Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

زیارت روضۂ اطہر،فضائل وآداب


زیارت روضۂ اطہر،فضائل وآداب

 

       اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنْ، وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِ الْاَنْبِیَاء وَالْمُرْسَلِیْنْ، وَعَلٰی آلِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنْ، وَاَصْحَابِہِ الْاَکْرَمِیْنَ اَجْمَعِیْنْ،وَعَلٰی مَنْ اَحَبَّہُمْ وَتَبِعَہُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنْ-

اَمَّا بَعْدُ!

     یہ حج کا موسم ہے،حجاج وزائرین Ú©Ùˆ یہ شرف مل رہا ہے کہ وہ ایک ہی سفر میں حج بیت اللہ شریف وزیارت روضۂ اطہر Ú©ÛŒ سعادت سے مالامال ہورہے ہیں،بعض حضرات براہ راست مدینۂ منورہ حاضر ہورہے ہیں اور بعض افراد حج Ú©ÛŒ ادائی Ú©Û’ بعد مدینۂ منورہ حاضر ہونے کا شرف حاصل کررہے ہیں،جو لوگ پہلے مدینۂ طیبہ حاضر ہورہے ہیں انہیں یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ نبی طاہر صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©Û’ پاک دربار میں حاضر ہوتے ہیں اور گناہوں سے پاک وصاف ہوکر بارگاہ الہی میں سرفراز ہوتے ہیں اور جو حضرات پہلے مکہ مکرمہ جارہے ہیں انہیں یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ بارگاہ الہی میں حاضر ہوتے ہیں اور گناہوں سے پاک وصاف ہوکر نبی طاہر صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©ÛŒ بارگاہ میں باریاب ہوتے ہیں۔

     حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©Û’ دربار گہر بار میں حاضری بندۂ مومن Ú©Û’ حق میں نعمت عظمی،امید افزا طاعت اوردرجات عالیہ Ú©Û’ حصول کابڑا وسیلہ ہے،آپ Ú©Û’ دربار میں حاضر ہونا تقرب  الہی کا قریب ترین ذریعہ ہے،آپ Ú©ÛŒ بارگاہ  Ú©ÛŒ حاضری گناہوں Ú©ÛŒ بخشش اور حصول رحمت Ùˆ مغفرت کا قوی آسرا ہے۔

     زائرین روضۂ اقدس Ú©Û’ لئے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ù†Û’ شفاعت کا مژدۂ جاں فزا سنایا،دراقدس Ú©ÛŒ حاضری Ú©Ùˆ اللہ تعالی Ù†Û’ معصیت شعار افراد Ú©Û’ لئے گناہوں Ú©ÛŒ معافی کا ذریعہ، توبہ Ú©ÛŒ قبولیت اور نزول رحمت کا خصوصی مرکز قرار دیاہے،سورۂ نساء Ú©ÛŒ آیت نمبر:64،میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَہُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَحِیمًا-

        ØªØ±Ø¬Ù…ہ:اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ Ú©ÛŒ بارگاہ میں حاضر ہوں ،اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ Ú©Û’ رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی ان Ú©Û’ لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ Ú©Ùˆ خوب توبہ قبول کرنے والا‘نہایت رحم فرمانے والا پائیں Ú¯Û’Û”(سورۃ النساء :64)

     اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالی Ù†Û’ تین امور کا ذکر فرمایا :(1) جب گناہ کر بیٹھے تو آپ Ú©Û’ دربار میں حاضر ہونا-(2) استغفار کرنا-(3) حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اس Ú©Û’ حق میں سفارش فرمانا -

     جب یہ تین کام ہوتے ہیں تواللہ تعالی Ú©ÛŒ جانب سے اس بندہ کیلئے قبولیتِ توبہ کا مژدہ ملتا ہے اوروہ بے پناہ رحمتوں کا حقدار بنتا ہے۔

     تمام محدثین ومفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ Ø­Ú©Ù… حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وسلم Ú©ÛŒ ظاہری حیات طیبہ تک ہی محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی یہی Ø­Ú©Ù… ہے۔

     اس سلسلہ میں Ú©Ù… ازکم دو واقعات ملتے ہیں جس سے یہ بات روزروشن Ú©ÛŒ طرح عیاں وآشکار ہوجاتی ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ کا Ø­Ú©Ù… بعد ازوصال باقی ہے -

وصالِ مبارک کے تین دن بعد اعرابی کی حاضری

           حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی اسی طرح  Ú©ÛŒ ایک روایت تفسیر البحرالمحیط اورسبل الہدی والرشاد میں منقول ہے:

     وروی الحافظ ابن النعمان فی (مصباح الظلام فی المستغیثین بخیر  الأنام) من طریق الحافظ ابن السمعانی بسندہ عن علی رضی اللہ تعالی عنہ قال: قدم علینا أعرابی بعدما دفنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   بثلاثۃ أیام فرمی نفسہ علی القبر الشریف، وحثا من ترابہ علی رأسہ  وقال: یا رسول اللہ، قلت فسمعنا قولک، ووعیت عن اللہ تعالی ووعینا عنک وکان فیما أنزل علیک: (ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم جاؤوک فاستغفروا اللہ، واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما) -وقد ظلمت نفسی، وجئتک تستغفر Ù„ÛŒ فنودی من القبر: إنہ قد غفر Ù„Ú© -

     ترجمہ: محدث ابن نعمان رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ù†Û’ اپنی کتاب"مصباح الظلام فی المستغیثین بخیر الانام"میں محدث ابن سمعانی Ú©ÛŒ وساطت   سے روایت ذکر Ú©ÛŒ ہے،جسے انہوں Ù†Û’ اپنی سند Ú©Û’ ساتھ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت نقل Ú©ÛŒ ہے:حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ Ù†Û’ فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©Û’ وصال مبارک Ú©Û’ تین دن بعد ایک اعرابی دراقدس پر حاضر ہوکر گریہ وزاری کرنے Ù„Ú¯Û’ اور وہاں Ú©ÛŒ خاک مبارک Ú©Ùˆ اپنے سر پر ڈالنے Ù„Ú¯Û’ اور عرض گزار ہوئے :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !آپ Ù†Û’ ارشاد فرمایا ہم Ù†Û’ آپ Ú©Û’ ارشادِعالی Ú©Ùˆ سنا،آپ Ù†Û’ اللہ تعالی سے کلام سنا اور بحفاظت ہم تک پہنچایا اور ہم Ù†Û’ آپ سے اس کلام Ú©Ùˆ سیکھااور یادرکھا ØŒ آپ پر نازل کردہ کلام میںیہ آیت کریمہ بھی ہے ’’اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ Ú©ÛŒ بارگاہ میں حاضر ہوںاور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ Ú©Û’ رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم )بھی ان Ú©Û’ لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ Ú©Ùˆ خوب توبہ قبول کرنے والا‘ نہایت رحم فرمانے والا پائیںگے-‘‘(سورۃ النساء :64)(یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم!)میں Ù†Û’ اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ Ú©Û’ دربار اقدس میںحاضر ہوا تاکہ آپ میرے حق میں مغفرت Ú©ÛŒ دعا فرمائیں!تو روضۂ اقدس سے آواز آئی: ’’یقینا تمہاری بخشش کردی گئی‘‘-

     (تفسیر البحرالمحیط،سورۃ النساء-64-سبل الھدی والرشاد،جماع أبواب زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ وفضلھا،ج12،ص380)

روضۂ اطہرکی زیارت‘علامہ ابن کثیرکی وضاحت

     مذکورہ آیت کریمہ Ú©Û’ تحت علامہ ابن کثیر Ù†Û’ بیان کیاہے:

     وقولہ: ( وَلَوْ أَنْہُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ جَاء ُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّابًا رَحِیمًا) یرشد تعالی العصاۃ والمذنبین إذا وقع منہم الخطأ والعصیان أن یأتوا إلی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم فیستغفروا اللہ عندہ، ویسألوہ أن یستغفر لہم، فإنہم إذا فعلوا ذلک تاب اللہ علیہم ورحمہم وغفر لہم، ولہذا قال: ( لَوَجَدُوا اللَّہَ تَوَّابًا رَحِیمًا )

