Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

سال نو اور ہماری ذمہ داریاں


 Ø§Ù„لہ تعالی Ù†Û’ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  Ú©ÛŒ نسبت گرامی Ú©Û’ سبب اس امت Ú©Ùˆ افضلیت Ùˆ خیریت Ú©ÛŒ خلعت فاخرہ مرحمت فرمائی،آپ Ú©Û’ ذریعہ امت مسلمہ Ú©Ùˆ جامع وکامل شریعت عطا فرمائی،زندگی Ú©Û’ کسی بھی پہلو پر  اسے تشنہ نہیں رکھا ہے،قوم مسلم ایک عالی وقار،مقصد Ú©Û’ تحت زندگی گزارنے والی اور مقتدا قوم ہے،باطل رواج ،فرسودہ رسوم اور غیر شائستہ تہذیب وتمدن Ú©Ùˆ اپنانا اس کا شعار نہیں،سال نو Ú©Û’  استقبال کےعنوان سے مرد وزن کا بے محابہ اختلاط،مئے نوشی،فلم بینی اور رقص وسرود Ú©ÛŒ محفلیں سجانا،پارکوں اور کلبوں میں ناچنا غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل ہے-

حیات انسانی میں وقت ایک عظیم دولت اوربیش قیمت نعمت ہے اور دین اسلام میں عبادات کا نظام وقت Ú©Û’ ساتھ مربوط ہے ،نمازپنجگانہ Ú©ÛŒ ادائیگی ،وقت ہی سے متعلق ہے ،اسی لئے کتب حدیث وفقہ میں اوقات نماز سے متعلق ایک مستقل بیان رکھا گیا ہے ،سحروافطار Ú©Û’ لئے باریک بینی Ú©Û’ ساتھ وقت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ،اس میں Ú©Ù…ÛŒ بیشی ہوجائے توروزہ رائیگاں ہوجاتا ہے ،زکوۃ Ú©ÛŒ فرضیت کےلئے سال گزرنا شرط ہے، حج مخصوص ایام میں ادا کیاجاتاہے، قربانی کےلئے ایام مقرر ہیں، ان تمام عبادات میں وقت اس درجہ اہمیت رکھتا ہے کہ اگر عبادات Ú©ÛŒ ادائیگی میں ان Ú©Û’ مقررہ اوقات کالحاظ نہ رکھاجائے تونوبت اساء ت وکراہت تک ہی نہیں بلکہ فسادو بطلان تک آجاتی ہے –

عبادات کے نظام میں وقت کا ارتباط وتعلق ،احکام اسلام میں اس کی اثرانگیزی امت مسلمہ کے ہرہرفرد سے وقت کی قدردانی وقدر افزائی کا مطالبہ کررہی ہے۔

حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  Ù†Û’ امت کےلئے اپنے مبارک ارشادات ومقدس فرمودات میں وقت Ú©ÛŒ اہمیت بیان فرمائی ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ  رضى الله عنهما  قَالَ قَالَ النَّبِىُّ  صلى الله عليه وسلم : نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ ØŒ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ  .

ترجمہ:سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے آپ Ù†Û’ فرمایا کہ  Ø­Ø¶Ø±Øª نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  Ù†Û’ ارشاد فرمایا: دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ اس سے غفلت میں رہتے ہیں: تندرسی اور فرصت۔ (صحیح بخاری ،کتاب الرقاق، باب ما جاء فى الرقاق وأن لا عيش إلا عيش الآخرة . حدیث نمبر: 6412-زجاجۃ المصابیح ،ج4،کتاب الرقاق ،ص148)

جن دونعمتوں Ú©ÛŒ جانب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  Ù†Û’ امت کومتوجہ فرمایا ہے وہ اوقات زندگی سے عبارت ہیں۔

نیزایک روایت Ú©Û’ مطابق حضورپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  Ù†Û’ پانچ حالات کوغنیمت جاننے اور ان Ú©ÛŒ قدردانی کرنے Ú©ÛŒ تاکیدفرمائی ہے:

