<div style="text-align: right;"><span style="color: rgb(0, 0, 0);"><span style="font-size: 30px;"> (سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہھ کے فضائل ومناقب ، محبت والفت ،عظمت و شجاعت، آپ کی شہادت عظمی کا تفصیلی ذکر، اورآپ سے بغض رکھنے والوں کاانجام ،<br /> حضرت محدث دکن علیہ الرحمۃ والرضوان کی دلنشیں تحریر(جس سے لاکھوں افراد انسانی نے رہنمائی پائی،زندگیوں میں انقلاب بپاہوا ،جس سے کل کے راہ بھٹکے ہوئے آج کے رہبر ہوئے) کی روشنی میں: <br /> اسم مبارک و لقب و کنیت و حلیہ شریف<br /> <br /> اگر آپ اللہ تعالیٰ کے دوستوں کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہوں تو آؤ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کے دوستوں کا سردار دکھاتا ہوں ! <br /> جن کا اسم مبارک علی (رضی اللہ عنہ) ہے۔<br /> حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام مبارک منہ کا مقصود اور زبان کی زینت ہے‘ آپ کا نام مبارک دل کو آرام دینے والا اور جان کو راحت دینے والا ہے۔<br /> <br /> آپ کا لقب امیر النحل‘ بیضۃ البلد‘ یعسوب الدین‘ حیدر کرار‘ اسد اللہ الغالب اور آپ کی کنیت ابو الحسن‘ ابو تراب ہے۔<br /> <br /> آپ کا حلیہ شریف دکھانا چاہتا ہوں تاکہ آپ تصور جمائیں تو کیا عجب ہے کہ حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی متبرک صورت نظر آجائے۔<br /> <br /> آپ لانبے قد کے نہ تھے‘ آپ کی آنکھیں بڑی اور پتلیاں سیاہ تھیں‘ آپ کا چہرۂ مبارک نہایت خوبصورت گویا چودھویں رات کا پورا چاندتھا‘ آپ کے سر پر بال کم تھے مگر داڑھی کے بال کثرت سے تھے‘ آپ کی نازک گردن دیکھنے والوں کو بالکل چاندی کی ڈھلی ہوئی صراحی معلوم ہوتی تھی۔<br /> <br /> <b>مقام ولادت: </b><br /> جب آپ کی والدۂ محترمہ کو درد زہ شروع ہوا تو ابو طالب انہیں بیت اللہ شریف کے اندر لے گئے‘ وہاں نہایت سہولت سے زچگی ہوئی‘ اس لحاظ سے آپ کا مقام ولادت اندرون کعبہ مکرمہ ہے۔ (مولود کعبه)<br /> <br /> آپ کا یوم ولادت" جمعہ"‘ تاریخ" دس"‘ ماہ رجب اور سنہ 10 عام فیل ہے۔<br /> <br /> <b>حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا</b><br /> <br /> عبداللہ بن عبداللہ‘ انس بن مالک‘ زید بن ارقم‘ سلمان فارسی اور ایک جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر متفق ہیں کہ بچوں میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے۔<br /> <br /> حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ کو مبعوث ہوئے اور میں سہ شنبہ کے دن مشرف بہ اسلام ہوا‘ صرف ایک ہی شب درمیان ہے۔<br /> <br /> <b>دوسری فصل</b><br /> <br /> <b>مناقب و فضائل</b><br /> <br /> حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ ہیں جن کی محبت ایمان کی علامت اور بغض کفر کی علامت ہے۔<br /> <br /> <b>حدیث شریف: </b><br /> ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم ‘ امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ہاتھ پکڑے اور فرمائے جو مجھ کو دوست رکھتا ہے وہ ان دونوں کو دوست رکھے اور ان دونوں کے ماں اور باپ کو دوست رکھے‘ تو کل قیامت کے روز فردوس اعلیٰ میں میرے ساتھ رہے گا۔<br /> <br /> <b>حدیث شریف: </b><br /> ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے ‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں بوسہ دیا‘ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ اس وقت حاضر تھے‘ عرض کئے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا اُن کو آپ دوست رکھتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں، چچا ! میں علی کو بہت دوست رکھتا ہوں‘ میں نہیں جانتا کہ مجھ سے زیادہ اُن کو اور کوئی دوست رکھتا ہوگا۔<br /> اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کی اولاد اُس کی پشت میں رکھا ہے مگر میری اولاد علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی پشت میں ہے-<br /> اس کے بعد آپ نے دعا فرمائی: الٰہی دوست رکھئے اُس کو جو علی کو دوست رکھتا ہے اور دشمن ہوجائے اُس کا جو علی کا دشمن ہے۔<br /> <br /> ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں‘ سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت گناہوں کو اس طرح کھاجاتی ہے جس طرح آگ ایندھن کو ۔<br /> <br /> حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ ‘ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بازار گئے‘ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کئی خربوزے خریدے‘ جب ہم سب مل کے مکان پر واپس ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک خربوز تراشے اور چکھے تو وہ کڑوا تھا‘ آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ بھائی‘ اس کو پھیر آؤ میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں۔<br /> <br /> <b>حدیث شریف: </b><br /> حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اے علی تمہاری محبت کا عہد ہر ایک آدمی اور درخت سے لیا گیا ہے، جس نے اس عہد کو قبول کیا اور تمہاری محبت کو دِل میں جگہ دی وہ شیریں اور پاک ہوا‘ اور جس نے تمہاری محبت کو قبول نہ کیا وہ خبیث و کڑوا ہوا۔