  ترجمہ:اللہ تعالی کا ارشاد ہے"اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ Ú©ÛŒ بارگاہ میں حاضر ہوں ،اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ Ú©Û’ رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی ان Ú©Û’ لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ Ú©Ùˆ خوب توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا پائینگے۔(اس آیت مبارکہ Ú©Û’ ذریعہ)اللہ تعالی گنہگاروں اورخطاکاروں کورہنمائی فرمارہا ہے کہ جب ان سے کوئی غلطی اور گناہ سرزد ہوجائے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©ÛŒ بارگاہ میں حاضر ہوں اور وہاں حاضر ہوکر اللہ تعالی سے مغفرت طلب کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معروضہ کریں کہ آپ ان Ú©Û’ حق میں سفارش فرمائیں،کیونکہ جب وہ لوگ اس طرح کریں Ú¯Û’ تو اللہ تعالی ان Ú©ÛŒ توبہ قبول فرمائے گا اور ان پرخصوصی رحمت نازل فرمائے گااور ان Ú©Û’ گناہوں Ú©Ùˆ معاف فرمائے گا،اسی وجہ سے اللہ تعالی Ù†Û’ ارشاد فرمایا:" تو وہ ضرور بضرور اللہ Ú©Ùˆ خوب توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا پائینگے"Û”

     وَقَدْ ذَکَرَ جَمَاعَۃٌ مِنْہُمْ:اَلشَّیْخُ أَبُوْ نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ فِیْ کِتَابِہِ "اَلشَّامِلْ" اَلْحِکَایَۃَ الْمَشْہُوْرَۃَ عَنِ الْعُتْبِیِّ، قَالَ کُنْتُ جالساً عند قَبْرِ النبیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ØŒ فَجَاءَ أَعْرَابِیٌّ ØŒ فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَیْکَ ØŒ یَا رَسُولَ اللَّہِ ØŒ سَمِعْتُ اللَّہَ تعالی یَقُولُ : ( وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَہُمْ جَائُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللّٰہَ تَوَّاباً رَّحِیماً)ØŒ وقَدْ جِئْتُکَ مُسْتَغْفِرًا لِذَنْبِیْ مُسْتَشْفِعًا بِکَ إِلَی رَبِّیْ ثُمَّ أَنْشَأَ یَقُولُ :

ترجمہ:اور علماء ومفسرین کی ایک جماعت نے بیان کیاہے،ان میں شیخ ابو نصر بن صباغ رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہیں ‘ اُنہوںنے اپنی کتاب "الشامل"میں حضرت عُتْبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے منقول مشہور حکایت ذکر کی،آپ نے فرمایا:میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضۂ اقدس کے قریب حاضر تھا،ایک اعرابی نے دراقدس پر حاضر ہوکر صلوۃ وسلام پیش کیا اور عرض گزار ہوئے :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !میں نے اللہ تعالی کو(قرآن کریم میں)فرماتے ہوئے سنا:" وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَہُمْ جَائُ وْکَ- - - "اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں ،اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ کو خوب توبہ قبول کرنے والانہایت رحم فرمانے والا پائیںگے-(سورۃ النساء :64)نیزاعرابی نے عرض کیا:یقینا میں اپنے گناہوں کی معافی کی خاطرآپ کی ذات ستودہ صفات کو اپنے پروردگار کے دربار میں وسیلہ بناکر آپ کے دربار عالی شان میں حاضر ہوا ہوں، اس کے بعد انہوں نے یہ اشعار کہے:

یَا خَیْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ أَعْظُمُہُ

فَطَابَ مِنْ طِیبِہِنَّ القَاعُ وَالأًکَمُ

نَفْسی الفِدَائُ لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاکِنُہُ

فِیہِ العَفَافُ ، وَفِیہِ الجُودُ وَالکَرَمُ

      Ø§Ø¦Û’ کائنات Ú©ÛŒ سب سے بہترین ذات !جن Ú©Û’ وجود مقدس Ú©Ùˆ زمین Ù†Û’ چوما ہے ،آپ Ú©Û’ وجود مقدس Ú©ÛŒ خوشبوسے میدان اور ٹیلے پاکیزہ ومعطر ہوچکے ہیں ،میری جان قربان اس روضۂ اطہر پر جس میں آپ رونق افروز ہیں ،جس میں پاکیزگی ہے،سخاوت اور کرم نوازی ہے-

حضرت عُتبی فرماتے ہیں:

     ثُمَّ انْصَرَفَ الْأَعْرَابِیُّ فَغَلَبَتْنِیْ عَیْنِیْ، فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ ØŒ فَقَالَ : یَا عُتْبِیُّ ! اِلْحَقِ الْأَعْرَابِیَّ ØŒ فَبَشِّرْہُ أنَّ اللَّہَ تعالی قَدْ غَفَرَ لَہُ .

     ترجمہ:جب وہ اعرابی واپس ہوگئے تو مجھ پر نیند طاری ہوگئی،خواب میںحضرت نبی اکر Ù… صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©Û’ دیدار سے مشرف ہوا،اورآپ Ù†Û’ ارشاد فرمایا:اے عُتْبی!اس اعرابی سے ملاقات کرو!اور انہیں بشارت دو کہ یقینااللہ تعالی Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ بخشش فرمادی ہے-

     (تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،سورۃ النساء ØŒ64-ج 2،ص384-معجم ابن عساکر،حدیث نمبر738-شعب الإیمان للبیھقی،فضل الحج والعمرۃ،حدیث نمبر4019- الجواھر الحسان فی تفسیر القر ان للثعالبی،سورۃ النساء ØŒ64- الدر المنثور فی التأویل بالمأثور،سورۃ البقرۃ،203- تفسیر البحر المحیط، سورۃ النساء ØŒ64-الحاوی الکبیرللماوردی،مستوی کتاب الحج-الشرح الکبیر لابن قدامۃ،ج3،ص494-  الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ،التَّوَسُّل بِالنَّبِیِّ بَعْدَ وَفَاتِہِ-المواھب اللدنیۃ، مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص199-سبل الھدی والرشاد، جماع أبواب زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ وفضلھا،ج12،ص390-مختصر تاریخ دمشق، باب من زار قبرہ بعد وفاتہ کمن زار حضرتہ قبل وفاتہ-خلاصۃ الوفا بأخبار دار المصطفی،ج1،ص57- الأذکار النوویۃ، کتاب أذکار الحج ،حدیث نمبر 574)

     اللہ تعالی Ù†Û’ ان مذکورہ اشعار Ú©Ùˆ ایسی شان عطا Ú©ÛŒ ہے کہ جالی مبارک سے متصل ستونوںپر آج بھی نقش ہیں اور زائرین Ú©Û’ لئے نور بصارت وبصیرت کا سامان فراہم کررہے ہیں-

روضہ اقدس کی حاضری عین سعادت

     شارح بخاری امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ Ù†Û’ المواھب اللدنیہ میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت نقل Ú©ÛŒ ہے:

     وعن الحسن البصری قال:وقف حاتم الاصم علی قبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم فقال:یا رب!انا زرنا قبر نبیک فلا تردنا خائبین!فنودی :یا ھذا !ما اذنا Ù„Ú© فی زیارۃ قبر حبیبنا الا وقد قبلناک فارجع انت ومن معک من الزوار مغفورا Ù„Ú©Ù…-

     ترجمہ:حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے،آپ Ù†Û’ فرمایا:حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©Û’ دراقدس پر حاضر ہوئے ،اور دربار الہی میں معروضہ کیا کہ ائے اللہ! ہم تیرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©Û’ دراطہر پر حاضر ہوئے ہیں،ہمیں محروم نہ لوٹا!ہاتف غیبی سے آواز آئی :اگر ہمیں تم Ú©Ùˆ قبول کرنا منظور نہ ہوتا تو تمہیں حاضری کا موقع مرحمت ہی نہ فرماتے! تم اس حال میں واپس لوٹو کہ ہم Ù†Û’ تمہیں اور تمہارے ساتھ تمام زائرین Ú©Ùˆ بخشش ومغفرت سے مالامال فرمادیاہے-

     (المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص200)

زائرین روضۂ اقدس کے لئے شفاعت کی ضمانت

     کتب حدیث وفقہ میں جہاں حج Ú©Û’ مناسک اور اس Ú©Û’ آداب کا ذکر ہے وہیں روضۂ اطہر Ú©ÛŒ حاضری اور اس Ú©Û’ آداب کا بھی ذکر موجود ہے، اورزائرین روضۂ اقدس Ú©Û’ حق میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ù†Û’ شفاعت خاصہ کا وعدہ بھی فرمایا‘چنانچہ سنن دارقطنی،شعب الإیمان للبیھقی،جامع الأحادیث،جمع الجوامع،مجمع الزوائد اور کنز العمال وغیرہ میں حدیث مبارک ہے:

     عَنِ ابْنِ عُمَرَ  قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِیْ -

     ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے،آپ Ù†Û’ فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا: جس Ù†Û’ میرے روضۂ اطہر Ú©ÛŒ زیارت Ú©ÛŒ اس Ú©Û’ لئے میری شفاعت واجب ہوچکی ہے-

