Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

عالمی سطح پرمسلمانوں کے حالات اورہماری ذمہ داریاں


عالمی سطح پرمسلمانوں کے حالات اورہماری ذمہ داریاں

اللہ تعالی نے ایمان کامل کی شرط کے ساتھ اہل ایمان سے فتح ونصرت،غلبہ وعزت کا وعدہ فرمایا ہے،بندۂ مؤمن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمان کے تقاضوں کوپوراکرے،سورۂ آل عمران میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ۔

ترجمہ:اور(مسلمانو!)تم ہمت نہ ہارواورغمگین نہ ہو،تم ہی غالب رہوگے بشرطیکہ تم کامل مومن رہو۔(سورہ آل عمران:139)

آج مسلمانوں کے پاس حکومت واقتدار کے علاوہ عددی قوت بھی ہے اورمالی وسائل بھی؛لیکن عدم اتحاد اورنظام اسلام کونظراندازکرنے کے سبب وہ ایک طاقت نہ بن سکے،اورذلت ورسوائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں،حالانکہ سرخروئی اورسربلندی تواہل ایمان کا حصہ ہے،اللہ تعالی نے ان سے فتح ونصرت کے وعدے کئے ہیں؛بشرطیکہ وہ اللہ تعالی کی عبادت کریں،اس کے د‎ئے ہوئے نظام کوقبول کرتے ہوئے اسی کے مطابق زندگی بسر کریں،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔

ترجمہ:اورتم میں سے جولوگ ایمان لائیں اورنیک عمل کریں،اللہ تعالی ان سے وعدہ فرماتا ہے کہ وہ ضروران کوزمین پرحکومت عطاکرے گا،حس طرح ان سے پہلے(نیک)لوگوں کوحکومت دی تھی،اوران کے دین کوجسے اس نے پسند کیا ہے مستحکم کردے گااورخوف کے بعد ان (کے خوف)کوامن سے بدل دے گا،وہ لوگ میری عبادت کریں،میرے ساتھ کسی کوشریک نہ بنائیں،اوراس کے بعد جوناشکری کرے گاتوایسے ہی لوگ نافرمان ہیں۔(سورۃ النور:55)

آج قوم مسلم کوظلم کانشانہ بنایا جارہا ہے،اسلام دشمن طاقتیں منصوبہ بند طریقہ پراسلام اورمسلمانوں کے خلاف سازشیں رچارہے ہیں،مسلم حکمراں اپنے اقتدار کے تحفظ اورمفادات کی خاطرظالموں کی حمایت کررہے ہیں۔اسلام دشمن طاقتیں امت مسلمہ کی وحدت کوتارتار کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں رکھے ہیں۔

سنن ابوداؤد میں حدیث پاک ہے؛ مخبرصادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

يُوشِكُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا. فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ قَالَ : بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزِعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِى قُلُوبِكُمُ الْوَهَنَ . فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهَنُ قَالَ : حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ۔

قریب ہے کہ ساری دنیاکی قومیں تم پرٹوٹ پڑنے کے لئے ایک دوسرے کوبلائیں گیں؛جس طرح بھوکی جماعت کوکھانے کے برتن کی طرف بلایا جاتاہے،صحابہ کرام نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!کیا اس وقت ہم اقلیت میں رہیں گے؟آپ نے فرمایا:نہیں!تم تواس وقت کثیرتعدادمیں رہوگے؛لیکن سیلاب کے جھاگ کی طرح ہوجاؤ گے،اور اللہ تعالی ضرور تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارے رعب کونکال دے گا،اوراللہ تعالی ضرورتمہارے دلوں میں’’وھن‘‘ڈال دے گا،کسی نے دریافت کیاکہ’’وھن‘‘کیا ہے؟آپ نے فرمایا:دنیا کی محبت اورموت کوناپسندکرنا ہے۔

الکٹرانک میڈیا اورپرنٹ میڈیا حقائق کوپیش کرنے کے بجائے جانبدارانہ رویہ اختیارکرچکے ہیں۔آج ظالم کا چہرہ مستور رکھ کرمسلمانوں پردہشت گردی کاالزام لگایا جارہاہے،حالانکہ اسلام نے ساری انسانیت کوامن دیا،غیرمسلموں کوبھی جان ومال ،عزت وآبروکا تحفظ عطا کیاہے۔