عن عمرو بن ميمون الاودی قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم اغتنم خمساقبل خمس شبابک قبل هرمک وصحتک قبل سقمک وغناک قبل فقرک وفراغک قبل شغلک وحيوتک قبل موتک۔

ترجمہ:حضرت عمرو بن میمون اودی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو! اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ،تندرستی کو بیماری سے پہلے ،تونگری کو محتاجی سے پہلے ،فرصت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔ (مشکوۃ المصابیح ص 443)

سال2013کے آغاز کے وقت کتنے لوگ ہماری معیت میں تھے جو،اب ہمارے ساتھ موجود نہیں ہیں،موت کے پنجہ نے انہیں آدبوچا، اللہ تعالی کا صدشکرہے کہ اس نے ہمیں مہلت عطافرمائی ،ہمیں چاہئیے کہ اس فرصت کوغنیمت جانیں ،زندگی کے ان لمحات کے قدرشناس بنیں، عالم شباب کواطاعت الہی میں صرف کریں اس سے پہلے کہ ضعف وکمزوری لاحق ہوجائے ،حالت صحت وتندرستی میں دین کے وہ کام کرلیں جومرض وبیماری کی کیفیت میں صحیح طورپرانجام نہیں دئے جاسکتے۔

زندگی کا ایک ایک لمحہ اس قدر بیش بہا،گراں قیمت اور قابل قدر ہے کہ اہل جنت کوجنت میں داخل ہونے کے بعد بھی لمحات حیات کے بے فائدہ گزرجانے پرحسرت ہوگی ،کنزالعمال شریف ،کتاب السلام وفضائلہ،حق المجالس والجلوس میں حدیث پاک ہے:

ما قعد قوم مقعدا لا يذكرون الله فيه ويصلون على النبي صلى الله عليه وسلم، إلا كان عليهم حسرة يوم القيامة وإن أدخلوا الجنة للثواب" . "حب عن أبي هريرة".

ترجمہ:کوئی قوم ایسی محفل نہیں سجاتی جس میں وہ اللہ کا ذکر نہیں کرتی اور حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم Ú©ÛŒ خدمت اقدس میں درودشریف نہیں پڑھتی مگر وہ محفل ‘قیامت Ú©Û’ دن ثواب Ú©ÛŒ وجہ سے ان کیلئے حسرت کاسبب ہوتی ہے اگرچہ وہ جنت میں داخل ہوجائیں۔

(کنزالعمال شریف ،کتاب السلام وفضائلہ،حق المجالس والجلوس،حدیث نمبر: 25454)

زندگی Ú©Û’ لمحات بیش بہا ،نہایت قیمتی اور قابل قدر ہیں،اپنی عمر رواں Ú©Û’ بقیہ لمحات Ú©Ùˆ غنیمت جانیں،انہیں لایعنی افعال،بے فائدہ اعمال میں ہرگز صرف نہ کریں،بلکہ انہیں اللہ تعالی Ú©ÛŒ فرمانبرداری اور اس Ú©Û’ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم  Ú©ÛŒ تابعداری میں گزاریں،انسان Ú©Ùˆ اپنی حیات مستعار Ú©Û’ لمحات وساعات Ú©ÛŒ اس وقت قدر ہوگی جب وہ اس عالم سے Ú©ÙˆÚ† کررہا ہوتاہے،لیکن اس وقت کا افسوس کرنا بے فائدہ ثابت ہوگا،ارشاد الہی ہے:

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ  لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا-

ترجمہ:اور یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو وہ اس وقت کہتا ہے:اے میرے رب!مجھے دنیا میں واپس بھیج دے،تاکہ میں جس (دنیا)کو چھوڑکرآیا ہوں اس میں پھر جاکر نیک کا م کروں،ہرگز ایسا نہيں ہوگا،یہ تو اس کی ایک بات ہے جسے وہ کہتا جارہا ہے-(سورۃ المؤمنون"99/100)

طاعت الہی سے غافل رہکر جن اوقات کو لایعنی امور میں ضائع کیا جاتا ہے،جہنم میں جانے کے بعد بھی بندہ اس پر افسوس کرتاہے،سورۃ المؤمنون میں ہے:

رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ  قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ –

ترجمہ:وہ لوگ کہینگے:اے ہمارے رب!ہم کو اس جہنم سے نکال دے،اگر ہم دوبارہ (ایسا عمل)کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں،ارشاد ہوگا:ذلت ورسوائی کے ساتھ اسی جہنم میں پڑے رہواور مجھ سے بات مت کرو-(سورۃ المؤمنون:108)

اعمال کے حساب وکتاب کا معاملہ وقت ہی سے متعلق ہے ،عمر کے اوقات کے بارے میں بروزقیامت سوال کیا جائے گا۔

کنزالعمال شریف میں حدیث پاک ہے:

لا تزول قدما عبد حتى يسأل عن أربع: عن عمره فيما أفناه، وعن علمه ما فعل فيه، وعن ماله من أين اكتسبه وفيما أنفقه، وعن جسمه فيما أبلاه." ت - عن أبي برزة"

ترجمہ: انسان Ú©Û’ قدم اس وقت تک نہیں ہٹیں Ú¯Û’ جب تک کہ چار چیزوں Ú©Û’ بارے میں سوال نہ کیا جائے:اس Ú©ÛŒ عمر Ú©Û’ بارے میں کہ اسے کہاں لگایا ہے،اس Ú©Û’ علم Ú©Û’ بارے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا،اس Ú©Û’ مال Ú©Û’ بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا ہے اور کہاں خرچ کیا ہے،اس Ú©Û’ جسم Ú©Û’ بارے میں کہ اس Ú©ÛŒ توانائیوں Ú©Ùˆ کہاں خرچ کیا ہے۔  

(کنزالعمال شریف ،کتاب القیامۃ من قسم الاقوال،الباب الاول فی امورتقع قبلہا،الحساب ،حدیث نمبر: 38983)

حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ راہنما مقدس ارشادات وقت کی قدردانی کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں،غفلت وکوتاہی اورتضییع اوقات سے منع کررہے ہیں۔

وقت اپنی رفتا رکے ساتھ گزررہا ہے، ہم نے سال 2013 کے بارہ مہینے بسر کئے ،52 ہفتے گزارے،کامل ایک سال کا سفر طئے کیا، سال 2013 کا اختتام ہم سے سوال کررہا ہے کہ جس سال کوتم رخصت کررہے ہواس کے لمحات وساعات کی تم نے کیا قدردانی کی؟

لیل ونہار کی رفتاراستفسار کررہی ہے کہ گذشتہ سال کے صبح وشام تم کس حدتک احکام اسلام پرعمل پیرارہے؟

آخری دن کا آفتاب ڈوبتے ڈوبتے دریافت کررہا ہے کہ تم نے حدودشریعت کی کس حدتک پاسداری وپاسبانی کی؟

اس موقع پر ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے :

عن عمر أنه قال في خطبته: حاسبوا أنفسكم قبل أن تحاسبوا، فإنه أهون لحسابكم، وزنوا أنفسكم قبل أن توزنوا، وتزينوا للعرض الأكبر يوم {تُعْرَضُونَ لا تَخْفَى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ}-

ترجمہ:سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: تم اپنے آپ کا محاسبہ کرواس سے پہلے کہ تم سے محاسبہ کیا جائے کیونکہ وہ تمہارے حساب کے لئے آسانی کا باعث ہے اور تم اپنے نفسوں کا جائزہ لو اس سے پہلے کہ تمہارا جائزہ لیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے تیار رہوجس دن تمہیں بارگاہ رب العزت میں پیش کیا جائے گا تمہاری کوئی پوشیدہ چیزچھپی نہیں رہے گی۔

(کنزالعمال،کتاب المواعظ والرقائق والخطب والحکم من قسم الافعال،خطب عمرومواعظہ رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر: 44203- )

