Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

حضرت ابوالبرکات سید خلیل اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری علیہ الرحمۃ والرضوان


�زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر

خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر


منبع علم وحکمت فیض درجت حضرت سیدی ابوالبرکات سید خلیل اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری علیہ

الرحمۃ والرضوان،خلف اکبر و جانشین اول حضرت محدث دکن علیہ الرحمۃ والرضوان۔

آپ زبدة المحدثین ، خاتمة المحققین ، عارف باللہ ابوالحسنات سید عبداللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن علیہ الرحمة والرضوان کے شہزادہٴ اکبر وجانشین اول ہیں ۔تقریبا 1912ء سے پہلے آپ کی ولادت ہوئی۔

آپ کا سلسلہ نسب مبارک چھیالیس(46)واسطوں سے امیر المؤمنین سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے ۔

حضرت ابوالبرکات رحمة اللہ علیہ کی ولادت باکرامت چونکہ علمی وروحانی گھرانہ میں ہوئی اور ایک عارف باللہ ، محدث وقت کے آغوش کرم میں آپ نے تربیت پائی تھی ،اسی لئے آپ علوم ظاہری وباطنی کے جامع ، اخلاق عالیہ کے پیکر، خصائل حمیدہ سے متصف ، صفات کمالیہ کے حامل ، صوفی باصفا، جامع شریعت وطریقت ،خدا ترس بزرگ رہے ہیں ۔

حضرت ابوالبرکات رحمة اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم کے بعد" مرکزعلم وادب جامعہ نظامیہ" میں تعلیم حاصل فرمائی ، بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی کے علوم شرقیہ کے امتحانات سے فراغت حاصل فرمائی ۔آپ زبان فارسی اور اردو میں مہارت تامہ رکھتے ہیں ۔

حضرت محدث دکن رحمة اللہ علیہ کے وصال مبارک کے بعد آپ مسند سجادگی پرفائز ہوئے اور قوم وملت کی رشد و ہدایت کا عظیم فریضہ انجام دیا۔

حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ کے چاروں صاحبزادگان دینی ودنیوی ہر دوعلوم میں ید طولی رکھتے تھے۔

حضرت ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ حضرت محدث دکن رحمة اللہ علیہ کے وصال مبارک کے بعد بحیثیت سجادہ نشین حضرت محدث دکن رحمة اللہ علیہ اٹھائیس ﴿28﴾سال تک خلق خدا کو فیضیاب کرتے رہے ، ہزارہاں افراد نے آپ سے اکتساب فیض کیا، ملک وبیرون ملک آپ کے مریدین ومتوسلین کی کثیر تعداد ہے ، آپ کے دست حق پرست پر کئی ایک علماء کرام وحفاظ صاحبان نے بیعت کی ۔

حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد(مسجد علی آقا،حسینی علم حیدرآباد)میں جو نظم ونسق اور اہتمام ،نماز پنچگانہ کی امامت وغیرہ معمولات جاری تھے آپ نے وہ تمام باحسن الوجوہ انجام دئے۔

حضرت ابوالبرکات رحمة اللہ علیہ، اعلی صفات کے حامل ، متواضع ، حلیم الطبع ، کم سخن ، خوش گفتار ، متبع شریعت بزرگ تھے ۔آپ ہر ایک سے شفقت اورنرمی سے پیش آتے،آپ کی طبعیت میں نہایت سادگی تھی۔

���� حضرت ابو الفداء مولانا ڈاکٹر محمد عبد الستار خان نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 Ù…ولانا ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ۔۔آپ الحمد للہ مجذوب سالک تھے لیکن جذب غالب رہا کرتا تھا،جس Ú©ÛŒ وجہ سے چہرۂ مبارک پر دبدبہ اور متانت ہوا کرتی تھی۔۔

"رفتار میں کردار میں اللہ کی برہان"

کے مجسم پیکر تھے،زہد اور قناعت تو آپ کی خمیر میں تھے۔

مولانا ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ کے اوصاف اور احوال کو دیکھ کر قارئین کرام کو حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک مبارک حدیث سنانے کو جی چاہتا ہے،جو حضرت کے حال پر شاہد ہے:

عَنْ أَبِى خَلاَّدٍ - وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ - قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ قَدْ أُعْطِىَ زُهْدًا فِى الدُّنْيَا وَقِلَّةَ مَنْطِقٍ فَاقْتَرِبُوا مِنْهُ فَإِنَّهُ يُلَقَّى الْحِكْمَةَ.

