Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

حضرت جمال البحر قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ


�حضرت جمال البحر قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ

حضرت سید شاہ جمال الدین ،المخاطب: سید شاہ حضرت جمال البحرقادری المعروف جمال بہار قدس سرہالعزیز۔
آپ کا مزار مبارک قصبۂ بھونگیر میں واقع ہے ۔
آپ حضرت محبوب سبحانی غوث صمدانی شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی چھٹی پشت میں پوتے ہوتے ہیں
ولادت شریف:
آپ کی ولادت شریف �ایک روایت کے مطابق 873ھ اور ایک روایت کے مطابق878ھ میں �بمقام بغداد شریف ہوئی ۔آپ نجیب الطرفین،حسنی حسینی سادات سے ہیں۔
نسبت:۔
���� �آپ سلسلہۂ عالیہ قادریہ سے نسبت رکھتے ہیں، بعض حضرات آپ �کوچشتی بتاتے ہیں، ممکن ہے ،یہ بھی صحیح ہولیکن یہ حقیقت ناقابل انکار ہے کہ قادریہ رنگ آپ پربہت غالب رہا۔
برادران طریقت :۔
���� حضرت سید شاہ جلال الدین المخاطب بہ جلال البحر قادری معشوق ربانی(ثانی)رحمۃ اللہ تعالی علیہ �جن کا مزارمبارک موضع عرس، تعلقہ ورنگل میں واقع ہے اور حضرت سید حسین بغداد ی المخاطب بہ جمال البر رحمۃ اللہ تعالی علیہ جن کا گنبد شریف، لنگر حوض، قلعہ گولکنڈہ حیدرآباد کے قریب واقع ہے، یہ ہر دو اصحاب آپ کے ساتھی اور برادران طریقت ہیں ۔
�حضرت جمال البحر رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت جلال البحر معشوق ربانی (ثانی) �اور حضرت جمال البر رحمۃ اللہ علیہ تینوں اولیاء کرام �(برادران طریقت ) قطب شاہی دور سے قبل �بغداد شریف سے مامور ہوکر سرزمین دکن کو اپنے قدوم فیض لزوم سے منور فرمائے ۔
بھونگیر کو تشریف آوری :۔
مروی ہے کہ حضرت جمال البحر رحمۃ اللہ تعالی علیہ "رائےپرتاب(جو ورنگل کا راجہ تھا )کی حکومت ختم ہونے کے بعد"894ھ میں بھونگیر تشریف لائے، اس وقت آپ� کی عمر شریف(16)سال ،اور ایک �روایت کے مطابق (21) سال تھی ۔
آپ سلطان محمود بہمنی کے دور میں یہاں تشریف لائے اور اور سلطان محمد قلی قطب شاہ (بانی سلطنت قطب شاہ گولکنڈہ)کے دور میں آپ کا وصال ہوا۔
�آپ کے آمد کی خبر پاتے ہی اولاً قاضی ابراہیم صاحب جو اس وقت منصب قضاء ت بھونگیر پر فائز تھے حضرت کے استقبال کو آگے بڑھے اور بصداحترام آپ کو اپنے گھر لے آئے ،حضرت ممدوح نے قاضی صاحب� موصوف کی التجاپر ان کے گھر قیام فرمایا اور قاضی صاحب صبح وشام عقیدت وتعظیم کے ساتھ آپ کی خدمت بجالاتے رہے ۔
ایک دفعہ قاضی صاحب نے بکمال ادب، حضرت سے سرکے بل تشریف لانے کی وجہ دریافت کی تو �ارشاد فرمایا کہ اس سرزمین میں بہت سے اولیاء اللہ مدفون ہیں، اس لئے ان کا ادب ملحوظ تھا ۔
انتخاب مقام سکونت : ۔
���� کچھ دنوں بعد حضرت جمال البحر رحمۃ اللہ تعالی علیہ �نے اپنے قیام کے لئے دوسرا مقام منتخب فرمایا، قاضی ابراہیم صاحب قاضی وقت، نے حضرت کے پسندیدہ مقام پر مکان تعمیر کروایا اور مکان کے مشرقی جانب ایک خانہ باغ بھی تیار کراکے حضرت کے ساتھ خودبھی تبدیل مقام فرمایا �اور دست مبارک پر بیعت کرکے آٹھوں پہر حضرت کی خدمت میں رہنے لگے، اس تعمیر کردہ مکان کا ایک حجرہ اپنی عبادت وریاضت کے لئے انتخاب فرما کے، حضرت ذکر واشغال اور یاد الہی میں مصروف رہا کرتے تھے ۔
�
دیگرحالات وکیفیات :۔
حضرت کے بے پایاں فیوض وبرکات ، بکثر ت کرامات وتصرفات ،حددرجہ عبادت وریاضت، لاثانی زہدوتقوی اور �بے پناہ علمیت وقابلیت کے باعث مسلمانا ن بھونگیر آپ کے معتقداور گرویدہ رہا کرتے تھے، �نہ صرف مسلمانا ن بھونگیرپروانہ وار آپ پر نثار رہتے بلکہ دور دور سے لوگ آتے اور شمع جمال �پُرانوار سے اپنے قلوب کو منور کیا کرتے تھے۔
اکثر اہل خدمات شرعیہ(مذہبی رہنما) کی جو بصد عقیدت بغرض مشورہ آیا کرتے تھے آپ کے پاس محفل جمی رہتی یعنی اہل خدمات شرعیہ آپ سے درس حاصل کرتے اور آپ کی صحبت بابرکت سے فیضیاب ہوتے تھے۔
�یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اہل خدمات شرعیہ(دینی خدمت پر مامور لوگ) آپ کے منتخبہ حضرات ہوتے تھے، آپ جب فیض بخش بھونگیر ہوئے تو اکثر ساکنان بھونگیر کفروضلالت،گمراہی والحاد کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے مگر آپ کا تبلیغی درس وتدریس، مصلحانہ پندونصائح ،عالمانہ مواعظ حسنہ، آپ کے کریمانہ اخلاق، حقیقت افروزاحوال اور� �پاکیزہ اعمال سے اکثر لوگ متاثر ہوکر مشر ف بہ اسلام ہوئے� اورحلقۂ ارادت میں شامل ہوکر ایسے فیضیاب ہوئے کہ حقیقی معنوں میں "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولْ" کا آئینہ دار بنے ۔
رفتہ رفتہ گمراہی کا اندھیرا چھٹتا گیا اور اس کی جگہ اسلام کے ذریعہ حق وصداقت کی روشنی پھیلتی گئی اور جمالِ جمال البحر رحمۃاللہ علیہ کی تابانیاں جہاں آرا ہوتی گئیں ۔
���� آپ اپنے نفس پر اس قدر قادر تھے کہ انہماک ذکر واذکارکے باعث نکاح کا خیال تک نہ آیا،احتیاط کاعالم یہ تھا کہ کسی خاتون سے تکلم(بات) تک کرنے سے آپ کو احتراز تھا ، یہی سبب ہے کہ آج تک بھی مراسم عرس کی انجام دہی میں پرہیز گار مردوں کا ہی تعلق رہا کرتا ہے �اور درگاہ شریف کی جالی مبارک کے اندر عورتوں کو جانے کی ممانعت ہے ۔
���� بموجب فرمان قطب شاہی، حضرت قبلہ کے خادموں کو ہر شخص کے حوصلے اور عہدے کے لحاظ سے یومیئے وغیرہ عطاہوے ہیں ۔
انتخاب مقام تدفین :۔
کچھ زمانہ �کےبعد حضرت نے اپنے مقام تدفین کاانتخاب فرمایا، اسی منتخبہ مقام پر اب حضرت کا مزاراقدس ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ اس مقام پر گنجان درخت تھے۔
اپنے مقام تدفین کے انتخاب کے بعد حضرت جمال البحر رحمۃ اللہ علیہ نے قاضی ابراہیم صاحب کو خلافت سرفراز فرماکر تولیت پر مامور فرمایا ۔
وصال مبارک : ۔
���� مروی ہے کہ مقام تدفین کا انتخاب فرمانے Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ دنوں بعد قاضی ابراہیم صاحب �رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنے کسی کام سے بیدر گئے ہوئے تھے، آپ بیدر �میں ہی تھے کہ حضرت کا پیمانہ حیات لبریز ہوچکا ،جس سے آگاہی پر حضرت بروزچہارشنبہ اپنے خادموں کوجو اس وقت خدمت میں حاضر تھے وصیت فرمائی کہ ’’ اب میرا وقت آگیاہے ØŒ میں جہان فانی سے Ú©ÙˆÚ† کرنے والاہوں، مجھے حق کا بلاواآچکا �ہے، میری رحلت Ú©Û’ بعد میرے جسد خاکی Ú©Ùˆ کوئی نہ چھونا ،قاضی ابراہیم بیدر سے آئیں Ú¯Û’ ،میر ÛŒ تجہیزوتکفین انہی Ú©Û’ ہاتھ سے ہوگی Û”
ان Ú©Û’ آنے Ú©Û’ بعد کہنا کہ میرے جنازہ �کو مکان Ú©Û’ اندر سے اٹھا کر صحن ِخانہ میں زیر آسمان ،تخت پر لٹا دیں اور کسی کوپاس نہ آنے دیں،خداوندپاک Ú©Ùˆ جو منظور ہووہی ہوگا۔بعد ظہور مشیت وبعد اطمئنان عوام نماز جنازہ پڑھاکر سپر د خاک کردیں ‘‘
�ادھر یہ وصیت فرمائی گئی ادھر اسی وقت قاضی ابراہیم صاحب کو عالم رویا(خواب)میں حکم فرمایا کہ فوراً حاضر ہوں ۔
�اس وصیت وحکم کے بعد بتاریخ 12!جمادی الاولی 926� ھ �یوم پنجشنبہ قبل نماز فجر داعی اجل کو لبیک کہا۔
(إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونْ)
�بوقت وصال آپ کی عمر شریف ایک روایت کے بموجب (53)سال اور ایک روایت کے بموجب (48) سال تھی۔
�قاضی صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ �اسی وقت خواب سے بیدار ہوکر حسب الحکم گھوڑے پر سوار ہوکر بید ر سے عازم بھونگیر ہوئے ،یہ تصرف تو دیکھئے کہ فرط محبت میں قاضی صاحب نے سو(100)میل کا راستہ ایک ہی شب میں طے فرمایا اور علی الصبح بھونگیر پھونچے، مگر افسوس کہ آپ پہنچنے سے پہلے ہی حضرت قبلہ واصل بحق ہوچکے تھے اور آپ کا وجودمقدس محوخواب دائمی تھا۔
�خاص وعام کے غم واندوہ �کی انتہا نہ تھی، چاروں طرف غم �اور رنج والم کی گھٹائیں چھاگئی تھیں، خدام نے حضرت کی وصیت قاضی صاحب موصوف کے گوش گذار کرنے کے بعد اولاً قاضی صاحب اور جملہ خدام نے مل کر مقام مقررہ پر اپنے ہاتھوں� سے مرقد اطہر(قبر مبارک) تیار کیا، اس کے بعد قاضی صاحب �رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حسب وصیت بلااستعانت غیر(کسی کی مدد کے بغیر)،حضرت کے جسدخاکی کو صحن میں زیر آسمان تخت پر رکھدیا، اس کے کچھ ہی دیر بعد خداکی قدرت کا ظہور یوں ہواکہ آسمان پر ابررحمت محیط ہوا اور سلسلہ تقاطر شروع ہوگیا، اتنی بارش ہوئی کہ جسم اطہر تر ہوکر پانی بہنے لگا۔
�اللہ اللہ! خاصان خدا کی بھی کیا شان ہوتی ہے کہ اس سلسلہ تقاطر میں حضرت کاجسد شریف خود بخود آداب غسل کا موافق پہلو بدلنے لگا ، اس طرح جب غسل شریف کی تکمیل ہوچکی توابر چھٹا ، بارش ر کی، سب کے سب متحیر (حیرت میں)تھے بالآ خر بموجب وصیت(وصیت کے مطابق) قاضی صاحب �رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے نمازجنازہ پڑھائی ،اس کے بعد حضرت کوبساط قرب میں پہنچایاگیا، جہاں حوران بہشت� آپ کی منتظر تھیں، اس طرح یہ آفتاب ولایت دوسرے عالم میں متجلی(جلوہ افروز) ہوا۔
کچھ ہی دنوں بعد قاضی ابراہیم صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ �کاوصال �ہوگیا ، قاضی صاحب نے اپنی اولاد کو خدمت مرقد (مزار مبارک)،حضرت� ممدوح کی تاکید کی ۔
�
شہنشاہ اورنگ زیب ،عالمگیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ �کی حضور ی:۔
روایت ہے کہ شہنشاہ �غازی محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کی حیدرآباد دکن کو تشریف آوری ہوئی ، اس زمانہ میں حضرت کے تصرفات وکرامات ،فیوض وبرکات کاشہر ہ تھا، اس لئے عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دربار عالیہ میں حضور ی کاقصد فرمایا۔
�موصوف جب کسی مزار پر حاضر ہوکر سلام عرض کرتے اور �سلام کا جواب نہ ملتا تو اس کی تعظیم نہ فرماتے بلکہ صرف دعائے خیر کردیا کرتے تھے،جب شہنشاہ نے خلوص وعقیدت کے ساتھ دربار جمال البحر رحمۃ اللہ علیہ میں حاضر ہوکر بہ کمال ادب سلام عرض کیا تو انہیں �اپنے ایقان کے بموجب �سلام کا جواب ملا ۔
�اسی ولی کامل، صوفی اعظم ، ذی شرع �شہنشاہ کے دور شاہی سے ہی حضرت کا عرس شہرت پذیر ہوا۔
جالی مبارک ،باؤلی، نقارخانہ،�� 1001ھ میں حیدرآباد کے ایک نواب نے تعمیر کرائی ۔
ماخوذاز:سرمہ عقیدت ،مصنفہ مولوی محمد ضیاء اللہ صاحب نرخیؔ انصاری مرحوم 1347؁ھ
مکتبہ نشاط ثانیہ معظم جاہی مارکٹ �� مطبو عہ� 1381ھ
www.ziaislamic.com