Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

فضائل حج وعمرہ


 "حج" اسلام کا ایک عظیم رکن ہے،حج ہرصاحب استطاعت پرزندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔احادیث شریفہ میں حج Ú©Û’ بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں۔حج Ú©Û’ فضائل وبرکات سے متعلق چند احادیث شریفہ ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں:

ایمان اور جہاد کے بعد حج مبرور بہتر عمل ہے

صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں حدیث شریف ہے:

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سُئِلَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَىُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ . قِيلَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ : جِهَادٌ فِى سَبِيلِ اللَّهِ. قِيلَ ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ : حَجٌّ مَبْرُورٌ.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ (دین اسلام میں)کونسا عمل بہت بہتر ہے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (دل سے)اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا (کہ یہ دل کا عمل ہے)پھر عرض کیا گیا: اس کے بعد کونسا عمل (سب سے بہتر ہے؟)تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کونسا عمل(سب سے بہتر ہے؟)تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(اس کے بعد)حج مبرور (سب سے بہتر عمل ہے)۔

اس کی روایت بخاری اور مسلم نے متفقہ طور پر کی ہے۔(صحیح بخاری،کتاب الحج، باب فضل الحج المبرور حدیث نمبر:1519۔صحیح مسلم،کتاب الایمان، باب بيان كون الإيمان بالله تعالى أفضل الأعمال.حدیث نمبر:258)

�

حج مبرور کی علامات

واضح ہو کہ حج مبرور کے بارے میں درمنثور میں علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اصبھانی نے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت کی ہے: ان سے دریافت کیا گیا کہ حج مبرور کیا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ حج کرنے کے بعد حاجی میں دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے رغبت بڑھ جائے۔

اور حج مبرور کی نشانی یہ ہے کہ حج کے بعد حاجی کا حال بدل جائے یعنی اللہ تعالی کی طرف متوجہ رہے اور عبادات کی پابندی کرے اور منکرات اور منھیات سے بچتا رہے اور جن گناہوں کو حج سے پہلے کرتا تھا ان کو چھوڑ دے۔ اشعۃ اللمعات میں بھی ایسا ہی مذکور ہے۔

کونسا عمل کس وقت بہتر ہے

�حج مبرور کے بارے میں صاحب ردالمحتار نے رحمتی کے حوالہ سے ایک بڑی واضح تقریر فرمائی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یوں تو ہر عبادت کا الگ الگ ثواب اور مرتبہ متعین ہے؛لیکن حالات کے اعتبار سے جس عمل کی ضرورت ہو،اور جس کا نفع عام ہو وہی افضل اور اعلیٰ قرار دیا جائے گا، چنانچہ ایک روایت یہ ہے کہ ایک حج دس غزوات سے افضل ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ ایک غزوہ دس حج سے افضل ہے تو اس کا تعلق نفل اعمال سے اور اشخاص کے حالات سے ہوگا، مثلاً :ایک شخص بڑا بہادر ہے اور جنگوں میں مہارت رکھتا ہے تو ایسے شخص کے لئے نفل حج سے جہاد افضل ہے، اس کے بر خلاف ایک ایسا شخص ہے جو دلیر نہیں ہے اور جہاد میں کام نہیں کرسکتا تو اس کے لئے جہاد سے حج کرنا افضل ہے اور سرحدوں پر رباط کی ضرورت ہے تو صدقات اور نفل حج سے افضل یہ ہے کہ رباط بنائے جائیں اور قوم میں غرباء کی کثرت ہے یا نیک لوگ محتاج ہیں یا سادات کرام غربت میں مبتلا ہیں تو ان حالات میں نفل عمروں اور نفل حج سے بہتر یہ ہے کہ اپنے مال کو ان حضرات پر خرچ کرے۔

حج عورتوں کا جہاد ہے

صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں حدیث شریف ہے:

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ� رَضِىَ اللهُ عَنْهَا قَالَتِ :اسْتَأْذَنْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِى الْجِهَادِ . فَقَالَ : جِهَادُكُنَّ الْحَجُّ ۔

�ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جہاد پر جانے کی اجازت طلب کی(کہ اگر آپ حکم دیں تو میں بھی جہاد کے لئے نکلوں)تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر)ارشاد فرمایا کہ تم خواتین کے لئے حج کا سفر ہی جہاد ہے (اس لئے تم عورتوں کو جہاد کے لئے نکلنے کی ضرورت نہیں۔)

اس حدیث کی روایت بخاری اور مسلم نے متفقہ طور پر کی ہے۔

(صحیح بخاری،کتاب الجہاد،باب جهاد النساء ،حدیث نمبر:2875۔)

حج میں فسق و فجور سے بچنے کا ثواب

���� صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں حدیث شریف ہے:

���� سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ� .