ترجمہ:ابو خلاّد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جب تم مرد مومن کو اس حال میں دیکھو کہ اس کو دنیا سے زہد(یعنی بے رغبتی)اور کم گوئی دی گئی ہے تو اس کے قریب رہو(اور اس سے فائدہ اٹھاؤ)اس لئے کہ اس پر حکمت (دانائی)کا القاء ہوتا ہے۔

(سنن ابن ماجہ،کتاب الزهد، باب الهم بالدنيا.حدیث نمبر:4240۔طبقات ابن سعد،6/130-التقریب،2/148)

اس حدیث شریف کی روشنی میں مولانا ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ کی دانائی کا ایک واقعہ یا د آیا جو اس عاجز(حضرت ابو الفداء)سے متعلق ہے۔

اس عاجز کی خدمات تدریسی بحیثیت لیکچرار شعبۂ دینیات ساڑھے تین برس بعد بوجہ تخفیف شعبہ 1950ء ختم کردئے گئے اور چودہ ماہ بعد دائرۃ المعارف جامعہ عثمانیہ میں بجائے (300 تا 800)کے (80 تا 125)کی جائیداد پر مصحح کی حیثیت سے احکام تقرر وصول ہوئے۔

یہ عاجز مراسلہ تقرر لے کر اپنے پیر ومرشد قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ہمارے حضرت (محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ)کچھ متفکر ہوئے کہ اسی جگہ اتنی بڑی ماہوار کی بجائے اس قدر کم مشاہرہ پر تقرر قابل غور ہے۔پھر ارشاد فرمایا:میاں!سید خلیل اللہ ایسے معاملات میں صاحب رائے اور صاحب بصیرت ہیں ،ان سے مشورہ کرو!

حسب الحکم یہ عاجز مولانا ابو البرکات کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا:مولوی صاحب!آپ تنخواہ کا خیال نہ کریں،خالص علمی تحقیق کام ہے؛قبول کرلیں!

" گفتۂ او گفتۂ اللہ بود"

اس عاجز نے ان صاحب حکمت کی بات مان لی اور نتیجۃ 1960ء میں دوبارہ شعبۂ عربی میں فائز ہوا اور الحمد للہ ثم الحمد للہ ترقیاں حاصل کرتا ہوا صدر شعبہ عربی اور پروفیسر بنا اور عربی زبان کا صدر جمہوریہ ایوارڈ کا بھی مستحق قرار پایا۔

وَالْحَمْدُ لِلّهِ حَمْدًا کَثِيْرًا کَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى۔(تذکرہ حضرت محدث دکن،ص279/281)

نکاح:

آپ کے والد محترم نے آپ کا عقد اپنے ہی خاندان میں طے فرمایا،آپ کے خسر محترم اَلَند شریف گلبرگہ میں وکالت فرمایا کرتے تھے۔حضرت کی اہلیہ محترمہ بڑی عبادت گزار متقی خاتون تھیں۔

حضرت ابوالبرکات رحمة اللہ علیہ نہایت رقیق القلب اور سخی دل ہیں ،ضرورت مندوں کی حاجت روائی فرماتے ، محتاجوں کی خبرگیری کرتے اور مادی ومعنوی ہردولحاظ سے سرفراز فرماتے۔ آپ کی خدمت میں شرف باریابی حاصل کرنے کے لئے لوگ شوق دیدمیں دور دراز مقامات سے سفر کرکے حاضر خدمت ہوتے ۔

یوں توآپ کی جودوسخا کی پیہم بارش ہواکرتی ہے لیکن کسی کو خبر بھی نہ ہوتی کہ آپ نے"کس کو دیا اور کتنا دیا"۔

آپ کے وصال مبارک کےبعد کئی حضرات نے کہا: ہمارے والدین کے انتقال کرجانے کے باوجود ہمیں کبھی یتیمی کا احساس نہ ہوا، کیونکہ حضرت والا شان اس طرح کرم نوازی فرماتے کہ ضروریات کی تکمیل ہوجاتی ، لیکن آج حضرت کے وصال کے بعدہمیں حقیقی طورپر اپنی یتیمی کا احساس ہورہا ہے ۔

آپ کے جود وسخا سے متعلق تذکرہ محدث دکن میں مذکور ہے:

حضرت محدث دکن قدس سرہ کی مانند حضرت ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ بھی بڑے سخی اور جواد تھے،پریشان حال اصحاب کی خاص طور پر خبر گیری فرماتے تھے اور نقد وجنس کی تمام ضرورتیں ان کے لئے فراہم کرتے تھے اور اس طرح سے کہ عام طور پر دوسروں کو خبر بھی نہیں ہونے دیتے تھے۔

صرف ایک واقعہ جو متعلقہ شخص نے اس عاجز کو بتایا ،سنانا چاہتا ہوں:

ہمارے ایک دیہاتی برادر طریقت اپنا گاؤں چھوڑ کر شہر منتقل ہوگئے تھے،صاحب اولاد تھے،حضرت ہی کے محلہ میں ایک چھوٹی سی مسجد میں امامت کرتے تھے۔

اس مسجد کا انتظامیہ ہمارے حضرت کے نواسہ سید شاہ محمد قادری صاحب سے متعلق تھا،انہوں نے ان صاحب کو اس مسجد کی امامت سپرد کردی۔فارغ اوقات میں یہ چھوٹی موٹی تجارت کرلیا کرتے تھے،مکان کے لئے ان صاحب نے ایک چھوٹی سی زمین خریدی اور اس کے لئے علی الفور آٹھ سو روپیہ کی ضرورت تھی۔یہ مولانا ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی درپیش مشکل سنائی،ان موصوف نے اس عاجز کو بتایا کہ حضرت نے جوں ہی یہ بات سنی فورا اٹھے اور اپنے خلوت کدہ سے پوری رقم لاکر ان صاحب کے حوالہ کردی۔