     (سنن الدارقطنی: کتاب الحج، حدیث نمبر:2727-صحیح ابن خزیمۃ، کتاب الحج او المناسک ،باب زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ØŒ حدیث نمبر-3095-شعب الإیمان للبیھقی، الخامس Ùˆ العشرین من شعب الإیمان Ùˆ ہو باب فی المناسک ØŒ فضل الحج Ùˆ العمرۃ حدیث نمبر:4159-جامع الأحادیث، حرف المیم، حدیث نمبر: 22304-جمع الجوامع، حرف المیم،  حدیث نمبر: 5035- مجمع الزوائد ،ج 4،ص 6،حدیث نمبر:5841-کنز العمال ØŒ زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر: 42583-المواہب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص179)

حدیث زیارت صحیح ومستند د‘ محدثین کی صراحت

     اس حدیث شریف Ú©Ùˆ کئی ایک محدثین Ù†Û’ روایت کیا ،اس Ú©Û’ قابل استدلال ہونے سے متعلق ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ Ù†Û’ لکھا ہے:

     رواہ الدارقطنی وغیرہ وصححہ جماعۃ من الائمۃ-

     ترجمہ:اس حدیث پاک Ú©Ùˆ امام دارقطنی اور دیگر محدثین Ù†Û’ روایت کیا اور ائمہ ومحدثین Ú©ÛŒ ایک جماعت Ù†Û’ اُسے صحیح قرار دیاہے-

      (شرح الشفا لعلی القاری بھامش نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ØŒ ج3ØŒ ص511)

     اور علامہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ Ù†Û’ اس سلسلہ میں تفصیل بیان Ú©ÛŒ ہے:

زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم من أفضل الطاعات وأعظم القربات لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم من زار قبری وجبت لہ شفاعتی رواہ الدارقطنی وغیرہ وصححہ عبد الحق ولقولہ صلی اللہ علیہ وسلم من جاء نی زائرا لا تحملہ حاجۃ إلا زیارتی کان حقا علی أن أکون لہ شفیعا یوم القیامۃ رواہ الجماعۃ منہم الحافظ أبو علی بن السکن فی کتابہ المسمی بالسنن الصحاح فہذان إمامان صححا ہذین الحدیثین وقولہما أولی من قول من طعن فی ذلک .

        ØªØ±Ø¬Ù…ہ:حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ زیارت مقدسہ افضل ترین اطاعت اور قربِ خداوندی کا عظیم ترین ذریعہ ہے ØŒ اس Ú©ÛŒ دلیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک ہے : جس Ù†Û’ میرے روضۂ اطہر Ú©ÛŒ زیارت Ú©ÛŒ اس Ú©Û’ لئے میری شفاعت واجب ہوچکی ہے- امام دارقطنی اور دیگر محدثین Ù†Û’ اسے روایت کیا اور محدث عبد الحق Ù†Û’ اسے صحیح قرار دیا- اور یہ حدیث پاک بھی دلیل ہے ‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا:جو میری زیارت Ú©Û’ لئے اس طرح آئے کہ بجز میری زیارت Ú©Û’ اس کا کوئی اور مقصد نہ ہوتوقیامت Ú©Û’ دن اس Ú©ÛŒ شفاعت میرے ذمۂ کرم پرہے -اس Ú©ÛŒ روایت محدثین Ú©ÛŒ ایک جماعت Ù†Û’ Ú©ÛŒ ہے ØŒ ان میں محدث ابو علی بن سکن ہیں جنہوں Ù†Û’ اپنی کتاب ’’سنن صحاح ‘‘میں اس حدیث Ú©Ùˆ صحیح قرار دیا، یہ دونوں حضرات فن حدیث میں امامت کا درجہ رکھتے ہیں جنہوں Ù†Û’ ان روایتوں Ú©Ùˆ صحیح کہا ہے اور ان کا کہنا اس شخص Ú©Û’ کہنے سے اولی وبہتر ہے جس Ù†Û’ اس میں طعن کیا-

     (حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ‘ کتاب المناسک‘ باب فضل المدینۃ‘ حدیث نمبر 3103)

     علامہ شہاب الدین خفاجی Ù†Û’ نسیم الریاض شرح شفامیں اس Ú©ÛŒ مزید تفصیل بیان Ú©ÛŒ ہے:

      Ø±ÙˆØ§Û ابن خزیمۃ والبزاروالطبرانی والذھبی وحسنہ ولہ طرق وشواہد تعضدہ والطعن فی رواتہ مردود کمابینہ السبکی واطال فیہ-

        ØªØ±Ø¬Ù…ہ:اس حدیث مبارک Ú©Ùˆ امام ابن خزیمہ‘ امام بزار‘ امام طبرانی‘ علامہ ذہبی Ù†Û’ روایت کیا اور علامہ ذہبی Ù†Û’ اُسے حسن قرار دیا‘ اس روایت Ú©ÛŒ کئی سندیں اور متعدد شواہد ہیں جو اِس روایت Ú©ÛŒ تائید کررہی ہیں ØŒ اس حدیث پاک Ú©Û’ روایوں پر طعن ناقابل قبول ہے جیساکہ امام سبکی Ù†Û’ تفصیل Ú©Û’ ساتھ بیان کردیاہے -

      (نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ØŒ ج3ØŒ ص511)

     اس روایت Ú©Ùˆ نقل کرنے Ú©Û’ بعد شارح بخاری امام قسطلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ù†Û’ فرمایا:

       ورواہ عبد الحق فی احکامہ الوسطی وفی الصغری وسکت عنہ،وسکوتہ عن الحدیث فیھما دلیل علی صحتہ-

     ترجمہ:اس روایت Ú©Ùˆ امام عبد الحق Ù†Û’ اپنی کتاب"احکام وسطی"اور "احکام صغری"میں بیان کیا اور اس Ú©ÛŒ سند پر Ú©Ú†Ú¾ کلام نہ کیا،اور ان دونوں کتابوں میں ان کا سند پر کلام نہ کرنا اس حدیث شریف Ú©Û’ صحیح ہونے Ú©ÛŒ دلیل ہے-

     (المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص179)

     بیان کردہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس روایت Ú©Ùˆ بعض محدثین Ù†Û’ سندحسن سے اور ایک جماعت Ù†Û’ صحیح سند سے بیان کیاہے -

خالص حضور کی خاطر حاضر ہونے پر شفاعت اور مقبول حج کی بشارت

     حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©Û’ روضۂ اقدس Ú©ÛŒ حاضری ابدی سعادت کاذریعہ ہے، اسی لئے احادیث شریفہ میں بطور خاص دربار اقدس میں حاضری Ú©ÛŒ ترغیب وتشویق دی گئی ،زائرین روضۂ اقدس حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©Û’ دربار گہربار میں حاضری Ú©ÛŒ نیت سے جائیں کیونکہ قرآن کریم میں صراحت Ú©Û’ ساتھ Ø­Ú©Ù… دیا گیا" جَائُ وْکَ "وہ لوگ آپ Ú©Û’ پاس آئیں-(سورۃ النساء -64)

     قرآن کریم Ú©Û’ اس واضح Ø­Ú©Ù… کا انکار کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں اور اس میں باطل تاویلات کرنا‘ محرومی Ú©ÛŒ علامت ہے-

     بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ مسجد نبوی Ú©ÛŒ نیت سے مدینۂ منورہ جائیں اور زیارت Ú©ÛŒ نیت سے نہ جائیں،ایسے افراد Ú©Ùˆ سوچنا چاہئے کہ ہرمسجد اللہ کا گھرہے ‘لیکن مسجد نبوی ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©ÛŒ نسبت سے معظم ومحترم ہے،آپ ہی Ú©Û’ سبب وہ مشرف ومکرم ہے،جب اس مسجد Ú©ÛŒ نیت سے سفر کیا جاسکتا ہے تو پھر جس ذات گرامی Ú©ÛŒ نسبت بابرکت سے مسجد‘ مقدس اور عظمت والی بنی اس ذات عالی وقار Ú©Û’ دربار گہر بار میں حاضری Ú©ÛŒ نیت سے سفر کیوں نہیں کیا جاسکتا؟جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ù†Û’ زیارتِ مقدسہ Ú©ÛŒ نیت سے حاضر ہونے پر شفاعت خاصہ Ú©ÛŒ بشارت دی ہے اور اس خوش نصیب زائر Ú©Ùˆ دو مقبول حج Ú©Û’ ثواب Ú©ÛŒ خوشخبری سنائی ہے-

     چنانچہ معجم کبیر طبرانی، معجم اوسط طبرانی،مستدرک علی الصحیحین،مجمع الزوائد،جامع الاحادیث،جامع کبیر اور کنز العمال میں حدیث پا Ú© ہے:

       مَنْ جَاءَ نِیْ زَائِرًا لَاتَحْمِلُہُ حَاجَۃٌ اِلَّا زِیَارَتِیْ کَانَ حَقًّا عَلَیَّ اَنْ اَکُوْنَ لَہُ شَفِیْعًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃْ-