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمائے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالی کے لئے حج کرے اور دوران حج (بحالت احرام)اپنی بیوی سے صحبت نہ کرے اور (دوران سفر اپنے ساتھیوں سے)بیہودہ کلام یا لڑائی جھگڑا نہ کرے اور کبائر سے بچتا رہے تو وہ حج کرنے کے بعد (گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو جاتا ہے)جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت پاک و صاف تھا۔

�اس کی روایت بخاری اور مسلم نے متفقہ طور پر کی ہے۔

(صحیح بخاری،کتاب الحج،باب فضل الحج المبرور.حدیث نمبر:1521)

حج سے کون سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور کون سے گناہ معاف نہیں ہوتے

�واضح ہو کہ اس حدیث شریف سے کئی فوائد معلوم ہوتے ہیں: پہلی بات تو یہ ہے کہ سفرِ حج خالصۃً للہ ہو، جس میں دکھاوا اور دوسرے دنیوی اغراض شامل نہ ہوں، البتہ حج کے سفر میں ضمنی طور پر تجارت کا بھی جواز ہے لیکن اگر مقصدِ اصلی حج سے تجارت ہے یا حج اور تجارت دونوں مساوی درجہ میں ہیں تو یہ اخلاص کے خلاف ہوگا اور حج کا ثواب کم ہوگا اور اگر مقصدِ اصلی حج ہے اور تجارت محض تابع ہے تو یہ اخلاص کے خلاف نہ ہوگا اور اگر نیت یہ ہو کہ تجارت کے نفع سے حج میں اعانت ہوگی تو تجارت میں بھی ثواب ملے گا۔

اس حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ خالصۃً، للہ حج کرنے والا گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسا وہ اپنی پیدائش کے دن پاک تھا۔

اس بارے میں یہ واضح رہے کہ گناہوں کی دو(2) قسمیں ہیں: ایک صغائر دوسرے کبائر، پھر کبائر کی بھی دو(2) قسمیں ہیں: ایک حقوق اللہ، دوسرے حقوق العباد۔

�حج سے صغائر بالاتفاق معاف ہو جاتے ہیں؛البتہ کبائر میں حقوق العباد جیسے قرض بغیر ادائی کے معاف نہ ہوگا اور اسی طرح حقوق اللہ میں تارکِ نماز اور تارکِ زکوٰۃ کو اپنی فوت شدہ نمازیں اور واجب الاداء زکوٰۃ بھی ادا کرنی پڑے گی۔ البتہ حج سے نمازوں اور زکوٰۃ کی ادائی میں جو تاخیر ہوئی ہے، اس تاخیر کا گناہ معاف ہوجائے گا۔ ردالمحتار۔

حج اور عمرہ کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں

سنن ابن ماجہ میں حدیث شریف ہے:

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : الْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ اللَّهِ إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ وَإِنِ اسْتَغْفَرُوهُ غَفَرَ لَهُمْ .

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمائے ہیں کہ حج کو آنے والے اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ تعالی کے معزز مہمان ہیں؛ اگر وہ اللہ تعالی سے دعاء مانگیں تو اللہ تعالی ان کی دعاء قبول فرماتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالی ان کے گناہوں کو بخش دے گا۔

(سنن ابن ماجہ،کتاب المناسک،باب فضل دعاء الحج.حدیث نمبر:3004)

حاجی، عمرہ ادا کرنے والے اور مجاہدین اللہ تعالی کے مہمان ہیں

���� سنن نسائی اورشعب الایمان میں حدیث شریف ہے:

۔۔۔ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَفْدُ اللَّهِ ثَلاَثَةٌ :الْغَازِى وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے کہ تین شخص اللہ تعالی کے مہمان ہیں:(1)جہاد کرنے والا (2)حج کرنے والا (3)عمرہ ادا کرنے والا۔

�اس کی روایت نسائی نے کی ہے اور بیہقی نے بھی اس کی روایت شعب الایمان میں کی ہے۔

(سنن نسائی،کتاب مناسك الحج،باب فضل الحج.حدیث نمبر:2637۔)

�

واپسی کے بعد حاجی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے دعاء مغفرت کروانا چاہئے

مسند امام احمد میں حدیث شریف ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا لَقِيتَ الْحَاجَّ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَصَافِحْهُ وَمُرْهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهَ فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمائے ہیں کہ جب تم کسی حاجی سے ملو (جو حج سے فارغ ہو کر واپس ہو رہا ہو تو تم اس کے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے)اس کو سلام کرو، اور (ازراہِ تواضع اور اکرام) اس سے مصافحہ کرو، اور اس سے اپنے لئے دعاء مغفرت کی درخواست کرو، اس لئے کہ وہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے(راہِ خدا کا مسافر ہے)اور وہ گناہوں سے پاک و صاف ہے (اور جس کے لئے وہ دعاء مغفرت کرے گا اس کی بھی مغفرت کر دی جائے گی۔)اس کی روایت امام احمد نے کی ہے۔(مسندامام احمد،حدیث نمبر:5497)

�

مجاہد اور دین کا طالب علم بھی حاجی کے حکم میں ہے

واضح ہوکہ مرقات اور اشعۃ اللمعات میں لکھاہے کہ حاجی کے حکم میں عمرہ ادا کرنے والا، جہاد کرنے والا، اور دین کا طالب علم بھی داخل ہے۔ یہ حضرات بھی اللہ تعالی کی راہ کے مسافر ہیں۔ گھر سے نکل کر گھر واپس ہونے تک سفر کے حکم میں ہوتے ہیں تو یہ حضرات بھی جب ان کاموں سے فارغ ہوکر گھر واپس ہوں تو گھروں میں داخل ہونے سے پہلے ان سے سلام اور مصافحہ کے بعد دعاء مغفرت کروائی جائے اس لئے کہ یہ بھی مغفورین(بخشش یافتہ) ہیں۔

اللہ کے راستہ میں وفات پاجانے کی فضیلت

���� امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب"شعب الایمان "میں حدیث شریف ہے:

���� عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ خَرَجَ حَاجَّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ غَازِيًا ثُمَّ مَاتَ فِيْ طَرِيْقِهِ كَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْغَازِيْ وَالْحَاجِّ وَالْمُعْتَمِرِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمائے ہیں کہ جو شخص حج یا عمرہ یا جہاد کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اور راستہ ہی میں وفات پاجائے تو اللہ تعالی ایسے شخص کے لئے جہاد،حج اور عمرہ کا ثواب لکھدیتا ہے(اور دین کا طالب علم بھی اسی حکم میں ہے)جیسا کہ اشعۃ اللمعات میں مذکور ہے۔

�اس حدیث کی روایت بیہقی نے شعب الایمان میں کی ہے۔

(شعب الایمان للبیہقی، الخامس والعشرون من شعب الإيمان وهو باب المناسك ، فضل الحج والعمرة حدیث نمبر:3945)

حج مقبول کی جزاء جنت ہے

صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں حدیث شریف ہے:

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا ، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ .

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمائے ہیں کہ ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ کرنے کے درمیان جتنے (صغیرہ ) گناہ ہوئے ہوں وہ معاف ہوجاتے ہیں اور حج مقبول کا بدلہ جنت ہی ہے۔ اس کی روایت بخاری اور مسلم نے متفقہ طور پر کی ہے۔

(صحیح بخاری،کتاب العمرۃ، باب وجوب العمرة وفضلها .حدیث نمبر:1773۔صحیح مسلم،کتاب الحج، باب فى فضل الحج والعمرة ويوم عرفة.حدیث نمبر:3355)

�

حج اور عمرہ کو ایک ساتھ ادا کرنے کی فضیلت

���� جامع ترمذي،سنن نسائی اورمسندامام احمد میں حدیث شریف ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِى الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ ۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمائے ہیں کہ حج اور عمرہ کو ایک دوسرے کے بعد ادا کرو(یعنی حج قران کا احرام باندھو کہ اس میں حج اور عمرہ دونوں ایک ساتھ ادا ہوتے ہیں)اس طرح (حج اور عمرہ کا ادا کرنا)افلاس (ظاہری اور باطنی)اور (صغیرہ) گناہوں کو اس طرح دور کردیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے اور حج مقبول کا بدلہ تو صرف جنت ہی ہے۔

اس کی روایت ترمذی ، نسائی اور امام احمد نے کی ہے اور ابن ماجہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اسی کے قریب قریب روایت کی ہے۔

(جامع ترمذي،ابواب الحج،باب ما جاء فى ثواب الحج والعمرة.حدیث نمبر:815)

از:مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر،حیدرآباد الہند

www.ziaislamic.com