<br /> اس کے بعد حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ یہ کڑوا خربوزہ اسی بیل کا ٹوٹا ہوا ہے‘ جس میں میری محبت نہ تھی۔<br /> <br /> حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہجرت کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مُبارک پر آرام فرمانا-!<br /> <br /> ہجرت سے ایک روز قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے علی! آج رات مجھے مکہ سے ہجرت کرنے کا حکم آگیا ہے‘ اے علی! اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے کہ میرے بستر پر تم لیٹ جانا تاکہ کفار تم کو دیکھ کر سمجھیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ابھی لیٹے ہوئے ہیں‘ جب تک میں دُور نکل نہ جاؤں تم میری چادر اوڑھے لیٹے رہنا –<br /> وَمَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰه ‘ و اللّٰه خَیْرُ الْمٰکِرِین –<br /> (سورۂ اٰل عمران) اور وہ (کفار) اپنا سا مکر کئے اور اللہ تعالیٰ خفیہ تدبیر فرمایا ۔ ۔ ۔ اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ۔<br /> <br /> حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت خوشی سے اس تجویز کو منظور فرمالئے‘ جب رات ہوئی اور خوب اندھیرا ہوگیا تو کفارِ مکہ تلواریں لے کر چوطرف سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کو گھیر لئے اور اطراف پھرتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت بھی باہر نکلیں آپ کو شہید کردیا جائے ۔<br /> <br /> کفار آپس میں یہ باتیں بھی کرنے لگے کہ یہ شخص (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کیسی جھوٹی باتیں کرتا ہے‘ کہتا ہے کہ اے مکہ والو! اگر تم میری اطاعت کرو گے اور مسلمان ہوجاؤ گے تو تم دنیا میں عرب و عجم کے بادشاہ ہوجاؤ گے اور آخرت میں عمدہ عمدہ باغ اور میوہ اور خوبصورت عورتیں ملیں گی‘ اگر اطاعت نہ کرو گے تو آخرت میں بھڑکتی ہوئی آگ میں جلو گے‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب باتیں سُن کر فرمایا : نادانو! یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سب سچ ہے۔<br /> <br /> آدھی رات کے وقت دوسرا حکم آگیا کہ پیارے حبیب اب اٹھئے‘ یہ سونے کا وقت نہیں‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرئیل! چاروں طرف کفار جمع ہیں‘ میں کس طرح جاسکتا ہوں‘ جبرئیل (علیہ السلام) نے عرض کیا‘ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سورۂ یاسین ابتداء سے " فَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ "تک پڑھئے‘ اُن کافروں پر لعنت کی دیوار اٹھ جائے گی۔<br /> حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں آیات شریفہ کی تلاوت فرماکر ایک مٹھی خاک پر دم کیا اور کافروں کی طرف پھینک دیا‘ وہ ایک مٹھی خاک ستر آدمیوں کے منہ‘ سر اور آنکھوں پر پڑی۔<br /> <br /> مگر عجیب طرفہ یہ تھا کہ بجائے تکلیف ہونے کے سب کو غفلت کی نیند آگئی‘ سب کے سَر سینوں پر تھے سب سورہے تھے‘ اللہ تعالیٰ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں صحیح و سلامت نکال لے گیا‘ یہ ہے : <br /> وَمَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰه ‘ و اللّٰه خَیْرُ الْمٰکِرِین –<br /> اور وہ (کفار) اپنا سا مکر کئے اور اللہ تعالیٰ خفیہ تدبیر فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔ بہرحال خاک پڑتے ہی کافر بھی سوئے اور شیطان بھی‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیر و عافیت سے چلے گئے۔<br /> <br /> آنکھوں میں ایک تنکہ یا تھوڑا سا کچرا اگر گرجائے تو سخت بے چینی اور تکلیف ہوتی ہے‘ یہاں پر کفارِ مکہ کی آنکھوں میں مٹھی بھر مٹی جھونکنے پر بھی سب کو آرام کی نیند آگئی‘ کیا یہ نہیں ہے؟ وَمَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰه ‘ و اللّٰه خَیْرُ الْمٰکِرِین –<br /> اور وہ (کفار) اپنا سا مکر کئے اور اللہ تعالیٰ خفیہ تدبیر فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔ <br /> <br /> مسلمانو! ہم کو وہ سراپا رحمت پیغمبر ملا جن کے غصہ بھرے ہاتھ سے دشمنوں پر خاک پڑتی ہے تو اس خاک سے وہ اُن کو راحت و آرام ملتا ہے‘ بھلا محبت بھرے مبارک ہاتھ مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لئے اٹھیں تو خیال کیجئے اُس کا کیا اثر ہوگا۔<br /> <br /> الغرض حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان سے تشریف لے گئے اور حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اوڑھے آپ کے بستر مبارک پر لیٹ گئے۔<br /> <br /> اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل علیہما السلام سے فرمایا ہم نے تم کو بھائی بھائی بنایا ہے‘ بتاؤ اب تم میں سے کون اپنی عمر دوسرے کو دینا چاہتا ہے‘ دونوں فرشتوں نے عرض کیا: آپ کا حکم ہوتا ہے تو ہم حاضر ہیں‘ ورنہ سب کو اپنی جان پیاری ہے‘ کسی سے دوسرے کے لئے اپنی عمر دینا نہیں ہوسکتا۔<br /> <br /> اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا: علی رضی اللہ عنہ کو دیکھو کہ اپنی جان اپنے بھائی (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نثار کرکے اُن کے بستر پر لیٹ گئے ہیں‘ تم جاؤ اور اُن کی حفاظت کرو۔