Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

شیخ الاسلام کی عبقری شخصیت اورعلمی جلالت


شیخ الاسلام کی عبقری شخصیت اورعلمی جلالت

مشاہیر عرب وعجم ،اساطین علم وفن کی نظر میں

حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمد انوار اللہ فاروقی بانیٔ جامعہ نظامیہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی علم وفضل میں بلند ی کاکون اندازہ کرسکتا ہے،آپ کے شیخ طریقت مرشد برحق اور جلیل القدر اساتذہ اعلام نے آپ کی نسبت تمام ظاہر ی وباطنی علوم کے جامع ہونے کی گواہی دیتے ہوئے تعریف وتوصیف فرمائی ہے، جو ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ان بزرگوں نے حضرت شیخ الاسلام سے متعلق جو توصیفی کلمات ارشاد فرمائے ہیں :درحقیقت وہ الہامی کلمات ہیں اور ان میں اتنی معنویت ہے کہ اگر ایک ایک کلمہ کی تشریح کی جائے تو اس کے لئے مستقل ایک ایک مقالہ درکارہے ۔عرب وعجم کے نابغۂ روزگار علم وفن کے تاجدار ،طریقت وروحانیت کے اساطین اور مملکت اسلامیہ کے سلاطین نے بھی آپ کی قدر شناسی اور ثناء خوانی کی ہے ،اختصار کے ساتھ چند ایک اقتباسات پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے تاکہ کوئی اپنے مطالعہ کی کمی یا حقیقت سے بے خبری کے باعث منفی تاثر پیش کرکے افضال الہی وعنایات مصطفوی سے اور خود اپنے بزرگوں کے فیضان سے محروم نہ ہوجائے اورجغرافیائی خانوں میں تقسیم کئے بغیر اہل اللہ ،اہل سنت سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاوخوشنودی کی خاطرمحبت وعقیدت رکھے ۔

شیخ الاسلام اور فرقہائے باطلہ کا رد بلیغ ، مفتی محمد عبد الحمید� رحمۃ اللہ علیہ،کا بیان

حضرت مولانا مفتی محمد عبد الحمید صدیقی رحمۃ اللہ علیہ،سابق شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ ورکن تاسیسی مسلم پرسنل لاء بورڈ نے حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی معرکۃ الآراء تالیف مقاصد الاسلام حصہ اول کے مقدمہ میں آپ کی شخصیت سے متعلق اور آپ کی دور اندیشی ونبض شناسی کی نسبت نہایت جامع تحریر سپرد قرطاس کی ہے :تلخیص کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔

"انہی مردان خداومقربین بارگاہ میں حقائق آگاہ ،معارف دستگاہ ،عارف باللہ شیخ الاسلام امام محمد انواراللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ ہیں جنہیں پَروردگارعالم Ù†Û’ علم وفضل میں یکتائے روزگار‘شریعت وطریقت میں مقتدائے زمانہ بناکر دین متین Ú©ÛŒ خدمت Ú©Û’ لئے منتخب فرمایا ،آپ Ù†Û’ ایسے وقت مجاہدانہ اقدام فرمایا جبکہ دانایان فرنگ Ù†Û’ ہندوستان پر اپنا اقتدار وتسلط پائیدار بنانے Ú©Û’ لئے نہایت پر تزویر تدابیر سے اہل اسلام خصوصًااہل ہند Ú©Ùˆ مذہب حق سے ہٹانے اور تعلیمات اسلامی سے بے خبر رکھنے کیلئے بعض اہل علم واہل قلم Ú©Ùˆ اپنا ہمنوا بنالیا تھا ،اس Ú©Û’ علاوہ بعض آزاد طبائع احکام اسلام Ú©Û’ خلاف اپنا زور قلم دکھارہے تھے اور عقلی دلائل Ú©Û’ نام سے مسائل Ú©ÛŒ غلط تاویلات بلکہ تحریفات کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔ یہ صورتِ حال عام مسلمانوں Ú©Û’ لئے نہایت مہلک وخطرناک تھی ،اس پُرآشوب ماحول میں حق Ú©Ùˆ واضح کرنا اورعام مسلمانوں Ú©Ùˆ بے راہ روی سے بچانا ضروری تھا۔ حضرت شیخ الاسلام Ú©ÛŒ حرارت دینی احساس ملی اور رگ فاروقی جوش زن ہوئی اور آپ Ù†Û’ ان تمام فرقہائے باطلہ کا کتاب Ùˆ سنت Ú©Û’ دلائل قاطعہ وبراہین ساطعہ سے رد بلیغ فرمایا اور مسلک اہلسنت وجماعت Ú©ÛŒ حفاظت وصیانت اور عقائد صحیحہ Ú©ÛŒ تائید وحمایت فرمائی۔

(مقدمہ مقاصد الاسلام ،ج1)����

اب ہم افکار باطلہ کے رد و ابطال کے حوالے سے شیخ الاسلام کی تحریرات سے دو مثالیں پیش کرینگے بعد ازاں اساطین امت و اکابرین اہل سنت اور دیگر اہل علم کی نظر میں مقام شیخ الاسلام پر گفتگو کرینگے

وہ تصورِ توحید بدعت ہے جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا

قُلْ اِنَّمَااَنَابَشَرٌمِّثْلُکُمْ۔

ترجمہ :آپ فرمادیجئے اس کے سوا نہیں کہ میں شکل ظاہری میں تم جیسا بشر ہوں ۔(سورۃ الکہف : 110)

