہے۔ اس عطائے الہی اور انتخابِ خداوندی کے آثارآپ کی ولادت سے قبل ہی ظاہر ہورہے تھے ، جیسے جب ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں تو رحمت باراں کے نزول کی خوشخبریاں دیتی ہوئی گزرجاتی ہیں، اسی طرح آپ کی ولادت باسعادت سے قبل خوشخبریاں دی گئیں اور آپ کی ولادت اور محبوبیت سے متعلق نوید مسرت سنائی گئی ۔

ولادت باسعادت کی خوشخبری

طبقات کبری ، بہجۃ الاسرار ، قلائد الجواہر، نفحات الانس ، جامع کرامات اولیاء ، نزہۃ الخاطر الفاتراور اخبار الاخیاروغیرہ کتب میں حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت کے واقعات اس طرح مذکور ہیں:

محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے والد ماجد حضرت ابو صالح سید موسی جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے آپ کی ولادت کی شب مشاہدہ فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی مبارک جماعت کے ساتھ آپ کے گھر جلوہ افروز ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اولیاء کرام بھی حاضرہیں، حبیب پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم انہیں اس خوشخبری سے سرفراز فرمارہے ہیں :
یا ابا صالح! اعطاک اللہ ابنا وھو ولیی ومحبوبی ومحبوب اللہ تعالی، وسیکون لہ شان فی الاولیاء والاقطاب کشأنی بین الانبیاء والرسل۔

اے ابو صالح! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسا فرزندصالح سرفرازفرمایا ہے جو میرا مقرب ہے، وہ میرا محبوب اور اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے اورعنقریب اولیاء اللہ اور اقطاب میں ان کی وہ شان ظاہرہوگی جو انبیاء اور مرسلین میں میری شان ہے۔

(تفریح الخاطر،المنقبۃ الثانیۃ ، ص:57)

حضرت ابو صالح موسی جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالی علیہ خواب میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے علاوہ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کے دیدار پرانوار سے مشرف ہوئے اور سبھی نے آپ کویہ بشارت دی کہ’ تمام اولیاء کرام تمہارے فرزندار جمند کے مطیع ہوں گے اور ان سب کی گردنوں پر ان کا قدم ہوگا‘۔

جس رات حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی ،اس رات جیلان شریف کی جن عورتوں کے ہاں ولادت ہوئی، ان سب کو اللہ تعالی نے لڑکا ہی عطا فرمایا اور اُن میں سے ہر لڑکا، اللہ تعالیٰ کاولی بنا۔

آپ کا نام نامی اسم گرامی: عبدالقادر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )ہے

کنیت شریفہ: ابو محمد (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)ہے

القاب مبارکہ: محی الدین ، محبوب سبحانی ، غوث الثقلین، پیران پیراور غوث اعظم دستگیروغیرہ ہیں۔
اس کے علاوہ آپ کے علمی، اخلاقی اور روحانی اوصاف اور خصائل پر علماء عظام نے آپ کو بڑے بڑے القابات سے یاد کیا ہے- چند ایک درج ہیں:
ذوالبیانین، کریم الجدین والطرفین، صاحب البرہانین والسلطانین، امام الفریقین والطریقین، ذو السراجین و المنھاجین وغیرھا.(قلائد الجواہر، ص:5)

آپ کی ولادت29!شعبان المعظم 470 ؁ھ ،ملک عراق کے ایک قصبہ جیلان، نزد بغداد شریف میں ہوئی ۔اورآپ کا وصال مبارک 9 !17!ربیع الآخر 561 ؁ھ میں ہوا؛ تا ہم دیار ہند میں گیارھویں شریف مشہور ہے۔ (ماثبت بالسنۃ،ص68)

نیز تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر میں مذکور ہے کہ آپ کی ولادت یکم رمضان المبارک 470؁ ھ میں ہوئی ۔ (تفریح الخاطر،المنقبۃ الثانیۃ ، ص:57)

حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسنی اور حسینی سادات سے ہیں، والدماجد کے ذریعہ سلسلۂ نسب حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے اور والدہ ماجدہ کی نسبت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتی ہے اورآپ کا خانوادئہ عالیہ اولیاء اللہ کا مبارک گھرانہ ہے ،آپ کے داداجان ،نانا جان ،والد ماجد، والدئہ محترمہ ، پھوپھی جان ، بھائی صاحب اور صاحبزادگان سب باکمال اولیاء کرام میں سے ہیں اور صاحبانِ کرامات عالیہ ، مقامات رفیعہ ودرجات عظیمہ ہیں ۔
ولادت کے ساتھ ہی ولایت کا اعلان

پچپن ہی سے آپ پرولایت کے آثار نمایاں تھے، چنانچہ انتیس (29)شعبان المعظم کوآپ کی ولادت ہوئی اور یکم رمضان المبارک ہی سے آپ نے روزہ رکھا، سحری سے لے کر افطار تک آپ اپنی والدۂ محترمہ کا دودھ نہ پیتے ،جیساکہ آپ کی والدئہ ماجدہ کابیان ہے کہ’’ میرے فرزندِ ارجمند عبدالقادر‘ رمضان شریف میں کبھی دن کے اوقات میں دودھ نہ پیتے تھے۔‘‘

ایک مرتبہ موسم ابر آلود ہونے کی وجہ سے لوگوں کورمضان شریف کا چاند دکھائی نہ دیا، لوگوں نے جب دریافت کیاتوآپ نے کہاکہ ’’میرے لڑکے نے آج دودھ نوش نہیں کیاہے‘‘، بعد ازاں تحقیقات کرنے پر اس حقیقت کا انکشاف ہوگیا کہ اُس دن رمضان کی پہلی تاریخ ہی تھی ،اس طرح سارے شہر میں یہ بات مشہور ہوگئی:
واشتھر فی ذلک الوقت انہ ولد للاشراف ولد لا یرضع فی نھار رمضان۔

اس وقت مشہور ہوگیاکہ سادات گھرانہ میں ایک صاحبزادہ تولد ہوئے ہیں جو رمضان شریف میں دن تمام دودھ نہیں پیتے۔( بلکہ روزہ رکھتے ہیں).
(بہجۃ الاسرار ، ص89 ،طبقات کبری ،ج1،ص126،قلائد الجواہر،ص3)

ابھی حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہی ہوئی تھی کہ ربِّ قدیر نے آپ کی ذاتِ عالی صفات سے فیض کے چشمے بہادئے ، خود بھی بارگاہ الہی میں تحفۂ بندگی پیش کررہے ہیں اور خلق کثیر کو بھی مولی تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کررہے ہیں ۔