     ترجمہ:جو میری زیارت Ú©Û’ لئے اس طرح آئے کہ بجز میری زیارت Ú©Û’ اس کا کوئی اور مقصد نہ ہوتو اس کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں قیامت Ú©Û’ دن اس Ú©ÛŒ شفاعت کروں-

     ( المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر:12971-المعجم الاوسط للطبرانی ،حدیث نمبر:4704-المستدرک علی الصحیحین:1747-مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،حدیث نمبر:5842-جامع الأحادیث للسیوطی،حدیث نمبر:21932- الجامع الکبیر للسیوطی ،حدیث نمبر:4663-کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال ،حدیث نمبر: 34928)

زائرین روضۂ اقدس کو دو مقبول حج کا ثواب

     سنن دیلمی،جامع الاحادیث،جامع کبیر اور کنز العمال میں روایت ہے:

       مَنْ حَجَّ اِلَی Ù…ÙŽÚ©Ù‘ÙŽÛƒÙŽ ثُمَّ قَصَدَنِیْ فِیْ مَسْجِدِیْ کُتِبَتْ لَہُ حَجَّتَانِ مَبْرُوْرَتَانْ -

     ترجمہ:جس Ù†Û’ حج کیا پھر میری زیارت Ú©Û’ قصد سے میری مسجد Ú©Ùˆ آیا تو اس Ú©Û’ لئے دو مقبول حج Ù„Ú©Ú¾Û’ جاتے ہیں۔

(سنن الدیلمی -جامع الأحادیث،حدیث نمبر:21996-الجامع الکبیر للسیوطی،حدیث نمبر: 4727-کنز العمال ،حدیث نمبر:12370)

حسنِ ایمان و عقیدت سے جو طیبہ دیکھا

دین و دنیا کی سعادت کا خزینہ دیکھا

لوح وکرسی و قلم ‘ جنت و سدرہ دیکھا

دیکھا سب کچھ بیقیں جس نے مدینہ دیکھا

(مؤلف)

زیارت کی نیت سے حاضر ہونے والوں کے لئے حضورکی رفاقت

     حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©ÛŒ زیارت Ú©ÛŒ نیت سے حاضر ہونے والے خوش نصیب افراد Ú©Û’ حق میں آپ Ù†Û’ صرف شفاعت کا وعدہ ہی نہیں فرمایا بلکہ ان Ú©Ùˆ یہ بشارت بھی عطا فرمائی کہ وہ حضرات قیامت Ú©Û’ دن آپ Ú©ÛŒ حمایت اور پناہ میں رہیں گے،جیساکہ شعب الایمان،سنن صغری للبیھقی،جامع الاحادیث،جامع کبیر اور کنز العمال میں حدیث شریف ہے:

       مَنْ زَارَنِیْ مُتَعَمِّدًا کَانَ فِیْ جِوَارِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃْ -

     ترجمہ:جو شخص میری زیارت Ú©Û’ ارادہ سے (مدینہ منورہ ) حاضرہو، قیامت Ú©Û’ دن وہ میرا ہمسایہ اور میری پناہ میں ہوگا - 

     (شعب الإیمان للبیھقی, حدیث نمبر: 3994- السنن الصغری للبیھقی, حدیث نمبر: 1818- جامع الأحادیث للسیوطی، حدیث نمبر: 22308-الجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر: 5039-کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال ØŒ حدیث نمبر: 12373)

روضہ مقدسہ ‘مدینہ منورہ میں ہونے کی حکمت

     مکہ مکرمہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©ÛŒ ولادت باسعادت ہوئی،آپ Ù†Û’ بحکم خدا وہاں سے ہجرت فرمائی اور مدینۂ منورہ تشریف لائے،بیت اللہ شریف بھی مکہ مکرمہ میں ہے ،حج Ú©Û’ سارے مناسک مکہ مکرمہ ØŒ عرفات ومزدلفہ میں ادا کئے جاتے ہیں،رب اگر چاہتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضۂ اقدس بھی مکہ مکرمہ میں ہوتا ،لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ آپ کا روضۂ اطہر مدینۂ منورہ میں رکھا تاکہ آپ Ú©ÛŒ بارگاہ Ú©ÛŒ حاضری حج Ú©ÛŒ طفیلی نہ بن جائے بلکہ آپ Ú©ÛŒ بارگاہ عالی جاہ میں حاضری Ú©Û’ لئے مستقل سفر کیا جائے،جیساکہ  حضرت خواجہ بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "یہ مشیت الہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ اطہر مکہ معظمہ میں نہ ہو، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ زیارت ،حج Ú©ÛŒ طفیلی نہ ہوجائے ØŒ حج کعبہ Ú©Û’ بعد علٰحدہ سے خاص کرقصد،مدینہ منورہ کاکیا جائے ،امام شافعی Ú©Û’ قول Ú©Û’ مطابق تو مکہ معظمہ Ú©ÛŒ طرح مدینہ منور ہ بھی حرم ہے لیکن تعظیم وتکریم Ú©Û’ واجب ہونے Ú©Û’ بارے میں تو سب ہی متفق ہیں "-انتہی ملخصاً-(جوامع الکلم، ص:361)

دربار اقدس میں حاضری سے گریز 'باعثِ محرومی

       قرآن کریم اور احادیث شریفہ میںبارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کا Ø­Ú©Ù… دیا گیا ،ترغیب وتشویق دلائی گئی اور حاضری سے گریز کرنے Ú©Ùˆ منافقین کا شیوہ قرار دیا گیا،ارشاد الہی ہے:

       وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُولُ اللَّہِ لَوَّوْا رُئُ وسَہُمْ وَرَأَیْتَہُمْ یَصُدُّونَ وَہُمْ مُسْتَکْبِرُونْ -

     ترجمہ:اور جب ان (منافقین) سے کہا جاتا ہے کہ آؤ !اللہ Ú©Û’ رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) تمہارے لئے مغفرت طلب فرمائینگے تو وہ انکار سے اپنے سروں Ú©Ùˆ گھماتے ہیں اور تم انہیں دیکھوگے کہ وہ تکبر کرتے ہوئے حاضری سے رک رہے ہیں-(سورۃ المنافقون -5)

     علاوہ ازیںاستطاعت رکھنے Ú©Û’ باوجود زیارت مقدسہ سے گریز کرنے والے سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا کہ اس شخص Ù†Û’ مجھ پر زیادتی Ú©ÛŒ ہے،جیساکہ مواھب لدنیہ میں حدیث شریف ہے:

       وَرُوِیَ عَنْہَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ :مَنْ وَّجَدَ سَعَۃً وَلَمْ یَفِد اِلَیَّ فَقَدْ جَفَانِیْ-ذَکَرَہُ اِبْنُ فَرْحُوْن فِیْ مَنَاسِکِہِ،وَالْغَزَالِیُّ فِیْ الْاِحْیَاءِ---

     ترجمہ:حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت ہے:آپ Ù†Û’ ارشاد فرمایا:جو شخص استطاعت رکھنے Ú©Û’ باوجود میری بارگاہ میں حاضر نہ ہو تو اس Ù†Û’ مجھ پر زیادتی کی،اس روایت Ú©Ùˆ ابن فَرْحون Ù†Û’ اپنی "مناسک"میں اور امام غزالی Ù†Û’ "احیاء العلوم"میں نقل کیا ہے-

     (المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص180)

      Ù†ÛŒØ²Ø¬Ø§Ù…ع الاحادیث،جامع کبیر اور کنز العمال میں حدیث شریف ہے:

        Ù…َنْ حَجَّ الْبَیْتَ وَلَمْ یَزُرْنِیْ فَقَدْ جَفَانِیْ -

     ترجمہ:جس Ù†Û’ بیت اللہ کا حج کیا اور میری زیارت نہ Ú©ÛŒ تو اس Ù†Û’ مجھ سے جفا Ú©ÛŒ-

     ( جامع الأحادیث للسیوطی:21997-الجامع الکبیر للسیوطی:4728-کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال:12368)

بارگاہ اقدس میں سلام پیش کرنے کے آداب

     آدمی جتنی بڑی شخصیت Ú©Û’ پاس جانے کا ارادہ کرتاہے اتناہی زیادہ اہتمام کرتاہے ØŒ دنیا میں ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں ØŒ بارگاہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ بارگاہ عالیجاہ ہے جہاں فرشتے باادب حاضر ہوتے ہیں ØŒ بڑے بڑے اولیاء واقطاب آہستہ قدم ‘خمیدہ سر‘پست نگاہ ‘لرزیدہ بدن ‘الغرض پیکرادب بن کر حاضرہوتے ‘ لہذا روضۂ اقدس Ú©Û’ زائرین Ú©Ùˆ قرینہ ادب رکھنا چاہئے ØŒ اس سلسلہ میں امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ Ù†Û’ مواہب لدنیہ میں رقم فرمایا :

