Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

سال نو کا پیغام اہل اسلام کے نام


سال نو کا پیغام اہل اسلام کے نام

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ÛŒÙŽØ§ أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔

ترجمہ:اے ایمان والو!تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئیے کہ اس نے کل یعنی قیامت کے لئے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، یقینا اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔(سورۃ الحشر:18)

انسانی زندگی میں وقت ایک عظیم دولت اوربیش قیمت نعمت ہے‘ وہی شخص اپنی زندگی میں ترقی Ú©ÛŒ راہ پر گامزن رہتا ہے جو وقت Ú©ÛŒ قدر کرتا ہے‘ وہی قوم عروج Ú©Û’ زینے چڑھتی ہے جو لمحات Ú©ÛŒ قدر جانتی ہے‘ جو فرد یا جماعت وقت Ú©Ùˆ ضائع کرتی ہے تو وقت Ú©ÛŒ رفتار اسے ترقی Ú©ÛŒ بلندیوں سے زوال Ú©ÛŒ پستیوں میں ڈال دیتی ہے۔

 Ø¯ÛŒÙ† اسلام ایک فطری دین ہے‘ اس میں عبادات کا نظام وقت Ú©Û’ ساتھ مربوط (Attach) ہے ،نمازپنجگانہ Ú©ÛŒ ادائیگی‘وقت ہی سے متعلق ہے ،اسی لئے کتب حدیث وفقہ میں اوقات نماز Ú©ÛŒ بابت ایک مستقل (Separete)بیان رکھا گیا ہے ،سحروافطار Ú©Û’ لئے باریک بینی Ú©Û’ ساتھ وقت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ،اس میں Ú©Ù…ÛŒ بیشی ہوجائے توروزہ رائگاں ہوجاتا ہے، زکوۃ Ú©ÛŒ فرضیت کیلئے سال گزرنا شرط ہے، حج مخصوص دنوں میں ادا کیاجاتاہے، قربانی کیلئے ایام مقرر ہیں، ان تمام عبادات میں وقت اس درجہ اہمیت رکھتا ہے کہ اگر عبادات Ú©ÛŒ ادائیگی میں ان Ú©Û’ مقررہ اوقات کالحاظ نہ رکھاجائے تواسلامی عبادات بعض صورتوں میں مکروہ ہوجاتی ہیں اور بعض صورتوں میں وقت Ú©ÛŒ ناقدری Ú©ÛŒ وجہ سے چھوٹ جاتی ہیں اُن Ú©ÛŒ قضاء لازم آتی ہے اور عبادتوں سے متعلق وقت Ú©ÛŒ ناقدری Ú©Û’ باعث آدمی گنہگار قرار پاتا ہے۔

 Ø¹Ø¨Ø§Ø¯Ø§Øª Ú©Û’ نظام میں وقت کا ارتباط وتعلق ،احکام اسلام میں اس Ú©ÛŒ اثرانگیزی امت مسلمہ Ú©Û’ ہرہرفرد سے وقت Ú©ÛŒ قدردانی وقدر افزائی کا مطالبہ کررہی ہے۔ اگر اہل اسلام اپنے اوقات Ú©ÛŒ اہمیت Ú©Ùˆ سمجھ لیں اور آداب وسنن Ú©Û’ ساتھ نظامِ عبادات پر کاربند ہوں تو شریعت اسلامیہ پر عمل کرنے Ú©ÛŒ برکت اور اوقات Ú©Ùˆ ملحوظ رکھنے Ú©ÛŒ عادت سے ان Ú©Û’ اعمال وافکار میں ایسی پاکیزگی پیدا ہوگی کہ جس راہ چلیںگے ترقی ان Ú©Û’ قدم چومے Ú¯ÛŒ‘ اونچے مراتب واعلی مناصب ان Ú©Û’ منتظر ہوںگے۔

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے

(ڈاکٹر اقبالؔ)

﴿عمر رفتہ کا ہر لمحہ قابل قدر﴾

حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کیلئے اپنے مبارک ارشادات میں وقت کی اہمیت بیان فرمائی اور اسے نعمت قرار دیاہے، چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم: نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْہِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ ، الصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ.