اس آیت کریمہ سے غلط استدلال کرتے ہوئے بے ادب لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے برابری اور ہمسری کا دعویٰ کرتے ہیں نعوذ باللّٰہ من ذالک حضرت شیخ الاسلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آسمانِ ہدایت کے ستارے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے عقیدہ کا ذکر فرماتے ہوئے ہمسری کے اس دعویٰ کی حقیقت وحیثیت کو کس طرح بے نقاب کیا،اور منقول ومعقول ہر دو زاویہ سے دلنشیں پیرائے میںرد بلیغ کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثل وبے مثال ہونے کو ثابت کیا؛ملاحظہ فرمائیں:

اب یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ صحابہ جنکی فضیلت تمام امت مرحومہ پرنصوص قطعیہ سے ثابت ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ بول مبارک وغیرہ فضلات Ú©Ùˆ جان سے افضل بلکہ جان Ú©Û’ تقدس کا باعث سمجھتے تھے ‘تو کیا ممکن ہے کہ معاذا للہ وہ اپنے آپ Ú©Ùˆ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ ہمسر سمجھتے ہوں Ú¯Û’ آخر وہ حضرات بھی قُلْ اِنَّمَااَنَابَشَرٌمِّثْلُکُمْپڑھتے تھے۔بلکہ سچ پوچھیئے تو تازہ ایمان انہی حضرات کا تھا اور اسباب نزول پیش نظر ہونیکی وجہ سے ہر آیت کا اصلی مضمون وہ سمجھتے تھے ØŒ باوجود اسکے کسی صحابی سے کوئی ایسی بات مروی نہیں جو اس آخری زمانے Ú©Û’ بعض امتی کہتے ہیں اور اس توہین Ú©Ùˆ توحید کا تکملہ قرار دے کر تمام امت میں اپنے آپ Ú©Ùˆ ممتاز سمجھتے ہیں۔

ادنیٰ تامل سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ اگر توحید اسی کا نام توہے صحابہ سے اس قسم کے اقوال اور حرکات ضرور مروی ہوتے کیونکہ ہمارے دین کا مدار تعلیم نبوی پر ہے اور بلا واسطہ تعلیم یافتہ جماعت پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ان حضرات کے افعال واقوال ،حرکات و سکنات اس قسم کے پیش نظر ہوجاتے ہیں کہ اس آخری زمانے کے اہل توحید سے ان کو کوئی مناسبت نہیں بلکہ بالکل تضاد اور مخالفت ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس قسم کی توحید بدعت ہے، جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانے میں نہ تھی اہل ایمان کو صحابہ کے اعتقاد سے سبق حاصل کرناچاہئے کہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو کہاں آپکے بول وبراز کے ساتھ بھی ہمسری کا دعوی نہ کریں۔

اور انصاف سے دیکھا جائے تو اس بول وبراز سے ہمسری کا دعوی ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ شفاء میں قاضی عیاض(رحمۃ اللہ علیہ) نے یہ روایت نقل کی ہے کہ جہاں آنحضرت ا حاجت بشری سے فارغ ہوتے تو بول وبراز کو زمین فوراً نگل جاتی اور وہاں خوشبو مہکتی رہتی۔

اب یہ کہئے کہ کون دعوی کرسکتا ہے کہ اس Ú©Û’ جسم سے خوشبو مہکتی ہے۔ اس کا تجربہ آسان ہیکہ جوصاحب دعوی کریں ان Ú©Ùˆ گرمی میں گرم لباس پہنا کر کسی گرم مقام میں بٹھادیجئے اور کوئی اجنبی آدمی Ú©Ùˆ انکے پاس لا کر چھوڑدیجئے ،اگر وہ لاحول پڑھتا ہوا وہاں سے نہ بھاگ جائے تو ہم سے پوچھئے!اس سے ظاہر ہوجائیگا کہ وہ بُو انہی Ú©Û’ جسم Ú©ÛŒ تھی ،ایسے گندہ جسم والوں Ú©Ùˆ کیا اس معطر بول وبراز Ú©ÛŒ ہمسری کا دعوی قابل قبول ہوسکتا ہے ہرگز نہیں۔ یہ حضرت Ú©Û’ جسمانی فضلات کا حال ہے کہ وہ بدر جہا اوروں Ú©Û’ جسم سے افضل تھے‘ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ جسم مبارک بلکہ لباس پر Ù…Ú©Ú¾ÛŒ نہیں بیٹھتی تھی ۔چنانچہ خصائص کبری میں کتب معتبرہ سے یہ روایت منقول ہے،اس Ú©Û’ مقابلے میں اپنا حال دیکھ لیجئے کہ مکھیاں کس قدر ناک میں دم کردیا کرتی ہیں،اور یہ بھی سمجھ لیاجائے کہ مکھیوں Ú©Ùˆ کونسی چیز مرغوب باطبع ہے۔بہر حال آدمی Ú©Ùˆ چاہئے کہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔کسی Ù†Û’ کیا خوب کہا ہے:ایاز حدّ خود بشناس

اس تقریر سے بفضلہ تعالی یہ ثابت ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©Û’ جسم Ú©Û’ ساتھ کوئی ہمسری نہیں کرسکتا اور کیونکر کرسکے؟حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک ظاہراً جسم ہے اور درحقیقت نور ہے۔جس پر روشن دلیل یہ روایت ہے،جو خصائص کبری میں ذکوان رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دھوپ میں یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہیں آتا تھا۔(مقاصد الاسلام ‘ج9 ‘ص264ØŒ 266)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ذو معنی لفظ کا استعمال نیک نیتی سے بھی درست نہیں

آیت کریمہ:

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا

اے وہ لوگو جو ایمان لائے مت کہو ’’راعنا‘‘ اور کہو ’’انظرنا‘‘

Ú©ÛŒ تفسیر Ú©Û’ ضمن میں اسکے نکات پر بحث کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ رقمطرازہیں:’’ حاصل یہ ہے کہ ہر چند صحابہ اس لفظ Ú©Ùˆ نیک نیتی سے تعظیم Ú©Û’ محل میں استعمال کیا کرتے تھے مگر چونکہ دوسری زبان میں گالی تھی حق تعالیٰ Ù†Û’ اس Ú©Û’ استعمال سے منع فرمادیا Û”