درباطن اس بات کا اعلان کردیا گیا کہ آپ کی ذات کو امت مرحومہ کی رہنمائی کے لئے وجود بخشا گیا ہے اور سارے عالم کے لئے آپ کو مقتدا اور پیشوا بنادیاگیا ، گہوارہ میں آپ کے کمال کا یہ عالم ہے کہ آپ کے روزہ کو دیکھ کر لوگ روزہ رکھ رہے ہیں، آپ کی عبادتوں سے سلیقہ حاصل کرکے اپنی عبادتوںکو کامل بنارہے ہیں ،تو جس وقت آپ باضابطہ منصبِرشد وہدایت پر متمکن ہوکر مخلوق کی رہنمائی فرماتے توفیض رسانی کا کیا عالم ہوتا ہوگا؟
حضرت غوث پاک کی ولایت

حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا،آپ کو ‘کب سے معلوم ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں ؟تو آپ نے ارشاد فرمایا::
کنت وانا ابن عشر سنین، فی بلدنا اخرج من دارنا و اذھب الی المکتب فاری الملائکۃ علیھم السلام تمشی حولی، فاذا وصلتُ الی المکتب سمعت الملائکۃ یقولون:’’ افسحوا لولی اللہ ؛ حتی یجلس ‘‘۔

میں دس(10)سال کالڑکا تھا کہ اپنے وطن میں پڑھنے کے لئے اپنے گھرسے مدرسہ کی جانب چلتا تو میں اپنے اردگرد فرشتوں کوچلتے دیکھاکرتا، اور جب مدرسہ پہنچتا تو اُنہیں یہ کہتے ہوئے سنتا کہ اللہ تعالیٰ کے ولی کے لئے راستہ فراہم کرو!یہاں تک کہ وہ تشریف رکھیں"
(قلائدالجواہر، ص9، بہجۃ الاسرار، ص21)

قلائد الجواہرمیں منقول ہے کہ :
قال رضی اللہ عنہ : لماکنت صغیرا فی المکتب کان یأتینی فی کل یوم ملک لا اعرف انہ ملک علی صورۃ بنی آدم یوصلنی من دارنا الی المکتب وکان یأمر الصبیان أن یوسعوا لی فی المجلس ویجالسنی حتی انصرف الی دارنا فسألتہ یوما، من تکون؟ فقال : انا ملک من الملائکۃ علیہم السلام ارسلنی اللہ تعالٰی الیک اکون معک مادمت فی المکتب۔

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں صغر سنی کے عالم میں مدرسہ کو جایا کرتا تھا تو روزانہ ایک فرشتہ انسانی شکل میں میرے پاس آتا اور مجھے مدرسہ لے جاتا، اور لڑکوں کو حکم دیتا کہ وہ میرے لئے مجلس کشادہ کریں،خود بھی اس وقت تک میرے پاس بیٹھا رہتایہاں تک کہ میں اپنے گھر واپس آتا۔ ایک روز میں نے اس سے پوچھا آپ کون ہیں؟ تواس نے جواب دیا: میں فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ میں اس وقت تک مدرسہ میں آپ کے ساتھ رہا کروںجب تک کہ آپ وہاں تشریف فرما رہیں ۔
(قلائد الجواہر ص ،135 ،134)

بہجۃ الاسراراور قلائدالجواہر میں منقول ہے :

وقال رضی اللہ عنہ: کنت صغیرا فی اہلی ، کلما ہممت أن العب مع الصبیان اسمع قائلایقول لی الی یا مبارک، فاھرب فزعاً منہ والقی نفسی فی حجر امی۔

حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں جب کبھی میں ساتھیوں کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ کرتا تو میں غیب سے کسی کہنے والے کی آواز سنا کرتا"اے برکت والے، تُم میرے پاس آجاؤ!تو میں فوراً والدہ ماجدہ کی گود میں چلاجاتا-
(قلائدالجواہر،ص9۔ بہجۃ الاسرار،ص21 )

آپ کی شان وعظمت دیکھیں!آپ کوبچپن ہی سے رجوع الی اللہ کی فکر دیجارہی ہے ، دنیا اور اس کی رنگینیوں سے آپ کی حفاظت کی جارہی ہے کہ آپ کا منصب دنیا میں منہمک ہونا نہیں، بلکہ دنیا داروں سے دنیوی افکار کو نکال کر مولیٰ کے ذکر وفکر اور اس کی یاد میں مشغول کرنا اور ان کے تاریک دلوں کو انوار وتجلیات سے منور کرنا ہے ۔
علم دین حاصل کرنے کا اشارہ

حضرت شیخ محمد بن قائد الاوانی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں :

قال کنت صغیرا فی بلدنا فخرجت الی السواد فی یوم عرفۃ وتبعت بقرۃ حراثۃ فالتفتت الی بقرۃ وقالت: یا عبدالقادر ! مالہذا خلقت، فرجعت فزعا الی دارنا وصعدت الی سطح الدار، فرأیت الناس واقفین بعرفات، فجئت الی امی وقلت لہا: ھبینی للہ عزوجل، وائذنی لی فی المسیر الی بغداد ، اشتغل بالعلم وازور الصالحین فسألتنی عن سبب ذلک فأخبرتھا خبری فبکت ۔ ۔ ۔ واذنت لی فی المسیر وعاہدتنی علی الصدق فی کل احوالی۔

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ہم سے فرمایا کہ بچپن میں مجھے ایک دفعہ حج کے ایام میں جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوااور میں ایک ہل جوتنے والے بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا، اچانک اُس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا: "ائے عبدالقادر! تمہیں اس قسم کے کاموں کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا!، میں متفکرہوکر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو میں نے میدان عرفات کا مشاہدہ کیا لوگ وہاں وقوف کئے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا اور اجازت طلب کی:اے مادر مہربان!آپ مجھے اللہ تعالی کی خاطروقف کردیں اور مجھے سفربغداد کی اجازت مرحمت فرمائیں ،تاکہ میں علم دین حاصل کروں صالحین کی زیارت کرتارہوں اور ان کی صحبت میں رہوں ۔ والدہ ماجدہ نے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا ؟میں نے ساراواقعہ عرض کیا تو آپ کی مبارک آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عطافرمائی، اوریہ نصیحت کی کہ میں ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اختیار کروں۔
(قلائدالجواہرفی مناقب عبدالقادر،8!9)