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ اس سے غفلت میں رہتے ہیں: (1)تندرسی اور(2) فرصت۔

(صحیح البخاری ،کتاب الرقاق، باب ما جاء فی الرقاق وأن لا عیش إلا عیش الآخرۃ ،حدیث نمبر6412۔ زجاجۃ المصابیح ،ج4،کتاب الرقاق ،ص148)

اللہ تعالی کی نعمتیں بے حساب ہیں ، اور ہر نعمت کی قدر کرنی چاہئے۔ اُن نعمتوں میں جس نعمت کی طرف توجہ دلائی جائے وہ اور زیادہ اہمیت والی ہوتی ہیں ، جن دونعمتوں کی جانب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کومتوجہ فرمایا ہے ؛وہ زندگی کے اوقات ہیں، جس کی اہمیت وقدر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے توجہ دلانے سے ظاہر ہوتی ہے ۔

نیز ایک روایت کے مطابق حضورپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانچ حالات کوغنیمت جاننے اور ان کی قدردانی کرنے کی تاکیدفرمائی ہے:

وَفِیْمَا رَوَی عَمْرُو بْنُ مَیْمُوْنٍ الأَوْدِیُّ ، مُرْسَلا ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لِرَجُلٍ وَہُوَ یَعِظُہٗ: اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ۔

حضرت عمرو بن میمون اَودی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:تم پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو! اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، اپنی تندرستی کو بیماری سے پہلے ، اپنی تونگری کو محتاجی سے پہلے ، اپنی فرصت کو مصروفیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔

(الآداب للبیھقی، باب من قصر الأمل وبادر بالعمل قبل بلوغ الأجل، حدیث نمبر809۔ مشکوۃ المصابیح،کتاب الرقاق،الفصل اول،حدیث نمبر:5147)

 Ø³Ø§Ù„ گذشتہ Ú©Û’ آغاز Ú©Û’ وقت کتنے لوگ ہماری معیت میں تھے جو‘ اب ہمارے ساتھ موجود نہیں ہیں، اُن Ú©ÛŒ عمر ختم ہوگئی ØŒ موت Ù†Û’ اُنہیں اپنی آغوش میں Ù„Û’ لیا، اللہ تعالی کا صدشکرہے کہ اس Ù†Û’ ہمیں مہلت عطافرمائی ،ہمیں چاہئیے کہ اس فرصت کوغنیمت جانیں ،زندگی Ú©Û’ ان لمحات Ú©Û’ قدرشناس بنیں، جوانی کواطاعت الہی میں گزاریں اس سے پہلے کہ ضعف وکمزوری آجائے ØŒ تندرستی Ú©ÛŒ حالت میں دین Ú©Û’ وہ کام کرلیںجوبیماری Ú©ÛŒ کیفیت میں صحیح طورپرانجام نہیں دئے جاسکتے۔

زندگی کا ایک ایک لمحہ اس قدر قیمتی ہے کہ اہل جنت کوجنت میں داخل ہونے کے بعد بھی لمحات حیات کے بے فائدہ گزرجانے پرحسرت ہوگی، مسند احمد میں حدیث پاک ہے:

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَا قَعَدَ قَوْمٌ مَقْعَدًا لاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَیُصَلُّوْنَ عَلٰی النَّبِیِّ إِلاَّ کَانَ عَلَیْہِمْ حَسْرَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَإِنْ دَخَلُوا الْجَنَّۃَ لِلثَّوَابِ .

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا:کوئی قوم ایسی محفل نہیں سجاتی جس میں وہ اللہ کا ذکر نہیں کرتی اور حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں درودشریف نہیں پڑھتی مگر یہ کہ وہ محفل قیامت کے دن ثواب کی کمی کی وجہ سے ان کیلئے حسرت کاسبب ہوتی ہے اگرچہ وہ جنت میں داخل ہوجائیں۔

(مسند احمد‘ حدیث نمبر:10225Û” کنزالعمال شریف ،کتاب السلام وفضائلہ،حق المجالس والجلوس،حدیث نمبر:25454)

﴿بروزِحشر عمر‘ علم‘ مال اور جسم سے متعلق سوالات﴾

اعمال کے حساب وکتاب کا معاملہ وقت ہی سے متعلق ہے ،عمر کے اوقات کے بارے میں بروزقیامت سوال کیا جائے گا۔

جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے:

۔ ۔ ۔ لاَ تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتَّی یُسْأَلَ عَنْ عُمْرِہٖ فِیمَا أَفْنَاہُ وَعَنْ عِلْمِہٖ فِیمَا فَعَلَ وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیمَا أَنْفَقَہٗ وَعَنْ جِسْمِہٖ فِیمَا أَبْلاَہُ۔