اب یہاں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جس لفظ میں کنایۃًبھی توہین مراد نہ تھی بلکہ صرف دوسری زبان کے لحاظ سے استعمال اس کا ناجائز ٹھہرا تو وہ الفاظ ناشائستہ جس میں صراحۃً کسر شان ہو کیونکر جائز ہونگے؟

اگر کوئی کہے کہ مقصود ممانعت سے یہ تھا کہ یہود اس لفظ Ú©Ùˆ استعمال نہ کریں ‘تو ہم کہیں Ú¯Û’ کہ یہ بھی ہوسکتا ہے، مگر اسمیں Ø´Ú© نہیں کہ نہی (ممانعت) صراحۃً خاص مومنین Ú©Ùˆ ہوئی ‘جن Ú©Û’ نزدیک یہ لفظ محل تعظیم میں مستعمل تھا ،اس میں نہ یہود کا ذکر ہے نہ ان Ú©Û’ لغت کا ،اگر صرف یہی مقصود ہوتا تو مثل اور انکی شرارتوں Ú©Û’ اس کا ذکر بھی یہیں ہوجاتا، صرف مومنین Ú©Ùˆ مخاطب کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم Ú©Û’ الفاظ نیک نیتی سے بھی استعمال کرنا درست نہیں، پھر سزا اسکی یہ ٹھہرائی گئی کہ جو شخص یہ لفظ کہے خواہ کافر ہو یا مسلمان اسکی گردن مار دی جائے ‘ بالفرض اگر کوئی مسلمان بھی یہ لفظ کہتا تو اس وجہ سے کہ وہ Ø­Ú©Ù… عام تھا بیشک مارا جاتا اور کوئی یہ نہ پوچھتا کہ تم Ù†Û’ اس سے کیا مراد Ù„ÛŒ تھی؟‘‘(انوار احمد ÛŒ ص222 )

مذکورہ آیت کریمہ Ú©Û’ نکات بیان کرنے Ú©Û’ بعد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ شان اقدس میں صراحۃً یا کنایۃً Ú©ÛŒ جارہی گستاخیوں اور بے ادبیوں سے متعلق حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ Ú©ÛŒ انتہائی دردمندانہ‘ بصیرت افروز اورپُراثر تحریرملاحظہ ہو۔

اب غور کرنا چاہئے کہ جو الفاظ خاص توہین Ú©Û’ محل میں مستعمل ہوتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ نسبت استعمال کرنا خواہ صراحۃً ہو یا کنایۃً کس درجہ قبیح ہوگا۔ اگر صحابہ Ú©Û’ روبرو جن Ú©Û’ نزدیک’راعنا‘کہنے والا مستوجب قتل تھا‘ کوئی اس قسم Ú©Û’ الفاظ کہتا تو� اسکے قتل میں Ú©Ú†Ú¾ تامل ہوتا یا یہ تاویلات باردہ مفید ہوسکتیں؟ ہرگز نہیں!

مگر اب کیا ہوسکتا ہے سوائے اس Ú©Û’ کہ اس زمانہ Ú©Ùˆ یا د کر Ú©Û’ اپنی بے بسی پر رویا کریں،اب وہ پرانے خیالات والے پختہ کارکہاں، جنکی حمیت Ù†Û’ اسلام Ú©Û’ جھنڈے مشرق ومغرب میں نصب کردےئے تھے ان خیالات Ú©Û’ جھلملاتے ہوئے چراغ Ú©Ùˆ آخری زمانے Ú©ÛŒ ہوا دیکھ نہ سکی۔ غرض میدان خالی پاکر جس کاجی چاہتا ہے کمالِ جرأت Ú©Û’ ساتھ کہہ دیتا ہے۔ پھر اس دلیری Ú©Ùˆ دیکھئے کہ جو گستاخیاں اور بے ادبیاں قابل سزا تھیں انہیں پر ایمان Ú©ÛŒ بناء قائم Ú©ÛŒ جارہی ہے ØŒ جب ایمان یہ ہوتو بے ایمانی کا مضمون سمجھنے میں البتہ غور Ùˆ تامل درکار ہے۔‘‘ (انوار احمد ÛŒ ص222ØŒ224)Û”

حضرت شیخ المشائخ کی زبان فیض ترجمان،شیخ الاسلام کی تحریروں میں تائید ربانی کا بیان

حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمد انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ Ú©Û’ پیرومرشد شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر Ù…Ú©ÛŒ رحمۃ اللہ علیہ جو اہل اللہ اور خاصان خدا سے ہیں ،عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مقام فنائیت پر فائز تھے ØŒ جن Ú©ÛŒ تمام دنیا میں شہر ت ہے ØŒ انہوں Ù†Û’ حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان Ú©ÛŒ معروف ومقبول تصنیف ’’انوار احمدی‘‘ کوبزبان مصنف بغورسماعت فرمانے Ú©Û’ بعداپنے قلبی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے شیخ الاسلام Ú©Ùˆ جن القاب سے سرفراز فرمایا ہے،ملاحظہ فرمائیں:

ان دنوں میں ایک عجیب وغریب کتا ب لا جواب مسمی بانوار احمدی ، مصنفۂ حضرت علامۂ زماں وفرید دوراں،عالم باعمل وفاضل بے بدل جامع علوم ظاہری وباطنی ،عارف باللہ مولوی محمد انواراللہ حنفی وچشتی سلمہ اللہ تعالی فقیر کی نظر سے گذری اور بلسان حق ترجمان مصنف علامہ کی اول سے آخر تک بغور سنی تو اس کتاب کے ہرہر مسئلہ کی تحقیق محققانہ حقانی میں تائید ربانی پائی گئی کہ اس کا ایک ایک جملہ اور فقرہ امداد ، مذہب اور مشرب اہل حق کی کررہا ہے اور حق کی طرف بلاتا ہے ۔