<br /> <br /> دونوں فرشتے وہاں پہنچے‘ ایک سَرہانے ‘ دوسرا پائنتی کھڑے ہوکر رات بھر حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حفاظت کرتے‘ اور یہ کہتے رہے کہ واہ واہ علی تمہاری بھی کیا شان ہے‘ تمہارا ذکر اللہ تعالیٰ ملائکہ میں کررہا ہے کہ دیکھو ہمارے بندے ایسے ہوتے ہیں۔<br /> <br /> <b>تیسری فصل</b><br /> <br /> حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والوں کی سزا ! <br /> ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ قیامت قائم ہے‘ تمام مخلوق حساب دے رہی ہے‘ پُل صراط سے گزر رہی ہے ،یکایک میری نظر جو پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حوضِ کوثر کے کنارہ لوگ جمع ہیں اور حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کوثر کا پانی پلارہے ہیں‘ میں بھی سامنے آگیا اور عرض کیا: یا امام! مجھے بھی پانی دیجئے‘ مگر مجھے پانی نہیں دئیے‘ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا اور عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پیاس بے حد ہے‘ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما پانی نہیں دے رہے ہیں‘ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تجھ کو پانی کیسے ملے گا؟ اگرچہ تو محب علی (رضی اللہ عنہ) ہے‘ لیکن تیرے محلہ میں ایک دشمنِ علی ہے، جو حضرت علی ( رضی اللہ عنہ) کو گالیاں دیتا رہتا ہے اور تو اُس کو منع نہیں کرتا‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ جو حکم دیں حاضر ہوں۔ <br /> حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چاقو لے اور جا اُس کو مار ڈال‘ میں خواب میں ہی وہ چاقو لیا اور اُس شخص کو مار ڈالا‘ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا‘ اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے ارشاد ہوا تھا اس کی تعمیل کردیا ہوں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن ان کو پانی دو‘ امیر المومنین حضرت حسن رضی اللہ عنہ مجھ کو پانی دئیے‘ میں آپ کے دستِ مبارک سے پانی لیا مگر مجھے یاد نہیں کہ پیا یا نہیں‘ اس کے بعد نیند سے بیدار ہوگیا‘ دل پر ہیبت تھی‘ وضو کرکے نماز پڑھنے لگا‘ جب صبح ہوگئی اس شخص کے گھر سے رونے کی آواز آنے لگی کہ سوتے بچھونے پر اس کو کسی نے مار ڈالا۔<br /> <br /> پولیس آگئی‘ اطراف کے بے قصور پڑوسیوں کو گرفتار کرکے لے چلے‘ میں نے دل میں کہا سبحان اللہ! کیا خواب ہے ! کتنا سچا ہے‘ میں اٹھا اور حاکم اعلیٰ کے پاس گیا اور کہا کہ یہ کام تو میں نے کیا ہے اور ناحق لوگوں کو کیوں گرفتار کیا جارہا ہے اور پورا واقعہ سچ سچ کہہ دیا‘ حاکم نے کہا جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور آپ کے داماد کے ساتھ بے ادبی کرے اُس کی یہی سزا ہے۔<br /> <br /> حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن ہشام حاکم مدینہ منورہ ہر جمعہ کو ہم سب اہل بیت کو منبر کے قریب جمع کرتا اور امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان مبارک میں گستاخی کیا کرتا تھا‘ ایک جمعہ حسب معمول سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا اور میں اونگھ رہا تھا خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک شق ہوئی‘ اس میں سے سفید لباس پہنے ہوئے ایک صاحب برآمد ہوئے‘ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس حاکم کے کہنے سے تمہیں غمگین نہ ہونا چاہئے‘ آنکھ کھولو دیکھو‘ اس کے ساتھ کیا کیا گیا ہے‘ میں نے آنکھ کھولی‘ کیا دیکھتا ہوں کہ حاکم‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا کہ اچانک وہ بدبخت منبر سے گرا اور مرگیا۔<br /> <br /> ناکسے کز جام بغض مرتضیٰ یک جرعہ خورد<br /> <br /> دست ساقی فنا زہر ہلاکش می دھد<br /> <br /> حالِ اوامروز ازیں نوع است فردا روز حشر<br /> <br /> من نمی دانم کہ از خشم الٰہی چوں رہد<br /> <br /> جو نالائق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض کے پیالے سے ایک گھونٹ پیتا ہے (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے) وہ ساقی جو فنا کا پانی پلانے والا ہے اُس کو زہر دے کر ہلاک کردیتا ہے‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے کا آج یہ حال ہے ،کل قیامت میں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے کیسے بچے گا۔<br /> <br /> <b>چوتھی فصل</b><br /> <br /> سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے خارجیہ فرقہ سے جنگ کی تفصیل<br /> <br /> باوجود وعیدوں کے ایک گمراہ فرقہ خارجیوں کا بھی ہوا ہے‘ ان ظالموں کو خواہ مخواہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے عداوت ہوگئی تھی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خارجیوں کی خبر دینے کے بہت دنوں بعد یہ فرقہ بنا۔