۔ ۔ ۔ انسان کے قدم اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک کہ چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے:اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں گزاراہے؟ اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا؟اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا ہے اور کہاں خرچ کیا ہے؟ اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اس کی توانائیوں کو کہاں صرف کیا ہے؟۔

(جامع الترمذی ‘ ابواب صفۃ القیامۃ‘ باب فی القیامۃ‘ حدیث نمبر2602Û” کنزالعمال ØŒ کتاب القیامۃ من قسم الاقوال،الباب الاول فی امورتقع قبلہا،الحساب ،حدیث نمبر38983)

حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ مقدس ارشادات وقت کی قدردانی کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں،غفلت وکوتاہی سے روک رہے ہیں اوراوقات ضائع کرنے سے منع کررہے ہیں۔

﴿اوقات اور ان Ú©ÛŒ نہ رکنے والی رفتار‘ لمحۂ فکر﴾

عربی زبان کا مشہور مقولہ ہے :اَلْوَقْتُ کَالسَّیْفِ، اِنْ لَمْ تَقْطَعْہُ قَطَعَکَ ۔ ترجمہ: وقت تلوارکی طرح تیز ہے، اگرتم نے اسے نہیں کاٹا تو وہ (وقت) تمہیں کاٹ ڈالے گا۔ (مرقاۃ الفاتیح ، کتاب الدعوات،باب اسماء اللہ تعالی )

 ÙˆÙ‚ت اپنی رفتا رکے ساتھ گزررہا ہے، کوئی شخص وقت Ú©ÛŒ قدر کرے یا نہ کرے ØŒ وقت اپنی رفتار سے گزرتاجاتاہے، وقت Ú©ÛŒ اہمیت جان کر اُسے صحیح کام میں استعمال کرنے والا شخص کامیاب ہوتاہے اور غفلت میں وقت گزار دینے والا شخص اپنے مقصد میں ناکام ہوتاہے، ہم Ù†Û’ Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ سال Ú©Û’ بارہ مہینے بسر کئے ØŒ 52 ہفتے گزارے،کامل ایک سال کا سفر طئے کیا، رخصت ہورہے سال کا اختتام ہم سے سوال کررہا ہے کہ جس سال کوتم رخصت کررہے ہواس Ú©Û’ لمحات وساعات Ú©ÛŒ تم Ù†Û’ کیا قدردانی کی؟

لیل ونہار کی رفتار ہم سے یہ استفسار کررہی ہے کہ گزشتہ سال تم کس حدتک احکام اسلام پرعمل پیرارہے؟ آخری دن کا سورج ڈوبتے ڈوبتے دریافت کررہا ہے کہ تم نے صبح وشام کس حدتک فرمانبرداری کی؟نئی صبح ہم سے پوچھ رہی ہے کہ آج کے لئے کچھ لائحۂ عمل بنایا بھی ہے؟ یا یوں ہی بغیر پلیننگ (planing) ومنصوبہ بندی کے دن گزار کرضائع کرنا ہے؟

اس موقع پر ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے:

عَنْ عُمَرَ قَالَ فِیْ خُطْبَتِہٖ حَاسِبُوْا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا فإنَّہٗ أہْوَنُ لِحِسَابِکُمْ، وَزِنُوْا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُوْزَنُوْا وَتَزَیَّنُوْا لِلْعَرْضِ الأَکْبَرِ یَوْمَ (تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰی مِنْکُمْ خَافِیَۃٌ)۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا:۔ تم اپنے آپ کا محاسبہ کرواس سے پہلے کہ تم سے محاسبہ کیا جائے کیونکہ وہ تمہارے حساب کے لئے آسانی کا باعث ہے اور تم اپنے نفسوں کا جائزہ لو اس سے پہلے کہ تمہارا جائزہ لیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے تیار رہوجس دن تمہیں بارگاہ رب العزت میں پیش کیا جائے گا تمہاری کوئی پوشیدہ چیزچھپی نہیں رہے گی۔

(کنزالعمال،کتاب المواعظ والرقائق والخطب والحکم من قسم الافعال،خطب عمرومواعظہ رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:44203)