حضرت پیران پیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی والدئہ ماجدہ کی خدمت میںجومعروضہ کیا ہے ا س میں ہمیں کئی نصیحتیں ملتی ہیں ، ا س کمسنی کے عالم میں آپ کا حصول علم کیلئے گھر بار چھوڑدینا، والدہ محترمہ اور عزیزبھائی سے دوری اختیارکرنا ، وطن مالوف سے دورکوچ کرجانا، محض اخلاص وتوکل کی اساس پر بغداد شریف کا سفر کرنا اور سب سے اہم بات یہ کہ حصول علم کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی ہمنشینی اختیار کرنا ، اولیاء کرام اور صالحین سے ملاقات اور انکے دیدار کی تڑپ رکھنا، یہ سب ایسے امور ہیں جو ہماری فکرونظر کو شعور وآگہی اور عقل وخرد کو احساس وروشنی بخشتے ہیں۔

ہمارے لئے مقام غور ہے کہ دین ودنیا کی ترقی صرف علم ظاہرحاصل کرنے پر منحصر نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ صالحین کی قربت اور بزرگوں کی صحبت انسانیت کیلئے نقطۂ کمال ہوا کرتی ہے ، سرکار غوث پاک رضی اللہ عنہ نے سفر بغداد کے سلسلہ میں حصول علم کے ساتھ ساتھ بزرگان دین کی زیارت کو اپنا نصب العین بنایا اوریہ ابتداء ہی سے اہل حق کی فطرت رہی کہ وہ صالحین کی قربت اور صحبت کو ترجیح دیا کرتے۔
علمی مقام ومرتبہ

علامہ محمد بن یحیی حلبی علیہ الرحمۃ قلائد الجواھر میں آپ کے علمی مقام ومرتبہ سے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ :
غوث الاغیاث رضی اللّٰہ تعالی عنہ یتکلم فی ثلاثۃ عشرعلما۔

حضرت غوث الاغیاث رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیرہ علوم میںمباحث فرمایا کرتے تھے-
(طبقات الکبری، جلد 1، ص 127، قلائد الجواہر، ص 38)

امام شعرانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ غوث پاک رضی اللہ عنہ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ سے تفسیر، حدیث، فقہ اور کلام کا علم پڑھتے تھے۔ آپ دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اصول اور نحو لوگوں کو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قراء توں کے ساتھ قرآن پاک پڑھاتے تھے- (طبقات الکبری، جلد 1، ص 127- قلائد الجواہر، ص 38)

بغرض امتحان ایک سو (100) فقہاء کی حاضری

حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے علم و عرفان کی شہرت جب دور دراز کے ملکوں اور شہروں میں ہوئی تو بغداد شریف کے اجلۂ فقہاء میں سے ایک سو فقہاء آپ کے علم کا امتحان لینے کی غرض سے حاضر ہوئے اور ان فقہاء میں سے ہر ایک فقیہ بہت سے پیچیدہ مسائل لے کر حاضر ہوا، جب وہ سب فقیہ بیٹھ گئے تو آپ نے اپنی گردن مبارک جھکالی اور آپ کے سینہ مبارک سے نور کی ایک کرن ظاہر ہوئی جو اُن سب فقہاء کے سینوں پر پڑی، جس سے ان کے دل میں جو جو سوالات تھے وہ سب محو ہوگئے، وہ سخت پریشان اور مضطرب ہوئے، سب نے مل کر زور سے چیخ ماری اور اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے، اپنی پگڑیاں پھینک دیں۔
ثم صعد الکرسی و اجاب الجمیع عما کان عندھم فاعترفوا بفضلہ۔

اس کے بعد آپ کرسی پر جلوہ افروز ہوئے اور ان کے سوالات کے جوابات ارشاد فرمائے جس پر سب فقہاء نے آپ کے علم و فضل کا اعتراف کیا۔

(جامع کرامات الاولیاء للعلامۃ النبھانی، جلد 1، ص 201، قلائد الجواہر، ص 33، الطبقات الکبری، جلد 1، ص 128)

ایک آیت شریفہ کی تفسیر

محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک روز کسی قاری نے آپ کی مجلس شریف میں قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنی پھر دوسرے معنٰی اس کے بعد تیسرے معنی یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اس آیت کے گیارہ معانی بیان فرمائے، بعد ازیں اسی آیت کے دیگر معانی بیان فرمائے جن کی تعداد چالیس تھی۔ اور ہر وجہ کی تائید میں دلائل قاطعہ بیان فرمائے، ہر معنے کے ساتھ سند بیان فرمائی، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے- (اخبار الاخیار فارسی، ص 16-17، قلائد الجواہر، ص 38)

حافظ عماد الدین ابن کثیر علیہ الرحمۃنے اپنی تاریخ میں فرمایا ہے:کان لہ الید الطولی فی الحدیث والفقہ والوعظ وعلوم الحقائق۔

آپ علم حدیث، فقہ، وعظ اور علوم حقائق میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔
(قلائد الجواہر، ص 8)
فتاوی مبارکہ

شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اخبار الاخیار میں نقل کیا ہے : حضرت غوث پاک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ سیدی عبدالوہاب علیہ الرحمۃ نے فرمایاکہ آپ نے 528؁ھ تا 561ھ تینتیس((33سال درس و تدریس اور فتاوی نویسی کے فرائض سر انجام دئیے۔ (اخبار الاخیار، ص 15، قلائد الجواہر، ص 18)

فقہاء عراق اور گرد و نواح کے اہل علم کی جانب سے اور دنیا کے گوشے گوشے سے آپ کے پاس استفتاء آتے :
"
آنحضرت بے سبق مطالعہ و تفکر جواب برصواب ثبت فزودی و ہیچکس را از حذاق علماء و بحار عظماء مجال خلاف تکلم دراں متصور نبودے"

ترجمه: آپ بغیر مراجعہ، تفکر اور غور و خوض کے فی البدیہ جواب باصواب دیتے۔ بلند پایہ علماء اور متبحر فضلاء میں سے کسی کو بھی آپ کے فتوے کے خلاف کلام کرنے کی کبھی جرأت نہیں ہوئی۔ )اخبار الاخیار فارسی، ص 17)

امام شعرانی ۔ قَدَّسَ اللّٰہُ تَعَالٰی سِرَّہٗ۔نے لکھا:

کانت فتواہ تعرض علی العلماء بالعراق فتعجبھم اشد الاعجاب فیقولون سبحان من انعم علیہ ۔