ونیز حضرت شیخ المشائخ رحمۃ اللہ علیہ Ù†Û’ بانی جامعہ نظامیہ Ú©ÛŒ فارسی کتاب ’’انوار التمجید فی ادلۃ التوحید ‘‘ پر تقریظ میں کتاب Ú©ÛŒ تعریف وتوصیف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

"Û” Û” Û” کسے رادرایںکتاب مجال گرفتن نیست حقا کہ طالبان شریعت وطریقت را انواراللہ است ہرکہ درلمعات ایں انوار سالک خواہد شد بتائید الہی بمنزل مطلوب خواہد رسید۔ Û” Û” Û”‘‘ حدیث شریف ہے انما الاعمال بالنیات جس Ú©Û’ معنیٰ دل سے تصدیق کرنے Ú©Û’ ہیں مولف دام فیوضہ Ù†Û’ اس حدیث شریف Ú©ÛŒ توضیح آیات بینات اور مستند احادیث Ú©Û’ ساتھ نہایت عمدگی اور جامعیت سے Ú©ÛŒ ہے کسی کواس کتاب میں گرفت کا موقعہ نہیں سچ تو یہ ہے کہ طالبان شریعت اور طریقت Ú©Û’ لئے ’’انوار اللہ ‘‘( کافی )ہیں جو کوئی ان انوار Ú©ÛŒ روشنی میں سلوک Ø·Û’ کرے گا بتائید الہی منزل مطلوب Ú©Ùˆ پہنچے گا۔ واللہ ولی الہدا یۃ والا رشاد منہ الامداد والسداد"۔فقط

حضرت علامہ عبدالحی فرنگی محلی علیہ الرحمہ کی تالیف میںشیخ الاسلام کابطور ناز تذکرہ

شیخ الاسلام Ú©Û’ جلیل القدر استاذ حضرت علامہ عبدالحی فرنگی محلی علیہ الرحمہ ہیں جو امام فقہ مانے جاتے ہیں جنہوں Ù†Û’ شرح وقایہ وہدایہ پرقیمتی حواشی تحریر کئے ہیں ‘ یہ حواشی ان Ú©ÛŒ فقاہت Ú©ÛŒ روشن دلیل ہیں،اورمؤطا امام محمد پر ان کا گراں قدر حاشیہ علوم حدیث شریف میںان Ú©Û’ مقام بلند Ú©ÛŒ گواہی دیتا ہے، نیز وہ منطق وفلسفہ Ú©Û’ بھی امام ہیں، اورمختلف علوم وفنون میں متعدد رسائل وکتب Ú©Û’ مصنف ہیں،انہوں Ù†Û’ اپنے ایک رسالہ’حل المغلق فی بحث المجہول المطلق‘ میں بطور ناز حضرت شیخ الاسلام کایوں ذکر فرمایا ہے :

الفتہا حین قراء ۃ الذکی المتوقد المولوی الحافظ محمد انواراللہ بن المولوی شجاع الدین الحیدرآبادی"

ترجمہ:میں نے یہ رسالہ اس وقت تالیف کیا جبکہ زیرک وفہیم ،روشن دل و دماغ مولوی حافظ محمد انوار اللہ بن مولوی محمد شجاع الدین حیدرآبادی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ � (مطلع الانوار ، ص13)

شیخ الاسلام ہادیٔ عصر ومجددزمان ،صاحب ’’الانوار البھیہ‘‘ کابیان

حضرت مولانا حافظ سید برہان الدین قادری علیہ الرحمۃ مہاجر مدنی Ù†Û’ اپنی کتاب ’’الانوار البھیۃ فی الاستعانۃ من خیر البریۃ‘‘ میں حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کا تذکر ئہ جمیل ان الفاظ میں فرمایا:

جناب ہادی العصر والاوان مجددالزمان، قامع المبتدعۃ Ùˆ اہل الضلال، حامی الدین علی الکمال ØŒ مائدتہ وسیعۃ Ù„Ú©Ù„ حاضر Ùˆ باد ØŒ وافادتہ العلوم عام لمن استفاد ØŒ مدرستہ منبع العلوم الدینیۃ Ùˆ مجمع العلماء والفضلاء، یفرغ فیہ فی Ú©Ù„ عام من تحصیل العلوم کثیر من الطلباء ØŒ ہمتہ مصروفۃ لاشاعۃ العلوم الدینیۃ وتائید المسلمین ØŒ یداہ مبسوطتان لانجاح حوائج الفقراء والمساکین، فذاتہ مفیض الخلائق بغذاء الروح والبدن ØŒ المشتہرۃ اوصافہ فی الاقالیم والمدن، صاحب الخلق الحسن ØŒ قاضی القضاۃ لبلاد الدکن ØŒ اسمہ من الاسماء ØŒ تتنزل من السماء ،� العالم الفاضل، العارف الکامل مولانا الحاج محمد انوار اللہ خاں بہادر لازالت امطار برکاتہ علی الخلائق نازلۃ، وما برحت انوار فیضانہ علی الانام فائضۃ۔(’الانوار البھیۃ فی الاستعانۃمن خیر البریۃ،ص:2)