حدیث پاک پرعمل کرتے ہوئے ہم رخصت ہورہے سال کے شب وروزپر نظردوڑائیںکہ ہم نے حقوق اللہ کس حدتک اداکئے؟نمازوں کی ادائیگی کا کیا معاملہ رہا؟ کیا ہم نے نمازیں رغبت وشوق کے ساتھ باجماعت اداکی ہیںیاآخری وقت تک ٹالتے اورمؤخر کرتے رہے؟ کیاہم نے فریضۂ زکوۃ کیلئے صحیح طور پراموال کا حساب کیا یاتنگدستوں اورناداروں کا حق لے لیا؟ کیا ہم نے رمضان المبارک کے روزوں کا تقوی وپرہیزگاری کے ساتھ اہتمام کیا یا ماہ رمضان کی حرمت کو پامال کیا؟ ماہ رمضان کے ذریعہ ہم نے پرہیزگاری میں کتنی ترقی کی۔

ہم اپنے رات ودن کودیکھیں کہ حقوق العباد کی ادائیگی کس طور پرہوئی ،ہم نے والدین کی اطاعت وفرمانبرداری کی یا ان کی خدمت میں تساہل برتا؟ اولاد کی تربیت کاحق اداکیا یاکوئی کسرباقی رہ گئی؟ رشتہ داروں سے حسن سلوک اور پڑوسیوں سے اچھابرتاؤقائم رکھا یا بے تعلقی وبدسلوکی نے سلسلہ منقطع کردیا؟ ملنے جلنے والوں کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آئے یانفرت وعداوت کی آگ بھڑکائی؟قرابتداروں ، ہمسایوں اور دیگراحباب کے ساتھ نشست وبرخاست میں ہمارا اخلاقی معیار کتنابلندرہا؟

﴿سال نو کے آغاز پر زندگی کے ہر گوشہ کا محاسبہ﴾

ہم اس سال کوخیرباد کہتے ہوئے غورکرلیں کہ کیا تجارت وکاروبار میں ہم نے احکام شریعت کو پیش نظر رکھا یا محض تجارتی فائدہ کی بنیاد پر معاملات کرتے رہے؟ کیا ہم نے حلال وحرام کے درمیان فرق کیا یا ہر قسم کے مال کو اپنا لقمہ بنا لیا؟ ملازمین ومزدوروں سے کام لیتے ہوئے کیا ہم نے انہیں طاقت کے مطابق ذمہ داری دی یا ان پر طاقت سے زائد بوجھ ڈال کر ظلم کے مرتکب ہوئے؟

ہمارا محاسبہ زندگی کے ہرشعبہ اور ہرگوشہ سے متعلق ہونا چاہئے، نہ صرف محاسبہ بلکہ آئندہ کیلئے منصوبہ بندی کی جائے کہ سال گزشتہ جوکوتاہی ہوئی وہ دہرائی نہیں جائیگی،حصول تعلیم کی بات ہو یاکاروباروتجارت کامعاملہ ،احکام شریعت کے مطابق مکمل نظم ونسق کے ساتھ کیاجائیگا۔

شخصی وانفرادی ،ملی واجتماعی،سماجی Ùˆ معاشرتی، معاشی واقتصادی،سیاسی ومذہبی‘ ملکی وبین الاقوامی ہرسطح پرہمیں غورکرناچاہئے کہ ہم Ù†Û’ ترقی Ú©Û’ کتنے زینے Ø·Û’ کئے،پستی وزوال سے کتنا دوچار ہوئے، ترقی Ú©ÛŒ راہیں کیارہیں،پستی وزوال Ú©Û’ اسباب کیاتھے؟

﴿نعمت عمر پر شکر گزاری وفرمانبرداری پر استقامت کاعہد کریں﴾

جس شخص نے یہ بارہ مہینے اسلامی احکام پرعمل پیرارہ کرگزارے،شریعت اسلامیہ پرکاربندرہ کربسرکئے، حدودِشریعت پھلانگنے اورقانون الہی کوپائے مال کرنے کی جسارت نہیں کی تو وہ خوش نصیب بارگاہ الہی میں شکرگزار رہے، خود اپنے لئے اور تمام عالم اسلام کیلئے اطاعت واتباع کاجذبہ لئے ہوئے زندگی گزارے ،دل کے آشیانہ میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع جلائے ہوئے رات ودن کا سفر طے کرے اور استقامت واستقلال کے ساتھ آئندہ برس وتمام عمر گزارنے کی دعاکرے۔