     وینبغی ان یقف عند محاذاۃ اربعۃ اذرع ،ویلازم الادب والخشوع والتواضع،غاض البصر فی مقام الھیبۃ،کما کان یفعل بین یدیہ فی حیاتہ،ویستحضر علمہ بوقوفہ بین یدیہ وسماعہ لسلامہ،کما Ú¾Ùˆ الحال فی حال حیاتہ،اذ لا فرق بین موتہ وحیاتہ فی مشاھدتہ لامتہ ومعرفتہ احوالھم ونیاتھم وعزائمھم وخواطرھم ،وذلک عندہ جلی لا خفاء بہ-

     ترجمہ:زائر Ú©Û’ لئے یہ بہتر ہے کہ وہ مواجہہ شریف  سے چار گز Ú©ÛŒ دوری پر ٹھہرے،پیکر ادب ہو کر خشوع وانکساری Ú©Ùˆ اپنے اوپر لازم کرلے، بارگاہ عالی جاہ میں اپنی نگاہ Ú©Ùˆ نیچی کئے ہوئے اس طرح حاضر ہوجیسے آپ Ú©ÛŒ ظاہری حیات طیبہ میں آپ Ú©Û’ روبرو حاضر ہوا کرتے،اور اس بات Ú©Ùˆ ملحوظ رکھے کہ آپ اپنے دربار میں اس Ú©Û’ حاضر ہونے Ú©Ùˆ جانتے ہیں اور اس Ú©Û’ سلام Ú©Ùˆ سماعت فرماتے ہیں جیسا کہ آپ اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں سنا کرتے تھے،کیونکہ اپنی امت کا مشاہدہ فرمانے Ú©Û’ لئے اور ان Ú©Û’ حالات ،نیتیں،ارادے اور دلی کیفیات Ú©Ùˆ جاننے Ú©Û’ لئے آپ Ú©ÛŒ حیات طیبہ اور وصال مبارک میں کوئی فرق نہیں-اور یہ ساری چیزیں آپ پر بالکل عیاں ہیں جس میں کسی قسم Ú©ÛŒ پوشیدگی نہیں-

     (المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص195)

سلام پیش کرتے وقت کدھر رخ کریں؟

     زائرین روضۂ اقدس اس یقین Ú©Û’ ساتھ دربار اقدس میں حاضر ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حیات ہیں ØŒ صلوۃ وسلام Ú©Ùˆ بلاواسطہ سماعت فرماتے ہیں اور جواب بھی عنایت فرماتے ہیں،سنن ابن ماجہ میں حدیث مبارک ہے ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا:

      Ø¥ÙÙ†Ù‘ÙŽ اللَّہَ حَرَّمَ عَلَی الأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الأَنْبِیَاء. فَنَبِیُّ اللَّہِ حَیٌّ یُرْزَقُ.

     ترجمہ:بیشک اللہ Ù†Û’ زمین پر حرام کردیا کہ وہ انبیاء کرام Ú©Û’ اجسام Ú©Ùˆ کھائے  ،اللہ Ú©Û’ نبی حیات ہیں‘رزق پاتے ہیں-

     ( سنن ابن ماجہ، باب ذکر وفاتہ ودفنہ ،صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر: 1706)

     بارگاہ نبوی Ú©Û’ آداب Ú©Û’ سلسلہ میں محدثین کرام وفقہاء عظام Ù†Û’ بیان فرمایا کہ جب سلام پیش کرنے Ú©Û’ لئے حاضر ہوں تو اس طرح باادب ٹھہریں کہ چہرہ مواجہہ شریف Ú©ÛŒ جانب ہو اور پیٹھ قبلہ Ú©ÛŒ جانب ہو،امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ù†Û’ خلیفہ ابو جعفرمنصورکو یہی فرمایا تھا کہ جب بارگاہ اقدس میں حاضرہوں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©ÛŒ جانب ہی رخ کرکے دعا کریں،سبل الہدی والرشاد میں روایت ہے:

     ولما ناظر أبو جعفر المنصور عبد اللہ بن محمد بن عباس ثانی خلفاء بنی العباس مالکا فی مسجدہ علیہ الصلاۃ والسلام قال لہ مالک: یا أمیر المؤمنین لا ترفع صوتک فی ہذا المسجد، فإن اللہ تعالی أدب قوما فقال: (لا ترفعوا أصواتکم فوق صوت النبی) وإن حرمتہ میتا کحرمتہ حیا، فاستکان لہا أبو جعفر، وقال لمالک: یا أبا عبید اللہ أأستقبل القبلۃ وادعوا أم استقبل رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ØŸ فقال لہ: لم تصرف وجہک عنہ وہو وسیلتک ووسیلۃ أبیک آدم إلی اللہ تعالی یوم القیامۃ بل استقبلہ واستشفع بہ فیشفعک اللہ، فإنہ تقبل بہ شفاعتک لنفسک قال اللہ تعالی: (ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم)

       ترجمہ:اور جب بنی عباس Ú©Û’ دوسرے خلیفہ ابو جعفر منصور عبد اللہ بن محمد بن عباس Ù†Û’ امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام میں مناظرہ کیا تو امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ Ù†Û’ ان سے فرمایا:اے امیر المؤمنین!اپنی آواز Ú©Ùˆ اس مسجد میں بلند نہ کرو!کیونکہ اللہ تعالی Ù†Û’ ایک بہترقوم Ú©Ùˆ ادب سکھاتے ہوئے (قرآن کریم میں )فرمایا:"اپنی آوازوں Ú©Ùˆ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©ÛŒ آواز پر بلند نہ کرو!"بیشک آپ Ú©ÛŒ ظاہری حیات طیبہ میں جس طرح آپ کاادب واحترام لازم تھا آپ Ú©Û’ وصال مبارک Ú©Û’ بعد بھی اسی طرح ادب واحترام ملحوظ رکھا جائے! تو خلیفہ ابو جعفر باادب ہوگئے اور امام مالک سے دریافت کرنے Ù„Ú¯Û’:اے ابو عبید اللہ!بوقت حاضری ‘میں قبلہ Ú©ÛŒ جانب رخ کروں اور دعا کروں یا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©ÛŒ جانب رخ کروں؟تو آپ Ù†Û’ فرمایا:آپ اپنے چہر ہ Ú©Ùˆ حضور Ú©ÛŒ بارگاہ سے کیسے پھیر سکتے ہو؟جبکہ آپ Ú©ÛŒ ذات گرامی ہی قیامت Ú©Û’ دن اللہ تعالی Ú©Û’ دربار میں آپ Ú©Û’ لئے اور آپ Ú©Û’  والد حضرت آدم علیہ السلام Ú©Û’ لئے وسیلہ ہے-ہر حال میں آپ حضور Ú©ÛŒ جانب ہی رخ کریں!اور آپ سے شفاعت طلب کریں!اللہ تعالی تمہارے حق میں سفارش قبول کرے گا،کیونکہ یہی وہ ذات بابرکت ہے جس Ú©Û’ طفیل تمہارے حق میں تمہارا معروضہ قبول کیا جائے گا،اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم----)

     (سبل الہدی والرشاد،جماع أبواب بعض ما یجب علی الانام من حقوقہ علیہ الصلاۃ والسلام،ج11،ص423)

علامہ ابن تیمیہ کی صراحت

     اس سلسلہ میں علامہ ابن تیمیہ Ù†Û’ بھی صراحت Ú©ÛŒ ہے کہ سلام پیش کرتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©ÛŒ جانب چہر ہ اور قبلہ Ú©ÛŒ جانب پشت ہو،حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی عمل رہا:

     وہکذا کان الصحابۃ یسلمون علیہ ،مستقبلی الحجرۃ مستدبری القبلۃ عند أکثر العلماء کمالک والشافعی وأحمد.