ترجمہ:فقہاء عراق کے پاس جب آپ کے فتاوی پہنچتے تو وہ اُسے حد درجہ پسند کرتے اور یوں کہنے لگتے کہ پاک ہے وہ ذات جس نے حضرت پر انعامات کی بارش کی ہے۔
(الطبقات الکبری، جلد 1، ص 127)
ایک عجیب مسئلہ

بلاد عجم میں سے آپ کے پاس ایک سوال آیا کہ ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ایسی عبادت کرے گا کہ جس وقت وہ عبادت میں مشغول ہوگا لوگوں میں سے کوئی شخص وہ عبادت نہ کرتا ہوگا، اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہوجائیں گی، اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہئے:
’’
علماء عراقین در جواب ایں سوال متحیر و بعجز از دریافت آں معترف گشتہ بودند‘‘۔
اس سوال سے عراق عجم وعراق عرب کے فقہاء حیران اور ششدر رہ گئے اور اس کا جواب دینے سے معذرت کرنے لگے ۔
اور انہوں نے اس مسئلہ کو حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ وہ شخص مکہ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لئے خالی کرائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کرکے اپنی قسم پوری کرے، فاعجب علماء العراق وکانوا قد عجزوا عن الجواب۔پس اس تشفی بخش جواب سے علماء عراق کو نہایت ہی تعجب ہوا کیونکہ وہ اس سوال کے جواب سے عاجز ہوگئے تھے-
(الطبقات الکبری، جلد 1، ص 127، اخبار الاخیار، فارسی، ص 11، قلائد الجواہر، ص 38)

آپ کے فیضان علمی سے استفادہ کرنے والے علماء عظام جو آپ کی مجلس میں اکثر حاضر ہوا کرتے:

قاضی ابو یعلٰی محمدبن محمد فراء حنبلی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبدالعزیز بن اخضر نے بیان کیا ہے کہ میں نے ابو یعلیٰ سے سنا کہ وہ فرماتے تھے کہ میں شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں اکثر بیٹھا کرتا تھا اور
شیخ فقیہ ابو الفتح نصر المنی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ ابو محمد محمود بن عثمان بقال رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
امام ابو حفص عمر بن ابو نصر بن علی غزال رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ ابو محمد الحسن فارسی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ عبداللہ بن احمد خشاب رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
امام ابو عمرو عثمان الملقب بشافعی زمانہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ محمد بن کیزان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ فقیہ رسلان بن عبداللہ بن شعبان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ محمد بن قائد ‘اوانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ عبد اللہ بن سنان ردینی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ حسن بن عبد اللہ بن رافع انصاری رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ طلحہ بن مظفر بن غانم علثمیرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ احمد بن سعد بن وھب بن علی ہروی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ محمد بن الازہر صیرفنی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ یحیی بن برکۃ محفوظ دیبقیرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ علی بن احمد بن وھب ازجی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
قاضی القضاۃ عبدالملک بن عیسی بن ہرباس مارائی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ عثمان بن عیسیرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ عبدالرحمان عبد عبد الملکرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ عبداللہ بن نصر بن حمزہ بکری رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ عبدالجبار بن ابوالفضل قفصی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ علی بن ابو ظاہر انصاری رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ عبدالغنی بن عبدالواحد مقدسی الحافظرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
امام موفق الدین عبداللہ بن احمد بن محمد قدامہ مقدسی حنبلیرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
شیخ ابراھیم بن عبدالواحد مقدسی حنبلی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
بھی آپ کی مجلس میں اکثر حاضر ہوا کرتے تھے۔
(قلائد الجواہر فی مناقب عبد القادر، ص: 5/6)
مجلس وعظ میں ہجوم

حضور سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابتداء میں میرے پاس دو یا تین آدمی بیٹھا کرتے تھے پھر جب شہرت ہوئی تو میرے پاس خلقت کا ہجوم آنے لگا، اس وقت میں بغداد شریف کے محلہ حلیہ کی عیدگاہ میں بیٹھا کرتا تھا، لوگ رات کو مشعلیں اور لالٹینیں لے کر آتے پھر اتنا اجتماع ہونے لگا کہ یہ عیدگاہ بھی لوگوں کے لئے ناکافی ہوگئی، اس وجہ سے باہر بڑی عیدگاہ میں منبر رکھا گیا، لوگ کثیر تعداد میں دور دراز سے گھوڑوں، خچروں، گدھوں اور اونٹوں پر سوار ہوکر آتے، تقریباً ستر ہزار کا اجتماع ہوتا تھا۔
(بہجۃ الاسرار، ص92۔ قلائد الجواہر، ص12/13)

حضرت کے صاحبزادہ والا شان سیدنا عبدالوہاب رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے :
کان یحضرہ العلماء والفقھاء و المشائخ وغیرھم و یکتب ما یقول فی مجلسہ اربعمائۃ محبرۃ عالم۔

آپ کی مبارک مجلس میں علماء ، فقہاء اور مشائخ وغیرہم بکثرت تعداد حاضر ہوتے تھے- اور آپ کی مجلس میں افاضل علماء جن کی تعداد چار سو تھی، قلم اور دوات لے کر حاضر ہوتے تھے۔
(
قلائد الجواہر، ص 18- بہجۃ الاسرار، ص 98- )
آوازِ مبارک کا فیضانِ اثر

آپ کی مجلس مبارک میں باوجود یکہ ہجوم بہت زیادہ ہوتا تھا، لیکن آپ کی آواز مبارک جتنی نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی اتنی ہی دور والوں کو سنائی دیتی تھی، یعنی دو راور نزدیک والے حضرات یکساں آپ کی آواز مبارک بالکل صاف سنتے تھے۔
(قلائد الجواہر، ص 74-بہجۃ الاسرار، ص 94)

مجلس وعظ سے بارش کا موقوف ہوکر ارد گرد برسنا

ایک دفعہ حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ بعض اہل مجلس سے خطاب فرمارہے تھے کہ اس دوران میں بارش ہونے لگی، آپ نے آسمان کی طرف نظر مبارک اٹھاکرکہا:میں لوگوں کو جمع کرتا ہوں اور تو ان کو منتشر کرتا ہے، آپ کا یہ کہنا ہی تھا کہ مدرسہ پر بارش کا برسنا موقوف ہوگیا اور اس کے ارد گرد بارش برستی رہی۔
( قلائد الجواہر، ص 29۔ بہجۃ الاسرار، ص 75)