<br /> <br /> <b>حدیث شریف: </b><br /> حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز کچھ تقسیم فرمارہے تھے‘ بنی تمیم کا ایک شخص جس کا نام ذوالخویصرہ تھا‘ کہا :یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! انصاف سے بانٹئے‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس اگر میں انصاف نہ کیا تو پھر کون انصاف کرے گا‘ عرض کیا گیا: اگر حکم ہو تو اُس کی گردن اڑا دی جائے‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک ایسا وقت آئے گا کہ اُس کے ساتھ اُس کے ایسے دوست بھی جمع ہوجائیں گے کہ تم اپنی نماز اور روزہ کو اُن کی نماز اور روزہ کے سامنے حقیر جانو گے‘ یہ لوگ قرآن تو پڑھیں گے مگر قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا‘ وہ اسلام سے ایسے نکلے ہوئے ہوں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتی ہے۔ اُن کا افسر ایک ایسا شخص ہوگا جس کا رنگ سیاہ اور اُس کا ایک بازو عورتوں کی طرح پستان کے مانند ہوگا اور اُس پر چند بال بھی ہوں گے جس طرح گھونس کے دُم پر بال ہوتے ہیں اور وہ دنیا کے بہترین فرقہ سے مقابلہ کرے گا۔<br /> <br /> خارجی فرقہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جنگ<br /> <br /> سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ مبارک میں یہ فرقہ پیدا ہوا اور آپ سے مخالفت شروع کیا‘ بالآخر جب نوبت جنگ تک پہنچی تو سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیج کر بہت تفہیم کرائے‘ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے وہ فرقہ راضی نہ ہوا تو خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اُن کے پاس پہنچ کر فرمائے کہ کم از کم اتنا تو کرو کہ تم مجھ سے جنگ نہ کرو‘ میں بھی تم سے جنگ نہیں کروں گا‘ مگر ظالموں نے اس خوش اخلاقی کی کچھ بھی قدرنہ کی، ورنہ ایک بادشاہ وقت کو اتنی نرمی کیا ضرورت تھی؟ <br /> الغرض ان لوگوں نے جنگ کی تیاری شروع کردی اور یہ ارادہ کرلئے کہ سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ جب کسی دوسری جنگ میں مصروف رہیں تو اس وقت کوفہ پر حملہ کرکے کوفہ لوٹ لیں‘ اب تو مجبوراً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی فوجیں لے کر چلنا پڑا‘ اس پر بھی آپ نے دوبارہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بھیج کر فہمایش کئے‘ کچھ تو توبہ کئے‘ ماباقی جنگ کے لئے آمادہ ہوگئے‘ آمادہ جنگ ہونے والوں کے لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ فوجیں لئے ہوئے نہروان کی طرف بڑھے۔<br /> <br /> راہ میں ایک عبادت خانہ تھا‘ وہاں کے پجاری نے کہا: اے مسلمانوں کے امیر! ٹھیرو‘ لشکر کو آگے مت بڑھاؤ‘ اس وقت مسلمانوں کا ستارا گِرا ہوا ہے جب یہ ستارا عروج پر آئے اس وقت جنگ کرنا۔<br /> <br /> حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمائے کہ تم کو آسمانی علم کا دعویٰ ہے‘ اچھا بتلاؤ فلاں ستارہ کے سیر کی کیا کیفیت ہے‘ اس پجاری نے کہا میں نے تو آج تک ایسا نام بھی نہیں سنا‘ اس کے بعد حضرت نے اور چند سوالات فرمائے‘ کسی کا بھی جواب نہ دے سکا‘ حضرت نے فرمایا کہ تم کو علمِ آسمانی کی پوری خبر نہیں ہے۔<br /> <br /> اچھا زمین کی چیزوں کے متعلق پوچھتا ہوں‘ بتلاؤ تمہارے قدم کے نیچے کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں معلوم‘ آپ نے فرمایا: ایک برتن ہے ‘ اس میں اس سکہ کی اتنی اشرفیاں ہیں‘ اُس نے کہا: آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ آپ نے فرمایا: اس جنگ میں جو کچھ ہونے والا ہے‘ اُس کی خبر‘ غیب کی خبریں بتانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں۔<br /> <br /> جس طرح تمہارے واقعہ کی خبر دئیے ہیں‘ اسی طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماچکے ہیں کہ میرے لشکر کے صرف دس شخص شہید ہوں گے اور خارجیوں کے لشکر کے سب مارے جائیں گے صرف دس ہی بچیں گے۔<br /> <br /> اس پجاری کے قدم کے نیچے کھودا گیا تو واقعی ایک برتن میں اسی سکہ کی اتنی ہی اشرفیاں نکلیں‘ جتنے آپ فرمائے تھے‘ وہ مسلمان ہوگیا۔<br /> <br /> جندب بن عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کبھی شک نہیں ہوا‘ میں ہمیشہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حق پر سمھجتا رہا لیکن خارجیوں کے مقابلہ کے وقت مجھے شک ہونے لگا تھا کہ آپ اس مقابلہ میں حق پر ہیں یا نہیں‘ کیوں کہ خارجیوں کی صورتیں نہایت مقدس تھیں اور وہ زاہد اور نیک لوگ معلوم ہوتے تھے‘ ایک روز ایک سوار آیا اور کہا کہ امیر المومنین‘ مخالفین نہروان سے آگے بڑھ گئے‘ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمائے ’’کَلَّا‘‘ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ابھی یہ باتیں ہورہی تھیں کہ دوسرا سوار دوڑے ہوئے آیا اور کہا کہ مخالفین نہروان سے آگے بڑھ گئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمائے نہیں بڑھے۔<br /> سوار نے کہا واللہ میں اُن کو بڑھتے ہوئے دیکھ آیا ہوں‘ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمائے واللہ نہیں بڑھے‘ اُن کے قتل کی جگہ تو وہی ہے اُس سے آگے کیسے بڑھ جائیں گے۔