حدیث پاک پرعمل کرتے ہوئے ہم رخصت ہورہے سال کے شب وروزپر نظردوڑائیں،ہم نے حقوق اللہ کس حدتک اداکئے،نمازوں کی ادائیگی کا کیا معاملہ رہا،کیا ہم نے نمازیں برغبت وشوق باجماعت اداکی ہیںیاآخری وقت تک ٹالتے اورمؤخر کرتے رہے؟ کیاہم نے فریضۂ زکوۃ کیلئے صحیح طور پراموال کا حساب کیایاتنگدستوں اورناداروں کا حق لے لیا؟ کیا ہم نے رمضان المبارک کے روزوں کا تقوی وپرہیزگاری کے ساتھ اہتمام کیا ،ماہ رمضان کے ذریعہ ہم نے پرہیزگاری کے سلسلہ میں کتنی ترقی کی۔

ہم اپنے رات ودن کودیکھیں کہ حقوق العباد کی ادائیگی کس طور پرہوئی ،ہم نے والدین کی اطاعت وفرمانبداری کی یا ان کی خدمت میں تساہل برتا؟

اولاد کی تربیت کاحق اداکیا یاکوئی کسرباقی رہ گئی؟

رشتہ داروں سے حسن سلوک اور پڑوسیوں سے اچھابرتاؤقائم رکھا یا بے تعلقی وبدسلوکی نے سلسلہ منقطع کردیا؟

ملنے جلنے والوں کے ساتھ محبت ومودت کے ساتھ پیش آئے یانفرت وعداوت کی آگ بھڑکائی؟

قرابتداروں ،ہمسایوں اور دیگراحباب کے ساتھ نشست وبرخاست ،مجالست ومخالطت میں ہمارا اخلاقی معیار کتنابلندرہا؟

ہمارا محاسبہ زندگی کے ہرشعبہ اور ہرگوشہ سے متعلق ہو،نہ صرف محاسبہ بلکہ آئندہ کیلئے منصوبہ بندی کی جائے کہ سال گذشتہ جوکوتاہی اور سہل انگاری ہوئی وہ دہرائی نہیں جائیگی،حصول تعلیم کی بات ہو یاکاروباروتجارت کامعاملہ ،احکام شریعت کے مطابق مکمل نظم ونسق،انتظام وانصرام کے ساتھ کیاجائیگا۔

شخصی وانفرادی ،ملی واجتماعی،سماجی ومعاشرتی ،معاشی واقتصادی ،سیاسی ومذہبی ،ملکی وبین الاقوامی ہرجہت میں اور ہرسطح پرہمیں غورکرناچاہئے کہ ہم نے ترقی کے کتنے زینے طے کئے،پستی وزوال سے کتنا دوچار ہوئے، ترقی کی راہیں کیارہیں،پستی وزوال کے وجوہ واسباب کیاتھے۔

ہم اس سال کوخیرآباد کہتے ہوئے غورکرلیں جس شخص نے یہ بارہ مہینے اسلامی احکام پرعمل پیرارہ کرگزارے،شریعت اسلامیہ پرکاربندرہ کربسرکیا ،حدودشریعت پھلانگنے اورقانون الہی کوپائے مال کرنے کی جرأت وجسارت نہیں کی تو وہ خوش نصیب بارگاہ الہی میں شکرگزار رہے، خود اپنے لئے اور تمام عالم اسلام کیلئے اطاعت واتباع کاجذبہ لئے ہوئے ،دل کے آشیانہ میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع جلاتے ہوئے استقامت واستقلال کے ساتھ آئندہ برس وتمام عمر گزارنے کی دعاکرے۔

اور جس شخص کی حالت اس سے جداگانہ ہو،جس کا سالِ گذشتہ اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف گزراہو،اس سے کوتاہیاں سرزدہوگئی ہوں ،اسے چاہئیے کہ اپنے اعمال سیئہ پرکف افسوس ملے ،ندامت کے آنسو بہائے اوریہ محکم ارادہ کرلے کہ میں آئندہ زندگی کا ہرلمحہ اس طرح گزاروں گا جس طرح زندگی بخشنے والے کا حکم ہے ،ہرساعت حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت شعاری ووفاداری کے جذبہ سے سرشار رہونگا، ہرگھڑی دل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے شادوآبادرہے گا۔