مجلس کی کیفیت

آپ کی مجلس شریف میں نہ تو کسی کو تھوک آتا تھا، نہ کوئی کھنکارتا تھا اور نہ ہی کوئی کسی سے کلام کرتا تھا، کسی فرد کو مجلس میں سے کھڑے ہونے کی جرات بھی نہ ہوتی تھی، آپ کی تقریر دلپذیر سے لوگوں کی وجدانی کیفیت ہوتی تھی-
محدث ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالی علیہ جیسے عظیم المرتبت محدث پر آپ کی مجلس مبارک میں وجد طاری ہوگیا تھا۔
(قلائد الجواہر ،ص:74۔ بہجۃ الاسرار، ص:59)
مجلس میں لوگوں کا تائب ہونا

آپ کے دست حق پرست پر کثیر تعداد میں لوگوں نے توبہ کی، شیخ عمر کیمانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
لم تکن مجالس سیدنا الشیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ تخلوممن یسلم من الیھود والنصاری ولا ممن یتوب من قطاع الطریق و قاتل النفس و غیر ذالک من الفساد ولا ممن یرجع عن معتقد شیء ۔

یعنی آپ کی مجالس شریفہ میں سے کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں یہود و نصاری اسلام قبول نہ کرتے ہوں، یا ڈاکو، قزاق، قاتل ، مفسد اور بد اعتقاد لوگ آپ کے دست حق پرست پر توبہ نہ کرتے ہوں۔(بہجۃ الاسرار، ص 96- قلائد الجواہر، ص 18-)
پانچ ہزار یہود و نصاریٰ کا اسلام قبول کرنا

محبوب سبحانی، قطب ربانی، شہباز لامکانی، قدس سرہ النورانی فرماتے ہیں :
قد اسلم علی یدی اکثر من خمسۃ آلاف من الیھود والنصاری و تاب علی یدی من العیارین والمسالحۃ اکثر من مائۃ الف خلق کثیر۔

بے شک میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زائد یہود و نصاری نے اسلام قبول کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکوؤں، قزاقوں، فساق، فجار، مفسد اور بدعتی لوگوں نے توبہ کی۔
(قلائد الجواہر، ص 19)

حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کی بشارت سے پادری کا مشرف بہ اسلام ہونا

ایک دفعہ سنان نامی عیسائی پادری نے غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی مجلس شریف میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا:اور اجتماع میں کھڑا ہوکر بیان کیا کہ میں یمن کا رہنے والا ہوں ، میرے دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ میں اسلام قبول کرلوں اور اس پر میرا مصمم ارادہ ہوگیا کہ یمن میں سب سے افضل و اعلی شخصیت کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں گا۔

اسی سوچ بچار میں تھا کہ مجھے نیند آئی اور میں نے حضرت عیسی۔ علی نبیناو علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔کو خواب میں دیکھا، آپ نے مجھے ارشاد فرمایا :یا سنان اذھب الی بغداد و اسلم علی ید الشیخ عبدالقادر فانہ خیر اھل الارض فی ھذا الوقت۔

اے سنان! بغداد شریف جاؤ اور شیخ عبدالقادر جیلانی کے دست حق پر اسلام قبول کرو؛ کیونکہ وہ اس وقت روئے زمین کے تمام لوگوں سے افضل و اعلی ہیں۔

(قلائد الجواہر، ص 18 - بہجۃ الاسرار، ص 96)

شیخ عمر کیمانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کی خدمت اقدس میں تیرہ افراد اسلام قبول کرنے کے لئے حاضر ہوئے، مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے بیان کیا کہ ہم لوگ عرب کے عیسائی تھے، ہم نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا تھا اور یہ سوچ رہے تھے کہ کسی مرد کامل کے دست حق پرست پر اسلام قبول کریں۔

اسی اثناء میں ہاتف غیب سے آواز آئی کہ بغداد شریف جاؤ اور شیخ عبدالقادر جیلانی کے مبارک ہاتھوں پر اسلام قبول کرو۔
فانہ یوضع فی قلوبکم من الایمان عندہ ببرکتہ مالم یوضع فیھا عند غیرہ من سائر الناس فی ھذا الوقت۔

پس اس وقت جس قدر ایمان ان کی برکت سے تمہارے دلوں میں جاگزیں ہوگا، اس قدر ایمان اس زمانہ میں کسی دوسری جگہ سے ناممکن ہے۔
(قلائد الجواہر، ص 18- بہجۃ الاسرار، ص 96)
سابقہ امتو ں میں بھی آ پ جیسا کو ئی نہیں گزرا

حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بغداد شریف میں تخت پر بیٹھا ہوا تھا کہ سرورِ کائنات۔ عَلَیْہِ أَفْضَلُ الصَّلوَاتِ وَالتَّسْلِیْمَاتْ۔ کی زیارت سے مشرف ہوا۔ آپ سوار تھے اور آپ کی ایک جانب حضرت موسی علیہ السلام تھے۔آپ نے فرمایا: یَا مُوْسٰی أَ فِیْ أُمَّتِکَ رَجُلٌ ھٰکَذَا؟ اے موسیٰ ۔علیہ السلام۔!کیا آپ کی امت میں بھی اس شان کا کوئی شخص ہے؟ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: نہیں۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے خلعت پہنائی۔)قلائد الجواہر، ص 22)

آپ کی ریاضتیں اور مجاہدات

سرکارپیران پیررضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب ابتدائے جوانی میں مجھ پر نیند غالب آتی تو میرے کانوں میں یہ آواز آتی:اے عبدالقادر! ہم نے تجھ کو سونے کے لئے پیدا نہیں کیا۔ (بہجۃ الاسرار ،ص 21 )

چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ میں عرصہ دراز تک شہر کے ویران اور بے آباد مقامات پر زندگی بسر کرتا رہا، نفس کو طرح طرح کی ریاضت اور مشقت میں ڈالا ، پچیس (25)برس تک عراق کے جنگل وبیابان میں تن تنہا پھرتا رہا،چنانچہ ایک سال تک میں ساگ، گھاس وغیرہ سے گزارا کرتا رہا اور پانی مطلق طور پر نہ پیا، پھر ایک سال تک پانی بھی پیتا رہا، پھر تیسرے سال میںنے صرف پانی پر ہی گزارا کیا، کچھ بھی نہیںکھاتاتھا، پھر ایک سال تک نہ ہی کچھ کھایا ،نہ پیا اور نہ ہی سویا۔ (قلائدالجواہر،ص10،11)
چالیس سال عشاء کے وضو ء سے فجر کی نماز ادا فرمانا