اسی کو کہتے ہیں اس طرح دو کہ"دائيں ہاتھ سے دے رہے ہوتو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو"۔

حضرت ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ طبعی فیاضی اور سیر چشمی کے ساتھ حزم واحتیاط،معاملہ فہمی اور دور اندیشی کی صفات عالیہ سے آراستہ تھے۔

لوگ اپنی مشکلات اور معاملات میں مشورہ اور رہنمائی حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوتے تھے،آپ بڑی بردباری اور دانشمندی سے ان اصحاب کو اپنے مشوروں سے سرفراز فرماتے اور ان کی اعانت فرماتے۔

اولاد امجاد:

حضرت ابوالبرکات رحمة اللہ علیہ کے تین ﴿3﴾صاحبزادے ہیں ۔

1. حضرت ابوالخیرات سید انوار اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمة اللہ علیہ

2. حضرت سید ثناء اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمة اللہ علیہ

3. حضرت ابوالفیض سید عطاء اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری دامت برکاتہم العالیہ

وصال مبارک :

حضرت ابوالبرکات رحمة اللہ علیہ کا وصال مبارک ﴿7﴾جمادی الاولی 1413ھ ﴿3﴾نومبر 1992ء کو ہوا۔

حضرت ابو الفداء رحمۃ اللہ علیہ کے سمدھی مولانا کلیم قریشی نقشبندی صاحب جو حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے،وہ حضرت ابو البرکات کے وصال کے وقت ریاض (سعودی عربیہ)میں مقیم تھے،انہوں نے اپنے ایک خط میں اس طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا:

ہمارے محترم پیر زادے،جانشین حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ اس دنیا سے اچانک ہمیں اور اپنے وابستگان کو چھوڑ کر خلد بریں کی طرف چل پڑے۔

إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔

غریب الوطنی میں یہ صدمہ قوت صبر واستقلال سے بہت زيادہ ہے،بلاشبہ حضرت خلیل اللہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جانشین پیرومرشد تھے۔ہمارے شیخ طریقت کی نشانی تھے،بلکہ ہمارے لئے حضرت قبلہ قدس سرہ کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔

حضرت پیرومرشد کے بعد وہ ہم جیسوں کے لئے ایک مستقل ڈھارس اور ایک ہمت تھے،28 سال تک ہم ان کی وساطت سے اپنے پیر مرشد کے فیضان سے بخوبی مستفیض ہوتے رہے ہیں۔یہ روشن چراغ بھی گل ہوگیا،مسند بے رونق ہوگئی،بزم طریقت اور شریعت میں اب یکساں خلا پیدا ہوگیا۔وابستگان سلسلہ یتیم تھے اب یسیر بھی ہوگئے۔اللہ تعالی ہم سب پر رحم وکرم فرمائے۔

محترم المقام جناب محمد عبد القادر قادری بیہوش محبوب نگری صاحب مرحوم نے حضرت ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں اس طرح نذرانہ عقیدت پیش کیا:

 

کیا بیاں ہو منزلت حضرت ابولبرکات کی

باعث رحمت تھی شخصیت ابولبرکات کی


آج بھی ہے بزم میں نکہت ابوالبرکات کی

کھل کے آئی سامنے عظمت ابوالبرکات کی


آپ تھے دیں کے معلم اور تھے حق کے ولی

لائق تقلید ہے سیرت ابوالبرکات کی


حضرت بوبکر وسلماں ،جعفر صادق سے بھی

تھی بڑی نسبت بہ ہرصورت ابوالبرکات کی


شمس دیں میر کُلال اور پھر بہاؤالدین سے

حق ہی جانے کتنی تھی قربت ابوالبرکات کی


باقی باللہ ،شیخ احمد ،جانِ جاناں کا اثَر

کرگئی سب پر عیاں رفعت ابوالبرکات کی


لب پہ تھا ذکرِ خُدا نورِمحمد دل میں تھا

"مَن عَرَف "کی بزم تھی خلوت ابوالبرکات کی


اک توجہ سے نہ جانے کتنےدل روشن ہوئے

جانے کیا کیا کرگئی صحبت ابوالبرکات کی


شاہ سعداﷲ، بخاری شاہ ہیں جد آپ کے

کس قدر ہے محترم نسبت ابوالبرکات کی


خُلد کا نظارہ گر مقصود ہو تو آئیے

نقشبندی ہے چمن جنت ابوالبرکات کی


سید عبد اللہ شاہ کے لختِ دل اور جانشیں

ہُو بہُو حضرت کی تھی صورت ابوالبرکات کی


اُن کے در سے پاتے ہیں ایمان کی دولت سبھی

ہاتھ سے چھوٹے نہ اب سُنت ابوالبرکات کی


صرف اک بے ہُوش کیا سب ہوش والے تھے فدا

تھی شہ جیلاں سے وہ نسبت ابوالبرکات کی

 

از: مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ بانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر

www.ziaislamic.com