<br /> <br /> جندب کہتے ہیں میں نے دل میں کہا: اب مجھے موقع ہاتھ آیا ہے کہ آزماؤں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے رائے سے کہتے ہیں یا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی خبر ہے‘ اور دل میں یہ عہد کیا کہ اگر مخالفین نہروان سے بڑھ گئے ہیں تو پہلا شخص میں ہوگا جو سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کروں گا اور اگر نہیں بڑھے ہیں تو پہلا شخص میں ہی ہوں گا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دشمنوں پر حملہ کروں گا۔<br /> <br /> جب ہم وہاں پہنچے تو ویسا ہی پایا جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا‘ مخالفین کا ایک سپاہی بھی نہروان سے آگے نہیں بڑھا تھا‘ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ میرا شانہ ہلاکر فرمائے: جندب اب تو ہمارا حق پر ہونا تم کو معلوم ہوا‘ میں نے کہا: بے شک امیر المؤمنین آپ حق پر ہیں۔ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔<br /> <br /> صبح ظفر از مشرق انور برآمد<br /> <br /> اصحاب غرض را شب سودا بسر آمد<br /> <br /> فتح مندی کی صبح نورانی مشرق سے نکلی<br /> <br /> حاجتمندوں کے لئے اندھیری رات آخر ہوئی<br /> <br /> الغرض حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو فتح ہوئی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد بھی پورا ہوا اور حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف کے صرف دس شخص شہید ہوئے باقی سب سلامت رہے اور مخالفین کے سب مارے گئے‘ صرف دس اشخاص نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔<br /> <br /> سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ذوالثدیہ (یہ وہی شخص ہے جس کا ذکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی میں اوپر آچکا ہے) کو ڈھونڈو‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ اس جنگ میں وہ مارا جائے گا‘ بہت کچھ ڈھونڈا گیا مگر وہ نہ ملا‘ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا‘ نہ مجھ سے جھوٹ کہا گیا ہے‘ اس جنگ میں اُس کا مارا جانا ضروری ہے‘ پھر ڈھونڈو‘ دوبارہ ڈھونڈا گیا تو وہ چالیس مُردوں کے نیچے دَبا ہوا ملا‘ سب نے دیکھ لیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنا تھا‘ وہ سب کچھ سچ ہوا۔<br /> <br /> سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فتح کی خبر کوفہ تک کون پہنچائے گا۔ ابن ملجم نے کہا امیر المومنین میں پہنچاتا ہوں‘ حضرت نے فرمایا جاؤ تم اپنا کام کرو۔<br /> <br /> فتح کی خوشی میں ہر ایک نے کچھ نہ کچھ تحفہ پیش کیا‘ ابن ملجم نے بھی ایک قیمتی تلوار پیش کی‘ سیدنا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اُس سے منہ پھیرلئے اور اُس کا قیمتی تحفہ قبول نہ فرمائے‘ ابن ملجم نے تنہائی میں کہا: امیر المؤمنین سب کے تحفے قبول فرمائے‘ میرا تحفہ کیوں قبول نہ ہوا؟ حالانکہ میں نے وہ تلوار پیش کی تھی جس کی عرب میں نظیر نہیں۔<br /> <br /> حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمائے میں تجھ سے یہ تلوار کیسے لوں جبکہ اسی تلوار سے تو اپنا مقصد مجھ سے حاصل کرنے والا ہے۔<br /> <br /> یہ سنتے ہی ابن ملجم زمین پر گرکر تڑپنے لگا اور عجز و انکساری سے عرض کیا: یا امیر المومنین! آپ میری نسبت ایسا خیال نہ فرمائیں‘ میں آپ کے عشق میں وطن اور گھر دار چھوڑ کر آپ کے قدموں میں پڑا ہوا ہوں۔<br /> <br /> سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہونے والی بات ہے، کیا، کیا جائے؟ <br /> ابن ملجم نے کہا: امیر المومنین آپ کے سامنے کھڑا ہوں‘ میرے دونوں ہاتھ کاٹنے کا حکم دیجئے‘ سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابھی کوئی ایسی بات ہوئی ہی نہیں‘ میں کیسے قصاص کا حکم دوں ۔ ۔ مگر مخبر صادق (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جو خبر دی ہے وہ سچ ہونے والی ہے۔<br /> <br /> حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوفہ میں تشریف آوری اور خطبہ! <br /> <br /> حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فتح اور نصرت کے ساتھ کوفہ میں داخل ہوکر بہت بلیغ خطبہ دیا‘ منبر کے سیدھے طرف حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ تھے، اُن سے فرمایا: بیٹا ! اس مہینہ میں کتنے دن گزرے؟ <br /> شاہزادہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: امیر المؤمنین: ماہ رمضان المبارک کے تیرہ دن گزرچکے ہیں-<br /> بائیں طرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تھے‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُن سے بھی فرمایا: بیٹا! اس مہینے کے کتنے دن باقی ہیں؟ <br /> صاحبزادہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: امیر المؤمنین: رمضان المبارک کے سترہ دن باقی ہیں۔<br /> <br /> حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے داڑھی مبارک پر ہاتھ پھیر کر فرمایا: اس ماہ میں میری داڑھی کو میرے سر کے خون سے رنگین ہونا ہے‘ اس کے بعد آپ اس قدر روئے کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی‘ تمام مجلس بھی رونے لگی‘ پھر فرمایا لوگو! تم سمجھتے ہوں گے کہ میں موت سے ڈرتا ہوں‘ نہیں نہیں ۔ ۔ ۔ میں تو ہمیشہ موت کا آرزومند رہا ہوں‘ اکثر شہادت کا انتظار رہتا ہے۔