Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

تذکر ۂ مبارکہ سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ


تذکر ۂ مبارکہ سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ

سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ امام عالی مقام سید الشہداء امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے شہزادہ ہیں اورکبار تابعین میں آپ کا شمار ہوتا ہے ،آپ مدینہ منورہ کے فقہاء سبعہ میں درجہ امامت رکھتے �ہیں،آپ بارہ اماموں میں جو ائمہ اہل بیت اطہار ہیں‘ چوتھے امام ہیں‘ آپ کی کنیت شریفہ ’’ابو محمد‘‘ اور آپ کا نام مبارک ’’علی‘‘ اور لقب ’’زین العابدین‘‘ہے۔

زین العابدین لقب کی وجہ تسمیہ:

�آپ کے لقب مبارک �کے متعلق "شواہد" میں ہے کہ ایک رات آپ نماز تہجد میں مشغول تھے کہ شیطان بہ شکل اژدہا آیا تاکہ آپ کو نماز سے روکے اور پائے مبارک کو کاٹ لیا‘ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ نے اس جانب التفات نہ فرمایا اور نماز بدستور جاری رکھی، اس وقت کہنے والے کو دیکھا گیا کہ تین بار اس نے کہا:’’اَنْتَ زَیْنُ العَابِدِیْن‘‘ آپ زین العابدین (عبادت گزاروں کی زینت ہے)

�پس اس وقت سے آپ کو اس لقب پاک سے پکاراجانے لگا۔

والدہ ماجدہ:

�آپ کی والدہ ماجدہ حضرت شہر بانو بنت کسریٰ یزدجر شہریار بن پرویز بن نوشیروان عادل تھیں۔

�قصہ الصفا اور حبیب السیر میں مرقوم ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں یزدجر کی تین لڑکیاں گرفتار کرکے لائی گئیں‘ تینوں کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے حصہ میں لے لیا کہ یہ بادشاہ کی لڑکیاں ہیں‘ ان کو فروخت کرنا مناسب نہیں‘ ان میں سے ایک حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو �پیش کیا‘ جس سے امام چہارم حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے‘ دوسری لڑکی حضرت محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ �کو دی جس سے حضرت �قاسم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے‘ تیسری لڑکی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دی جس سے حضرت سالم تولد ہوئے‘ اس طرح یہ تینوں حضرات ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی ہیں۔

ولادت شریفہ:

امام سجاد حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت ’’مدینہ طیبہ‘‘ میں 33ھ میں ہوئی اور ایک قول کے لحاظ سے 36ھ اور تیسرے قول کے لحاظ� سے 38ھ میں ہوئی۔

�آپ کی عمر شریف(61یا 62) سال کی ہوئی‘ بعض حضرات آپ کی عمر شریف(58)سال اور بعض (56)سال بھی بتاتے ہیں۔

�امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک (18)سال تھی اور بعض روایت کے بموجب سولہ(16) سال تھی۔

آپ کے بچپن کا ایک واقعہ:

حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ نےحضرت امام زین العادین رضی اللہ کے بچپن کا ایک واقعہ ذکر فرمایا� جس سے آپ کی علمی جلالت شان واضح ہوتی :

حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مکہ معظمہ کے ارادہ سے نکلا‘راستہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بچہ دس بارہ سال کا پیادہ پا تنہا چل رہا ہے‘ میں نے کہا:سبحان اللہ‘ اس لق و دق جنگل میں یہ کون بچہ ہوگا؟

ایں کیست ایں۔ ایں کیست ایں

یہ کون ہیں؟ یہ کون ہیں

ایں یوسف ثانی ست ایں

معلوم ہوتا ہے کہ یہ یوسف ثانی ہیں

یا نور ربانی ست ایں

یا یہ نور ربانی ہیں

یا فیض سبحانی ست ایں

یا اللہ تعالیٰ کا فیض جاری ہیں

ایں لطف و رحمۃ را نگ در ساخت

�اللہ تعالیٰ کی رحمت و مہربانی دیکھ

ایں باد یہ حضر است و الیاس ایں‘

اس جنگل میں کیا کہوں، کیا یہ خضر ہیں یا الیاس ہیں

�مگر یا آب حیوانی ست ایں

�یاآب حیات ہیں یہ

حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے قریب جاکر سلام عرض کیا‘ آپ نے سلام کا جواب دیا:

میں نے کہا‘ آپ کون ہیں؟

فرمائے: اللہ کا بندہ

میں نے کہا:کہاں سے آرہے ہیں؟

فرمایا:اللہ کے پاس سے

میں نے عرض کیا: کہاں جارہے ہیں؟

فرمائے: اللہ کے پاس۔

میں نے عرض کیا:کیا مطلوب ہے؟

فرمایا:اللہ تعالیٰ کی رضامندی و خوشنودی!

عرض کیا:توشہ سفر کیا ہے؟

فرمایا:"زادی التقویٰ"میرا توشہ تقویٰ ہے!

عرض کیا:سواری حضور کی کہاں ہے؟

"رحلتی رجلای" میری سواری میرے دونوں پاؤں ہیں!

�عرض کیا:یہ خونخوار جنگل اور یہ آپ کی کمسنی کیسے ہوگا؟

فرمایا:ابن مبارک تمہارا کدھر خیال ہے‘ کبھی دیکھے ہو کہ کوئی کسی کی ملاقات کو جائے اور وہ اُس کو ستائے۔

عرض کیا:میاں تم عمر میں چھوٹے ہو مگر باتوں میں بزرگ ہو‘ آپ کا نام کیا ہے؟

فرمایا:ابن مبارک!مصیبت زدوں کا کیا نام پوچھتے ہو، گمناموں کا نام ہی کیا؟

منم در غمش بے دلے ناتوانے

میں اللہ تعالیٰ کی محبت و غم میں بے دل و ناتواں ہوں‘

نہ اسمے نہ رسمے نہ جسمے نہ جانے

کیا پوچھتے ہو ہمارا نہ نام ہے‘ نہ کوئی طریقہ ہے‘ نہ جسم ہے‘ نہ جان ہے۔

ضعیفے نحیفے عمش را حریفے

ایک ناتوان جس کو عشق و محبت نے لاغر کردیا

بصورت خفیفے بمعنے گرانے

ہے دیکھنے میں ہلکے پھلکے مگر حقیقت میں بھاری ہیں

عرض کیا:اگر نام نہیں بتلانا چاہتے ہو تو خیر یہ بتلائے کہ آپ کس قوم اور کس قبیلہ سے ہیں؟

آپ نے ایک سرد آہ کھینچی اور فرمایا:ہم مظلوم قوم ہیں‘ہم وطن سے نکالے ہوئے ہیں‘ ہم دشمن کے مغلوب ہیں۔

عرض کیا:کچھ معلوم نہ ہوا،اور تفصیل سے فرمائیے!

آپ نے ارشاد فرمایا:ہم حوضِ کوثر پر آنے والوں کو پانی دینے والے ہیں‘جو بھی نجات پائے گا‘ تو وہ ہمارے ہی وسیلہ سے نجات پائے گا‘جو ہم سے دوستی کرے گا وہ بے نصیب نہ رہے گا۔

حضرت عبد اللہ ابن مبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اتنا فرماکر وہ میری نظر سے غائب ہوگئے‘ مجھے بہت افسوس رہا‘ یہ کون تھےمعلوم نہ کرسکا،جب میں مکہ معظمہ پہنچا تو طواف میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ کو لوگ گھیرے ہوئے ہیں،میں نے آگے جاکر دیکھا تو وہی صاحبزادہ ہیں‘جو جنگل میں مجھ سے باتیں کئے تھے‘ لوگ اطراف جمع ہیں اور مسائل پوچھ رہے ہیں‘ آپ قرآن و حدیث کے دقیق مضامین بیان فرمارہے ہیں جس سے لوگوں کے مشکلات حل ہورہے ہیں۔

�میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: مکہ کے کنکر تک جس کو پہچانتے ہیں‘افسوس ہے کہ تم نہیں پہچانتے‘۔

�یہ شہید کربلا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قرۃ العین" حضرت امام زین العابدین" ہیں۔

�میں سنتے ہی دوڑا،شاہزادے کے ہاتھ اور پاؤں چوما،روتے ہوئے عرض کیا:یا ابن رسول اللہ!آپ نے اپنے اہل بیت کی جو مظلومی بیان فرمائی وہ بالکل سچ ہے۔

زہد و ورع:

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ جب وضو فرماتے تو رخ انور زرد پڑجاتا‘ گھر والے پوچھتے کہ یہ کیا حالت ہے جو آپ پر وضو کے وقت طاری ہوجاتی ہے؟ فرماتے کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے دربار میں کھڑا ہورہا ہوں؟۔

�جب چلتے تو آپ کا دست مبارک آپ کی ران �سے آگے نہیں گزرتا تھا اور ہاتھ کو حرکت نہیں دیتے تھے۔

اخلاق عالیہ:

جب آپ کو پتہ چلتا کہ کوئی شخص آپ کو برا بھلا کہہ رہا ہے تو آپ اس کے گھر جاتے اور بڑی نرمی سے بات کرتے اور فرماتے اے فلاں! تو نے میرے متعلق جو کچھ کہا ہے اگر سچ ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے

معاف فرمائے اور اگر غلط ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے معاف فرمائے‘ والسلام علیک و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

ایک شخص نے آپ کی شان میں بے ادبی کی، تو آپ نے عمداً اس سے نظرانداز فرمادیا تو اس نے آپ سے کہا کہ میں تم سے کہہ رہا ہوں،تو امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ جب تو میں چشم پوشی اور صبر سے کام لیتا� ہوں۔

�ایک دن آپ مسجد سے باہر تشریف لائے ، ایک شخص نے آپ کی شان میں بےادبی کی‘ تو اس کی طرف آپ کے غلام اور خدام لپکے لیکن آپ نے انہیں منع فرمادیا اور ارشاد �فرمایا ابھی اسے کچھ نہ کہو۔ پھر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : ابھی ہمارے حالات جو تم پر مخفی ہیں بہت زیادہ ہیں، کیا تجھے کوئی ضرورت ہے کہ ہم تیری مدد کریں؟ �

تو وہ شخص شرمسار ہوا‘ آپ نے جو کمبل اوڑھ رکھا تھا اتار کر اسے عطا فرمایا اور اسے ہزار درہم سے زیادہ عطیہ دینے کا حکم دیا تو وہ شخص پکار اٹھا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اولاد رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہیں۔

حکیمانہ ملفوظات :

آپ فرماتے کہ احباب کا فقدان"غربت ہے"۔

اللہ تعالیٰ کے آزاد بندوں کی عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے شکر کے لئے ہوتی ہے جہنم سے خوف یا جنت میں رغبت سے نہیں۔

�وہ شخص تمہارا ساتھی کیوں کر ہوسکتا ہے کہ جب تم اس کی تھیلی کھول کر اس میں سے اپنی ضرورت کی چیز لے لو تو اس کا دل خوش نہ ہو۔

معمولات شریفہ:

آپ اس بات کو پسند فرماتے کہ آپ کو وضو کرانے میں کوئی مدد نہ کرے‘ اور اپنے وضو کے لئے پانی خود بھرتے اور آرام کرنے سے پہلے اپنے پاس رکھ لیتے اور آپ سفر و حضر میں رات کا قیام ترک نہیں فرماتے تھے اور فرماتے کہ اللہ تعالیٰ گنہگار مسلمان کو پسند کرتا ہے جو کہ بہت زیادہ توبہ کرنے والا ہو۔

آپ حضرت ابوبکر �صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی �رضی اللہ عنہ کی تعریف فرمایا کرتے اور ان مقدس ہستیوں کے لئے درجات میں مزید بلندی �کی دعا فرماتے۔