شیخ الاسلام کا روحانی مرتبہ وعلمی مقام ،اعلیٰ حضرت محدث بریلی کا خلوص و احترام

شمالی ہند Ú©ÛŒ مایہ ناز دینی وعلمی شخصیت اعلی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ Ù†Û’ فقہی مسئلہ میں اختلاف رائے Ú©Û’ باوجود علمی دیانتداری‘ اخلاص وللہیت ‘ خشیت ربانی وخداترسی کاثبوت دیتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ بانیٔ جامعہ نظامیہ علیہ الرحمہ سے مراسلت Ú©Û’ موقع پر آپ Ú©Ùˆ اِن القاب سے یاد فرمایا: ’ ’ بشرف ملاحظہ والائے حضرت بابرکت ØŒ جامع الفضائل ØŒ لامع الفواضل،شریعت آگاہ ØŒ طریقت دستگاہ ØŒ حضرت مولانا الحاج مولوی محمدانوا راللہ صاحب خاں بہادر بالقابہ الغر۔ ‘‘ (مکتوبات امام احمد رضا خان بریلوی ØŒ ص:78)

مکتوب Ú©Û’ یہ الفاظ شیخ الاسلام Ú©ÛŒ دینی جلالت ،علمی فضیلت اورقادری نسبت Ú©Û’ حوالہ سے اعلحضرت Ú©ÛŒ غیر معمولی محبت پر دلالت کرتے ہیں : ’’ کسی مسئلہ دینیہ شرعیہ میں استکشاف حق Ú©Û’ لئے نفوس کریمہ جن جن صفات Ú©Û’ جامع درکار ہیں بفضلہ عزوجل ذات والا میں سب آشکار ہیں علم وفضل ØŒ انصاف ØŒ عدل ØŒ حق گوئی ØŒ حق جوئی ØŒ حق دوستی، حق پسندی، پھر بحمدہ تعالی غلامی خاص بارگاہ بیکس پناہ قادریت جناب Ú©Ùˆ حاصل اور فقیر کا منہ تو کیا قابل ØŒ ہاں سرکارکا کرم شامل ØŒ اس اتحاد Ú©Û’ باعث ‘ حضرت Ú©ÛŒ جو محبت ووقعت قلبِ فقیر میں ہے مولیٰ عزوجل اور زائد کرے Û” (مکتوبات امام احمد رضا خان بریلوی ØŒ ص:78Û” 79)

مکتوب Ú©Û’ اختتام پر یوں رقم طراز ہیں: ’’Ú©Ù„ تصانیف گرامی کا شوق ہے ØŒ اگر بہ قیمت ملتی ہوں ‘ قیمت سے اطلاع بخشی جائے ØŒ دو جلد قادیانی مخذول (شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد انوار اللہ قدس سرہٗ Ú©ÛŒ ردّ قادیانیت میں مشہور تالیف افادۃ الافہام Ú©ÛŒ طرف اشارہ ہے ) Ú©Û’ چند صفحات دیکھے تھے ØŒ ایک صاحب سے ان Ú©ÛŒ تعریف Ú©ÛŒ ØŒ وہ Ù„Û’ گئے۔ ‘‘ (مکتوبات امام احمد رضا خان بریلوی ØŒ ص:87)

�فاضل جرمنی کا اعتراف واشتیاق

شیخ الاسلام Ú©ÛŒ تصانیف Ú©Ùˆ علمی اعتبار سے جو مقام حاصل ہے ،حضرت علامہ مولانا الیاس برنی علیہ الرحمہ Ú©Û’ الفاظ میں ملاحظہ ہو: ’’میں Ù†Û’ ایک جرمن عالم Ú©Ùˆ ان Ú©ÛŒ (شیخ الاسلام Ú©ÛŒ ) چند کتابیں بھیجیں ØŒ تو اس Ù†Û’ تین یونیورسٹیوں Ú©Ùˆ دیں اورمجھے لکھا کہ ہندوستان میں صحیح معنی میں مجھے یہی عالم معلوم ہوتے ہیں اور ان سے ملنے حیدرآباد آنا چاہتا ہوں ،لیکن وہ جنگ عظیم میں گرفتار ہوگیا ‘‘

�شیخ الاسلام معقول ومنقول میں یگانۂ روز گار، صاحب’’ نزھۃ الخواطر‘‘ کابرملا اظہار

مولاناعبد الحی لکھنوی� اپنی کتاب نزھۃ الخواطر جلد ہشتم میں لکھتے ہیں۔ :’’وکان اوحد زمانہ فی العلوم العقلیۃ والنقلیۃ۔‘‘ اور وہ (شیخ الاسلام )علوم عقلیہ ونقلیہ میں یگانۂ روزگار تھے۔

وزارت مذہبی کے لئے آپ جیسا کوئی نہیں ،اعلیحضرت شاہ وقت کا اظہار حقیقت

مفتی اعظم حضرت مفتی محمدرکن الدین صاحب علیہ الرحمہ رقمطرازہیں:

صدارت اور نظامت امورمذہبی Ú©Û’ تقرر Ú©Û’ دوران مولانا Ù†Û’ معذرت چاہی تھی لیکن اعلحضرت میر عثمان علی خاںآصف جاہ ہفتم Ù†Û’ شیخ الاسلام Ú©ÛŒ عظمت کا اس طور پر اقرار کیا :Û”’’اس وقت ملک میں ان خدمات Ú©Û’ لئے آپ سے زیادہ کوئی موزوں نہیں ہے۔

�اعلیحضرت کا خراج عقیدت

اعلیحضرت میر عثمان علی خان نے شیخ الاسلام کے علمی ادبی،اصلاحی اور تجدیدی کار ہائے نمایا ںکی قدر دانی کرتے ہوئے شیخ الاسلام کی بارگا ہ عالیجاہ میں خراج تحسین و عقیدت پیش کیا اور آپ کی یاد ہمیشہ قائم رہنے کے سلسلہ میں اپنے قلبی تاثرات کو یو ں نظم کیا ہے� ؂