ولوبالفرض کوئی مسلمان امن کے خلاف کوئی کام کرتا ہے تووہ اسلام کے تقاضوں کے خلاف عمل کررہا ہے،اسلام نے ہرگز اسے اجازت نہیں دی ہے۔

اعدائے دین نے امت مسلمہ میں تباہی مچانے کے لئے عورت کواپنا آلہ کاربنایا،حسین عورتوں کوان کے درمیان لایا گیاتاکہ ان کے ذریعہ مسلمانوں کے عزائم اوران کے اندرونی حالات سے واقفیت حاصل کریں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:

میرے بعد میری امت میں ’عورت‘سے زیادہ نقصاندہ کوئی چیز میں نے نہیں چھوڑی۔

سرخروئی کیسے حاصل کی جائے!

مسلمان اگر سرخروئی اورکامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اسلام کی انقلاب آفریں تعلیمات پرعمل کرنا ہوگا،اسلامی احکام کوعملی زندگی میں نافذکرناہوگا،قرآن اورصاحب قرآن سے اپنی وابستگی کومضبوط اورمستحکم کرناہوگا۔نیز مسلم حکمراں اپنے اندراسلامی بصیرت،اوراپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کریں،خلفاء راشدین کی خلافت کے ادوارکواپنے لئے نمونہ بنائیں۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اگردریا کے کنارہ پرایک کتاپیاس سے مرجائے تواللہ تعالی اس سے متعلق بھی عمرسے سوال کرے گا۔

عدم اتحاد کے سبب مسلمانوں کورسوائی کا سامنا

مخلوق اللہ تعالی کا کنبہ ہے اور تمام افراد بحیثیتانسانیکساںومساوی ہیں۔مسلمان خواہ وہ مشرق میں ہوںیامغرب میں ان کے درمیان "اخوت وبھائی چارگی"کا رشتہ تمام رشتوں میںسب سے اعلی و مستحکمہے،ارشاد الہی ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۔

ترجمہ:بیشک تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ،تو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو۔(سورۃ الحجرات:10)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت کو اتحاد واتفاق کادرس دیا،اخوت وبھائی چارگی کی تعلیم دی،جو لوگ آپسی عداوت اورجہالت کے سبب اختلاف وافتراق کا شکار تھے آپ نے انہیں ایک پرچم تلے متحد کردیا۔جو قوم ذات پات،رنگ ونسل،ملک ووطن کے نام پر حق تلفی کیا کرتی تھی آپ نے اسے اخوت ومحبت اور آپسی رواداری ومساوات کا ایسا عظیم درس دیا کہ سنگ دل'موم دل ہوگئے اور سخت دشمن افراد بھی آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔

پانی کا قطرہ جب تک وہ تنہا ہے اس کی طاقت اور حقیقت ہر ایک پر عیاں ہے،اسے ہوا اڑا کر لے جاسکتی ہے،گرمی فنا کرسکتی ہے،لیکن وہی قطرہ جب سمندر میں مل جاتا ہے تو اس کی طاقت و قوت کا اندازہ نہيں لگایا جاسکتا،ایک تنہا قطرہ سمندر میں مل کرطاقتور موج کی شکل اختیار کرجاتا ہے،وہ سمندر کی وسعتوں کا حصہ قرار پاتا ہے۔

صحیح بخاری میں حدیث شریف ہے؛ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِى تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى عُضْوًا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى۔

تم مسلمانوں کو دیکھوگے کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرنے ،آپس میں محبت کرنے اور ایک دوسرے کے جذبات واحساسات کی قدر کرنے میں ایک جسم کی طرح ہيں،جب جسم کے کسی بھی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم جاگنے اور بخار میں اس کا شریک ہوجاتا ہے۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:6011)