قلائد الجواہر میں مذکور ہے :

وقال ابوالفتح الہروی : خدمت سید ی الشیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ اربعین سنۃ ، فکان فی مدتہا یصلی الصبح بوضوء العشاء ۔

حضرت ابوالفتح ہروی رحمۃ اللہ تعالی علیہ بیان فرما تے ہیں کہ میں حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں چالیس(40) سال تک رہا اور اس مدت کے دوران میں نے آپ کو ہمیشہ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔
(قلائد الجواہر،ص76)
ایک رات میں قرآن پاک ختم فرمانا

حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ پندرہ(15) سال رات بھر میں ایک قرآن پاک ختم کرتے رہے۔
(اخبار الاخیار فارسی ص 17۔ جامع کرامات الاولیاء ج 2 ص 202)

شیخ ابو عبداللہ نجار سے مروی ہے کہ غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں ،اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ پہاڑ بھی پھٹ جاتا۔ (قلائد الجواہر ص 10۔ طبقات الکبریٰ ج 1 ص 126)
حضرت غوث اعظم سید الاولیاء

حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ ارشاد فرمایا : ’’ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیٍّ لِلّٰہْ ‘‘ میرا یہ قدم اللہ کے ہر ولی کی گردن پر ہے ‘‘۔
اولیاء کرام نے آپ کے اس ارشاد کو سماعت کیا اور اپنے اپنے مقامات سے ہر ولی نے اس ارشاد کو قبول کیا اور سر تسلیم خم کیا۔

خواجۂ خواجگاں، شاہ نقشبند حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رضی اللہ عنہ سے حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذکورہ ارشاد مبارک کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:گردن ہی نہیں آپ کا قدم مبارک میری آنکھوں اور بصیرت پر ہے: ’’ عَلٰی عَیْنیْ وَ عَلٰی بَصِیْرَتِیْ ‘‘۔(تفریح الخاطر،ص:20)
تین سو (300)اولیاء کرام اور سات سو(700)رجال غیب کا آپ کے فرمان کے آگے سرجھکانا

شیخ ابو محمد عاقولی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں حضرت شیخ عدی بن مسافر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا،تو حضرت نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ آپ کہاں رہتے ہو؟میں نے عرض کیا کہ بغداد شریف کا رہنے والا ہوں،اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے مریدین میں سے ہوں!یہ سن کر آپ نے فرمایا:بہت خوب!بہت خوب! وہ تو قطبِ وقت ہیں،جب آپ نے ’’ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیٍّ لِلّٰہْ ‘‘ میرا یہ قدم اللہ کے ہر ولی کی گردن پر ہے ‘‘فرمایا تو اس وقت تین سو(300)اولیاء کرام اور سات سو(700) رجال غیب نے اپنی گردنوں کو جھکادیا،اور ان حضرات میں بعض زمین پر بیٹھنے والے اور بعض ہوامیں پرواز کرنے والے تھے۔آپ کی عظمت شان ،رفعت ومنزلت کے لئے میرے نزدیک یہی بات کافی ہے۔

قال الشیخ الصالح ابو محمد یوسف العاقولی :قصدت زیارۃ الشیخ عدی بن مسافر وفقال:من أین؟ فقلت: من بغداد، من أصحاب الشیخ عبد القادر، فقال : بخ ، بخ ! ذلک قطب الأرض الذی وضعت ثلثمائۃ ولی للہ وسبعمائۃ غیبی ۔مابین جالس فی الأرض ومارٍ فی الھواء۔أعناقہم لہ فی وقت واحد حین قال:’’قدمی ہذہ علی رقبۃ کل ولی للہ‘‘فعظم ذالک عندی۔(قلائد الجواہر،ص:24)
شان غوث اعظم رضی اللہ عنہ ‘مکتوبات امام ربانی کی روشنی میں

حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے مقام رفیع ، علو شان ،کمالات اورباطنی فیوض سے متعلق امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی رضی اللہ عنہ کے مکتوبات شریفہ سے چند اقتباسات رقم کئے جارہے ہیں،تاکہ اندازہ ہوکہ ایک آفتاب شریعت وماہتاب طریقت،مجدد دین وملت ، دنیائے علم ومعرفت کی مسلَّم الثبوت شخصیت نے حضرت قطب الاقطاب، بازاشہب،تاجدار ولایت،سردار اولیاء حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کس طرح نذرانۂ عقیدت پیش کیاہے :
حضرت غوث اعظم کی فیض رسانی

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اللہ تعالی تک پہنچنے کے دو(2)طریقے ہیں:ایک طریقہ’’ نبوت‘‘ کا ہے۔اس طریقہ سے انبیاء کرام علیہم السلام بغیر کسی وسیلہ کے اللہ تعالی تک پہنچ جاتے ہیں، اور یہ طریقہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہوچکا ہے۔دوسرا طریقہ ’’ولایت‘‘کا ہے۔اس طریقہ پر چلنے والے اللہ تعالی تک بالواسطہ پہنچتے ہیں،اور یہ اقطاب،اوتاد،ابدال،نجباء اور اولیاء ہیں،اورقرب و ولایت اور راہ سلوک وطریقت اور اس کے واصلین کے امام وپیشوا‘اور اس کے سرگروہ،میر کارواں،اور ان بزرگوں کے فیض کا منبع حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم ہیں، اور یہ عظیم الشان منصب آپ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مقام میں گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں مبارک قدم حضرت علی مرتضی۔ کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم ۔کے سر مبارک پر ہیں،اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا ، حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اس مقام میں ان کے شریک ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نشأۃ عنصری سے پیشتر بھی اس مقام کے ملجا وماویٰ تھے جیساکہ آپ نشأۃ عنصری کے بعد ہیں۔ اور جس کسی کو بھی اس راہ سے فیض وہدایت پہنچتی ہے وہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہی توسط سے پہنچتی ہے کیونکہ آپ اس راہ کے نقطۂ منتہیٰ کے نزدیک ہیں اور اس مقام کا مرکز آپ سے تعلق رکھتا ہے۔ اور حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے بعد یہ عظیم القدر منصب حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کو بالترتیب سپرد اور مسلَّم ہوا،اور وہی منصب ائمۂ اثنا عشر(بارہ ائمۂ اہل بیت)میں سے ہر ایک کو علی الترتیب اور تفصیل وار قرارپایا، اوران بزرگوں کے زمانے میں اور اسی طرح ان کے انتقال کے بعد بھی جس کسی کو فیض اور ہدایت پہنچتی رہی وہ ان ہی بزرگوں کے توسط سے اور ان ہی کے حیلولہ سے پہنچتی رہی،خواہ وہ اقطاب ونجباءِوقت ہی کیوں نہ ہوں،سب کے ملجا وماویٰ یہی بزرگوار ہیں ؛ کیونکہ اطراف کو اپنے مرکز کے ساتھ لاحق ہونے کے بغیر چارہ نہیں ہے،یہاں تک کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ۔ قَدَّسَ اللّٰہُ تَعَالٰی سِرَّہٗ۔تک یہ نوبت پہنچ گئی اور جب یہ نوبت حضرت کے پاس آئی تو منصب مذکور آپ ۔ قَدَّسَ اللّٰہُ تَعَالٰی سِرَّہٗ۔ کے سپرد ہوگیا۔ ائمہ مذکورین اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ۔ قَدَّسَ اللّٰہُ تَعَالٰی سِرَّہٗ۔ کے درمیان اس مرکز پر کوئی اور نظر نہیں آتا۔

اور اس راہ سلوک،طریقت ومعرفت میں فیض وبرکات کا وصول جس کو بھی ہوا ‘ خواہ وہ اقطاب ونجباء ہوں ‘آپ ہی کے توسطِ شریف،اور آپ ہی کے واسطہ اور وسیلہ سے ملتا ہے،کیونکہ یہ مرکز ومنصب آپ کے علاوہ کسی اور کو میسر نہیں ہوا،اسی لئے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
أَفَلَتْ شُمُوْسُ الْاَوَّلِیْنَ وَشَمْسُنَا أَبَدًا عَلٰی أُفُقِ الْعُلٰی لَا تَغْرُبٗ
سورج تمام اگلوں کے جب ہوگئے غروب
سورج ہمارا روشنی دے گا ابَد تلک
’’شمس‘‘ سے مراد ‘فیضانِ ہدایت وارشاد کا آفتاب ہے اور ’’اُفُوْلْ‘‘ (غروب) سے مراد فیضانِ مذکور کا نہ ہونا ہے،اور چونکہ وہ معاملہ جو پہلے حضرات سے متعلق تھا اب حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ۔ قَدَّسَ اللّٰہُ تَعَالٰی سِرَّہٗ۔ کے سپرد ہوا،اور آپ رشد وہدایت کے وصول کا واسطہ بن گئے،جیساکہ آپ سے پیشتر ‘پہلے حضرات تھے،اور پھر یہ بھی ہے کہ جب تک فیض کے توسط کا معاملہ قائم ہے آپ ہی کے توسل سے ہے،لہذا لازمی طور پر یہ درست ہوا کہ
أَفَلَتْ شُمُوْسُ الْاَوَّلِیْنَ وَشَمْسُنَا أَبَدًا عَلٰی أُفُقِ الْعُلٰی لَا تَغْرُبٗ
(مکتوبات امام ربانی،دفتر سوم،ص :400!401،مکتوب نمبر:123)
حضرت غوث اعظم سے کثرت کرامات کے ظہور کی وجہ

جس قدر خوارق حضرت سید محی الدین جیلانی ۔ قَدَّسَ اللّٰہُ تَعَالٰی سِرَّہٗ۔سے ظاہر ہوئے ہیں اس قدر خوارق کسی اور سے ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس معمّا کا راز ظاہر کردیا اور معلوم ہوا کہ آپ کا عروج اکثر اولیاء سے بلند تر واقع ہوا ہے،اورنزول کی جانب میں مقام روح تک نیچے اترے ہیں جو عالم اسباب سے بلند تر ہے۔
(مکتوبات امام ربانی،دفتر اول،ص : 98،مکتوب نمبر:216)
آپ کا قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہے

اور’’ نفحات ‘‘میں شیخ حمادد باس نے جو حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ۔ قَدَّسَ اللّٰہُ تَعَالٰی سِرَّہٗ۔ کے شیوخ میں سے ہیں ‘نقل کیا ہے کہ انہوں نے فراست کے طور پر فرمایا تھا کہ اس عجمی ( حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ۔ قَدَّسَ اللّٰہُ تَعَالٰی سِرَّہٗ۔)کا ایسا مبارک قدم ہے کہ اس وقت کے تمام اولیاء کرام کی گردن پر ہوگا،اور وہ اس بات کے کہنے پر مامور ہوں گے کہ’’ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیٍّ لِلّٰہْ ‘‘(میرا قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہے)۔ اور جس وقت وہ یہ کہیں گے تو یقینا تمام اولیاء اپنی گردنیں جھکادیں گے۔

اس کے بعد امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مختصر یہ کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ۔ قَدَّسَ اللّٰہُ تَعَالٰی سِرَّہٗ۔ ولایت میں بہت بڑی شان اور بلند درجہ رکھتے ہیں، اور آپ رضی اللہ عنہ نے ولایتِ خاصۂ محمدیہ۔ عَلٰی صَاحِبِہَا اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ وَالتَّحِیَّۃْ ۔کو لطیفۂ سِر کی راہ سے آخری نقطہ تک پہنچایا ہے اور اس دائرہ کے سر حلقہ ہوئے ہیں۔
(مکتوبات امام ربانی،دفتر اول،ص : 439/440،مکتوب نمبر:293)
غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی کرامت

حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمد انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مقاصد الاسلام ،حصۂ ہشتم میں ایک عنوان’’غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی سلطنت ‘‘قائم فرمایا اور حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی کرامت اس طرح نقل فرمائی "دائرۃ المعارف میں معلم بطرس بستانی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ’’ ایک شخص نے حضرت سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا:میری ایک لڑکی گھر کے چھت پر چڑھی تھی، وہاں سے وہ غائب ہوگئی ! آپ نے فرمایا کہ آج رات تم محلہ کرخ کے ویرانہ میں جاؤ اور پانچویں ٹیلہ کے پاس بیٹھو اور زمین پر یہ کہتے ہوئے ایک دائرہ اپنے اطراف کھینچ لو کہ (بِسْمِ اللّٰہِ عَلٰی نِیَّۃِ عَبْدِ الْقَادِرْ)جب اندھیرا ہوجائے گا تو جنات کی ٹکڑیاں مختلف صورتوں میں تم پر گزریں گی ، ان کی ہیبت ناک صورتوں کو دیکھ کر ڈرنا نہیں ، صبح کے قریب ان کا بادشاہ ایک بڑے لشکر میں آئے گا اور تم سے پوچھے گا کہ تمہاری کیا حاجت ہے ؟ تو کہہ دینا کہ مجھے عبد القادر نے بھیجا ہے،اور اس وقت لڑکی کا واقعہ بھی بیان کردو!اس شخص نے اس مقام پر جاکر حکم کی تعمیل کی اور کُل واقعات وُقوع میں آئے ، جب بادشاہ نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھیجا ہے،یہ سنتے ہی وہ گھوڑے سے اتر پڑا اور زمین بوسی کرکے دائرہ کے باہر بیٹھ گیا اور اس کی حاجت دریافت کی ، جب اس نے اپنی لڑکی کا واقعہ بیان کیا تو اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ جس نے یہ کام کیا ہے فورا اسے پکڑ کے لاؤ! چنانچہ ایک سرکش جن لایا گیا، جس کیساتھ میری لڑکی بھی تھی ، حکم دیا کہ اس سرکش کی گردن ماردی جائے،اور لڑکی کو میرے حوالہ کرکے رخصت ہوگیا‘‘۔

حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ کرامت نقل فرماکر حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:’’ اس سے جنوں کے علم کا بھی حال معلوم ہوتاہے کہ دائرہ تو کرخ میں کھینچا گیا اور مسافت بعیدہ پر بادشاہ کو خبر ہوگئی کیونکہ رات بھر چل کر قریب صبح اس دائرہ کے پاس پہنچا جو صرف حضرت شیخ کی نیت سے کھینچا گیا تھا،اور اس سے حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالی عنہ کے تصرف کا حال بھی معلوم ہوگیا کہ جنوں پر آپ کا کیا اثر تھا کہ لکیر جو آپ کی نیت سے کھینچی گئی تھی وہاں پادشاہ بذات خود حاضر ہوا اور زمین بوسی کی‘‘۔ (قلائد الجواھر ، ص:31/32۔ نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار، ص:259۔مقاصد الاسلام،حصۂ ہشتم،ص:169/170)

حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس کرامت سے یہ حقیقت بھی آشکا رہورہی کہ جن اور انس ہر دوآپ کی ذات عالی سے وابستہ ہیں،اور تابع فرمان ہیں۔
تعلیمات حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ

حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی تمام توانائیاں تحفظِ اسلام اور اعلاءِکلمۃ الحق کے لئے صرف فرمادیں، اپنی زندگی کا ہر لمحہ فروغ دین اور اصلاح امت کے لئے وقف فرمادیا۔

آپ ہر وقت اللہ کے دربار میں متوجہ رہا کرتے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت‘اتباع واطاعت اور پیرویٔ شریعت کا آپ پر اس قدر غلبہ ہوتا کہ خلاف شرع کوئی کام نہ فرماتے ،سفر وحضر،خلوت وجلوت،بزم ورزم میں کبھی کوئی سنت ومستحب عمل ترک نہ فرماتے،ہمیشہ مشتبہ امور سے گریز فرماتے ۔

ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا،چند روز گزرنے کے بعد اس نے رخصت کی اجازت مانگی اور عرض کیا کہ میں آپ کی کرامات سے متعلق سنا تھا ؛لیکن حالیہ قیام کے دوران میں نے کوئی کرامت نہیں دیکھی ۔ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا :کیا تم نے اس دوران مجھے کوئی خلاف شریعت کام کرتے دیکھا؟فرائض وواجبات ،سنن ونوافل ترک کرتے دیکھا؟اس شخص نے عرض کیا:نہیں!تب آپ نے فرمایا :شریعت پر استقامت ہی بڑی کرامت ہے۔

حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے امت مسلمہ کو خصائل رذیلہ وعادات مذمومہ سے بالکلیہ طور پر گریز کرنے اور اخلاق حسنہ،خصائل حمیدہ اور برگزیدہ صفات اپنانے کی تلقین فرمائی۔آپ نے کثرت نوافل ،اصلاح باطن و صفائی قلب ،تفقہ فی الدین کی تاکید کی اور اپنے آپ کو تقوی سے آراستہ کرنے کی تعلیم دی۔

آپ نے فرمایا کہ منکرات ومنہیات سے رُکے رہنا عوام کا تقوی ہے اور اس کے ساتھ مشتبہ چیزوں سے بچتے رہنا خواص کا تقوی ہے،آپ نے ظاہر وباطن دونوں کو پاکیزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے حرص وطمع سے پرہیز کرنے کی تعلیم دی،آپ نے فرمایا:لفظ’’طمع‘‘بے نقط اور خالی ہے، ایسے ہی طمع وحرص کرنے والا بھی خیر سے خالی اور نعمت سے محروم رہتا ہے۔

حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے ملفوظات میں ہے کہ انسان کو ہمیشہ راضی بقضاء رہنا چاہئے ، بندۂ مؤمن احکام الہی کے سامنے چوں و چرا نہیں کرتا ،کیا اور کیوں نہیں پوچھتا؛ بلکہ تمام احکام کی بابت سر تسلیم خم کرتا ہے اور ان کی بجاآوری میں مصروف ہوجاتا ہے ۔

آپ نے فرمایا:مصیبت وآزمائش کے وقت صبر کرنا ہی بڑی شجاعت ہے،حضرت نے فرمایا کہ لوگ تنگی وآزمائش کے وقت جزع فزع کرتے ہیں اور راحت وآسودگی میں شکر نہیں کرتے ، مصیبتوں پر صبر کرنا چاہئیے!۔

انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا نفس ہے،ہمیشہ اصلاحِنفس کی فکر کرنی چاہئیے ۔ جب نفس کی خلاف ورزی کی جائے اور اس پر مکمل کنٹرول کرلیا جائے تب یہی نفس امارہ، نفس مطمئنہ ہوجاتا ہے ؛جو خیر کی طرف لے جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہمیں حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے فیوض وبرکات سے مالامال فرمائے اور آپ کی تعلیمات پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے !

آمِیْن بِجَاہِ سَیِّدِنَا طٰہٰ وَیٰسٓ صَلَّی اللہُ تَعَالَی وَبَارَکَ وَسَلّمَ عَلَی خَیْرِ خَلْقِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلَی آلِہِ وَصَحْبِہِ اَجْمَعِیْنَ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