     ترجمہ:اور اسی طرح حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سلام پیش کیا کرتے،اس طور پرکہ مواجہہ شریف Ú©ÛŒ جانب رخ کرتے اور قبلہ Ú©ÛŒ جانب پیٹھ ہوا کرتی،علماء امت Ú©ÛŒ اکثریت کا یہی مسلک رہا ،جیساکہ امام مالک امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ -

     (مختصر منسک شیخ الإسلام ابن تیمیۃ ،الفصل الرابع عشرفی زیارۃ مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)

بارگاہ اقدس میں اس طرح سلام پیش کریں

       اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللہْ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیْبَ اللہْ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خِیَرَۃَ اللہْ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا صَفْوَۃَ اللہْ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدَ الْمُرْسَلِیْنْ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنْ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا قَائِدَ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِیْنْ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلَی اَہْلِ بَیْتِکَ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنْ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلَی اَزْوَاجِکَ الطَّاہِرَاتِ اُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِیْنْ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلَی اَصْحَابِکَ اَجْمَعِیْنْ ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلَی سَائِرِ الْاَنْبِیَاء وَسَائِرِ عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْنْ! جَزَاکَ اللہُ یَا رَسُوْلَ اللہِ اَفْضَلَ مَا جَازٰی نَبِیًّا وَرَسُوْلًا عَنْ اُمَّتِہْ،وَصَلَّی اللہُ عَلَیْکَ کُلَّمَا ذَکَرَکَ الذَّاکِرُوْنْ،وَغَفَلَ عَنْ ذِکْرِکَ الْغَافِلُوْنْ، اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّکَ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاَمِیْنُہٗ وَخِیَرَتُہٗ مِنْ خَلْقِہٖ،وَاَشْہَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ ÙˆÙŽ اَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ،وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَ، وَجَاہَدْتَّ فِیْ اللہِ حَقَّ جِہَادِہْ-

     (المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص197)

     پھر سیدھی جانب ایک ہاتھ ہٹ کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ Ú©ÛŒ خدمت میں سلام پیش کریں:

       اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَلِیْفَۃَ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنْ!اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنْ اَیَّدَ اللہُ بِہِ الدِّیْنْ ! جَزَاکَ اللہُ عَنِ الْاِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِیْنَ خَیْرًا-اَللَّہُمَّ ارْضَ عَنْہُ ،وَارْضَ عَنَّا بِہْ-

     پھر سیدھی جانب ایک ہاتھ ہٹ کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ Ú©ÛŒ خدمت میں سلام پیش کریں:

       اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَالْمُؤْمِنِیْنِ!اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنْ اَیَّدَ اللہُ بِہِ الدِّیْنْ ! جَزَاکَ اللہُ عَنِ الْاِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِیْنَ خَیْرًا-اَللَّہُمَّ ارْضَ عَنْہُ ،وَارْضَ عَنَّا بِہْ-

     (المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص201)

زائرین روضۂ اقدس سے سلام پیش کرنے کی درخواست کرنا

     ہر بندۂ مؤمن Ú©ÛŒ عین تمنا یہ ہوتی  ہے کہ وہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©ÛŒ بارگاہ عالی جاہ میں باادب حاضر ہوکر صلوۃ وسلام کا نذرانہ پیش کرے،زائرین روضۂ اقدس تو براہ راست صلوۃ وسلام پیش کرتے ہیں لیکن جو حضرات وہاں جا نہ سکے وہ حجاج وزائرین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان Ú©ÛŒ جانب سے بارگاہ اقدس میں سلام پیش کریں،حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ اہتمام Ú©Û’ ساتھ ملک شام سے ایک صاحب Ú©Ùˆ روانہ فرماتے کہ وہ آپ Ú©ÛŒ جانب سے بارگاہ اقدس میں سلام پیش کرے،جیساکہ امام بیہقی Ú©ÛŒ شعب الایمان اور امام قسطلانی Ú©ÛŒ مواہب لدنیہ میں روایت ہے:

وقد صح ان عمر بن عبد العزیز کان یبرد البرید للسلام علی النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم -

 ØªØ±Ø¬Ù…ہ:یہ روایت پایۂ ثبوت Ú©Ùˆ پہنچ Ú†Ú©ÛŒ ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©ÛŒ بارگاہ میں سلام پیش کرنے Ú©Û’ لئے (ملک شام)سے ایک قاصد Ú©Ùˆ روانہ کیا کرتے-

     (شعب الایمان للبیھقی ØŒ حدیث نمبر:4008/4007-المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص184)

مسجد نبوی شریف میں نماز ادا کرنے کی فضیلت

     مسجد نبوی شریف وہ عظیم مسجدہے جس Ú©ÛŒ نسبت حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©ÛŒ طرف ہے ØŒ یہیں آپ Ù†Û’ قیام فرمایا‘یہیں آپ کا کاشانۂ اقدس رہا اور یہیں آپ کا روضۂ اطہر ہے -

     صحیح بخاری میں حدیث شریف ہے:

       عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ   أَنَّ النَّبِیَّ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ   قَالَ : صَلاَۃٌ فِی مَسْجِدِی ہَذَا  خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلاَۃٍ فِیمَا سِوَاہُ إِلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ  .

     ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا:میری اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا مسجد حرام Ú©Û’ علاوہ دیگر مساجد میں ایک ہزار نماز ادا کرنے سے بہتر ہے-

     (صحیح البخاری،کتاب فضل الصلاۃ،باب فضل الصلاۃ فی مسجد Ù…Ú©Ûƒ والمدینۃ، حدیث نمبر1190)

     مسجدنبوی میں ایک نماز اداکرنادیگر مساجدمیںپچاس ہزارنماز اداکرنے Ú©Û’ برابر اجروثواب رکھتاہے-

     سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث پاک ہے :

       وَصَلاَۃٌ  فِیْ مَسْجِدِیْ بِخَمْسِیْنَ اَلْفَ صَلاَۃٍ -

     ترجمہ:میری مسجد میں ایک نماز اداکرناپچاس ہزارنماز اداکرنے Ú©Û’ برابر اجروثواب رکھتاہے-

      (سنن ابن ماجہ ،باب ماجاء فی الصلاۃ فی المسجدالجامع،حدیث نمبر:1478)

مسجد نبوی شریف میں چالیس نمازیں ادا کرنے کی فضیلت

     مدینہ طیبہ میں سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ بارگاہ عالی جاہ میں حاضر ہونا ہر مؤمن کا عین مقصد ہوتا ہے اور جس مسجد Ú©Ùˆ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص نسبت حاصل ہو‘ اس میں زیادہ سے زیادہ نمازیں ادا کرنا عظیم سعادت ہے- مسجد نبوی شریف میں چالیس نمازیں ادا کرنے کا جو خصوصی اہتمام کیا جاتاہے اور ہر گروپ اور ہر قافلہ Ú©Û’ منتظمین بطور خاص انتظام کرتے ہیں، اس کا سبب وداعیہ یہ ہے کہ حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ مسجد نبوی شریف میں چالیس نمازیں ادا کرنے والے Ú©Û’ لئے دوزخ سے آزادی Ùˆ رہائی، نفاق سے حفاظت Ùˆ براء ت اور عذاب سے خلاصی Ùˆ نجات کا اعلان فرمایا جیسا کہ مسند امام احمد اور مجمع الزوائد میں حدیث پاک ہے  :

 Ø¹ÙŽÙ†Ù’ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہُ قَالَ مَنْ صَلَّی فِی مَسْجِدِی اَرْبَعِینَ صَلَاۃً لَا یَفُوتُہُ صَلَاۃٌ کُتِبَتْ لَہُ بَرَاءَۃٌ مِنْ النَّارِ وَنَجَاۃٌ مِنْ الْعَذَابِ وَبَرِئَ مِنْ النِّفَاقِ -

     ترجمہ:سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ،آپ Ù†Û’ ارشاد فرمایا : جو شخص میری مسجد میں چالیس نمازیں ادا کرے اوراس سے کوئی نماز نہ چھوٹی ہوتو اس Ú©Û’ لئے دوزخ سے آزادی اور عذاب سے خلاصی Ù„Ú©Ú¾ دی گئی اور وہ نفاق سے محفوظ Ùˆ بری ہوگیا-

     (مسندالامام احمد ،مسند انس بن مالک رضی اللہ عنہ، حدیث نمبر:12919- مجمع الزوائد ج 4ØŒ باب فیمن صلی بالمدینۃ اربعین صلوۃ، ص :8-)

     صاحب مجمع الزوائد امام علی بن ابوبکر بن سلیمان ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث شریف Ú©Ùˆ نقل کرنے Ú©Û’ بعد فرماتے ہیں:

       قلت روی الترمذی بعضہ - رواہ احمد والطبرانی فی الاوسط ورجالہ ثقات -

     ترجمہ:میں کہتا ہوں امام ترمذی Ù†Û’ اس حدیث Ú©Û’ بعض حصہ Ú©Ùˆ روایت کیا، امام احمد Ù†Û’ (اپنی مسند میں) اور امام طبرانی Ù†Û’ معجم اوسط میں اس Ú©ÛŒ روایت Ú©ÛŒ اور اس حدیث Ú©Ùˆ روایت کرنے والے حضرات معتبر Ùˆ ثقہ ہیں -

     Ùˆ نیزامام طبرانی Ú©ÛŒ معجم اوسط میں الفاظ Ú©Û’ قدرے اختلاف Ú©Û’ ساتھ منقول ہے:

       عن انس بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی فی مسجدی اربعین صلوٰۃ لا یفوتہ صلوۃ کتب اللہ لہ براۃ من النار Ùˆ نجاۃ من العذاب-

     ترجمہ:سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ØŒ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا :جس Ù†Û’ میری مسجد میں چالیس نمازیں ادا کیں اور اس سے کوئی نماز فوت نہیں ہوئی ،اللہ تعالیٰ اس Ú©Û’ لیے دوزخ سے براء ت اور عذاب سے نجات Ù„Ú©Ú¾ دیتا ہے-

      ( المعجم الاوسط للطبرانی، باب المیم من اسمہ محمد، حدیث نمبر:5602 )

ریاض الجنۃ کی فضیلت

     ریاض الجنۃ Ú©Û’ معنٰی جنت Ú©Û’ باغ اور کیاری Ú©Û’ ہیں ØŒ یہ وہ مبارک حصہ ہے جو منبرنبوی شریف اور کاشانۂ اقدس Ú©Û’ درمیان ہے ،اس سے متعلق ارشاد نبوی ہے :

     عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ زَیْدٍ الْمَازِنِیِّ  رضی اللہ عنہ  أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  قَالَ : مَا بَیْنَ بَیْتِی وَمِنْبَرِی رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ  .

     ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن زید مازنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا:میرے گھر اور منبر Ú©Û’ درمیان کا حصہ جنت Ú©Û’ باغوں سے ایک باغ ہے-

     (صحیح البخاری،کتاب فضل الصلاۃ، باب فضل ما بین القبر والمنبر . حدیث نمبر: 1195)

زائرو آؤ کہ جنت بھی یہیں ملتی ہے

روضۂ شاہ سے ہی خلد کا رستہ دیکھا

(مؤلف)

مسجد قباء میں دوگانہ ‘ عمرہ کے برابر

     تین مساجد مسجد حرام‘ مسجد نبوی اورمسجد اقصیٰ Ú©Û’ بعد مسجد قُبا تمام مساجد سے افضل ہے مدینۂ منورہ میں سب سے پہلے حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم یہیں نماز ادا فرمایا کرتے تھے یہاں کا ایک دوگانہ ایک عمرہ Ú©Û’ برابر ہے ،سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے :

    

قَالَ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ قَالَ رَسُولُ اللَّہ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَنْ تَطَہَّرَ فِی بَیْتِہِ ثُمَّ اَتَی مَسْجِدَ قُبَائٍ فَصَلَّی فِیہِ صَلاَۃً کَانَ لَہُ کَاَجْرِ عُمْرَۃٍ.

     ترجمہ:حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ Ù†Û’ فرمایا‘حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا:جو اپنی قیام گاہ سے باطہارت مسجد قباء آئے اوردو رکعت ادا کرے اسے عمرہ کا ثواب ہے-

     (سنن ابن ماجہ: 1477-جامع الأحادیث: 21785-الجامع الکبیر للسیوطی: 4516-کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال: 34963)

       ونیز جامع ترمذی ،سنن ابن ماجہ ،معجم کبیر طبرانی ،شعب الایمان اور مسند ابو یعلی وغیرہ میں حدیث مبارک ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ù†Û’ ارشاد فرمایا:مسجدِ قباء میں نماز ادا کرنا ‘عمرہ ادا کرنے Ú©ÛŒ طرح ہے-

 

       قَالَ : الصَّلاَۃُ فِی مَسْجِدِ قُبَاء کَعُمْرَۃٍ -

(جامع الترمذی: 325-سنن ابن ماجہ: 1476- المعجم الکبیر: 569- شعب الإیمان للبیھقی: 4031- مسند أبی یعلی الموصلی: 7015- السنن الصغری للبیھقی: 1824- جامع الأحادیث: 13639- الجامع الکبیر للسیوطی: 119- السنن الکبری للبیھقی: 10594-کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال: 3496)

زائرین روضۂ اقدس کو حضرت ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ کی قیمتی نصیحت

     زائرین روضۂ اطہر Ú©Ùˆ نصیحت کرتے ہوئے عارف باللہ ابو البرکات حضرت  سید خلیل اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:

     حضرت والدی علیہ الرحمہ پر اس وقت بہت زیادہ رقّت طاری ہوجایا کرتی تھی، جب آپ زائر مدینہ پاک Ú©Ùˆ وہاں Ú©Û’ خصوصی آداب Ú©ÛŒ تلقین فرماتے، تاکید اً فرمایا کرتے کہ دیکھو میاں !مدینہ کا دربار ایک زندہ شہنشاہ کا دربار ہے -

      ÛŒÛ یقین رکھو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©Ùˆ تمہارے ہر قول وفعل Ú©ÛŒ فوراً خبر ہوجاتی ہے ØŒ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزار اقدس میں ایسے ہی حیات سے ہیں جیسے اپنی دنیوی زندگی میں تھے-

     یہ سمجھا تے ہوئے اکثر اس واقعہ Ú©Ùˆ بھی بیان فرماتے تھے کہ ایک حاجی Ù†Û’ اپنے زمانۂ قیامِ مدینہ منورہ میں اپنے ایک ساتھی سے کہا تھا کہ مدینہ منورہ Ú©ÛŒ ہر چیز اچھی ہے مگر یہاں Ú©Û’ دہی  میں ذرا بُو ہے ØŒ اسی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص Ú©Û’ خواب میں تشریف لائے اور فرمائے :اگر تم Ú©Ùˆ ہمارے پا س کا دہی پسند نہیں تو تم یہاں کیوں رہتے ہو؟

      Ø§Ø³ واقعہ Ú©Ùˆ سنا کر زائر مدینہ Ú©Ùˆ خبردار فرماتے کہ وہاں دورانِ قیام اپنے قول اور فعل میں سخت احتیاط رکھیں-

خبردار ! وہاں کسی کی دل شکنی نہ ہونے پائے -

با خدا دیوانہ باش و

با محمد ہوشیار

     (کتاب الحج والزیارۃ،پیش لفظ ØŒ ص5)

      Ø­Ø¬Ø§Ø¬ وزائرین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں اپنے قیام Ú©Ùˆ غنیمت جانیں،نمازوں Ú©ÛŒ پابندی کریں ،نماز پنجگانہ Ú©Û’ علاوہ نماز تہجد،اشراق،چاشت اور اوابین وغیرہ کا اہتمام کریں،حالت احرام میںتلبیہ Ú©ÛŒ کثرت کریں،درود شریف کا ورد رکھیں-           مدینۂ منورہ میں قیام Ú©Û’ دوران مسجد قباء اور مسجد قبلتین میں دوگانہ ادا کریں،جنت البقیع شریف جہاں تقریبا دس ہزار سے زائد صحابۂ عظام واہل بیت کرام،تابعین وائمہ Ú©Û’ مزارات ہیں ،اس Ú©ÛŒ بھی زیارت کریں  احد شریف جس Ú©Û’ دامن میں سید الشہداء سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا مزار مبارک اور دیگر شہداء کرام Ú©Û’ مزارات ہیں اس Ú©ÛŒ بھی زیارت کریں-

مسجد نبوی شریف سے نکلتے وقت چپل وغیرہ پٹخنا

     کسی بھی کام Ú©Ùˆ اطمینان وآہستگی وقاروشائستگی Ú©Û’ ساتھ کرنا چاہئیے،عجلت وبے وقاری طبیعت سلیمہ Ú©Û’ لئے پسند یدہ نہیں ،حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام امور Ú©Ùˆ اطمینان Ùˆ وقار Ú©Û’ ساتھ انجام دیتے چنانچہ صحیح مسلم شریف ،ج،1،کتاب الجنائز، فصل فی التسلیم علی اہل القبور والدعاء والاستغفار لہم، ص 313ØŒ میں طویل روایت کا ایک جزملاحظہ ہو(حدیث نمبر974)

     فاخذ ردائہ رویدا وانتعل روید ا وفتح الباب رویدا فخرج ثم اجافہ رویدا - - - -

     ترجمہ:ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا  فرماتی  ہیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ù†Û’ آہستگی سے اپنی چادر مبارک Ù„ÛŒ ،اطمینان سے نعلین مبارک پہنی ،آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر تشریف Ù„Û’ گئے پھر آہستہ سے دروازہ بندکیا-

 (صحیح مسلم شریف، ج،1،کتاب الجنائز، فصل فی التسلیم علی اہل القبور والدعاء والاستغفار لہم، ص 313،حدیث نمبر974)