<br /> <br /> مرگ مارا زندگی دیگر است<br /> <br /> زہر مرگ از شہد شیریں خوشتراست<br /> <br /> ہماری موت سے ایک دوسری زندگی شروع ہوتی ہے<br /> <br /> موت کا زہر شہد سے زیادہ شیریں و بامزہ ہے<br /> <br /> (اس شعر میں شہداء کی حیات کی طرف اشارہ ہے)<br /> <br /> مرگ ساز و مغز را صافی زپوست<br /> <br /> تارساند دوست را نزدیک دوست<br /> <br /> موت سے چھلکہ نکل جاتا ہے صرف مغز ہی مغز باقی رہتا ہے<br /> <br /> اس لئے کہ موت دوست کو دوست کے پاس پہنچادیتی ہے<br /> <br /> اس کے بعد حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: <br /> <br /> صاحبو! کیا آپ کو میرے رونے کی وجہ معلوم ہے؟<br /> میں اپنے مظلوم جگر گوشہ حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) کے لئے روتا ہوں‘ یہ ایک تو مسافرت میں ہیں‘ اب عنقریب ان پر یتیمی بھی آنے والی ہے۔<br /> <br /> اے حاضرو! غائبوں کو پہونچاؤ کہ جب میرے بچوں کے شہید ہونے کی خبر پہنچے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندوں کے شہید ہونے کی خبر پہنچے تو روؤ ‘ تمہارا رونا اللہ تعالیٰ کے غضب کو کم کرے گا۔<br /> <br /> آج ان شہیدوں کے لئے جو غمگین ہوگا کل اُس کو اندازہ سے زیادہ خوشی حاصل ہوگی-<br /> اے عزیزو! حضرت حسن (رضی اللہ عنہ) کی حالت کو یاد کرو‘ اُن کے لب شیریں دشمن کے زہر سے سبز ہوگئے ہیں-<br /> حسین بن علی (رضی اللہ عنہما) کے شہید ہونے کو سونچو! <br /> ان کے غمزدہ پاک اولاد کے غم کو سونچو! پھر حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کی حالت کو سونچو‘ ان کے تشنہ لبی اور خستہ جگری اور زخمی تن اور غم و رنج سے بھرے ہوئے دل کو سونچو‘ ان کے خوبصورت چہرۂ مبارک کو خاک و خون میں پڑا ہوا سونچو۔<br /> <br /> قیام کوفہ کے زمانہ میں ایک رات حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے گھر میں افطار فرماتے‘ ایک رات حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے گھر میں، تین یا چار لقمہ سے زائد تناول نہ فرماتے۔<br /> <br /> لوگ عرض کرتے بھی کہ امیر المؤمنین: کچھ زیادہ کھائیے‘ تو فرماتے مجھے اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے‘ میں زیادہ کھانے کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ملنا نہیں چاہتا۔<br /> <br /> ایک روز حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا گیا: امیر المؤمنین! اپنے ساتھ محافظ رکھئے‘ ابن ملجم تلوار لئے آپ کے پیچھے پھرا کرتا ہے‘ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ فرمائے: ہر آدمی کے ساتھ دو محافظ فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں‘ جو اُس شخص کی حفاظت کرتے رہتے ہیں‘ جب اُس کی موت کا وقت آجاتا ہے تو وہ فرشتے ہٹ جاتے ہیں‘ انسان کے زندگی کی ایک حد ہے‘ وہ اُس کے لئے ایک مضبوط قلعہ ہے‘ وقت سے پہلے کوئی کسی کو مار نہیں سکتا۔<br /> <br /> جب 19! رمضان المبارک کی رات آئی تمام رات عبادت میں مشغول رہے‘ بالکل نہیں سوئے‘ بار بار صحن میں آتے‘ آسمان کو دیکھتے اور فرماتے صدق رسول اللہ ۔ ۔ ۔ واللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ نہیں فرمائے ہیں‘ پھر میرے قاتل کو میرے مارنے سے کو ن سی چیز روک رہی ہے۔<br /> <br /> جب آپ کے مسجد جانے کا وقت قریب آیا تو آپ نے تازہ وضو کرکے باہر جانے کا ارادہ فرمایا‘ گھر میں جو قاز تھے وہ سامنے آئے اور آپ کا دامن مبارک پکڑنے لگے اور آپ کو چھوڑتے نہ تھے کہ آپ باہر تشریف لے جائیں‘ صاحبزادوں نے چاہا کہ اُن کو علیحدہ کریں‘ آپ نے فرمایا اُن کو مت روکو یہ میری جدائی میں رورہے ہیں۔<br /> <br /> حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ یہ کیا فرماتے ہیں؟ ہمارے دل ٹکڑے ہورہے ہیں‘ حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ میں اس مہینے میں شہید ہونے والا ہوں‘ پھر ایک ایک صاحبزادے اور صاحبزادیوں کو گلے لگالگا کر رخصت کرنے لگے۔<br /> <br /> دَرو دِیوار سے" الفراق الفراق" کی صدا آرہی تھی‘ سب کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرمارہے تھے کہ<br /> <br /> اسباب باندھ رہا ہوں اور سب سے دل اٹھالیا ہوں‘ پرانے محبت کرنے والوں کو چھوڑ رہا ہوں‘ وقت آگیا ہے کہ سارے غموں سے چھوٹ چاؤں‘ دنیا کی خوشی اور غمی پر لات مار دوں‘ کب تک کمینوں کی دل دکھانے والی باتیں سنیں‘ کب تک اُن کے اور اُن کے مصیبت ڈھانے والے حرکات کی برداشت کریں‘ جنت کے محل ہمارے لئے آراستہ ہورہے ہیں‘ ہم اس دنیا کے قید خانہ میں بڑی محنت سے زندگی بسر کئے ہیں۔<br /> <br /> حضرت علی رضی اللہ عنہ نمازِ فجر کے لئے مسجد تشریف لے گئے‘ مسجد میں پہنچ کر اذاں دئے‘ ابن ملجم مع دو ساتھیوں کے قسطام کے گھر میں شراب پی کر مست پڑا تھا‘ قسطام نے اُس کو جگایا اور کہا کہ اگر میرا وصال چاہتا ہے تو اس وقت کو غنیمت جان کہ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں اکیلے ہیں پھر مسلمان جمع ہوجائیں گے‘ موقع ہاتھ سے جاتا رہے گا‘ ابن ملجم زہر آلود تلوار لیا ہوا اُٹھا اور مع ساتھیوں کے مسجد کے اندر آیا۔<br /> <br /> حضرت علی رضی اللہ عنہ اذان کے بعد مسجد میں تشریف لاکر نماز شروع کئے‘ پہلے سجدہ سے اٹھے تھے کہ ابن ملجم شقی نے تلوار چلائی‘ اتفاق سے تلوار سر مبارک میں اس جگہ لگی جہاں جنگ خندق میں زخم آیا تھا‘ ہڈی توڑتے ہوئے سر مبارک کے نیچے تک پہنچ گئی۔<br /> <br /> حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تلوار کا سخت اور مہلک زخم کھاتے ہی نعرہ مارا ’’فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘ اللہ (کعبہ کے رب) کی قسم میں اپنی مُراد کو پہنچا اور کامیاب ہوگیا۔<br /> <br /> اللہ اللہ وہ کیسے لوگ تھے ! جو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جان دینا اپنے مراد کو پہنچنا سمجھتے تھے‘ تلوار کی چوٹ پیشانی پر کھاکر خوشی کا نعرہ مارتے تھے‘ مرجانے کو زندہ ہونا سمجھتے تھے‘ کیسے مبارک لوگ تھے ۔ ۔ ۔ اور وہ کیسا ناپکار (بدبخت) تھا جو ایک عورت کی ناپاک جگہ کے لئے اپنے بزرگوں کو شہید کرکے خوش ہورہا تھا-<br /> یہ اور وہ ایک ہی جگہ کے رہنے والے‘ ایک اللہ تعالیٰ کا دوست تو دوسرا شیطان لعین کا دوست۔<br /> <br /> <b>چھٹی فصل</b><br /> <br /> شہادت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ<br /> <br /> جراح نے جب زخم دیکھا تو اپنے سر سے عمامہ اٹھاکر پھینکا‘ کپڑے پھاڑنے لگا اور کہا : ہائے کیا کروں تلوار زہر میں بجھائی گئی ہے‘ اس کا نہ کوئی علاج ہے نہ مرہم۔<br /> <br /> سب میں واویلا تھا کہ <br /> ہائے ایسا مقتدا چلا‘ افسوس ایسا پیشوا چلا‘ ہائے ایسا عالم‘ ہائے ایسا حاکم عادل چلا‘ ہائے ایسا امیر‘ ایسا امام‘ ہائے ایسا شریعت کا مشیر‘ ہائے ایسا ملک کا انتظام کرنے والا چلا۔<br /> <br /> صبح کا اجالا ہورہا تھا‘ آپ نے فرمایا مجھ کو مشرق کی طرف پھیردو۔ اس کے بعد فرمانے لگے: اے صبح صادق تجھ کو قسم ہے اس اللہ کی جس کے حکم سے تو نکلتی ہے‘ کل قیامت میں گواہی دینا کہ جب سے کہ میں نے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے آج تک کبھی تو نے مجھ کو سویا ہوا نہیں پایا‘ تیرے نکلنے کے پہلے میں ہوشیار ہوگیا ہوں ۔ ۔ ۔ پھر سجدہ کئے اور فرمائے: الٰہی ! کل قیامت میں جب کہ ہزارہا پیغمبر حاضر ہوں گے‘ ملائکہ‘ صدیق‘ شہداء آپ کے عرش عظیم کو دیکھ رہے ہوں گے اس وقت آپ گواہی دینا کہ جب سے میں نے آپ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا ہے کبھی اُن کا خلاف نہیں کیا‘ لوگوں نے عرض کیا :یا امیر المؤمنین! آپ کے ساتھ یہ معاملہ کس نے کیا؟ آپ نے فرمایا‘ ٹھیرو وہ ابھی آتا ہے۔<br /> <br /> ابن ملجم یہاں سے بھاگ کر اپنے چچازاد بھائی کے گھر گیا‘ ہتھیار اُتار رہا تھا کہ اس کے چچیرے بھائی نے پوچھا تو پریشان کیوں ہے؟ کیا تو نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ہے؟ لا (نہیں) کہنا چاہتا تھا نعم (ہاں) زبان سے نکلا۔<br /> ابن ملجم کا بھائی ابن ملجم کو گریباں پکڑ کر کھینچتے ہوئے مسجد میں لایا‘ آپ نے اس کو دیکھ کر فرمایا: ابن ملجم میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا، جو بے وجہ تو نے میرے بچوں کو یتیم کردیا؟<br /> اُس نے کہا: کیا کروں‘ امیر المؤمنین ! جو ہونا تھا ہوا‘ حضرت نے فرمایا: اُس کو قید رکھو‘ لوگو! یہ <br /> ہمارا مہمان ہے اس کے لئے نرم بچھونا بچھاؤ‘ اچھا مزیدار کھانا کھلاؤ‘ ٹھنڈا پانی پلاؤ۔<br /> <br /> صاحبو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی یہ کیا تعمیل تھی کہ جان جاتی ہے جائے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی آن نہ جائے۔<br /> <br /> زخم سے زیادہ خون بہنے سے ضعف ہوگیا‘ پیاس بہت ہونے لگی‘ شربت بناکر حاضر کیا گیا‘ آپ نے فرمایا: پہلے میرے قاتل مہمان کو شربت پلاؤ‘ میں بعد میں پیوں گا‘ جب وہ شربت ابن ملجم کے پاس لے گئے‘ اُس نے کہا کہ مجھے معلوم ہے میرے لئے اس میں زہر ملایا گیا ہے‘ میں نہیں پیتا۔<br /> حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سن کرروئے اور فرمائے: کمبخت تو بڑا بدنصیب ہے‘ اللہ کی قسم اگر آج تو میرے کہنے سے یہ میرا شربت پی لیتا تو کل قیامت میں حوض کوثر پر میں نہیں پیتا جب تک تجھے پہلے نہ پلاتا‘ مگر میں کیا کروں تو میرے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتا۔<br /> <br /> مسلمانو! حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اخلاق کو غور سے پڑھو کہ آپ دشمن کے ساتھ بھی کس طرح اخلاق کا برتاؤ فرمارہے ہیں۔<br /> <br /> <b>وصال:</b><br /> ماہ رمضان المبارک کی 20 تاریخ تھی‘ آپ کی حالت زیادہ نازک ہوگئی‘ غشی آئی تو آپ کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا رونے لگیں‘ صاحبزادی کی آواز سن کر آپ نے فرمایا: بیٹی خاموش رہو‘ اس وقت میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں‘ اگر تم دیکھ لو تو ہرگز رونے کا نام نہ لوگی۔<br /> <br /> عرض کیا گیا: حضور! اس وقت آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ <br /> آپ نے فرمایا: بہت بڑی جماعت فرشتوں کی ہے‘ اُن کے ساتھ تمام نبیوں کا قافلہ ہے‘ سب سے آگے قافلہ سالار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘ مجھ سے فرماتے ہیں علی! خوش ہوجاؤ‘ اب تم بڑے چین و آرام میں بلائے جاتے ہو۔<br /> اس کے بعد آپ نے کچھ وصیت فرمائی‘ منجملہ اُن کے ایک یہ بھی تھی کہ ہمارا قاتل ایک وار چلایا ہے‘ اس لئے اس پر بھی قصاص میں ایک ہی وار چلانا‘ اور کچھ مشک نکال کردئے اور فرمائے‘ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ مبارک کو اس مشک میں بسایا گیا تھا‘ تھوڑی سی بچی ہوئی بطور تبرک میں نے آج کے لئے رکھ لی تھی‘ مجھے کفن دینے کے بعد میرے بدن پر مل دینا‘ پھر آپ نے فرمایا گھر والو! اب ہم جاتے ہیں السلام علیکم اور حجرہ کا دروازہ بند کروائے‘ تھوڑی دیر کے بعد اندر سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے کی آواز آئی۔<br /> <br /> شاہزادے بے چین ہوکر دروازہ کھولے جب حجرہ میں آئے دیکھے کہ سیدنا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ‘ اللہ تعالیٰ کی رحمت میں تشریف لے گئے۔<br /> <br /> آہ فعاں کہ راحت دل و آرام جان برفت<br /> <br /> شاہ زماں و قدوۂ خلق جہاں ہرفت<br /> <br /> غم شد محیط مرکز عالم زبرطرف<br /> <br /> کان مرکز محیط کرم زمیاں برفت<br /> <br /> آہ افسوس کہ دل کی راحت جان کا آرام چلا گیا<br /> <br /> کیا کہوں کہ شاہ زماں اور تمام جہاں کے قطب چلے گئے<br /> <br /> ہر طرف تمام عالم کو غم نے گھیر لیا<br /> <br /> اس لئے جو سراپا کرم ہی کرم تھے ہمارے پاس سے چلے گئے<br /> <br /> غیب سے آواز آئی سب باہر چلے جاؤ‘ اللہ کے دوست کو اللہ کے پاس چھوڑ جاؤ‘ پھر آواز آئی‘ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے‘ اُن کے داماد شہید ہوگئے‘ اب اس اُمت کی نگہبانی کون کرے گا؟<br /> <br /> غیب ہی سے اس کا جواب ملا‘ جو اُن کی خصلت پر ہوگا اور جو اُن کی پیروی کرے گا‘ تھوڑی دیر بعد جب دروازہ کھلا تو دیکھے کہ آپ غسل دئیے ہوئے اور کفن پہنائے ہوئے رکھے ہیں‘ نماز پڑھائی گئی دفن ہوگیا۔<br /> <br /> <b>تعزیت: </b><br /> <br /> جوق دَر جوق لوگ آکر ملتے اور پوچھتے شاہ زادہ آپ نے امیر المؤمنین کو کیا کیا‘ امام المتقین کو کہاں چھوڑا‘ صاحب ذوالفقار کہاں ہیں‘ شاہ دلدل (گھوڑے کا نام) سوار کہاں ہیں‘ ہمارا دیس اجڑ گیا‘ ہمارا بادشاہ کہاں ہے۔<br /> <br /> جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائے:<br /> <br /> عَلِیُّ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْہُ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ۔ <br /> علی مجھ سے ہیں میں علی سے ہوں۔ علی تمہارا میرے سے ایسا ہی تعلق ہے جیسا ہارون کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا<br /> -<br /> ہائے ! آج علم و حلم دفن ہوگیا‘ ہائے ایسا عبادت گذار چھپ گیا‘ ہائے کیا کیا باتیں یاد کریں‘ تواضع کو سونچیں‘ بہادری کا خیال کریں‘ کیا دنیا اب ایسا زاہد اور تارکِ دنیا دکھاسکتی ہے؟۔<br /> <br /> کرامتوں کو کوئی کہاں تک بیان کرے اور خیبر کا اکھیڑنا قیامت تک یاد رہے گا‘ ہائے یہ ساری خوبیاں زمین کے نیچے چھپ گئیں‘ اب ترسؤ گے علی (رضی اللہ عنہ) کی پیاری صورت نظر نہیں آئے گی‘ ذرا حضرت حسن حضرت حسین (رضی اللہ عنہما) کے اترے ہوئے اُداس چہروں کو دیکھو‘ نانا کا غم کیا کم تھا‘ ماں کی جدائی کیا کم تھی‘ اب تو باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا‘ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سہارا نہیں۔<br /> <br /> <b>نیکوں کے ساتھ برائی کا انجام</b><br /> <br /> اللہ کے دوستوں کا جہاں خون گرتا عجب رنگ لاتا ہے، وہاں کے آدمی کیا‘ زمین تک برباد ہوجاتی ہے‘ بنی اسرائیل کو پیغمبروں کے قتل کرنے کا کیا نتیجہ ملا؟ کوئی قوم اس سے بڑھ کر ذلیل نہیں۔<br /> <br /> اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت نے کفار مکہ پر ایسا غضب ڈھایا کہ مکہ میں نام کا کوئی کافر نہ رہا-<br /> حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے بنی امیہ کی سلطنت کا ستیاناس کردیا‘ دو دیڑھ برس کے اندر نہ یزید رہا نہ یزید کی قوم۔<br /> <br /> صاحبو! دیکھئے کہ پروانہ کے خون ناحق نے شمع کے ساتھ کیا کیا‘ شمع کو اتنی مہلت نہ دی کہ رات گذار کر صبح کرسکے‘ ابن ملجم شقی قصاص میں مار دیا گیا‘ ہائے کہاں ہے قسطام؟<br /> نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم<br /> <br /> نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے ہوئے<br /> <br /> دنیا یوں گئی‘ آخرت کا یہ حال کہ جو شخص کسی کافر کو ناحق مارے تو وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھنے گا اگرچیکہ جنت کی خوشبو (40) چالیس برس دوری راہ سے محسوس ہوتی ہے-<br /> کافروں کے قتل کا یہ عذاب ہے تو سردار اولیاء حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے شہید کرنے کا کیا عذاب ہوگا۔<br /> <br /> افسوس اس بدنصیب قوم پر جن کی تلواریں دنیا کے متبرک خون میں رنگین ہوئیں‘ افسوس اس قوم شقی پر جنہوں نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آستانہ رحمت کے سامنے شہید کیا‘ ان بدنصیب قاتلوں کو جو عذاب نہ ہو وہ کم ہے۔<br /> <br /> شہادت نامہ ،از صفوۃ المحدثین ، خاتمۃ المحقیقن سیدنا ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری رحمۃ اللہ علیہ</span></span><span style="color: rgb(0, 0, 0);"><span style="font-size: 30px;">۔</span></span></div>