�آپ ہر روز شب میں ایک ہزار رکعت ادا فرماتے‘ کبھی تیز ہوا چلتی تو آپ پر غشی طاری ہوجاتی۔

�آپ نے جب حج کیا اور لبیک کہا تو غش کھاکر گرگئے ۔

خوف الہی:

ایک مرتبہ حضرت امام �زین العابدین رضی اللہ عنہ بالاخانہ پر تشریف فرماتھے،خوف وخشیت کی وجہ آنسو سے پرنالہ بہہ رہا تھا حضرت کے آنسوؤں کا وہ پانی کسی شخص کے جسم پر گرا ، اس شخص نے پوچھا کہ پرنالہ سے جو پانی گر رہا ہے ناپاک تو نہیں ہے ، حضرت جواب میں فرمایا: بھائی دھو ڈالو ، یہ گنہگار کے آنکھ کا پانی ہے۔

فراست وکرامت:

���� حضرت مالک بن دیناررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک بچہ کو دیکھا کہ مٹی سے کھیل رہا ہے ‘ میں نے اس بچہ کو سلام کرنا چاہا ‘ پھر دل سے خیال کیا کہ بچہ کو کیا سلام کریں ‘ اپنے اس خیال کو دور کیا اور سلام کیا وہ لڑکا جواب دیا وعلیکم السلام یا مالک بن دینار اس کے بعد میرے اور لڑکے میں یہ سوال و جواب ہوا۔

میں نے کہا: میرا نام کیسے معلوم ہوا ؟

لڑکے نے کہا: علیم و خبیر نے معلوم کرایا ۔

میں نے کہا: عقل و نفس میں کیا فرق ہے ؟

لڑکے نے کہا: نفس سلام سے منع کر رہا تھا ‘ عقل سلام کروائی۔

میں نے کہا: مٹی میں کیوں کھیل رہے ہو ؟

لڑکے نے کھا:" فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُون"(سورۃ الاعراف)

(اسی زمین پر رہوگے ،اسی میں مروگے ،اسی سے اٹھائے جاؤگے)

میں نے کہا :تم کبھی روتے ہو ،اور کبھی ہنستے ہو ،کیا وجہ ہے ؟

.لڑکے نے کہا:جب عذاب کا خیال آتا ہے روتا ہوں ،جب رحمت کا خیال آتا ہے ہنستا ہوں۔

میں نے کہا: تمہارا گناہ ہی کیا جو تم روتے ہو ؟

لڑکے نے کہا: مالک یہ نہ کہو! اپنی ماں کو دیکھتاہوں کہ چولھا سلگاتے وقت بڑے لکڑیوں میں چورا بھی ڈال کر سلگاتی ہیں،اس خیال سے خوف ہوتا ہے کہ لکڑی کے چورے کی طرح بچے بھی بڑوں کے ساتھ دوزخ میں نہ ڈالے جائیں ۔

میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ بچہ بڑا سمجھ دارہے کون ہے؟

لوگ کہے: یہ بچہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا شہزادہ ،امام زین العابدین رضی اللہ عنہ ہے ۔

�میں نے کہا :یہ فرع ایسی ہی اصل کی ہونی چاہیے۔

وصال مبارک:

صاحب مرأۃ الاسرار نے فرمایا کہ سیدنا امام زین العابدین� رضی اللہ عنہ کا وصال مبارک روز سہ شنبہ انیس محرم،یا اٹھارہ محرم 75ھ میں زمانۂ ولید بن عبدالملک ہوا،آپ کا مزار مبارک جنت البقیع شریف مدینہ منورہ میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پہلو مبارک ميں ہے۔

اولاد امجاد:

آپ کو گیارہ شہزادے اور چار شہزادیاں ہیں۔

مصادر ومراجع:

(طبقات� شعرانی۔مرأۃ الاسرار۔مشکوۃ النبوۃ۔شہادت نامہ۔میلاد نامہ)�

از:مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر،حیدرآباد،الہند

www.ziaislamic.com