     کسی بھی موقع پر چپل وغیرہ پٹخنا یا زمین پر اس طرح  زور سے رکھنا کہ جس سے آواز آئے ناپسندیدہ ہے ØŒ اور مساجدسے نکلتے وقت یہ عمل حد درجہ ناپسندیدہ ہے ØŒ مسجد میں داخل ہوتے وقت، نکلتے وقت اور اندرون مسجد اس Ú©Û’ آداب Ú©Ùˆ ملحوظ رکھاجائے ایسی کوئی آواز نہ Ú©ÛŒ جائے جس سے نمازیوں او رذکر وتلاوت کرنے والوں Ú©Ùˆ خلل ہو ،لہذا چپل وغیرہ رکھتے وقت آہستگی ووقار Ú©Ùˆ پیش نظررکھنا چاہئیے-

     یہ عام مساجد Ú©Û’ احکام ہیں اور بالخصوص مسجد نبوی شریف علی صاحبہ الصلوۃ والسلام اور مسجد حرام شریف Ú©Û’ آداب تو دیگر مساجد Ú©Û’ بالمقابل زائد ہیں اس لئے حجاج کرام وزائرین حضرات Ú©Ùˆ چپل پہنتے اور رکھتے وقت ان مقامات مقدسہ Ú©ÛŒ قربت کا لحاظ کرتے ہوئے اس طرح Ú©ÛŒ غفلت ولاپرواہی سے مکمل طور پر احتیاط برتنی چاہئے-

مسجد نبوی شریف میں آواز بلندکرنے کی ممانعت

     مسجد نبوی شریف میں کسی کودور سے بآوازبلند پکارنا سخت ممنوع اور خلاف ادب ہے یہ وہ مقدس مسجد شریف ہے جہاں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا روضۂ اطہر ہے،پیکرادب ہوکر حاضر ہونا چاہئیے، یہ وہ بارگاہ عالی جاہ ہے جہاں آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا اور آوازبلند کرنے کا Ø­Ú©Ù… یہ ہے کہ تمام اعمال وعبادتیں ضائع وبرباد ہوجاتی ہیں اور آدمی Ú©Ùˆ اس کا شعور واحساس بھی نہیں رہتا جیسا کہ بارگاہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ Ùˆ الہ وسلم Ú©Û’ آداب Ú©ÛŒ تعلیم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

       یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ -

     ترجمہ:اے ایمان والوا! تم اپنی آوازوں Ú©Ùˆ نبی (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) Ú©ÛŒ آواز پر بلند مت کرو

اور آپ کی خدمت میں اس طرح گفتگو مت کرو جس طرح تم ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہو ورنہ تمہارے اعمال ضائع واکارت ہوجائیں گے اور تمہیں اس کی خبر نہ ہوگی-

(سورۃ الحجرات -2)

     حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©Û’ وصال مبارک Ú©Û’ بعد بھی یہی Ø­Ú©Ù… ہیکہ مسجد نبوی  شریف میں آواز بلند نہ Ú©ÛŒ جائے چنانچہ صحیح بخاری شریف ،ج1،کتاب الصلوۃ باب رفع الصوت فی المسجدمیں حدیث مبارک ہے:

     عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ قَالَ کُنْتُ قَائِمًا فِی الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِی رَجُلٌ ØŒ فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ اذْہَبْ فَأْتِنِی بِہَذَیْنِ . فَجِئْتُہُ بِہِمَا . قَالَ مَنْ أَنْتُمَا - أَوْ مِنْ أَیْنَ أَنْتُمَا قَالاَ مِنْ أَہْلِ الطَّائِفِ . قَالَ لَوْ کُنْتُمَا مِنْ أَہْلِ الْبَلَدِ لأَوْجَعْتُکُمَا ØŒ تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَکُمَا فِی مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّہِ - صلی اللہ علیہ وسلم -

     ترجمہ:حضرت سائب بن  یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں Ù†Û’ فرمایا میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا تو ایک صاحب Ù†Û’ میری طرف کنکری پھینک کر متوجہ کیا,میں Ù†Û’ دیکھا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں آپ Ù†Û’ اشارہ دیاکہ ان دوآدمیوں Ú©Ùˆ میرے پاس Ù„Û’ آؤ! تو میں ان دونوں Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر آپ Ú©Û’ پاس پہنچا ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ Ù†Û’ فرمایا :تم کس قبیلہ Ú©Û’ ہو ؟یا فرمایا: تم کس علاقہ Ú©Û’ باشندے ہو؟ ان دونوں Ù†Û’ عرض کیا: ہم طائف Ú©Û’ باشندے ہیں آپ Ù†Û’ فرمایا :اگر تم اس شہر Ú©Û’ رہنے والے ہوتے تو میں ضرور تمہیں سزادیتا تم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©ÛŒ مسجد میں اپنی آواز یں بلند کرتے ہو؟ -

     سیدی شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ رحمۃاللہ علیہ اس حدیث شریف Ú©ÛŒ شرح کرتے ہوئے رقمطرازہیں:

     اس خبر سے ظاہر ہے کہ مسجد شریف میں کوئی آواز بلند نہیں کرسکتا تھااور اگر کرتا تو مستحق تعزیر سمجھاجاتا تھاباوجود یہ کہ سائب بن یزید چنداں دور نہ تھے، مگر اسی ادب سے عمر رضی اللہ عنہ Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ پکارا نہیں بلکہ کنکری پھینک کر اپنی طرف متوجہ کیا،یہ تمام آداب اسی وجہ سے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیات ابدی وہاں تشریف رکھتے ہیں کیونکہ اگر لحاظ صرف مسجد ہونے کا ہوتا تو  "فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "کہنے Ú©ÛŒ کوئی ضرورت نہ تھی -

     دوسرا قرینہ یہ ہے کہ اس تعزیر Ú©Ùˆ اہل بلد Ú©Û’ لئے خاص فرمایا جن Ú©Ùˆ مسجد شریف Ú©Û’ آداب بخوبی معلوم تھے اگرصرف مسجد ہی کا  لحاظ ہوتا تو اہل طائف بھی معذور نہ رکھے جاتے کیونکہ آخر وہاں بھی مسجدیں تھیں- (انوار احمدی ØŒ ص:265/264)

     علامہ ابو الفضل قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفاء شریف میں بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©Û’ آداب بتفصیل بیان کرنے Ú©Û’ بعدالباب الثالث فی تعظیم امرہ ووجوب توقیرہ وبرہ ص251ØŒ پر رقمطراز ہیں:

        ÙˆØ§Ø¹Ù„Ù… ان حرمۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد موتہ وتوقیرہ وتعظیمہ لازم کماکان حال حیاتہ - - - قال ابو ابریہم التجیبی واجب علی Ú©Ù„ مؤمن متی ذکرہ او ذکر عندہ ان یخضع ویخشع ویتوقر ویسکن من حرکتہ ویاخذ فی ہیبتہ واجلالہ بما کان یاخذ بہ نفسہ لوکان بین یدیہ ویتادب بماادبنا اللہ بہ- قال القاضی ابو الفضل وہذہ کانت سیرۃ سلفنا الصالح وائمتنا الماضین رضی اللہ عنہم

ترجمہ:حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم Ú©ÛŒ بارگاہ میں باادب رہنا عظمت بجالانا جس طرح قبل وصال شریف لازم تھا وصال فرمانے Ú©Û’ بعد بھی لازم وضروری ہے - - -  ہرایمان والے پر واجب ہے کہ جب آپ کا ذکر مبارک کرے یا سنے تو حددرجہ خشوع وخضوع کا اظہار کرے اپنے افعال وحرکات میں مؤدب رہے، آپ Ú©ÛŒ عظمت وبزرگی Ú©Ùˆ ملحوظ خاطر رکھے اور اللہ تعالی Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… اور تعلیم Ú©Û’ مطابق ادب بجالائے کیونکہ وہ خدمت اقدس میں حاضر ہے -علامہ ابو الفضل قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمارے سلف صالحین اور بزرگ ائمہ کا یہی طریقہ ہے- 

     مدینہ منورہ میں زائرین روضۂ اطہر Ú©Ùˆ ان آداب کا لحاظ رکھنا چاہئیے ØŒ کسی Ú©Ùˆ مسجد نبوی شریف میں بلند آوازسے نہ پکاریں اور اپنے تمام حرکات وسکنا ت میں سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہونی چاہئیے جس میں بے ادبی کا ادنی شائبہ بھی ہو-

اللہ تعالی کے دربار میں دعا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے ہم سب کو مدینۂ منورہ حاضر ہونے کی سعادت عطا فرمائے،اور بارگاہ اقدس میں باادب حاضر ہونا نصیب فرمائے،موت آئے تو آپ کے شہر مقدس میں آئے اور جنت البقیع شریف میں دفن ہونا میسّر ہو۔

آمِیْن بِجَاہِ سَیِّدِنَا طٰہٰ وَیٰسٓ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی وَبَارَکَ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہ وَصَحْبِہ اَجْمَعِیْنَ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن-

       از:مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر