Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

آيت معراج کی جامع تفسیر


آيت معراج کی جامع تفسیر �سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آَيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ. وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندہ کو��شب کیوقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جسکے گردا گردہم نے برکتیں کر رکھی ہیں لے گیا ‘ تا کہ ہم ان کواپنے کچھ عجائبات دکھلائیں بے شک اللہ تعالی بڑے سننے والے ‘ بڑے دیکھنے والے ہیں �واقعہ معراج پر جو شبہات کئے جاتے ہیں ان شبہوں کے جواب میں مقدمہ ذیل پیش ہے�: �واقعہ معراج پر جو شبہے کئے جاتے ہیں ان شبہوں کے جواب کے لئے معراج شریف کے واقعہ کو’’ سبحٰن الذی‘‘سے شروع کیا گیا ہے ۔ واقعہ معراج پر شبہ کا تفسیر ’’ سبحٰن الذی ‘’ سے جواب �سبحان کے معنی ہیں :۔ �خدائے تعالیٰ کی ذات ہر ایک قسم کے نقصان سے پاک ہے ‘ اور عاجز و کمزور بے قدرت ہونے سے بھی پاک ہے ‘‘۔ �معراج کے واقعہ کو لفظ ’’ سُبحان ‘‘ سے شروع کرنے سے یہ غرض ہے کہ جب معراج کے عجیب و غریب واقعہ کا جاہل و نادان ‘ کمزور عقل والے ‘ روحانیت سے دُور رہنے والے ضرور انکار کریں گے اور طرح طرح کے شبہے پیش کریں گے تو یہ شبہے معراج کے واقعہ پر ہی منحصر نہیں رہتے بلکہ خدائے تعالیٰ کے قدرت تک پہنچتے ہیں ‘ گویا خدائے تعالیٰ میں قدرت نہیں کہ معراج کراسکے ‘ اس لئے ا ﷲ تعالیٰ ان شبہوں کو دُور کرنے کے لئے واقعہ معراج بیان کرنے سے پہلے ارشاد فرماتا ہے کہ : ۔ ’’سبحان الذی�‘‘ �معراج کس نے کرائی ؟ وہی قدرت والا خدا تو ہے جو ہر ایک طرح کی عاجزی اور کمزوری سے پاک ہے ‘ تو پھر تم کو معراج کے واقعہ میں کیوں شبہ ہے ۔ واقعہ معراج پر شبہ کا دوسرا جواب �تم ہمارے نبی کو سمجھے ہی نہیں اپنا جیسا یا اپنی طرح کا انسان سمجھ کر اور خود پر قیاس کر کے ان کے معراج سے انکار کر رہے ہو ‘تمہارا قیاس ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک طوطی نے قیاس کیا تھا جس کو مولا نا نے مثنوی میں ایک نقل کے پیرایہ میں لکھا ہے :۔ حکایت�: �ایک سوداگر نے ایک طوطی کو پالا تھا وہ بہت بولتی تھی ‘ اور باتیں کرتی تھی ‘ جس کی وجہ سے دوکان بہت بارونق تھی ‘ ایک دن سوداگر کسی کام کو گیا اور طوطی پنجرہ کے باہر بیٹھی تھی ‘ بلی نے اس پر حملہ کیا ‘ وہ خوف زدہ ہو کر ایک طرف اُڑی ‘ اور روغن بادام کی ایک شیشی سے ٹکرائی ‘ شیشی گری اور سب روغن ضائع ہو گیا ‘ سوداگر جب واپس آیا ‘ اور روغن بادام کی شیشی کو گرا ہوا پایا تو طوطی پر اسے بہت غصّہ آیا ‘ اسے یہاں تک مارا کہ گنجا کر دیا ‘ اس کے بعد طوطی نے بولنا بند کر دیا ۔ دوسری مرتبہ آقا نے اس سے باتیں کیں ‘ اس نے جواب ہی نہ دیا جب کئی دن اسی طرح ہو گئے تو وہ اپنی حرکت پر بہت نادم ہوا ‘ اور خود کو کوسنے لگا کہ میرے یہ ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے ‘ جن سے میں نے اس کو مارا تھا ‘ میری دکان کی رونق ہی جاتی رہی ‘ جب کسی طرح طوطی نہ بولی تو اس نے درویشوں ‘ بزرگوں سے دُعا کرانا شروع کی ‘ مگر پھر بھی نہ بولی ‘ اتفاق سے ایک دن اس کی دوکان کے سامنے سے ایک گنجا فقیر گذرا تو طوطی نے اس کو پکارا اور کہا���؂ از چہ کل باکلاں آمیختی�� تو مگر از شیشہ روغن ریختی����� از قیاس سش خندہ آمد خلق را��� کو چو خود پنداشت صاحب دلق را �اے گنجے! تو گنجوں میں کیوں کر آملا ‘ معلوم ہوتا� �ہے کہ تو نے بھی شیشی میں سے تیل گرایا ہوگا ۔ �طوطی کے اس قیاس پر سب لوگوں کو ہنسی آگئی کہ� �اس نے گنجے فقیر کو بھی اپنے ہی اوپر قیاس کیا ۔ �یہی حال واقعہ معراج پر قیاس کرنے والوں کا ہے ۔ مولانا اسی قیاس کے نسبت فرماتے ہیں���؂ جملہ عالم زیں سبب گمراہ شد��� کم کسی زابدال حق آگاہ شد گفت اینک ما بشر ایشاں بشر ویاشاں بستہ ‘ خوابیم و خور �یہ سب اس وجہ سے گمراہ ہوئے کے انہوں� �نے پیغمبروں کو خود پر قیاس کیا ‘ اور یہ� �سمجھتے ہیں کہ پیغمبر بھی تو ہماری طرح آدمی��ہیں۔ مولانا اس کے بعد فرماتے ہیں �کارپاکاں را قیاس از خودم یگر�� � گرچہ مانددر نوشتن شیر و شیر �پاکوں کو اپنے پر قیامت مت کر اگرچہ شیر و شیر لکھنے میں�مشابہ ہیں ‘ شیر نقصان رساں ہے اور دودھ نفع رساں۔ قوت روح کی تمثیل کے ذریعہ واقعہ معراج پر شبہ کا تیسرا جواب�� �جن لوگوں کی روح جسم کی کثافت میں دب کر جسم کی طرح مٹی ہو گئی ہے ‘ وہ لوگ خود پر ان حضرات کو بھی قیاس کرتے ہیں جن کی روح نے جسم کو بھی اپنا سا لطیف بنالیا ہے ‘ ان شبہ کرنے والوں نے روح کی قوت کو سمجھا ہی نہیں ۔� �مندرجہ ذیل چند تمثیلوں پر غور کرنے سے روح کی قوت واضح ہو گی :۔ �1۔ مٹی کی قوت سے پانی کی قوت بڑھکر ہے ۔ �پانی کی قوت سے ہوا کی قوت زیادہ ہے ۔ �ہوا کی قوت سے آگ کی قوت بڑھکر ہے بلکہ آگ کی قوت سب سے زیادہ ہے ۔ اسی واسطے ریل گاڑی کی بھاپ جو پانی اور ہوا سے بنی ہے اس قدر قوی ہے کہ ایک دن میں ہزاروں من بوجھ کہاں سے کہاں لے جا پھینک دیتی ہے ۔ �جس میں خالص آگ ہو ‘ جیسے تار ہے تو اس تار سے ایک منٹ میں سینکڑوں کوس حرکت ہوجاتی ہے ‘ یہ کام بھاپ سے نہیں ہو سکتا ۔ �2۔اسی طرح غول بیابانی جن میں ہوائی جز زیادہ ہے ‘ وہ ایسی قوت کے کام کرتے ہیں جواِن خاکی پتلوں سے نہیں ہو سکتے ۔ �3۔ اجنّہ میں ناری اجزا زیادہ ہیں ‘ اس لئے اجنّہ سے زیادہ قوی افعال بہ نسبت غول بیا بانی کے سرزد ہوتے ہیں ۔ �4�۔اجنّہ سے زیادہ لطیف مادہ فرشتوں میں ہے ‘ اس لئے وہ اجنّہ سے زیادہ قوی کام کرتے ہیں ۔ �5�۔ روح میں فرشتوں سے زیادہ لطافت ہے ‘ اس لئے روح فرشتوں سے زیادہ قوی کام کرسکتی ہے ۔ �مگر روح جسم کی کثافت میں دب کر کچھ بھی نہیں کر سکتی ‘ جب بہ سبب ریاضت و مجاہدہ روح پر سے جسمانی کثافت چھَٹی اور وہ خدا ئے تعالیٰ کے طرف بالکلیہ متوجہ ہو گئی تو اس پر خدا ئے تعالیٰ کے انوار ایسے چمکتے ہیں جیسے آئینہ میں آفتاب ‘ آفتاب کے طرح آئینہ بھی نگاہ نہیں ٹھرتی ‘ روح کا بھی یہی حال ہو جاتا ہے ۔ �6�۔ آگ کی صحبت میں لوہا سرخ ہوکر آگ کی طرح جلانے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ �7�۔ پھول کی صحبت سے مٹی معطر ہوکر پھولوں کی طرح دماغ کو معطر کرنے لگتی ہے ۔ �صاحبو ! پہلے سے ہی روح ،کل مخلوق ‘ جن اور فرشتوں وغیرہ سے قوی ہے ‘ پھر جب خدا سے ایسا تعلق پیدا کرلے ‘ جیسے لوہا آآگ سے ‘ تو اس روح کی قوت کو کیا پوچھتے ہو ‘ ایسی روح وہ وہ کام جو کسی مخلوق سے نہ ہوسکیں کر دکھاتی ہے ‘ انھیں کاموں کو معجزہ اور کرامت کہتے ہیں ۔ حاصل ان تمثیلوں کا یہ ہے کہ :۔ �جب معمولی روح کی یہ قوت ہے تو تمام روحیں جس روح سے بنی ہوں اور اس روح کو سب سے زیادہ خدائے تعالیٰ سے تعلق ہو تو اس روح کی قوت کا کیا ٹھکانا ہے ‘ ایسی روح کی لطافت جسم پر غالب آکر جسم کو بھی روح کی طرح لطیف کردیا ہو ‘ اور وہ روح مع جسم اگر تھوڑی دیر میں مکہ معظمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں پر ہوتے ہوئے عرش پر پہنچے تو کیا تعجب ہے۔ نظام شمسی کی تمثیل کے ذریعہ واقعہ معراج پر شبہ کا چوتھا جواب �قطع نظر اس کے رات، دن کا آنا ‘ طلوع و غروب کا ہونا ‘ یہ سب حرکت فلک سے ہے ‘ اگر حرکتِ فلک موقوف ہوجائے تو وہ وقت جو موجود ہے وہی رہے گا ‘ ممکن ہے کہ بوقت معراج ا ﷲ تعالیٰ نے تھوڑی دیر کے لئے حرکتِ فلک موقوف کردی ہو ۔ �معزز مہمان کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے دنیا میں بھی یہ قاعدہ ہے کہ جب بادشاہ کی سواری نکلتی ہے تو سڑک پر دوسروں کا چلنا بند کر دیا جاتا ہے ‘ اسی طرح ا ﷲ تعالیٰ نے حضرت ؑ کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اگر آسمان ‘ چاند ‘ سورج ‘ سب کی حرکت کو اس رات کچھ دیر کے لئے بند کردیا ہو ‘ تاکہ جو چیز جہاں ہے وہیں رہے ۔ پس آفتاب جس جگہ تھا اسی جگہ رہا ‘ ستارے جہاں تھے وہیں رہے ‘ کوئی بھی اپنی جگہ سے ہلنے نہ پایا ‘ تو اس میں کیا تعجب ہے ۔ حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم جب معراج سے فارغ ہو گئے ‘ فلک کو حرکت کی اجازت ہو گئی ‘ ظاہر ہے حرکتِ فلک جس جگہ موقوف ہوئی تھی ‘ وہیں سے شروع ہوگی ‘ آپ کے سیر میں چاہے کتنا ہی وقت صرف ہوا ہو ‘ مگر دنیا والوں کے اعتبار سے سارا قصّہ ایک ہی رات میں ہوا ۔ عشقیہ پیرا یہ میں واقعہ معراج پر شبہ کا پانچواں جواب��� �عاشقانہ جواب مولانا نظامی نے یہ دیا ہے���؂ تن او کہ صافی تراز جان ماست اگر آمد وشدبہ یک دم رواست �آپ کا جسم مطہر ہمارے روح سے زیادہ لطیف تھا ‘ اگر ایک لحظہ میں آئے ‘ اور گئے ہوں تو ہوسکتا ہے ۔ خیال کی تمثیل کے ذریعہ واقعہ معراج پر شبہ کا چھٹا جواب��� �����یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خیال انسانی ذرا سی دیر میں بہت دور پہنچ جاتا ہے ‘ آپ اسی وقت عرش کاتصور کیجئے تو ایک لمحہ سے بھی کم میں خیال عرش پر پہنچ جائے گا ‘ خیال کی حرکت بہت سریع و تیز ہے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیال روح کی ایک قوت ہے ‘ روح نہایت لطیف چیز ہے ‘ اس کے سیر کو کوئی روک نہیں ‘ مولانا نظامی فرماتے ہیں کہ ’’ رسول ا ﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کا جسم بارک تو ہمارے خیال سے بھی پاکیزہ تر ہے ‘ جب خیال ذرا سی دیر میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے تو آپ کا جسم اطہر زمین سے آسماں تک اور وہاں سے عرش تک ذرا سی دیر میں ہو آئے ‘ تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ۔‘‘ �ذرائع سفر کی تمثیل سے براق کی رفتار اور معراج پر شبہ کا ساتواں جواب�� �����پہلے بنڈی سے سفر کرتے تھے ‘ اب ریل اور موٹر ہمارے سامنے کیسی جلد جلد سفر طے کرانے والی موجود ہے ‘ امریکن نمائش میں بجلی گاڑی نے چند منٹوں میں سو�۱۰۰میل طے کئے ‘ نئے ذرائع سفر یہ بتلا رہے ہیں کہ ایک رات میں ہزارہا میل طے کرنا ممکن ہے ۔ �����جب مخلوق ایسا کرسکتی ہے تو کیا خالقِ کائنات کوئی ایسی تیز رفتار سواری نہیں پیدا کرسکتا جو تھوڑی دیر میں آسمانوں پر ہو آئے وہ سواری براق تھی ‘ اس قدر تیز رفتار کہ اس کا ہر قدم اتنے فاصلہ پر گرتا تھا جہاں نگاہ پڑتی ہے ‘ اس سواری کے نام کو ہی آپ نے نہیں سونچا ‘ براق برق سے ہے ‘ برق بھی خدا کی مخلوق ہے اور براق بھی ‘ برق کی طرح اگر براق میں تیزی رہے تو کیا تعجب ہے ۔ �نگاہ کی تمثیل کے ذریعہ واقعہ معراج پر شبہ کا آٹھواں جواب��� �����آپ کے جسم میں ایک چیز ہے جو پاؤ سکنڈ میں آسمان پر جاکر واپس آتی ہے ‘ وہ چیز آپ کی نگاہ ہے جو پلک مارنے میں آسمان پر جاتی اور آتی ہے اس پر کیوں آپ کو تعجب نہیں ہوتا ۔ �����حضرت صلی ا ﷲ علیہ وسلم تو نگاہ سے زیادہ لطیف ہیں اسی لطافت کی وجہ تھی کہ پٹکا آپ کے کمر مُبارک سے نکل گیا ‘ ایسی لطیف ہستی اگر اس قدر جلد جا کر واپس آئے تو کونسا تعجب کا مقام� �ابلیس کے قوت کی تمثیل کے ذریعہ واقعۂ معراج پر شبہ کا نواں جواب� �����ابلیس بد ترین مخلوق ایک لحظہ میں مشرق سے مغرب تک جائے اور آئے ‘ بہترین مخلوق مجموعۂ اٹھارا ہزار عالم ایک رات میں ملکوت کی سیر سے واپس آئیں تو اس پر کیوں تعجب کریں ۔ �دیگر انبیاء علیہم السلام کے آسمان پر جانے کی تمثیل سے واقعۂ معراج پر شبہ کا دسواں جواب�� �����عیسیٰ علیہ السلام چوتھے آسمان پر ‘ ادریس علیہ السلام معہ جسم و روح آسمانوں پر سے ہوتے ہوئے بہشت میں پہنچے ۔ �����حضرت محمد صلی ا ﷲ علیہ وسلم ان سب سے افضل ،اگر وہ آسمانوں پر جائیں تو حیرت کیوں ہے ؟ باز کے تمثیل سے واقعۂ معراج پر شبہ کا گیارہواں جواب�� �����باز کے پاؤں پر کچّی لکڑی باندھیں تو لکڑی اپنے بوجھ کی وجہ سے باز کو اڑنے سے روک سکتی ہے ‘ باز اڑھ نہیں سکتا ‘ اگر وہ لکڑی خشک ہوجائے تو ہلکی ہوجاتی ہے ‘ اور باز کو اڑنے سے نہیں روک سکتی ۔ �����حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم شاہ باز نے ’’ انا من نور اﷲ ‘‘ کے آشیانے سے اڑھ کر اس عالم میں نزول فرمایا ۔� �����’’انّما انا بشر مثلکم ‘‘ ( میں بھی تمہارے جیسا انسان ہوں )کی لکڑی آپ کے پیر مبارک میں اس لئے باندھی ہے تا کہ اس بوجھ کی وجہ امّت میں رہ سکیں ‘ جب عشق الہیٰ کی آگ سے ’’ انا بشر مثلکم ‘‘کی لکڑی سوکھ گئی اور بشریت کا بوجھ ہلکا ہو گیا تو جسم اور روح ‘ قلب و قالب کے ساتھ عروج فرمایا ۔ �شعبدہ باز کے انڈے کی تثمیل سے معراج پر شبہ کا بارہواں جواب �����شعبدہ باز انڈے میں سوراخ کر کے زردی وغیرہ نکال لیتے ہیں اور اس سوراخ سے انڈے میں شبنم بھرتے ہیں اور موم سے سوراخ بند کر دیتے ہیں اور آفتاب میں رکھتے ہیں جب آفتاب کی گرمی اس کو پہنچتی ہے تو وہ انڈا اوپر اڑتا ہے ۔ �����اسی طرح جب ’’ الم نشرح ‘‘کی سوزن کے ذریعہ سینئہ مُبارک صلی ا ﷲ علیہ وسلم سے بشیرت کے اخلاطہ باہر کردئے گئے اور عشق و محبت کی شبنم بھردی گئی اور تجلیات الہیٰ کے آفتاب سے حرارت پہنچی تو حضرتٰ صلی ا ﷲ علیہ وسلم عالم بالا کی طرف اڑے تو کیا تعجب ہے۔ آگ کے کرہ میں سے گذرنے کے شبہ کا پہلا جواب�� �����شبہ کیا جاتا ہے کہ جسم اطہر آگ کے کرہ میں سے صحیح و سالم کیسے گذرا ‘ بے شک آگ کا اثر جلانا ہے جو چیزاس میں جائے وہ جلتی ہے مندرجہ ذیل چند امور پر غور کرنے سے ظاہر ہوگا کہ کبھی آگ کے جلانے کی خاصیت باقی نہیں رہتی :۔� �����1۔ آگ کے دو خاصہ ہیں ‘ ایک جلانا ‘ دوسرا روشن کرنا ۔ ممکن ہے کہ ایک خاصہ روشن کرنا باقی رہے ‘ اور دوسرا خاصہ جلانا باقی نہ رہے ‘ جیسے ولایتی یا جاپانی پھل جھڑی یا دوسری آتش بازیاں کہ ان میں آگ کی ایک خاصیت روشنی باقی ہے ‘ مگر یہ آگ اصلاً کسی چیز کو جلا نہیں سکتی۔ �����یاروس وغیرہ کا ایجاد کردہ وہ کرتا جس کے پہن لینے سے بندوق کی گولی ذرا بھی اثر نہیں کرتی ۔ �����جب مخلوق ایسا کرسکتی ہے کہ آگ سے جلانے کی صفت نکال دے تو کیا خالق ایسا نہیں کر سکتا ۔ �����2۔ بعض چیزوں میں سے جلنے کی طاقت یا اثر جاتا رہتا ہے ‘ جیسے سمندل کیڑا ‘ آگ میں پیدا ہوکر آگ میں نہیں جلتا ‘ نہ آگ سے مرتا ہے بلکہ آگ سے جدا ہونا اس کے لئے موت ہے ۔� �����یا پٹرومکس کا وہ جالی دار سوتی کا کپڑا جس کا نام مینٹل ہے ‘ جس پر ولایتی گھانس کا روغن ہوتا ہے ‘ پٹرومکس کی تیز آگ میں قائم رہ کر آگ کی روشنی کو زیادہ ترقی بخشتا ہے ‘ اور روشنی کو صاف و شفاف کرتا ہے ۔ مذکورہ تمہید کا خلاصہ� �����کیا یہ نا منکن ہے کہ جسم اطہر کے پسینہ میں یہ اثر ہو کہ آپ کو جلنے سے باز رکھے ‘ اور حضرتٰ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کی ذات پاک سے کرئہ نار میں آگ زیادہ روشن اور صاف ہوگئی ہو۔ �����تجربہ اور مشاہدہ تو یہ ہے کہ جسم مطہر کو جو لگا ‘ وہ نہیں جلتا ۔ بھلا جسم مطہر پر آگ کا کیا اثر ہوگا ‘ واقعۂ ذیل اس کا شاہد ہے ۔ �����حضرت انس رضی ا ﷲ تعالیٰ عنہ ‘ نے دستر خوان جو میلا ہو گیا تھا ‘ آگ میں ڈال دیا ‘ دستر خوان کا جلنا تو کجا میل و کچیل سے صاف ہو گیا ‘ حاضرین کے تعجب پر حضرت انس رضی ا ﷲ تعالیٰ عنہ‘ نے فرمایا :۔� �����’’�حضورٰ صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے اس دستر خوان پر کھانا تناول فرمایا ہے ‘ یہ دستر خوان آپ سے مس ہوا ہے آگ کا اثر اس پر کیسے ہو سکتا ہے ۔ آگ کے کرہ میں سے گذرنے کے شبہ کا دوسراجواب�� �����ہائے شبہ کرنے والے تجھے شرم نہیں آئی ‘ شبہ کرنے سے ‘ شعبدہ باز آگ کے اندر گھس جاتا ہے ‘ آگ اپنے اوپر ڈال لیتا ہے مگر نہ خود جلتا ہے اور نہ اس کا کپڑا ۔ کیا نبی کا مرتبہ شعبدہ باز سے کم ہو گیا کہ وہ نورانی تن آگ کے کرہ میں جائے اور نہ جلے تو تعجب کریں ۔ آگ کے کرہ میں سے گذرنے کے شبہ کا تیسرجواب�� �����اہل یورپ کہتے ہیں کہ سورج میں مخلوق آباد ہے ۔ ایسے سخت اور روشن اور گرم کرہ میں مخلوق کا زندہ عمر بسر کرنا ا ﷲتعالیٰ کے اس قدرت کا یقین دلاتا ہے‘ کہ ا ﷲ تعالیٰ جس کسی آگ کے کرہ میں سالم و سلامت رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں ۔ آگ کے کرہ میں سے گذرنے کے شبہ کا چوتھاجواب�� �����’’جواسا ستیا ناسی ‘‘ ایک گھانس ہے جو تیر کی تیز دھوپ میں سر سبز رہتی ہے ‘ جب بارش شروع ہوئی ‘ اور سردی پڑی تو اس کا درخت جل جاتا ہے ۔ �����باغوں میں دیکھا گیا ہے کہ بعض درختوں کو پانی کے بجائے انکے نیچے آگ روشن کی جاتی ہے وہ آگ کی گرمی سے ہرے رہتے ہیں ‘ اگر ذرا آگ کی حرارت کم ہوجائے تو فوراً خشک ہوجاتے ہیں ۔� نتیجہ یہ نکلا کہ� �����جس طرح بعض درخت عقل کے خلاف تیز گرمی اور دھوپ اور بھڑکتی ہوئی آگ میں زندہ اور ہرے رہتے ہیں ‘ اسی طرح تمام جسموں کے خلاف جسم اطہر قدرت الہیٰ سے اس نارے کرہ میں نہ جلے بلکہ اور صحت زیادہ اچھی ہو گئی ہو تو کیا تعجب ہے ۔ آگ کے کرہ میں سے گذرنے کے شبہ کا پانچواں جواب�� �����آگ میں کوئی چیز جب جلتی ہے جب ذرا ٹھیرے ‘ اگر ہاتھ جلدی سے اِدھر سے اُدھر آنچ میں سے نکالتے رہیں تو نہیں جلتا ۔ ������حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم بھی اس تیزی سے تشریف لے گئے کہ جب واپس تشریف آواری ہوئی بچھونا مبارک گرم تھا ۔ �����اس سے ثابت ہوا کہ جیسے ہاتھ پر آنچ کا اثر نہیں ہوتا ‘ ایسے ہی جسم مُبارک کو کرئہ نار کا کچھ اثر نہ ہوا ۔ �����ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہوا کے طبقے کے اوپر جو ’’ خلا‘‘ ہے اس میں ہوا نہ ہونے کے سبب کوئی تنفس زندہ نہیں رہ سکتا ‘ حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم اس میں سے گذرتے وقت کیسے زندہ رہے ؟ خلا میں گذرنے کے شبہ کا پہلا جواب �����اس کا جواب یہ ہے کہ بہت دیر کے لئے بغیر تنفس کے نہیں رہ بسکتے ‘ تھوڑی دیر کے لئے سانس کی ضرورت نہیں ‘ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم بہت تیزی سے اس ’’ خلا ‘‘ سے نکل گئے ‘ تھوڑی بغیر سانس لئے کے رہنا ہوسکتا ہے ۔ خلا میں گذرنے کے شبہ کا دوسرا جواب� �����قطع نظر اسکے چلّہ کشی کرنے والے حبس دم کرتے ہیں ‘ کئی روز بلکہ کئی مہینے تک حبس دم کیا کرتے ہیں ‘ سانس نہیں لیتے پھر بھی زندہ رہتے ہیں ۔ خلا میں گذرنے کے شبہ کا تیسرا جواب� �����بچہ کئی ماہ تک ماں کے پیٹ میں زندہ رہتا ہے اور سانس نہیںلیتا ‘ بچہ کی زندگی کئی ماہ تک بے سانس لئے گذرتی ہے اگر خدا نے حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم کو ایک رات ہوا کے کرہ سے اوپر لے جاکر بلا سانس لئے زندہ رکھا اور حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم زندہ رہے تو کیا مشکل اور کونسا خلاف عقل ہوا ۔ خلا میں گذرنے کے شبہ کا چوتھا جواب� �����بعض مشاق سمندر کی تہ سے موتی نکالنے کے لئے کئی گھنٹے تک غوطہ لگاتے ہیں اور وہ پانی میں سانس نہیں لیتے ‘ یہ غواص کیسے زندہ رہتے ہونگے ۔ �����جب غوطہ خور صدف کی تلاش میں چند گھنٹے سانس نہ لے اور زندہ رہے ۔ اگر حضرت رسول صلی ا ﷲ علیہ وسلم’’ گوہر معرفت ‘‘ کی تلاش میں چند گھنٹے سانس نہ لیں اور حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم زندہ رہیں تو کیا محال اور کونسا مشکل ہے ۔ �����’’�سبحن الذی اسرٰی ‘‘ ابتدئً سبحٰن کی تفسیر میں باری تعالیٰ کا لفظ ’’ سبحٰن ‘‘ فرمانے کا فائدہ تو معلوم ہو چکا ہے ۔ �����لفظ ’’ اسرٰی ‘‘ سے بھی تمام شبہات دُور ہو گئے کے خود نبی صلی ا ﷲ علیہ وسلم تشریف نہیں لے گئے بلکہ خدائے تعالیٰ خود لے گیا ۔ �����اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ اسرٰی ‘‘ کی جگہ ’’ اذہب ‘‘ کیوں نہیں فرمایا حالانکہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ �����اس کا جواب کالئے حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم کے معراج کے ساتھ حضرت یونس علیہ السلام کے معراج کا تقابل کیجئے ‘ جب آپ لو ان دونوں یعنی لفظ ’’ اسرٰی ‘‘ کہنے اور لفظ ‘‘ اذہب ‘‘ نہ کہنے کا فرق معلوم ہوگا :۔ معراجِ حضرت یونس علیہ السلام� �����یونس علیہ السلام نے اپنے قوم کو عذاب الہیٰ سے ڈرایا اور فرمایا کہ ایمان لے آؤ ورنے اتنی مدّت میں عذاب الہیٰ نازل ہوگا ‘ جب وہ مدّت قریب آئی تو آپ اس خیال سے کہ یہاں عذاب نازل ہوگا ‘ وہاں سے چل پڑے ‘ مگر حق تعالیٰ سے صریح اذن نہیں لیا ۔ �����یہاں یہ قصّہ ہوا کہ جب عذاب کے تاریخ کی آمد ہوئی شروع ہوئی اور آثارِ عذاب دیکھ کر یہ لوگ گھبرائے اور ایمان پر آمادہ ہوئے اور یونس علیہ السلام کی تلاش کرنے لگے کہ ان کے ہاتھ پر ایمان لاویں ‘ یہ نہ ملے تو انھوں نے کہا اگر یونس علیہ السلام نہیں ہیں تو کیا ہوا ان پر اور ا ﷲ تعالیٰ پر ایمان لانا تو ممکن ہے ‘ چناچہ ایمان لائے اور عذاب ٹل گیا ‘ یونس علیہ السلام لوگوں سے اس بستی کا حال پوچھتے رہتے تھے جب کسی سے عذاب کی خبر نہ سنی ‘ اور پورا واقعہ معلوم نہ ہوا تو آپ کو خیال ہوا کہ اب اگر واپس بستی میں جاؤں گا تو و ہ لوگ جھٹلائیں گے کہ تمہارے قول کے موافق عذاب نہ آیا ‘ اس شرمندگی کی وجہ سے واپس نہ ہوئے بلکہ جہاں قیام فرماتے تھے وہاں سے آگے بڑہتے چلے گئے ‘ راستہ میں دریا پڑا ‘ اور آپ کشتی میں سوار ہو گئے ‘ اثناء راہ میں وہ کشتی میں چلتے چلتے چکر کھانا لگی ‘ ملاح نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ اس کشتی میں کوئی غلام اپنے آقا سے بھاگا ہوا سوار ہے ‘ اس وقت یونس علیہ السلام نے فرمایا ہاں بھائی میں اپنے آقا سے بدوں اجازت بھاگ آیا ہوں مجھے اس دریا میں ڈال دو ‘ لوگوں نے آپ کی صورت سے نیکی اور بزرگی کے آثار دیکھ کر اس کلام میں شبہ کیا ‘ بالآخر قرعہ اندازی ہوئی ‘ جس میں یونس علیہ السلام کا نام نکلا ‘ پس لوگوں نے آپ کو دریا میں ڈال دیا وہاں ایک مچھلی تھی اس نے بحکم حق آپ کو نگل لیا اور قعر دریا میں لے پہنچی ‘ چالیس دن اس کے پیٹ میں رہے مگر ہضم نہ ہوئے ‘ ا ﷲ تعالیٰ نے ان کی ہر طرح حفاظت فرمائی ’’ وہیں معراج ہوئی ‘‘۔ �����حضرت ابراہیم علیہ وسلم جب آگ میں ڈالے گئے ‘ آپ کو وہیں معراج ہوئی ۔ �����یونس علیہ السلام کا چالیں دن مچھلی کے پیٹ میں بغیر ہوا کے زندہ رہنا ۔ �����ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں زندہ رہنا ’’ کیا یہ عقل کے موافق ہے ؟ ‘‘۔ �����ایسے ہی ہمارے حضور صلی ا ﷲ علیہ و سلم کی معراج گو عقل میں نہ آئے مگر جو کچھ ہوا ‘ خدا ئے تعالیٰ کے قدرت سے ہوا ۔ �����ایک یونس علیہ السلام کا جانا ہے اور ایک ہمارے حضور صلی ا ﷲ علیہ و سلم کا جانا کہ عشاء پڑھ کر استراحت فرمائی ‘ حضرت جبرائیل علیہ السلام آکر جگاتے ہیں ‘ حضور صلی ا ﷲ علیہ السلام چلئے خدا بلاتا ہے ۔ �����دوسرے’’ معراجیں ‘‘ خوشی سے جانا نہیں تھا ‘ حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم کی ’’ معراج‘‘ خوشی کا جانا تھا ‘ سیر و تفریح کا جانا تھا ‘ اس لئے اوروں کو ’’ اذھب ‘‘ کہا گیا ‘ حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم کو ’’ اسرٰی ‘‘ کہا گیا جو سیرپر دلالت کرتا ہے ۔� حضور کے بہت سے نام تھے کوئی نام نہ لے کر ’’بعبدہ‘‘ کیوں فرمایا ؟ ایک وجہ تو ’’بعبدہ ‘‘ کہنے سے یہ ہے کہ جسم کے ساتھ معراج ہونے کو بتایاجائے کیوں کہ ’’ عبد ‘‘ روح معہ جسم کو کہتے ہیں ‘ صرف روح کو عبد نہیں کہتے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام صرف آسمان پر ا ٹھالئے گئے تو نصاریٰ ان کو ابن ا ﷲ کہنے لگے ۔ �����اسی طرح کہیں امت محمدیہ حضور صلی ا ﷲ علیہ وسلم کو آسمان بلکہ عرش پر جانے کے سبب سے خدا یا ابن خدا نہ کہہ دیں ‘ اس لئے پہلے ہی سے ’’ بعبدہ ‘‘کہے کر یہ موقع ہی نہیں آنے دیا گیا۔ �����اس سے معلوم ہوا کہ اس امت پر کس قدر خدائے تعالیٰ کی محبت و شفقت ہے ۔ � �����’’�اسرٰی ‘‘ میں خود لیل (رات ) کا مفہوم شامل ہے پھر ’’ لیلاً ‘‘ اس لئے لایا گیا کہ ’’ لیلاً ‘‘ کی تنوین جو تقلیل کے لئے ہے اس سے یہ بتلایا جائے کہ تمام رات نہیں بلکہ رات کے تھوڑے سے حصہ میں واقعہ معراج ہوا ۔ ’’�اسری بعبدہ لیلاً�‘‘ �����معراج دن میں ہونا چاہیئے تھی رات میں کیوں ہوئی ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا ئے تعالےٰ نے دو جوہر پیدا کئے ‘ ایک ’’سیاہ ‘‘ دوسرا ’’ منور ‘‘۔ �����منور سے تمام نور نکال لیا ‘ اس کا بنایا دن ‘ باقی سے دوزخ ۔ �����اور سیاہ جوہر سے تمام سیاہی نکال لی ‘ اس سے بنائی رات ‘ باقی جو نور ہی نور دہ گیا ‘ اس سے بنائی ’’ جنت�‘‘� �����اس لئے جنت میں رات نہیں ۔� �����اور دوزخ میں دن نہیں ۔ �����دن دوزخ کا ‘ رات جنت کا جز ہے ۔ �����اسی لئے دن میں دوزخ کی طرح پریشانیاں اور افکارات ۔ �����اور رات میں جنت کی طرح اطمینان اور سکون ہے ۔� �����دن دوزخ کے جوہر سے بنا ہے اس لئے خدمت خلق کے لئے ہے ۔ �����رات جنت کے جوہر بنی ہے اس لئے خدمت ’’ خالق ‘‘ کے لئے ۔� �����’’ظاہری معشوق ‘‘ کا وصال بھی رات ہی میں ۔ �����’’حقیقی معشوق ‘‘ کا وصال بھی رات ہی میں ۔� �����ہر پچھلی رات کو آسمانِ دنیا پر ا ﷲ تعالیٰ کے بر آمد ہونے کی خبر دی گئی ہے ‘ دن کے کسی حصّے میں بر آمد ہونے کی خبر نہیں سنائی گئی���؂ ہر گنج سعادت کے خدا داد بہ حافظ������جو سعادت کے خزانے ا ﷲ تعالیٰ نے حافظ کو دئے ہیں�‘� اممین دعائے شب و ورد سحری بود �����������وہ رات کی دعاؤں اور سحر کے وظیفوں کی برکت سے ہے ۔ �����شبِ قدر جو ہزار ماہ سے افضل ہے وہ بھی رات ہی میں ۔ �����انبیاء کی معراج بھی رات ہی میں ہوئی ۔ ’’�یہ وجوہات تھے کہ دن میں معراج نہ ہوئی�‘‘ فرمایا ’’ من المسجد الحرام الی المسجد�������الاقصی الذی برکنا حولہ ‘‘�����������������مسجد حرام سے مسجد اقصا تک لے گیا ۔ جس کے گرد اگر ہم نے برکتیں کر رکھی ہیں ۔ �����عرش پر لے جانا مقصود تھا تو مکہ معظمہ ہی سے سیدھے عرش پر لے گئے ہوتے ‘ بیت المقدس لے جاکر پھر وہاں سے عرش پر لیجانے میں کیا حکمت تھی ۔ پہلی حکمت �����اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بیت القدس ہر وقت دعا کرتا تھا کہ الہیٰ ! تمام پیغمبروں سے میں مشرف ہوچکا ‘ اب میرے دل میں کوئی آرزو باقی نہیں ہے ‘ اگر ہے تو یہ ہے کہ حضرت محمد صلی ا ﷲ علیہ وسلم کے قدم مُبارک دیکھوں ‘ ان کی ملاقات کے شوق کی آگ بے حد بھڑک رہی ہے ‘ بیت المقدس کی آرزو پوری کرنے کے لئے بیت المقدس لے جایا گیا۔ دوسری حکمت �����دوسری وجہ بیت المقدس لے جانے کی یہ ہے کہ جب آپ معراج سے واپس ہوئے کفار نے انکار کیا ‘ حضرت ابو بکر صدیق رضی ا ﷲ عنہ کے پاس دوڑے ہوئے گئے اور کہا لیجئے آپ کے دوست نے ایک عجیب و غریب خبر اڑائی ہے ‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا وہ کیا ؟ کفار نے سارا واقعہ بیان کیا ‘ آپ نے فرمایا بالکل سچ ہے ‘ جب ہی سے آپ کا لقب صدیق ہوا ۔ �����عمر بھر میں حضرت صلی ا ﷲ علیہ وسلم کبھی بیت المقدس نہیں گئے تھے کفار نے امتحاناً ایک ایک بات وہاں کی پوچھنا شروع کی ‘ حضرت صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے ایک ایک جگہ پھر کر تو دیکھا نہیں تھا ‘ اس لئے خدائے تعالیٰ نے آپ کے سامنے سے تمام حجابات اٹھا دئے ‘ پورا بیت المقدس سامنے ہو گیا ‘ کفار جو بات دریافت کرتے وہ فوراً بتادیتے ‘ جو سعید تھے انھوں نے تو آپ کے معراج کی تصدیق کرلی ‘ اس طرح بیت المقدس جانا بھی معراج کی دلیل ہو گیا ‘ ورنہ معراج ہونے پر آپ کیا دلیل پیش کرتے کفار نے آسمان تو دیکھا نہیں تھا جو آسمانی واقعات دلیل بنتے ‘ اس لئے پہلے آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا ‘ پھر عرش ‘ صرف بیت المقدس لے جانا مقصود نہیں تھا ‘ اس لئے فرمایا ’’ لنریہ من ایتنا ‘‘ ( تاکہ ہم ان کو کچھ عجائبات دکھلائیں)� تیسری حکمت �����تیسری وجہہ یعنے حکمت یہ ہے کہ :۔ جب زمین اور آسمان پیدا ہوئے تو زمین سے آسمان نے کہا مجھے خدائے تعالیٰ نے وہ بلندی دی ہے جو تجھے نصیب نہیں ’’والسماء رفعہا �����زمین نے کہاِجیسی تیری صفت ا ﷲ تعالیٰ نے رفع سے بیان فرمائی ہے ویسے ہی میری صفت بھی ’’ بسط ‘‘ سے کی ہے ’’ واﷲ جعل لکم الارض بساطا ‘‘( ا ﷲ تعالیٰ ممین کو تمہارے لئے فرش بنایا�) �����آسمان نے کہا جب ’’ آب نسیاں ‘‘ مجھ کو عطا ہوتا ہے تو میں اس کو رکھتا نہیں بلکہ بخش دیتا ہوں ۔ �����زمین نے کہا جب تو اپنی سخاوت کی تعریف کرتا ہے تو میں اپنے ’ ’ حلم ‘‘ کی تعریف کروں گی ‘ جس قدر بھی بوجھ مجھ پر ڈالا جائے میں اس کو سہہ لیتی ہوں ۔ �����آسمان نے کہا مجھ میں ’’ انوار‘‘ ہیں ۔ �����زمین نے کہا مجھ میں ’’ اسرار ‘‘ ہیں جس کو وقتاً فوقتاً ظاہر کرتی رہتی ہوں�‘� �����آسمان نے کہا میں آفتاب اور مہتاب سے منور��ہوں ‘ اور تاروں سے جگمگاتا رہتا ہوں ‘ شہاب ثاقب مجھ میں ہے جس سے شیطان پر رجم ہوتی رہتی ہے ۔ �����زمین نے کہا تجھے کیا خبر نہیں کہ مجھ میں رنگ برنگ کے باغ و بہار ہیں اور خوشنما رخت ‘ کہیں لالہ زار ہے تو کہیں گلاب کا چمن ‘ اور طرح طرح کے پھول ‘ جن کا رنگ علحٰدہ علحٰدہ ‘ بو علحٰدہ علحٰدہ‘ کہیں پھول پر بلبل چہہ چہارہا ہے تو کہیں قمر یاں راگ گا رہی ہیں ‘ یہ لطف ‘ یہ بہار ‘ بھلا تیرے یہاں کہاں ۔ �����زمین سے یہ باتیں آسمان نے سن کر طیش میں آکر کہا تو پرندوں کے آواز پر کیا فخر کرتی ہے ‘ اری زمین سن مجھ میں فرشتے بستے ہیں جو رات دن خدائے تعالیٰ کی عبادت کرتے رہتے ہیں ‘ ہمیشہ خدا کا ذکر مجھ میں ہوتا رہتا ہے ‘ فرشتوں کی یاد الہیٰ کی گونج کے سامنے بھلا تیرے پرندوں کی آوازیں کچھ چیز ہیں ؟ تجھ میں گل و گلزار ہیں تو مجھ میں انوار کے باغ ہیں ‘ تجھ میں جیسے طرح طرح کے پھول ہیں ‘ ویسے ہی مجھ میں طرح طرح کے تارے جن کی شکل علحٰدہ اور اثر علحٰدہ ‘ جب رات کے اندھیرے میں مجھ پر تارے نکل آتے ہیں تو کچھ ایسی بہار معلوم ہوتی ہے کہ تیرے سارے باغ اس پر سے تصدق کرنے کے قابل رہ جاتے ہیں ‘ میرا عالم عالم ملکوت ہے ‘ تیرا عالم اے زمین عالم نا سوت ‘ مجھ پر ارواح بستی ہیں ‘ تجھ پر اجسام ‘ ارواح کے سامنے اجسام کوئی چیز نہیں ‘ عرش مجھ پر ہے ‘ کرسی مجھ پر ہے ‘ جبرائیل و میکائیل علیہما السلام کی جگہ میں ہوں ‘ اسرافیل علیہ السلام کا ٹھکانا میں ہی ہوں ‘ لوح و قلم مجھ میں ہیں ‘ بیت المعمور مجھ میں ہے ۔ �����آسمان کی یہ تقریر سن کر زمین شرمندہ ہو گئی ‘ اسی شرمندگی میںِہزاروں سال گذر گئے ‘ جب رسول ا ﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم پیدا ہوئے ۔ تو زمین خوش ہو کر فخر سے کہنے لگی ‘ ارے وہ آسمان ! مجھ میں ’’خاتم النبےین ‘‘ محمد صلی ا ﷲ علیہ وسلم پیدا ہوئے ‘ اب بتا تجھ کو مجھ پر کس بات کی فضلیت ہے اور کس چیز پر فخر ہے ۔ �����یہ وہ پیغمبر ہیں کہ اٹھارہ ہزار عالم ان ہی کے وجود کا طفیلی ہے ‘ عالمِ ملکوت کے مقرب فرشتے ان ہی سے فیض لینے والے ہیں ۔ �����جسم مطہر اسی خاک کا ہے �����وطن و ٹھکانا بھی یہی خاک ہے� �����آسمان کو کوئی جواب نہ بن پڑا ‘ مغلوب ہو ہو کر کچھ جواب نہ دے سکا ۔ سال ہا سال تک یہی حالت رہی ‘ آسمان ‘ ا ﷲ کی درگاہ میں دعا کرنے لگا کہ اے ا ﷲ ! ایک مرتبہ اپنے محبوب کو میرے اوپر لا تاکہ مجھے بھی فخر حاصل ہو ۔ �����گر قدم رنجہ کند جانب کاشانۂ ما � �����������اگر ہماری جھوپڑی کے طرف تکلیف فرماکر تشریف لائیں� �����رشک فردوش شوداز قدم ش خانۂ ما�����تو ہمارا گھر آپکی تشریف آواری سے رشک فردوں ہوجائے گا ۔ �����’’�ا ﷲ تعالیٰ نے زمین اور آسمان دونوں کا مرتبہ برابر کرنے کے لئے آسمان پر آپ کو معراج عطا فرمائی ‘‘۔ �����چوتھی حکمت�: �آسمان پر کروڑ ہا فرشتے ایسے تھے جو کسی طرح زمین پر نہیں آسکتے تھے مگر رسول ا ﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کے دیدار کے بیحد مشتاق تھے ‘ وہ فرشتے ہر روز ا ﷲ تعالےٰ سے دُعا کیا کرتے تھے ‘ الہیٰ ہمیں بھی تیرے نبی آخر الزماں کی ملاقات سے مشرف فرما ‘‘ ا ﷲ تعالیٰ نے انکی دُعا قبول فرمائی ‘ حضرت صلی ا ﷲ علیہ و سلم کو عرش تک بلاکر فرشتوں کو آپ کی ملاقات سے مشرف فرمادیا ۔ �����اس سے جو شرف صحابیت کا حضرت صدیق اکبر رضی ا ﷲ تعالیٰ عنہ کو حاصل تھا ‘ وہی ’’ ساتوں آسمان کے فرشتوں کو حاصل ہوا ‘‘۔ �����پانچویں حکمت: �جب ا ﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے طرف بھیجنا چاہا تو آپ کو معجز ہ دینے کے لئے فرمایا موسیٰ تمہارے ہاتھ کی لکڑی ( عصا ) زمین پر ڈالدو ‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پرڈال دیا ‘ وہ عصا بہت بڑا اژدہا ہو گیا ‘موسیٰ علیہ السلام خود اس سے ڈر کر بھاگے حکم ہوا موسیٰ ’’ خذ ھا ولا تخف ‘‘اجی موسیٰ اس کو پکڑو ‘ ڈرو نہیں ‘ موسیٰ علیہ السلام نے اس کو پکڑ لیا ‘ ڈر نکل گیا ‘ پھر جب فرعون کیسامنے عصا کو سانپ بنائے تو ڈرے نہیں ‘ اگر یہ مشق نہیں کرائی جاتی تو فرعون کے سامنے خود ڈر کر بھاگتے تو معجزہ قائم نہیں رہ سکتا تھا ۔ �����اسی طرح حضرت رسول ا ﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کو معراج میں بلا کر آسمانوں کی سیر کرائی گئی ‘ وہاں کے عجائب و غرائب دکھائے گئے ‘ جنت و دوزخ بتائی گئی ‘ ثواب و عذاب کے مناظر آپ کے سامنے ظاہر کئے گئے ۔ �����جب قیامت ہوگی تو سب کو نیا معلوم ہوگا ‘ ہیبت و دہشت ایسی ہوگی کہ نفسی نفسی کہیں گے ‘ چوں کہ رسول اکرم صلی ا ﷲ علیہ وسلم کا تو یہ دیکھا ہوا ہوگا ۔ اس لئے آپ کو نہ ہیبت ہوگی نہ دہشت ‘ اس لئے آپ امتی امتی فرماتے رہیں گے ‘ اطمینان سے عاصیوں کی شفاعت فرمائیں گے ۔ آسمانوں پر بلائے جانے کا یہ بھی ایک راز تھا ۔ �����چھٹی حکمت�: �جب زلیخا کی بدنامی ہونے لگی ‘ مصرکی عورتیں طعنہ دینے لگیں تو زلیخا نے ان سب عورتوں کو دعوت دیکر بلایا ‘ ہاتھ میں میوہ اور چھری دی ’ یوسف علیہ السلام کو ان کے سامنے لائی ‘ عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھتے ہی بجائے میوہ کے ہاتھ کاٹ لئے اور اپنی غلطی کا اقرار کیا اور کہا ’’ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ��‘‘( حاشا ﷲ یہ انسان نہیں ہیں یہ تو بزرگ فرشتہ ہیں )۔ � �����ایسا ہی تخلیق انسان کے وقت فرشتوں نے کہا ’’ اتجعل فیہا من یفسد فیہا و یسفک الدماء ‘‘ ( کہ آپ ایسا انسان پیدا کرتے ہیں جو زمین میں فساد کرتے رہے گا اور آپس میں خون بہائے گا ) تو جواب دیا گیا ’’ انی اعلم مالا تعلمون ‘‘ ( تو ا ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی حکمت میں جانتا ہوں تم کو اس کی خبر نہیں) �����اس سے اشارہ حضرت محمد صلی ا ﷲ علیہ وسلم کے طرف تھا کہ ان ہی مفسدوں کے نسل سے اور ان ہی تباہ کاروں کے اولاد سے دیکھو کیسا افضل البشر پیدا کرتا ہوں� �����اس وقت تو صرف اشارہ کر کے ڈال دیا ‘ پھر معراج میں حضرت کو آسمانوں پر بلا کر سب فرشتوں کو دکھایا تو مصر کی عورتوں کے طرح سب فرشتہ دنگ رہ گئے اور اپنی غلطی کا اقرار کر لیا ۔ �����ساتویں حکمت�: �آپ کو معلوم ہوگا کہ دلہن کو رخصت کرتے وقت دلہن کا ہاتھ دُلہا کے والد یا کسی بوڑھے بڑے شخص کے ہاتھ میں دیکر سونپتے ہیں ۔ �����ایسے ہی ا ﷲتعالیٰ جبرئیل علیہ السلام یا کسی اور فرشتے کے واسطے کے بغیر امت کو آپ کے سپرد کرنا چاہتے تھے بلکہ فرماتے ہیں :۔� �����’’�یا محمد ( صلی ا ﷲ علیہ وسلم ) یہ امّت میں آپ کو سونپتا ہوں ‘ یا رسول ا ﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم اس امّت کو نہ دیکھنا ’ مجھ سونپنے والے کو دیکھنا کہ کون سونپ رہا ہے ‘ باوجود سینکڑوں عیبوں کے ہم نے ان کو پسند کیا ہے ‘ باوجود عیبوں کے ہم ان پر عنایت کرتے ہیں ‘ آپ بھی ان پر شفقت کرتے رہئے ‘‘۔ �����اسی واسطے سب نفسی نفسی کہیں گے ‘ آپ امّتی امّتی فرمائیں گے ۔ �����آپ کے درجہ ء عالی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ آپ ’’ ربّی ‘ ربّی ‘‘ فرماتے ‘ چونکہ امتی میں خود ’’ ربّی ‘ ‘ اس طرح مضمر ہے کہ امّت رب ‘‘ کی سونپی ہوئی ہے ‘ اور دوست کی عطا کی ہوئی ہے اگر آپ امّت کا خیال نہ کرتے تو دوست کے عطیہ کی حقارت ہوتی ‘ قیامت میں آپ جو امّتی فرمائیں گے ’’ رب ‘‘کے خیال سے ہی فرمائیں گے ‘ آپ کا امّتی کہنا بھی ’’ ربی ‘‘کہنے کی جگہ ہے ۔ �����آٹھویں حکمت�: �رسول ا ﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے دنیا میں کافروں سے سخت اذیتیں سہیں ‘ تسلی کے لئے آسمانوں پر بلاتے ہیں تا کہ معلوم کرائیں کہ آپ کا رتبہ یہ ہے کہ :۔ �����’’�بیت المقدس میں آپ امام انسان ہیں ‘ تو بیت المعمور میں امام ملائکہ ‘‘ جب آپ کا یہ شرف ہے تو آپ کو ان کافروں کی ایذا کا کچھ خیال نہ کرنا چاہیئے ۔ �����جمعہ دن بہت عظمت والا دن ہے ‘ خدا کا بہت پیارا دن ہے ‘ اس امّت پر خدا کی کس قدر شفقت ہے کہ قیامت جمعہ کے دن ہی ہوگی ‘ جمعہ تو تمہارا ہی دن ہے ۔ اگر قیامت تمہارے دن میں آئے تو کیا غم ہے ‘ جمعہ تمہارا ہے تو تمہارے خلاف کیوں گواہی دے گا ‘ لیجئے ایک گواہ تو اس امّت کو مل گیا ‘ گواہ تو دو ہونا لازم ہے ‘ دوسرا دن کوئی ایسا بزرگ گواہ بننے کے قابل نہیں تھا ‘ اس لئے ا ﷲتعالیٰ نے پیر کے دن کو بہت سی بزرگیاں عطا فرمائیں :۔ �����(1)�رسول اﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کی پیدائش پیر کے دن ہوئی ۔ �����(2)�حضرت کو نبوت پیر کے دن ملی ۔ �����(3)�ہجرت کا حکم پیر کے دن ہوا ۔ �����(4)�وفات شریف جو دراصل آپ کی امّت کے لئے بڑے مرتبے کا دن ہے ‘ وہ واقعہ بھی پیر کے دن ہوا ۔ �����(5)�جس دن کی رات معراج کے لئے مقرر فرمائی گئی وہ بھی پیر کے دن کی تھی ۔ �����پس پیرکے دن کو ایسی بزرگیاں دے کر جمعہ کے قریب قریب پہنچا یا ‘ تا کہ دوسرا گواہ بھی امّت کے لئے تیار رہے ۔ �����اس طرح امّت کے نجات اور مغفرت کا پورا سامان کردیا ۔ �����ہفتہ میں دو دن اور دو راتیں اس امّت کے کالے اعمال کو نورانی بناتی ہیں ‘ تا کہ قیامت کے دن امّت کو ’’ نور علی نور ‘‘ بناکر غیروں کے سامنے لائیں ‘ امّت کے رائی ‘ رائی ‘ ذرّے ‘ ذرّے برابر نیک اعمال ان دنوں کی برکت سے نیکیوں کے پہاڑ بن کر سامنے آئیں گے ۔ �����’’�یہ وجوہات تھے کہ پیر کی رات معراج کے لئے مقرر فرمائی ‘‘۔ �����مکہ معظمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں پر لیجانے کی جو باریک باتیں تھیں وہ اوپر گذر چکیں ‘ اب ’’ لنریہ من ایتنا ‘‘کی تفسیر کرنا ہے ۔ �����معراج میں بہت سی حکمتیں ہیں جن میں تھوڑی سی اوپر گذر چکیں ‘ منجملہ ان حکمتوں کے ایک حکمت ’’ لنر یہ من ایتنا ‘‘ ہے� واقعہ معراج: �����واقعہ یہ ہوا کہ:۔ ایک دن حضرت رسول ا ﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم کا ایک جگہ پر گذر ہوا ‘ وہاں ابو جہل بیٹھا ہوا تھا ‘آپ کو دیکھ کر اٹھا اور اپنے مکان میں بلا کر لے گیا اور اس کوٹھری میں لے گیا ‘ جس میں سونا ‘ روپیہ ‘ ریشم وغیرہ بھرا ہوا تھا ‘ ابو جہل نے یہ چیزیں دکھا کر کہا ‘ اے محمد ( صلی ا ﷲ علیہ وسلم) کیا تم ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر فقر و فاقہ اختیار کرتے ہو اور دنیا سے بے رغبتی رکھتے ہو ۔ �����اس پر خدائے تعالیٰ نے حضرت ( صلی ا ﷲ علیہ وسلم ) کے طرف وحی کی کہ :۔ اے محمد ( صلی ا ﷲ علیہ وسلم ) ابو جہل نے تمہیں اپنے گھر میں لیجا کر وہ چیزیں دکھائیں جو اس میں موجود تھیں ‘ میں آج کی رات آپ کو آسمانوں کی سیر کراتا ہوں اور اپنے گھر میں داخل کر کے وہ چیزیں دکھا تا ہوں جو اس میں موجود ہیں ‘ تا کہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ ابو جہل کے گھر کو میرے گھر سے کچھ مناسبت بھی ہے ؟ اس کا گھر فانی اور میرا ملک باقی ‘ فانی ‘ باقی کے سامنے پاسنگ برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔ ������اس لئے فرمایا ہم اپنے بندہ کو مکہ شریف سے بیت المقدس راتوں رات لے گئے ’’ لنریہ من ایتنا ‘‘ تا کہ ہم اپنے بندہ کو کچھ عجائبات قدرت دکھلائیں ’’ انہ ہو السمیع البصیر‘‘ تو عجیب لطف دے رہا ہے ۔� �����اس معراج کی عجیب سیر میں ’’ بصیر ‘‘ ا ﷲ تعالیٰ دیکھ رہا تھا نگہبان تھا ‘ ایسا ہے جیسے مسافر کو کہنا ’’ ا ﷲ نگہبان ‘‘۔ �����پھر معراج سے واپسی کے بعد منکروں کے بیہودہ سوالات اور شبہوں کا جواب "هُوَ السَّمِيعُ "ہم سن رہے ہیں ‘ سے اس طرف اشارہ ہے کہ ان کو اس کی سزا بھگتنی پڑے گی ۔ از:زبدۃ المحدثین ،خاتمۃ المحققین عارف باللہ ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ تعالی علیہ �