بانیٔ مکتب کی عثماںؔ یاد بھی آتی رہے

نغمے بھی اس ذات کے صبح ومسا گاتی رہے

برسر قبر مطہر کہتا ہے سارا جہاں

آمدِ فصل بہاری پھول برساتی رہے

منقولات ومعقولات میں درجۂ امامت ‘ شمالی ہند Ú©Û’ اہل علم کا اعتراف ودیانت

شمس العلماء مولانا محمدعبدالوہاب بہاری رحمہ اللہ اور حضرت مولانا محمد معین الدین اجمیری رحمہ اللہ کے درمیان منطقی قضیہ کے مقولات ثانیہ میں ہونے یانہ ہونے کی نسبت بالآخرمناظرہ کی نوبت آئی تو شمس العلماء مولانا محمد عبدالوہاب بہاری رحمہ اللہ نے اس شرط پرمناظرہ کی دعوت قبول کی کہ اس مناظرہ کے حَکَمْ شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا محمدانوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ ہوں،اس پر مولانا محمد معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ راضی ہوگئے۔

اس دعوت کو فقیر بالرأس والعین قبول کرتا ہے، بہتر ہے حیدرآباد چلئے،حضرت مولانا محمدانوار اللہ صاحب دامت برکاتہم کو ہم بھی حکم تسلیم کرتے ہیں، اب آپ کو اس معاملہ میں عجلت کرنا چاہئے ،جس وقت روانگی کا ارادہ ہو فقیر کو بذریعہ تار مطلع فرمائیے اور بہتر ہو کہ جناب براہ اجمیر شریف حیدرآباد تشریف لے جائیں تاکہ دونوں کا ساتھ ہوجائے ، سفر کی منزلیں بخدا لطف کے ساتھ طے ہوںگی، الغرض فقیر ارشاد کی تعمیل کے لئے حاضر ہے۔

(کھلی چٹھی کا کھلا خط: بحوالہ مولانا معین الدین اجمیری کردار وافکار :ص67!68)

اس پرانصاف پسندانہ تبصرہ کرتے ہوئے مولانا اسیدالحق ازہری رقمطراز ہیں:

"مولانا Ú©ÛŒ اس تحریر میں دوباتیں خاص طور سے قابل غور ہیں ایک تو اس سے شیخ الاسلام مولانا انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی مقام ومرتبہ ظاہر ہوتا ہے ØŒ کہ آپ صرف منقولات ہی Ú©Û’ امام نہیں بلکہ معقولات میں بھی اس درجہ‘ بلند مقام Ú©Û’ حامل تھے کہ منطق Ú©Û’ ایک الجھے ہوئے مسئلے Ú©Ùˆ حل کرنے Ú©Û’ لئے اگر فریقین کسی Ú©Û’ علم اور دیانت وامانت پر اعتبار کرکے فیصل اور Ø­Ú©Ù… ماننے پر آمادہ ہیں توصرف آپ Ú©ÛŒ ذات گرامی ہے۔

دوسرے اس عبارت سے مولانا معین الدین اجمیر ی کے خلوص او رکشادہ قلبی کا پتہ چلتا ہے کہ جس شخصیت سے آپ علمی میدان میں برسرپیکار ہیں اسی کو اس محبت کے ساتھ اپنا ہم سفر بنانے کی خواہش کررہے ہیں گویا ان کے درمیان کوئی اختلاف ہی نہ ہو، یہ ہے علمی مباحثہ میں ہمارے اکابرواسلاف کا کردار!

قصہ مختصر یہ کہ حیدرآباد کے سفر کی نوبت ہی نہیں آئی اور اسی درمیان شمس العلماء مولانا عبدالوہاب بہاری صاحب کا سانحہ ارتحال پیش آگیا، ان کی اچانک وفات سے یہ معاملہ کسی فیصلہ کن موڑپر پہنچنے سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچا۔ (خیرآبادیات، ص215!216)

شیخ الاسلام مجددِ وقت،امام و قطب زماں،علامۂ یمن یحیی بن محمد یافعی� رحمۃ اللہ علیہ کا بیاں

شیخ الاسلام کی عظمت وجلالت کا ڈنکا سارے عالم میں بج رہاتھا،بلاد عرب و یمن سے تشنگان علم ارض دکن کے اس چشمۂ شیریں سے سیرابی کے لئے حاضر ہواکرتے تھے،چنانچہ حضرت مولانا یحی بن محمد یافعی یمنی رحمۃ اللہ علیہ انہی خوش نصیبوں میں ہیں جنہیں شیخ الاسلام سے شرف تلمذ حاصل رہا،انہوں نے اپنے استاذ گرامی، انکی تصنیفات جلیلہ اور ان کے قائم کردہ ادارہ کی عظمت ورفعت کوبڑی ہی عقیدت ومحبت کے ساتھ اشعار کے قالب میں پیش فرمایا ہے انکایہ منقبتی کلام ۳۵پینتیس اشعار پر مشتمل ہے جس کو انہوں نے بحرکامل میں نظم کیا ہے ۔

���� اس قصیدہ Ú©ÛŒ نقل ڈاکٹر محمد عبد الحمید اکبر حفظہ اللہ ،فارغ التحصیل جامعہ نظامیہ Ú©Û’ غیر مطبوعہ مقالہ ’’شیخ الاسلام ‘شخصیت ،علمی وادبی کارنامے‘‘Ú©Û’ اخیر میں مندرج ہے،ہم اسے یہاں تصحیح اور سلیس ترجمہ Ú©Û’ ساتھ ذکر کررہے ہیں:

الفضل لا بالمال والدینار

ولا رکوب بالخیل والسیار

�فضیلت نہ مال سے ہے اور نہ دینار سے اور نہ ہی گھوڑوں اور موٹروں پر سوار ہونے سے ہے ۔