سال نو کاآغاز یقینا اللہ کی نعمت ہے ،ایک مدت کا اختتام اور دوسری مدت کا آغاز عطاء الہی ہے ،اس انعام خداوندی اور عطاء الہی پر پیش گاہ ذوالجلال میں نذرانۂ شکر پیش کرنا چاہئے لیکن اس موقع پرباہم مبارکبادی دینا، تہنیت پیش کرنا سلف صالحین وبزرگان دین کاطریقہ نہیں رہا، ان نفوس قدسیہ نے ہمیشہ ماحول اوررسم ورواج سے بالاتر ہوکر مقاصد کوپیش نظر رکھا، دینی اغراض کو اپنا مطمح نظربنایا۔

اسلامی سال کا آغاز توخلیفۂ دوم فاروق اعظم رضی اللہ عنہ Ú©ÛŒ شہادت اورسید الشہداء امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ Ú©ÛŒ شہادت عظمی سے اوراختتام حج اورقربانی Ú©Û’ مہینہ پرہوتا ہے ،سال کا آغاز واختتام اس جانب اشارہ کررہاہے کہ اہل اسلام Ú©Û’ شب وروز،ماہ وسال خالص اللہ تعالی Ú©Û’ لئے ہونے چاہئے ،لیکن وائے برحال مسلماناں کہ مقاصد سے دور رسم  ورواج میں مبتلٰی ہوچکے ہیں اور رسم ورواج بھی ایساکہ ہماری مسلمانی کوداغدارکررہا ہے، سڑکوں پرHappy new yearÚ©Û’ الفاظ لکھنا، رقص وسروداور شراب نوشی کرنا وغیرہ وغیرہ۔

کیا انگلش زبان اللہ تعالی کی آیات ونشانیوں سے نہیں ہے؟

وَمِنْ آَيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ- (سورۃ الروم:22)

 Ú©ÛŒØ§ انگریزی الفاظ وکلمات ذریعہ تعلیم نہیں ہیں؟ کیاشریعت Ù†Û’ حروف کا اہتمام کرنے Ú©ÛŒ ہدایت نہیں دی ہے؟ کیا دین اسلام میں رقص وسرود کاکوئی جواز نکالاجاسکتا ہے؟ کیا شراب میں،جو ام الخبائث ہے، مدھوش ومجنون کردینے کااثرباقی نہیں رہا؟

پھرکیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے تقدس کوخودپائے مال کرکے اِن اخلاقی رذائل کواختیارکرچکے ہیں،ان افعال کے کرگزرنے سے ان کے لئے نہ شریعت مانع رہی اور نہ اخلاق،جب کہ قوم مسلم تووہ قوم ہے جس نے گذشتہ صدیوں میںتجارت وکاروبار، سیاست وحکومت ،اخلاق وکردار، امانت وصداقت ،تہذیب وتمدن ہر گوشۂ عمل میں دنیا کی امامت کی اور آج ہرپستی وزوال اس کے دامن سے وابستہ ہے، اس کسمپرسی کے عالم میں ہم مسلمان اگر عزت ووقار اورترقی وعروج چاہتے ہیں تواسلامی تعلیمات پرپھرسے عمل کرنے لگیں ،قرآن کریم کودوبارہ مضبوطی سے تھام لیں،سنت نبوی علی صاحبہ الصلوۃ والسلام کواپنا دستور عمل بنالیں، صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کاطریقہ اختیارکریں ،اہل بیت نبوت سے وابستگی رکھیں ،سلف صالحین واہل اللہ کے بتلائے ہوئے راستہ پر چلتے رہیں، کامیابی وکامرانی ہمارے قدم چومے گی،فتح ونصرت ہمارا مقدرہوگی۔

از:حضرت مولانا مفتی حافظ  Ø³ÛŒØ¯ ضیاء الدین نقشبندی قادری دامت برکاتہم العالیہ،شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ Ùˆ بانی ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر

www.ziaislamic.com