اور جس شخص کی حالت اس سے جداگانہ ہو،جس کا سالِ گزشتہ اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف گزراہو،اس سے کوتاہیاں سرزدہوگئی ہوں ، اسے چاہئے کہ اپنے برے اعمال پرکف افسوس ملے ،ندامت کے آنسو بہائے اوریہ پختہ ارادہ کرلے کہ میں آئندہ زندگی کا ہرلمحہ اس طرح گزاروں گا جس طرح زندگی بخشنے والے کا حکم ہے ،ہرساعت حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت شعاری ووفاداری کے جذبہ سے سرشار رہوںگا، ہرگھڑی دل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے شادوآبادرہے گا۔

سال نو کاآغاز یقینا اللہ کی نعمت ہے ،ایک مدت کا اختتام اور دوسری مدت کا آغاز عطائِ الہی ہے ،اس انعام خداوندی اور عطاء الہی پر پیش گاہ ذوالجلال میں نذرانۂ شکر پیش کرنا چاہئے لیکن اس موقع پرباہم مبارکبادی دینا، تہنیت پیش کرنا شرعاً منع تو نہیںہے تاہم سلف صالحین وبزرگان دین نے ہمیشہ ماحول اوررسم ورواج سے بالاتر ہوکر مقاصد کوپیش نظر رکھا، دینی اغراض کو اپنا مطمح نظربنایا اور اخروی منافع پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کی، البتہ ایک نئے سال میں نئی چستی کے ساتھ اسلام پرعمل کرنے کے لئے کمر بستہ ہوناچاہئے ، مزید جذبہ کے ساتھ فرمانبرداری کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔

﴿اسلامی سال کا آغاز واختتام ایثاروقربانی کا آئینہ دار﴾

اسلامی سال کا آغاز خلیفۂ دوم فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت اورسید الشہداء امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت عظمٰی سے ہوتا ہے اوراختتام ،حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت اسمعیل ذبیح اللہ کی قربانیاں، حج وقربانی اور خلیفۂ سوم عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے مہینہ پرہوتا ہے ،سال کا آغاز واختتام اس جانب اشارہ کررہاہے کہ اہل اسلام کے شب وروز،ماہ وسال خالص اللہ تعالی کے لئے ہونے چاہئیں، آٹھوں پہر اس کی رضا وخوشنودی مقصود ہونی چاہئے ۔

﴿مسلمان اپنے اقدار کی حفاظت کریں﴾

 Ù„یکن وائے برحالِ مسلماناں کہ مقاصد سے دور رسم ورواج میں مبتلا ہوچکے ہیں اور رسم ورواج بھی ایساکہ ہماری مسلمانی کوداغدارکررہا ہے، کیا دین اسلام میں رقص وسرود کاکوئی جواز نکالاجاسکتا ہے؟ کیا شراب میں‘جو اُم الخبائث ہے؛ مدھوش ومجنون کردینے کااثرباقی نہیں رہا؟

پھرکیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے تقدس کوخودپائے مال کرکے اِن اخلاقی رذائل کواختیارکرچکے ہیں،ان افعال کے کرگزرنے سے ان کے لئے نہ شریعت مانع رہی اور نہ اخلاق،جب کہ قوم مسلم تووہ قوم ہے جس نے گزشتہ صدیوں میںتجارت ومعیشت، سیاست وحکومت ،اخلاق وکردار، امانت وصداقت ،تہذیب وتمدن ہر گوشۂ عمل میں اقوام عالم کی امامت وپیشوائی کی اور آج ہرپستی وزوال اس کے دامن سے وابستہ ہے، اس کسمپرسی کے عالم میں ہم مسلمان اگر عزت ووقار اورترقی وعروج چاہتے ہیں تواسلامی تعلیمات پرپھرسے عمل کرنے لگیں ،قرآن کریم کودوبارہ مضبوطی سے تھام لیں،سنت نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کواپنا دستور بنالیں، صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کاطریقہ اختیارکریں ،اہل بیت نبوت سے وابستگی رکھیں ،سلف صالحین واہل اللہ کے بتلائے ہوئے راستہ پر چلتے رہیں، کامیابی وکامرانی ہمارے قدم چومے گی، ترقی وعروج حاصل ہوگا، فتح ونصرت ہمارا مقدرہوگی۔

نہیں اقبال ناامید اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

(ڈاکٹر اقبال )

اللہ تعالی ہمیں وقت کی قدر دانی کرنے اور وقت کو اس کی رضا وخوشنودی کے لئے گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 Ø¢Ù…ِیْن بِجَاہِ طٰہٰ وَیٰسٓ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی وَبَارَکَ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔

از: ضیاء ملت حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی مجددی قادری دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر، حیدرآباد۔

www.ziaislamic.com