لکن بتقوی الرب جل جلالہ

وکثٰرۃ�� الاوراد� والاذکار

�لیکن فضیلت تو اللہ جل جلالہ کے تقویٰ سے ہے اور اسی طرح فضیلت کثرت اوراد واذکار سے ہے ۔

والزھد فی الدنیا وعلم نافع

ومجالس الاخیار والابرار

�اور فضیلت دنیا سے بے رغبتی اور علم نافع کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے اورفضیلت نیک اورپاکباز حضرات کی مجلسوں سے ہے۔

العالمین العاملین بعلمھم

الصالحین الاتقیا الاخیار

ایسے علما ء کرام کی صحبت سے فضیلت حاصل ہوتی ہے جو اپنے علم کے مطابق عمل کرنے والے ہیں اور وہ نیک خدا ترس متقی اور بہترین لوگ ہیں ۔

فاذا سالت لتعرفن حالھم

فابو الجمیع محمد الأنوار

جب تم نے دریافت کیا ہے تو ضرور تمہیں ان کے احوال معلوم ہوجائیں گے ، تو وہ ساری خوبیوں کے حامل حضرت محمد انوار اللہ فاروقی ہیں ۔

لا تحسبنہ الیوم نورا واحد

بل ذاک جمع ضاء للابصار

تم ان کوہرگز ایک نور نہ سمجھو بلکہ وہ انوار کا مجموعہ ہے جوسب کی نگاہوں کو روشنی عطا کر تا ہے ۔

الشمس والبدر یغیبان وذا

ابدًا یضیء لغیبۃ الاقمار

سورج اور چودھویں کا چاند ‘یہ تو غروب ہوجاتے ہیں مگر یہ ہمیشہ روشن رہیں Ú¯Û’ جب کہ چاند تارے بھی غائب ہوجائیں Ú¯Û’Û”

الاسم نور والخطاب فضیلۃ

فکفی بذا� فخرا علی الاغیار

نام "نور "ہے اور خطاب ’’فضیلت جنگ‘‘ہے ØŒ دوسروں پر فخر کرنے Ú©Û’ لئے بس یہی کافی ہے Û”

صدر الصدور وقطبھم وامامہم

عون المھام وسیدالاحرار

آپ صدر الصدور ہیں ،ان کے قطب اور امام ہیں ، معین المھام (وزیر امور مذہبی)اور پاکبازوں کے سردار ہیں ۔

ولہ التصانیف التی مامثلھا

جاست خلال المدن والامصار

اور آپ کی تصانیف کا کوئی مثل وجواب نہیں جو تمام شہروں اور ملکوں میں پھیل گئیں ہیں ۔

نشر العلوم وبثھا فی ھندنا

لو لاہ کانوا وسط جرف ھار

آپ نے ہمارے ملکِہند میں علوم کی نشرواشاعت کی ہے ، اگرآپ نہ ہوتے توسارے لوگ جہالت کے خطرناک، ہلاکت خیز گڑھے میں ہوتے۔

بطل شجاع لایخاف لصولۃ

ھزم العدو بجیشہ الجرار

�جواں مرد اور بہادر ہیں کسی کی شوکت ودبدبہ سے ہیبت نہیں کھاتے ، اپنے لشکر جرار کے ذریعہ دشمن کو شکست دے چکے ہیں ۔

کھف البلاد الآصفیۃغیثھا

غمر الجھات بوبلہ المدرار

آپ کی ذات گرامی ممالک آصفیہ کی محفوظ پناہ گاہ ہے ، اور اُن کے لئے ابرکرم ہے جو چاروں طرف علم وعرفاں کی موسلادھار بارش برسارہا ہے ۔

نور الھدٰی احسانہ عم الورٰی

ومجدد الوقت بلا انکار

�آپ ہدایت کا نور ہیں ، جن کا احسان ساری مخلوق پر عام ہے اور بلاخوفِ تردید حضرت وقت کے مجدد ہیں ۔

لایمکن الانسان عد صفاتہ

ایعد طش ھواطل الأمطار

آپ کے صفات عالیہ کا احاطہ انسان سے ممکن نہیں،کیا زوردار بارش کے قطروں کو گنا جا سکتا ہے ؟

ان کان اعطاک الملیک منزلا

ایضا جعلت خلیفۃ المختار

�بالیقیں حق تعالیٰ نے آپ کو عظیم مرتبہ عطاء کیا ہے ، مزید یہ کہ آ پ احمد مختار صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث وخلیفہ بنائے گئے ہیں ۔

بشری لنا اذ کنت حقا شیخنا

بک نرتجی الجدوی من الغفار

�ہمارے لئے خوش خبری ہے کہ یقینا آپ ہمارے شیخ ہیں آپ کے ذریعہ ہی ہم خدائے غفار کی بارگاہ سے عطاء وبخشش کی اُمید کرتے ہیں۔

ان لیس لیعمل� ینجینی سوٰی

حب لشیخی محمد الانوار

�میرے پاس تو کوئی عمل نہیں ہے جس کے ذریعے مجھے قیامت میں نجات ملے گی سوائے میرے شیخ محمد انوار اللہ کی محبت کے۔

اذکل شخص یستضی ء بنورہ

فھو حرام قربہ للنار

�اس لئے کہ ہر وہ شخص جو آپ کے نور سے روشنی حاصل کررہا ہے (بفضلِ یزدی ) آگ کی قربت سے وہ بچا لیا جائے گا۔

دم فی علا یھناک عزدائم

فی ہذہ الدنیا وتلک الدار

�ہمیشہ بلندی پر آپ فائز رہیں ،مبارک ہو آپ کو ہمیشہ کی عزت اِس جہاں میں بھی اور اُس جہاں میں بھی ۔

دار صفت اوقاتھا لاھالھا

وخلت من الاضرار والاکدار

�یہ ایک ایسا گھرہے جِس Ú©Û’ اوقات اس Ú©Û’ اصحابِخانہ Ú©Û’ لئے خالص ہیں جو ضرر رسانی ‘ کدورت اورآلائش سے پاک ہے۔

من اجل علم قدترکت بلادنا

لارغبۃ فی الورق والدینار

�محض علم کی خاطر میں نے اپنے وطن عزیز یمن کو خیر آباد کہہ دیا ، نہ سو نے کی رغبت میںآیاہوں اور نہ چاندی کی طلب میں ۔

ونزلت مدرسۃ النظامیۃ التی

معروفۃ� للناس فی الأقطار

�اور فروکش ہوچکا ہوں اِس ’’جامعہ نظامیہ‘‘ میں جو تمام لوگوں میں اور سارے عالم میں مشہور ومعروف ہے۔

وحسوت کاسات الفراق لاجلہ

ففی الغداۃ حمد فعل الساری

�حضرت کی خاطر میں نے فراق کے جام پئیے ہیں ہاں آنے والے کل اِن کی خدمت میں آنے والا شاد کام رہے گا۔

قد کنت قبل بلاذکاودرایۃ

لا اعرف الوِرد من الإصدار

آپ کی خدمت میں آنے سے پہلے مجھ میں کچھ فہم وفراست نہ تھی ،نہ� چشمۂ شیریں پرآنا جانتا تھا اور نہ سیراب ہوکرجاناجانتا تھا۔

والیوم من جود الالہ وفضلکم

صرت اقول احسن الأشعار

اور آج اللہ کے لطف وکرم اور آپ کے فیضان وافضال سے میں بہترین اشعار کہنے لگا ہوں ۔

والوقت ذاک فی ابتداء کھولۃ

والیوم شاب عارضی عذاری

اس وقت جب کہ میں ادھیڑعمر کے ابتدائی حصہ میں تھا اور آج اس راہ میں،مَیں سفید ریش وسفید رخسار ہوچکا ہوں ۔

وذکرت مَن صاحبتھُم فی بلدۃ

سقیت بمزن الصےّب المدرار

اور میں نے شہر میں اپنے ساتھیوں سے ذکر کیا کہ مسلسل برسنے والے بادل سے میں سیراب ہوچکا ہوں ۔

ان تاذنوالی فالفقیر مسافر

فضلا لمن امسی غریب الدار

اگر حضرت اجازت مرحمت فرمائیں تو یہ فقیر رخت سفر باندھنا چاہتاہے ، اپنی عنایت� وفضل اس غریب الدیار کے شامل حال رہے۔

سأبثّ فی الیمن القصیّ نورکم

فیضیٔ منتشرا علی الأقطار

میں عنقریب درازمسافت پر واقع ملک یمن میں آپ کے نور کو پھیلاؤں گا ، اس طرح آپ کا نورِ علم تمام ممالک میں پھیل کر اُجالا بکھیرتا جائے گا۔

فنسئل اللہ الکریم بفضلہ

ومحمد والصحب والانصار

پس ہم اللہ بزرگ وبرتر سے اس کے فضل کااور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وانصاررضی اللہ عنہم کا واسطہ دیکر درخواست کرتے ہیں کہ!

لیدیم نعماہ علیکم بالشفا

من سائرا لا مراض والاشرار

�اللہ تعالیٰ ہمیشہ تمام بیماریوں اور شرانگیزوں سے آپ کی حفاظت فرماکر اپنی نعمتیں آپ پرتمام فرماتا رہے ۔

آمین قولوا یا الھی جُدلہ

لطفا وعافیۃ من الاضرار

ساتھیو ! آمین کہو۔ یا الہٰی ! حضرت پر اپنا لطفِ خاص فرما اور اُنہیں تمام تکالیف وآلام سے عافیت میں رکھ ۔

وادع لنا بالفیض من انوارکم

انتم اھالی الفیض للزوّار

اور حضرت ہمارے حق میں دُعا فرمائیں کہ ہم آپ کے انوار سے فیض یاب ہوتے رہیں اور آپ اپنے دربار میں حاضر ہونے والوں کے لئے فیض کا سرچشمہ ہیں۔

تاریخہ قد جاء عند تمامہ

دم� ذا صفا جد جامع الأنوار

1336Ú¾

اس نظم Ú©ÛŒ تکمیل پر یہ تاریخ برآمد ہوئی کہ ’’اے منبعِصدق وصفا ! اے مجمعِ انوارِ ہدیٰ! ‘‘ ہمیشہ ہمیںاپنی عطاؤں سے سرفراز فرمائیں!

�

�

���� شیخ الاسلام نے اپنی مکمل حیات کو اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وقف کردیاتھارضائے خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطرتادم زیست انوار کتاب وسنت سے عالم کو روشن ومنور کرتے ہوئے اشاعت علوم اسلامیہ کا فریضہ انجام دیتے رہے ،یہاں تک کہ1336ھ وصل خدا وندی کا پیغام آیااور آپنے داعئی اجل کولبیک کہا، آپ کاقائم کردہ جامعہ نظامیہ اوردیگر علمی مآثر خلق خدا کے لئے مرکزعلم وعرفان اوررشد وفیضان بنے ہوئے ہیں ۔

�

’’دم ذا صفا ‘‘ اس سےِیخ الاسلام کا سنہ وصال 1336Ú¾ نکلتا ہے اور’’ ذاصفا ‘‘ سے جامعہ نظامیہ کا سنہ تاسیس 1292ھ� بر آمد ہو تا ہے Û”

�

از:ضیاء ملت حضرت مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی مجددی قادری صاحب دامت برکاتہم العالیہ

�

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر����