Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

ماہ صفر'اسلامی نقطۂ نظر


اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنْ، وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَيِّدِ الْاَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنْ، وَعَلٰي آلِهِ الطَّيِّبيِْنَ الطَّاهِرِيْنْ، وَاَصْحَابِهِ الْاَکْرَمِيْنَ اَجْمَعِيْنْ،وَعَلٰي مَنْ اَحَبَّهُمْ وَتَبِعَهُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی يَوْمِ الدِّيْنْ-

اَمَّا بَعْدُ ! فاَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ، بِسمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ :

وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَيْدِيکُمْ وَيَعْفُو عَنْ کَثِيرٍ۔صدق الله العظيم

اسلام دین حق وصداقت ہے، جس نے عقیدۂ توحید ورسالت کے انوار سے کائنا ت کو روشن ومنور کیا اور ہرقسم کی باطل رسومات اورمشرکانہ تو ہمات کاخاتمہ کیا۔

جاہلیت کی فرسودہ رسومات ومشرکانہ توہمات میں یہ بات بھی تھی کہ لوگ ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے اور اس سے بدشگونی لیتے تھے،اس دورمیں لوگوں کایقین تھاکہ اس ماہ کی آمد کی وجہ سے وہ مصائب و بلیات میں گھرجاتے ہیں،اور معیشت تباہ وبرباد ہوجاتی ہے،وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس ماہ کے سبب وہ بیماریوں میں مبتلاہوجاتے ہیں،اوریہ نظریہ رکھتے تھے کہ اس ماہ میں نحوست ہوتی ہے ،کوئی بڑا کام یا کوئی نئی مہم کاآغازاس ماہ میں نہیں کرنا چاہئیے ؛اس طرح کے باطل عقیدوں کو وہ اپنے دل میں جگہ دیتے تھے۔

اسلام نے ان تمام باطل تصورات کو ختم کردیا،ایمان وعقیدۂ حقہ کی نعمت لازوال کے ذریعہ یہ درس دیا کہ مصائب وآلام کا تعلق کسی ماہ وسال سے نہیں ؛ بلکہ وہ نیکو کاروں کے لئے اللہ تعالی کی جانب سے امتحان وآزمائش اور گنہگار وں کے حق میں ان کی بدعملیوں کانتیجہ ہے‘جس آیت کریمہ کی تلاوت کاشرف حاصل کیاگیا،ا س میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَيْدِيکُمْ وَيَعْفُو عَنْ کَثِيرٍ-

ترجمہ:اور جو مصیبت بھی تمہیں پہنچتی ہے (اس بدعملی) کے سبب پہنچتی ہے جوتمہارے ہاتھوں نے کمائی ہے، حالانکہ وہ (اللہ تعالیٰ) بہت سی (نافرمانیوں)کودرگزرکردیتا ہے۔

(سورۃ الشوری۔30)

جاہلیت میں لوگ پرندہ کو اڑاکرفال لیاکرتے تھے، اگرپرندہ سیدھی جانب پرواز کرتاتوفالِ نیک لیاکرتے اور اگر راست اوپریانیچے کی جانب اڑتاتویہ سمجھتے تھے کہ ہم جو ارادہ رکھتے ہیں ‘وہ ہوگا توضرور لیکن اس میں تاخیرہوگی اور اگر پرندہ بائیں جانب پرواز کرگیاتو وہ اس سے بدشگونی لیتے کہ ہماراکام نہیںبن پائے گا۔ ’’عقاب‘‘پرندہ کودیکھ لیتے تو فکرمندہوجاتے اور برے انجام سے اس کاشگون لیتے‘کیونکہ اس کے معنٰی ’’عذاب‘‘ کے ہیں ۔ اگر’’ غراب‘‘ یعنی کوّے کودیکھتے تو اس سے تکالیف سفراور غربت واجنبیت کا فال لیتے اور ’’ہدہد‘‘پرندہ کو دیکھتے تو ہدایت ودرست روی سے اسے تعبیرکرتے۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے عقائد باطلہ کی تردید فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:

لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَۃَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ۔

ترجمہ : کوئی بیماری متعدّی نہیں ہوتی‘بدشگونی جائزنہیں‘ الّو اور صفر کے مہینہ میں کوئی نحوست نہیں!

(صحیح البخاری ،کتاب الطب، باب الجذام ، حدیث نمبر:5707۔ زجاجۃ المصابیح ،باب الفال والطیرۃ،ج3،ص446)

خیروشراور تقدیرالہی

حقیقت میں خیر و بھلائی عطا کرنے والااللہ تعالیٰ ہی ہے ، چین وسکون بخشنے کا اسی کو اختیار ہے اور ہر طرح کی کامیابی عطا کرنے والاوہی پروردگارہے، وہی راحت بخشتا ہے ، وہی رحمت کی بارش برساتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بندوں کو آزمایا کرتاہے ، کبھی نعمتوں سے سرفرازکرکے آزماتاہے ،کبھی مشقت وتکالیف کے ذریعہ آزماتا ہے کہ کونسابندہ اپنے مولا کے فضل وکرم پراس کی بارگاہ میں رجوع ہوتا ہے اورکون دوری اختیارکرلیتا ہے ،پروردگارعالم یہ واضح کرتا ہے کہ بندہ اس کی نعمتوں پر شکرگزاری کرنے لگتا ہے یا اس کی بارگاہ سے کنارہ کشی اختیار کرجاتا ہے‘آزمائش پر صبر کرتا ہے یا مایوس ہوکر راہ حق سے دوری اختیار کرجاتا ہے ،کتاب وسنت کی روشن راہوں پر گامزن رہتا ہے یا نافرمانی کی اندھیریوں میں بھٹک جاتا ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَی الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَی بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ کَانَ يَئُوسًا قُلْ کُلٌّ يَعْمَلُ عَلَی شَاکِلَتِهِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدَی سَبِيلًا-

ترجمہ: اور جب ہم انسان پر انعام فرماتے ہیں تو وہ روگردانی کرتا ہے اور کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے ، اور جب اُسے مصیبت پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے ۔ اے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم !آپ فرمادیجئے : ہر کوئی اپنی فطرت کے مطابق کام کررہا ہے ، تو تمہارا پروردگارہی بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ سیدھی راہ پر ہے۔

(سورۃ بنی اسرائیل۔83!84)

ہر مسلمان کا یہی عقیدہ ہے کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے اورنعمت کی عطا اس کی جانب سے ہے ،مصیبت کا آنا بھی اس کی مشیت سے ہے برگ وبار ، باغ و بہاراس کی جانب سے ہے اور طوفان وقحط سالی بھی اس کی طرف سے ہے ، جان ومال کی حفاظت بھی اسی کی طرف سے ہے اور جان پر آنے والی مصیبت اورمال کی ہلاکت بھی اسی کے حکم سے ہے ، الغرض ہر طرح سے وہ اپنے بندوں کا امتحان لیتاہے ،جب خدائے تعالیٰ اور اس کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ایمان ہے توپھر آزمائش اور امتحان ضرور ہوا کرتا ہے ، حق تعالیٰ ارشادفرماتاہے :

الم .أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَکُوا أَنْ يَقُولُوا آَمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ۔

ترجمہ:الم. کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس بات پر چھوڑدےئے جائیں گے کہ وہ کہنے لگیں’ ہم ایمان لائے ‘اور وہ آزمائے نہیں جائیں گے!۔

(سورۃ العنکبوت-1/2)

ہمارے وہم وگمان اس بات پر اکساتے ہیں کہ صفر کا مہینہ آچکا ہے ، پتہ نہیں کہ ہمارے یہ دن کیسے گزریں گے، کس بلامیں ہم مبتلا ہونگے، کونسی بیماری ہمیں لاحق ہونے والی ہے ؟

یادرہے کہ شب وروز' مصائب ومشکلات نہیں لاتے، کسی مہینہ کی آمد کی وجہ سے مصیبت نہیں آتی ،!بلکہ حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے توہماری بداعمالیاں ہی ان بلاؤں کا سبب ہوتی ہیں اورماہ صفر سے متعلق ہمیں غورکرنا چاہئے کہ ہمارے باطل توہمات ہمیں فتنوں اور مشکلات میں گِھرجانے کاسبب تونہیں بن گئے۔

ہم اپنی دنیا اور آخرت کے تمام معاملات کواللہ تعالیٰ اور اس کے عظمت والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر د کردیں تو نہ ہم شکوک وشبہات میں مبتلاہونگے اور نہ ایسی فکر دامن گیر ہوگی۔

قوم ثمود کی بدشگونی

قرآن کریم میں قوم ثمود کی توہم پرستی اور ان کی بدشگونی کا ذکر کیا گیا کہ انہوں نے بھوک وپیاس کے ڈرسے خدا کی نعمت کو ٹھکرا دیا ، وہ اونٹنی جوآیت الہی بنا کر ان کی طرف بھیجی گئی تھی، اس اونٹنی کو انہوں نے ذبح کردیا ،سرکشی کرتے رہے ، خدائے تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کردئے گئے اور انہوں نے اپنے مقدس نبی حضرت صالح علیہ السلام کاوجود اور آپ کے متبعین کا ان کے درمیان رہنا بھی پسند نہ کیا او رکہنے لگے کہ ہم آپ سے اور آپ کی خدمت میں رہنے والوں سے براشگون لیتے ہیں کہ یہ مصیبت ہم پر تمہاری ہی وجہ سے آپڑی ہے،جیساکہ قرآن کریم میں موجود ہے :

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قَالَ طَائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ.

ترجمہ: انہوں نے کہا: ہم تم کو اورتمہارے ساتھ والوں کو منحوس سمجھتے ہیں،( حضرت صالح علیہ السلام )نے فرمایا : تمہاری نحوست کا سبب اللہ کے علم میں ہے ‘ بلکہ تم ایسے لوگ ہو جن کی آزمائش کی جاتی ہے۔

(سورۃ النمل۔47)

اس واقعہ سے ہمیں یہی روشنی مل رہی ہے کہ آفات ومصائب سے دوچار ہونا اپنے ہی اعمال کانتیجہ ہے ؛اسے کسی اورکی طرف منسوب کرنا‘یہ مسلمانوں کاطریقہ نہیں بلکہ اللہ کے منکروں کاطریقہ ہے، جیساکہ ارشاد ہے :

وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَيْدِيکُمْ وَيَعْفُوا عَنْ کَثِيرٍ۔

ترجمہ: اور جو مصیبت بھی تمہیں پہنچتی ہے (اس بدعملی )کے سبب پہنچتی ہے جوتمہارے ہاتھوں نے کمائی ہے، حالانکہ وہ (اللہ تعالیٰ) بہت سی (نافرمانیوں)کودرگزرکردیتا ہے۔

(سورۃ الشوری۔30)

شگون بد اور توہم پرستی کی ممانعت

جہاں تک بدشگونی کا تعلق ہے حضور اکرم نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خیال کو غلط قراردیااور توہم پرستی کے تصو رکی یکسر نفی فرمادی، سنن ابو داود اورسنن ترمذی میں حدیث شریف ہے :

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله عليه وسلم قَالَ : اَلطِّيَرَةُ مِنَ الشِّرْکِ قَالَهُ ثَلاثا .

ترجمہ:سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بدشگونی لینا شرک جیسا عمل ہے ، آپ نے اس کوتین مرتبہ فرمایا -

(جامع الترمذی،باب ما جاء فی الطیرۃوالفال،حدیث نمبر:1712-سنن ابی داود ، کتاب الطب ، باب فی الطیرۃ،حدیث نمبر:3912)

حضرت ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

الطيرة شرک ای لاعتقادهم أن الطيرة تجلب لهم نفعا أو تدفع عنهم ضرا فإذا عملوا بموجبها فکأنهم أشرکوا بالله في ذلک ويسمی شرکا خفيا.وقال شارح يعنی من اعتقد أن شيئا سوی الله ينفع أو يضر بالاستقلال فقد أشرک أی شرکا جليا.

بدشگونی لیناشرک ہے، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کااعتقاد تھا کہ بدشگونی کے تقاضے پرعمل کرنے سے ان کونفع حاصل ہوتا ہے یا ان سے ضرراور پریشانی دور ہوتی ہے اورجب انہوں نے اس کے تقاضے پرعمل کیا توگویا انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا‘اور اسے شرک خفی کہا جاتاہے ۔ اور کسی شخص نے یہ عقیدہ رکھا کہ فائدہ دلانے او رمصیبت میں مبتلا کرنے والی اللہ تعالی کے سوااورکوئی چیزہے جو ایک مستقل طاقت ہے تواس نے شرک جلی کا ارتکاب کیا ہے ۔

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح ، کتاب الطب والرقی ، باب الفال والطیرۃ ،ج4ص522)

علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وقال القاضي إنما سماها شركا لأنهم كانوا يرون ما يتشاءمون به سببا مؤثرا في حصول المكروه وملاحظة الأسباب في الجملة شرك خفي فكيف إذا انضم إليها جهالة وسوء اعتقاد.

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے شرک اس لئے فرمایاکہ وہ لوگ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جس چیزسے انہوں نے بد شگونی لی ہے وہ مصیبت کے نزول میں متاثر کن سبب ہے اور بالعموم ان اسباب کا لحاظ کرنا شرک خفی ہے ،بطورخاص جب اس کے ساتھ جہالت اور بداعتقادی بھی ہوتواس کا شرک خفی ہونا اور بھی واضح ہے -

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح ، کتاب الطب والرقی ، باب الفال والطیرۃ ،ج4ص522/523)

سنن ابوداود شریف کی ایک روایت میں ہے، حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

الْعِيَافَةُ وَالطِّيَرَةُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ.

ترجمہ:پرندہ کے ذریعہ فال لینا، کسی چیز سے بدشگونی لینا اور کنکریوں سے فال نکالنا شیطانی کام ہے۔

(سنن ابی داود ، کتاب الطب ، باب فی الخط وزجر الطیر،حدیث نمبر:3909)

ماہ صفرمیں فی نفسہ نحوست نہیں !

صحیح بخاری شریف میں حدیث شریف ہے:

لَا عَدْوَی وَلَا طَِيرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ....

ترجمہ : کوئی بیماری متعدّی نہیں ہوتی‘بدشگونی جائزنہیں‘ الّو اور صفر کے مہینہ میں کوئی نحوست نہیں!

(صحیح البخاری ،کتاب الطب، باب الجذام ، حدیث نمبر:5380)

حضرت سیدی ابو الحسنات سید عبداللہ شاہ صاحب نقشبندی مجددی قادری محدث دکن علیہ الرحمۃ اس کی شرح کرتے ہوئے زجاجۃ المصابیح کے حاشیہ میں رقمطراز ہیں :

قوله ولا صفر قال ابوداؤد في سننه قال بقية : سألت محمد بن راشد عنه قال کانوا يتشاء مون بدخول صفر . فقال النبی صلي الله عليه وسلم : لا صفر . وقال القاضى هو ان يکون نفيا لما يتوهم ان شهر صفر تکثر فيه الدواهی والفتن .

امام ابوداود علیہ الرحمۃنے اپنی سنن میں بیان کیا کہ محدث بقیہ نے اس حدیث شریف کے بارے میں اپنے استاذ محمد بن راشد سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:جاہلیت میں لوگ ماہ صفر کی آمد کومنحوس سمجھتے تھے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس حقیقت کوواضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ماہ صفر منحوس نہیں ہے! ۔ علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اس حدیث شریف سے اس وہم کی نفی ہوجاتی ہے جو ماہ صفرسے متعلق کیا جاتا ہے کہ اس میں آفات وبلیات بکثرت نازل ہواکرتی ہیں ۔

(حاشیۃ زجاجۃالمصابیح، ج 3، کتاب الطب والرقی، باب الفال والطیرۃ ،ص447)

مذکورۂ بالااحادیث شریفہ کی روشنی میں واضح ہوجاتاہے کہ صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھنا غیراسلامی ہے،اس مہینہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنااورخوشی ومسرت کی تقاریب کے انعقاد کونامناسب سمجھنایہ سب بے جاامورہیںاورجاہلیت کے باطل تو ہمات کی پیداوار ہیں؛جن کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں، ماہ صفر کی تاریخی حیثیت بھی اگر دیکھی جائے تو ایک روایت کے مطابق حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالی عنہاکا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اسی ماہ مبارک میں کروایاتھا‘گو کہ معروف روایت ماہ شوال کی ہے ،ماہ صفرمیں نکاح کے متعلق روایت ہے :

قال جعفر بن محمد تزوج علی فاطمة رضی الله عنهما فی شهر صفر فی السنة الثانية وبنی بها فی شهر ذی القعدة علی رأس اثنين وعشرين شهرا من الهجرة.

ترجمہ: حضرت جعفر بن محمدرضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہنے حضرت فاطمۃ الزہرا ء رضی اللہ عنہما سے دوہجری صفر کے مہینہ میں عقد فرمایا اور آپ کی رخصتی ہجرت کے بعد بائیس مہینے کے اوائل ذوالقعد ہ کے مہینہ میں ہوئی ۔

(سبل الہدی والرشاد، ج12،ص469)

بعض لوگ ماہ صفرمیں کسی اہم کام کے لئے سفر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے‘ جبکہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے موقع پر مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی جانب سفرکا آغاز ایک روایت کے مطابق ماہ صفرکے آخرمیں فرمایاتھا۔

(شرح الزرقانی علی المواھب،ج،2ص102)

ماہ صفرکامیابی والامہینہ

ہجرت کا یہ سفرمقدس دین اسلام کی غیرمعمولی ترقی اور مسلمانوں کی خوشحالی‘فتح ونصرت کاباعث ثابت ہوا۔رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وہ سفرتھا جواپنے اند رفتح مکہ کی عظمتوں کو لئے ہوئے تھا ‘گویاماہ صفرمیں ہجرت کرنا اتمام شریعت کا ذریعہ اورفروغ اسلام کا وسیلہ قرار پایا، یہ مہینہ بلاؤں کے نازل ہونے کا نہیں بلکہ مصائب ومشکلات کے دفع ہونے کا سبب بنا۔اسی وجہ سے ہمارے عرف میں ماہ صفرکو "صفرالمظفر "کہتے ہیں‘جس کے معنٰی" ظفریابی ‘فتح ونصرت والے" کے ہیں۔

مسلمانو ں کو ایسی بد شگونی سے قطعی طور پر پرہیز کرنا چاہئیے ، اور اسی طرح تیرہ تیزی کے نام سے انڈے اورتیل وغیرہ سرہانے رکھنا بھی لغو کام ہے ،ان امور سے بھی احتیاط ضروری ہے۔ قطع نظر اس کے رضائے الہی کی خاطر فقراء ومساکین پر صدقہ وخیرات کرنادیگر مہینوں کی طرح اس ماہ میں بھی جائز ومُستحسن ہے۔

معاشرہ میں یہ تصوربھی عام ہے کہ ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ کو سیروسیاحت کا اہتمام کیا جائے ،اس دن تفریح کےلئے روانہ ہوں اورگھانس ‘سبزہ وغیرہ پرچہل قدمی ہو۔

اگر یہ چہل قدمی اس تصور کی ساتھ کی جائے کہ بلااور وباسے حفاظت ہوجاتی ہے اور مصائب دفع ہوجاتے ہیں تو اس کا اسلامی کتب سے کوئی ثبوت نہیں ملتا،اگر کوئی اسی پر اصرار کرے تو عرض کیا جائے گا : اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ آخری چہارشنبہ کو بلائیں زیادہ نازل ہوتی ہیں ‘تو ایسی صورت میں سیروتفریح نہیں بلکہ عبادت وریاضت کی جانی چاہئیے ،نیکی وبھلائی کی فکرکرنی چاہئے اور صدقہ وخیرات کرناچاہئیے،کیونکہ اس سے غضب الہی دورہوجاتاہے اور رضاء الہی کے آثار نمودار ہوتے ہیں ، جیساکہ جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے :

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله عليه وسلم إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئیُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ.

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یقینا صدقہ اورنیکی پروردگار کے غضب کی آگ کوٹھنڈاکرتی ہے اور بری موت کودفع کرتی ہے۔

(جامع الترمذی ، باب فضل الصدقۃ،حدیث نمبر:666۔شعب الایمان للبیہقی ، الصدقۃ تطفیٔ غضب الرب ،حدیث نمبر:3202)

صفر کے مہینہ میں یہ دعاء پڑھیں!

جب بھی کوئی شخص مصیبت سے دوچار ہوتو اسے اپنے عمل کا جائزہ لیناچاہئے ، اپنے اعمال میں جہاں کوتاہی واقع ہوئی ہے اس کی اصلاح کرنی چاہئیے ،جہاں لغزش ہوئی ہے اسے سدھارنا چاہئیے، توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے رجوع ہوناچاہئیے کیونکہ اپنے برے اعمال ہی تمام ترنحوستوں کا باعث ہوتے ہیں -

نیک وصالح بندہ کو بھی زندگی میں مختلف قسم کے مصائب وآلام سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کے لئے امتحان ہوتا ہے ،جولوگ مصائب وآلام کا صبر و استقامت کے ذریعہ مقابلہ کرتے ہیں وہ اس امتحان میں کامیاب ہیں ،جن کے قدم آفات وبلیات کی وجہ سے نہیں لڑکھڑا تے اللہ کی نصرت وحمایت ان کے ساتھ ہے ۔

زجاجۃ المصابیح میں سنن ابوداؤد شریف کے حوالہ سے حدیث پاک منقول ہے :

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ ذُکِرَتِ الطِّيَرَةُ عِنْدَ النَّبِیِّ صلی الله عليه وسلم فَقَالَ أَحْسَنُهَا الْفَأْلُ وَلاَ تَرُدُّ مُسْلِمًا فَإِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مَا يَکْرَهُ فَلْيَقُلِ اللَّهُمَّ لاَ يَأْتِی بِالْحَسَنَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاًّبِاللّٰه .

سیدنا عروه بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بدشگونی کا ذکر کیا گیا توآپ نے ارشاد فرمایا: اچھا شگون ، فالِ نیک ہے اور بد شگونی کسی مسلمان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنتی، پس جب تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ یہ دعاء پڑھے-

اللَّهُمَّ لاَ يَأْتِی بِالْحَسَنَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاًّبِاللّٰه .

ترجمہ:اے اللہ ہرقسم کی بھلائیوں کولانے والاتوہی ہے اور تمام قسم کی برائیوں کودفع کرنے والابھی توہی ہے ، نہ برائی سے بچنے کی کوئی طاقت ہے اورنہ نیکی کرنے کی کوئی قوت ہے ، مگر اللہ ہی کی مددسے ۔

(زجاجۃ المصابیح ،ج3،ص445 -سنن ابی داود،باب فی الطیرۃ،حدیث نمبر:3921)

چہارشنبہ منحوس نہیں بلکہ نور کی پیدائش کا دن

یہ حقیقت ہے کہ ایک دن دوسرے دن پر فضیلت وبرتری رکھتا ہے، ایک وقت دوسرے وقت کی بہ نسبت زیادہ برکت ورحمت والا ہوتا ہے، لیکن فی نفسہ کسی وقت یا دن میں نحوست کا تصور غیراسلامی نظریہ ہے، جہاں تک چہارشنبہ کی بات ہے توصحیح حدیث پاک میں اس کی فضیلت آئی ہے، صحیح مسلم اور مسند امام احمد وغیرہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تفصیلی روایت مذکورہے :

عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله عليه وسلم بِيَدِی فَقَالَ:خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ۔۔۔وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الأَرْبِعَاءِ.

ترجمہ:سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑکرارشادفرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن مٹی کو پیدا فرمایا ۔ ۔ ۔ اور نور کو چہارشنبہ کے دن پیدا فرمایا۔

(صحیح مسلم ، کتاب صفۃالمنافقین واحکامہم، باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنارج2 ص371 ، حدیث نمبر:7231۔مسند امام احمد، مسند أبی ہریرۃ ، حدیث نمبر:8563۔السنن الکبری للبیھقی،ج9،ص3 ۔السنن الکبری للنسائی، حدیث نمبر:11010۔المعجم الاوسط للطبرانی، باب الباء ، من اسمہ بکر، حدیث نمبر:3360)

مذکورہ حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ چہارشنبہ وہ مبارک ومقدس دن ہے جس میں نور کی پیدائش ہوئی لہذا یہ تصورغیر درست ہے کہ اس میں کوئی بڑااور اہم کام نہیں کرنا چاہئے-

اس دن کوئی بھی خوشی والا جائزکام انجام دیناان شاء اللہ تعالی بابرکت ہی ہوگا۔

امام سخاوی علیہ الرحمہ نے مقاصد حسنہ میں لکھاہے:

ذکر برهان الإسلام فی کتابه ( تعليم المتعلم )عن شيخه المرغينانی صاحب الهداية فی فقه الحنفية انه کان يوقف بداية السبق علي يوم الاربعاء وکان يروی فی ذلک بحفظه ويقول قال رسول الله صلی الله عليه وسلم : ( ما من شیء بدء به يوم الاربعاء إلا وقد تم).

برہان الاسلام نے اپنی کتاب " تعلیم المتعلم " میں ذکر کیا ، وہ اپنے استاذ گرامی صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ بیان کرتے ہیں کہ آپ چہارشنبہ کے دن سبق کے آغاز کا اہتمام کیاکرتے اور اس سلسلہ میں یہ حدیث پاک روایت فرمایاکرتے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: چہارشنبہ کے دن جس چیز کابھی آغاز کیا جائے وہ پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہے۔

(المقاصد الحسنۃ ،حرف المیم)

اسی وجہ سے عالم اسلام کی شہرۂآفاق اسلامی یونیورسٹی ’’جامعہ نظامیہ ‘‘حیدر آباد دکن میں درس وتدریس کے آغازکے لئے چہارشنبہ کے دن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

استغفار‘تمام پریشانیوں کا حل

اگر ہم مسلمان اپنے دل میں خدا کا خوف بٹھائے رکھیں ، اس کے فضل و کرم کے امیدوار بنے رہیںاوراپنے حال زار پر ندامت کے آنسو بہائیں توضرورہماری زندگی میں برکت رکھ دی جائیگی اور ہمارے درمیان سے رنج وغم ، دردوالم دور کر دیا جائیگااور حزن وملال ختم کردیا جائیگا ۔

اس سلسلہ میں امام رازی علیہ الرحمہ کی تفسیر کبیر کے حوالہ سے ایک نصیحت آموز واقعہ بیان کیا جاتا ہے؛جو ہمارے لئے نہایت ہی قیمتی اورنفع بخش ہے:

وعن الحسن : ان رجلا شکا اليه الجدب ، فقال ، استغفرالله ، وشکااليه آخرالفقر، وآخرقلة النسل،وآخر قلة ريع ارضه ، فامرهم کلهم بالاستغفار ، فقال له بعض القوم : اتاک رجال يشکون اليک انواعا من الحاجة ، فامرتهم کلهم بالاستغفار؟ فتلا له الاية : فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّهُ کَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْکُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَکُمْ أَنْهَارًا-

ترجمہ:حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوکر قحط سالی سے متعلق فریاد کی تو آپ نے اسے استغفار کرنے کا حکم دیا، کسی دوسرے شخص نے اپنا فقروفاقہ اور تنگدستی کاحال بیان کیا ،اسی طرح کسی اورشخص نے اولاد نہ ہونے پر اپنی پریشانی ظاہر کی اور کسی نے اپنے باغ وبہار میں پھل وپھول اور تازگی سے متعلق آپ کی خدمت میں معروضہ کیا اور سبہوں کوامام حسن رضی اللہ عنہ نے استغفار کی تلقین کی ،خدائے تعالی سے معافی طلب کرنے اوربخشش کی دعا مانگنے کاحکم دیا،لوگوں کو اس پر تعجب ہوا، عرض کرنے لگے: آپ کی خدمت میں لوگ الگ الگ معروضے لے کر حاضرہوئے اور تمام افراد کو آپ نے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرنے کی تلقین فرمائی ، تو آپ نے جواب ارشاد فرماتے ہوئے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:ترجمہ: تو میں نے کہا: تم اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو!بیشک وہ خوب مغفرت فرمانے والا ہے ، وہ تم پر موسلادھاربارش کا نزول فرمائیگااور مال ودولت اور اولاد کے ذریعہ تمہاری مددفرمائیگااور تمہارے لئے باغات بنادیگا اور تمہارے لئے نہریں جاری فرمادیگا ۔

)سورۃ النوح ۔10/11/12(

ذکر الہی سے معمورہرلمحہ سعادت مند

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کی پریشانیوں کا حل استغفار الہی قرار دیا اور امت کو بارگاہ الہی کی طرف رجوع ہونے کی تعلیم فرمائی ۔آج ہمیں اسی فکر کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے لیل ونہار ذکر الہی میں گزرتے رہیں ،ہم شریعت کی پابندی کریں اور قرآن کریم وحدیث شریف پر عمل پیرا رہیں ، اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں ، وقت کی قدر کریں،اپنے لمحات کو غفلت میں نہ گزاریں،کیونکہ نحوست ہماری زندگی میں اسی وقت آسکتی ہے جب ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد اور ان کی اطاعت وپیروی سے غافل رہیں ۔

سورۂ توبہ کی آیت نمبر:37کے تحت تفسیر روح البیان میں مذکور ہے :

فکل زمان اشتغل فيه المؤمن بطاعة الله فهو زمان مبارک وکل زمان اشتغل فيه بمعصية الله فهو مشؤم عليه فالشؤم فی الحقيقة هو المعصية.

ترجمہ: ہر وہ لمحہ جس میں بندۂ مومن اطاعت الہی میں مصروف رہا ہے، وہ اس کے حق میںبرکت والااورسعادت مندی کا باعث ہے اور ہر وہ لمحہ جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مشغول رہا ہے؛ وہ اس کے حق میں بے برکت ہے، دراصل نحوست وبے برکتی گناہ کے ارتکاب میں ہے ۔

یقینا جس وقت کوہم نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں گزاراوہ وقت ہمارے لئے برکت والاہے ، جس لمحہ کو ہم نے سنتوں پر عمل کرنے میں بسر کیا وہ لمحہ ہمارے لئے سعادت والا ہے ، جس گھڑی کو ہم نے اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے بتایا وہ گھڑی ہمارے لئے باعث رحمت ہے۔

اللہ تعالی ہمارے قلوب میں حسن عقیدہ کو جاگزیں فرمائے،عمل صالح کی دولت نصیب فرمائے‘اور تعلیماتِ کتاب وسنت پرثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے!

آمین، بجاہ طہ ویس صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ اجمعین وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔

مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر

www.ziaislamic.com