جسم کے تمام اعضاء یکساں نہيں ہوتے،جسم کا ہر حصہ ایک امتیازی شان اور منفرد توانائی رکھتا ہے،اور ہر عضو ایک خصوصیت کا حامل ہوتا ہے۔"دماغ"بادشاہ اور "دل"پاورہاوز کی حیثیت رکھتاہے،لیکن جب پیر کی چھوٹی انگلی کو بھی تکلیف پہنچتی ہے تو تکلیف کی وجہ سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور دل بھی مضطرب رہتا ہے،دماغ یہ نہیں کہتا کہ میں رئيس الاعضاء ہوں،نہ دل یہ کہتا ہے کہ خون کی سپلائی مجھ سے ہے"ادنی عضو کی تکلیف میں ہم کیوں شریک ہوں؟"اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کو ایک جسم کی طرح قرار دے کر گویا یہ پیغام دیا کہ مسلمان'حاکم ہوکہ محکوم،راعی ہوکہ رعایہ،بادشاہ ہوکہ فقیر،طاقتور ہوکہ کمزور وہ ایک دوسرے کے احساسات کی قدر کریں،تکلیف کو محسوس کریں اور مصیبت میں ایک دوسرے کا تعاون کریں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے حق میں عمارت کی طرح ہے،جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے۔

شہید حیات جاودانی حاصل کرلیتا ہے

آج مسلمانوں پردنیا کے مختلف علاقوں میں ظلم وستم کے پہاڑڈھائے جارہے ہیں،شیرخواربچوں،نوجوانوں اورعمررسیدہ افرادپرحملے کئے جارہے ہیں،خواتین ومستورات پرستم کے بادل برس رہے ہیں،اسپتالوں میں مریضوں کوبھی ظلم کانشانہ بنایا جارہاہے،انسانیت سوزحرکتوں اورزیادتیوں کا شکار ہوکرمسلمان جام شہادت نوش کررہے ہیں،بظاہردنیامیں ان کا خاتمہ ہورہاہے لیکن یہ مظلوم مسلمان مردوخواتین،شیرخوارونوجوان،بیماروعمررسیدہ افراد شہادت پاکرحیات جاودانی حاصل کررہے ہیں،ان کے لئے جنت کی نعمتیں ہیں،لہلہاتے باغ اوربہتی نہریں ہیں،ثمرآوردرخت اوربارآورٹہنیاں ہیں،سب سے بڑی نعمت جنت میں ان کےلئے دیدارخداوندی ہے،یہ وہ نعمت عظمی ہے کہ اہل جنت،جنت میں داخل ہونے کے بعداللہ تعالی ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا چاہئے؟تواہل جنت عرض کریں گے:پروردگار!تونے ہمیں ہرنعمت عطاکی ہے،دوبارہ،سہ بارہ پوچھنے پراہل جنت کہیں گے کہ آگر مانگناہی ہےتوہم تجھ سے یہ مانگتے ہيں کہ توہمیں دنیامیں دوبارہ بھیج،ہم تیرے دشمنوں کا مقابلہ کریں گے اورتیری راہ میں جان قربان کرکے دیدار کی نعمت پائیں گے،اللہ تعالی فرمائے گا:دنیامیں جاناتونہ ہوگا لیکن تمہيں دیدارکی نعمت حاصل ہوتی رہے گي۔

اللہ کی گرفت سے ڈریں!

جولوگ دہشت وبربریت پیداکررہے ہیں،خونریزي وسفاکی کررہے ہيں وہ اپنی خبرلیں،گزشتہ اقوام کے انجام پرنظرڈالیں،قوم عادوثمود ان سے زیادہ طاقتور تھیں،قدوقامت بھی درازاورطاقت وقوت میں ان سے نہایت بلندتھے،تاہم ان کی قامت درازاوران کی قوت نے انہیں اللہ تعالی کی گرفت اوراس کے عذاب سے نہیں روکا،ظلم واستبدادکی وجہ سے انہيں تباہ وتاراج کردیاگیا،تاریخ نے جس طرح ان کی عظمت رقم کی اسی طرح ان کی تباہی وبربادی بھی لکھی،سابقہ اقوام کے انجام بدکوسامنے رکھتے ہوئے موجودہ دورکی ظالم وسفاک اقوام کواپنے ظلم وسفاکی سے بازآجانا چاہئیے؛ورنہ اللہ تعالی کی پکڑدورنہیں،اس کاعذاب بڑاشدیدہے۔

از:مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر،حیدرآبادالہند۔

www.ziaislamic.com