Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

ماہ رمضان،استقبال واہتمام


ماہ رمضان،استقبال واہتمام

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنْ، وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِ الْاَنْبِیَاء وَالْمُرْسَلِیْنْ، وَعَلٰی آلِهِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهِرِیْنْ، وَاَصْحَابِهِ الْاَکْرَمِیْنَ اَجْمَعِیْنْ،وَعَلٰی مَنْ اَحَبَّهُمْ وَتَبِعَهُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنْ.اَمَّا بَعْدُ! فاَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ، بِسمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:

يٰآاَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ .صدق اللہ العظیم(سورۃ الحشر۔18)

انسانی زندگی میں منصوبہ بندی اور پلاننگ کی بڑی اہمیت ہے ، ہر صاحب سمجھ اور باشعور انسان منصوبہ بندی سے کام کرتاہے ، اسکولس اور کالجس کے لئے جو نصاب تیار کیا جاتاہے ،دراصل وہ اسٹوڈینٹس کی تعلیمی زندگی کے لئے منصوبہ بندی ہے ، والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں، ایک تاجر اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے اپنے ذہن میں متعدد منصوبے رکھتاہے ، تجارتی منصوبوں پرعمل کرتے ہوئے تاجرین اپنی مصنوعات کی تشہیر کرتے ہیں، اپنے پروڈکٹس کی ایڈورٹایزنگ کرتے ہیں، مسلح افواج ہتھیار اور عددی طاقت کے رکھنے کے ساتھ ساتھ نہایت چابک دستی سے منصوبہ بندی کرتی ہیں۔

منصوبہ بندی صرف انسانی ماحول میں ہی نہیں بلکہ عالم حیوانات پر نظر ڈالی جائے تو چرندو پرند ، وحوش وطیور بھی اپنے اپنے طور پر منصوبے رکھتے ہیں ، بعض جانور موسمی تبدیلی کے لحاظ سے رہائش کے لئے نقل مقام کرتے ہیں اور دوسرے جنگل کا رخ کرتے ہیں ، پرندے موسم کے اعتبار سے اپنے مقام کو تبدیل کرتے ہیں ، یہاں تک کہ چیونٹیاں موسم گرما میں موسم سرما کے لئے ذخیرہ اندوزی کرتی ہیں ۔

جس طرح آدمی دنیوی معاملات میں منصوبہ بندی کررہا ہے ، والدین اپنے نونہالوں کے مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کررہے ہیں ، تاجرین تجارت وکاروبار کو فروغ دینے کے لئے منصوبہ بندی کررہے ہیں ، فوج اپنی مہم سرکرنے کے لئے منصوبہ بندی کررہی ہے ، حیوانات اپنی حیثیت سے منصوبہ بندی کررہے ہیں ؛اسی طرح ایک مسلمان کو آخرت کی زندگی کی فکر کرنی چاہئے، اخروی زندگی کی راحت کی خاطر آنے والے دنوں کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے ، عالم جاودانی میں آرام کے لئے مستقبل کی پلاننگ کرنی چاہئے؛اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

يٰآايُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.

ترجمہ:اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو جائزہ لینا چاہئے کہ وہ آنے والے کل کے لئے کیا تیار کر رکھا ہے ، اور اللہ سے ڈرتے رہو !یقینا اللہ تعالی جانتاہے جو کچھ تم کرتے ہو۔(سورۃ الحشر ۔18)

جب دنیا کے کاموں کے لئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے ، عصری تعلیم ، بزنس ، سیکورٹی اور دیگر دنیوی امور کے لئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے تو اخروی معاملات اور دینی امور کے لئے اور زیادہ اہتمام کیا جانا چاہئے ، اللہ تعالی کی جانب سے کوئی نعمت مل رہی ہوتو اس کی قدر دانی کے لئے پہلے سے پلاننگ ہونی چاہئے ، اس کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی ہونی چاہئے ۔

استقبال رمضان کا پہلا خطبہ ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت

اسی وجہ سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ماہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل اس کی عظمت وشان آشکار کی ہے، آمد رمضان سے پہلے اس کے فضائل سے متعلق خطبے ارشاد فرمائے ہیں، استقبال رمضان سے متعلق بنیادی طورپر تین روایتیں ہیں ، جواستقبال رمضان کے عنوان پر تین بلیغ خطبوں کی حیثیت رکھتی ہیں:

ماہ رمضان کی آمد سے پہلے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس کی آمد کی خوشخبری سناتے، جیساکہ مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے:

عَنْ اَبِیْ هُرَيْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُ اَصْحَابَهُ: قَدْ جَاءَکُمْ شَهْرُ رَمَضَانَ،شَهْرٌ مُبَارَکٌ افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْکُمْ صِيَامَهُ، يُفْتَحُ فِيهِ اَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَيُغْلَقُ فِيهِ اَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ اَلْفِ شَهْرٍ؛ مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ .

ترجمہ:سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو خوشخبری سناتے ہوئے ارشادفرمایا:تمہارے پاس ماہ رمضان کی آمد آمد ہے، یہ ایک برکت والامہینہ ہے ۔ اللہ تعالی نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں ، اس میں جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں ، دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کیا جاتاہے ، اس مہینہ میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، جو شخص اُس رات کی بھلائی سے محروم رہا تو حقیقت میں وہ محروم رہ گیا۔

(مسند امام احمد،مسند ابوہریرۃ،حدیث نمبر:9227)

ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی جنت کے دروازوں کا کھولا جانا بتلارہاہے کہ جو لوگ ماہ رمضان میں نیکیاں کریں گے اُن کے لئے جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ، جنت میں داخلہ اُن کے لئے طے ہے ، جنت اپنی تمام نعمتوں کے ساتھ اُن کا انتظار کر رہی ہے ، اور رمضان کی آمد پر دوزخ کے دروازوں کا بندکیاجانا،اشارہ دے رہاہے کہ اس ماہ مبارک میں نیک عمل کرنے والوں کے لئے دوزخ کے دروازے بندہیں ، اُن کا ٹھکانہ تو جنت ہے ،امام بیہقی نے شعب الایمان میں ایک روایت نقل کی ہے:

عَنْ اَبِیْ هَرَیْرَةَ،قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا کَانَ اَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّیَاطِیْنُ ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ وَيُنَادِى مُنَادٍ کُلَّ لَیْلَةٍ: يَا بَاغِىَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِىَ الشَّرِّ أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلِكَ عِنْدَ کُلِّ لَیْلَةٍ .

ترجمہ:سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے شیاطین اور سرکش جنات بیڑیوں میں جکڑدئے جاتے ہیں ، دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں ، پھر اُس کا کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، پھر اُس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور ایک ندا دینے والا ہررات ندا دیتاہے :اے نیکی کو چاہنے والے !نیکی کرگزر ، اور اے بدی کو چاہنے والے !بدی سے باز آجا ، اللہ تعالی کے دوزخ سے آزاد کئے ہوئے کئی بندے ہوتے ہیں ، رحمتوں کا یہ سلسلہ ہررات جاری رہتاہے ۔

(شعب الایمان للبیھقی ، حدیث نمبر:3446۔جامع الترمذی،حدیث نمبر:684)

ماہ رمضان میں اللہ تعالی کی جانب سے خصوصی طور پرظاہری و باطنی ماحول کو نیکیوں کے لئے سازگار بنادیا جاتاہے ، ہر اعتبار سے بندہ کے لئے نیکی آسان کردی جاتی ہے اور برائی کے اسباب کو نہایت کم کیا جاتاہے ، شیطان مقید ہوتاہے ، نفس ،روزہ کے ذریعہ قابو میں رہتاہے ، ہرطرف بھلائی کرنے کے لئے ماحول آسان سے آسان کیا جاتاہے ۔ اس نعمت سے ہمیں استفادہ کرناچاہئے، اس کی قدر شناسی اور قدردانی کرنی چاہئے ۔

﴿استقبال رمضان کا دوسراخطبہ ، پہلی رات ، بخشش کا مژدہ ﴾

کسی بات کو بیان کرنے کے مختلف انداز ہوتے ہیں، بات سادہ انداز میں کہی جاتی ہے ، اس کے بجائے تاکید کے ساتھ کہی جائے تو اس کی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور اگر بیان کرنے سے پہلے تمہیدلائی جائے تو بیان کی جانے والی بات کی غیرمعمولی اہمیت واضح ہوتی ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ رمضان کے بارے میں تمہید کے ساتھ بیان فرماکر اس کی غیر معمولی اہمیت کو ظاہر فرمایا، جیساکہ صحیح ابن خزیمہ میں روایت ہے :

عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:یَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ - ثَلَاثَ مَرَّاتٍ- فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:یَا رَسُوْلَ اللَّهِ ، وَحْیٌ نَزَلَ ؟ قَالَ:لَا، قَالَ: عَدُوٌّ حَضَرَ ؟ قَالَ:لَا، قَالَ: فَمَاذَا؟قَالَ:إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ یَغْفِرُ فِیْ اَوَّلِ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ اَهْلِ هَذِهِ الْقِبْلَةِ ، وَاَشَارَ بِیَدِهِ إِلَيهَا.

ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایک(آنے والا ) تمہارے سامنے آرہاہے اورتم اُس کااستقبال کروگے۔یہ جملہ تین مرتبہ ارشادفرمایا۔حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیاکوئی وحی نازل ہوئی ؟ فرمایا:نہیں ،عرض کی:کیا کوئی دشمن آیاہے؟ فرمایا:نہیں!عرض کی!توپھر کیا واقعہ پیش ہونے والا ہے ؟ارشاد فرمایا:(ماہ رمضان کی آمدآمدہے)یقینا اللہ تعالی ماہ رمضان کی پہلی رات اس قبلہ کوماننے والے تمام اہل ایمان کی مغفرت فرمادیتاہے ،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرماتے وقت اپنے دست مبارک سے قبلہ کی جانب اشارہ فرمایا۔(صحیح ابن خزیمۃ ،کتاب الصیام،جماع ابواب فضائل شھررمضان وصیامہ، حدیث نمبر:1778۔شعب الایمان للبیہقی،حدیث نمبر:3468)

رمضان کا مہینہ ابھی شروع نہیں ہوا ، آمد رمضان سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اہمیت دے کر بیان فرمایا، اس کی عظمت آشکار فرمائی ، اس کے بارے میں مغفرت کا مژدہ سنایا، تاکہ اہل ایمان ماہ رمضان کی آمد سے پہلے تیاری کرلیں ، اس قدر اہمیت کے ساتھ بیان فرمایاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وحی نازل ہونے کا گمان کیا ، دشمن کے حملہ کااندیشہ کیا ، اس سے معلوم ہوتاہے کہ ماہ رمضان سے پہلے ایک مہم کے طورپر اس کے استقبال کی تیاری کرنی چاہئے ، اس کے لمحہ لمحہ سے استفادہ کرنے کے لئے ذہنی وفکری طورپر ، علمی وعملی طورپر اورمعاشی ومعاشرتی طورپر تیار رہنا چاہئے ۔

ماہ رمضان کی تیاری اور طریقۂ صحابہ

جیساکہ الغنیۃ لطالبی طریق الحق میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت مذکورہے:

وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ اَنَّهُ قَالَ: کَانَ اَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِذَا نَظَرُوْا اِلَی هِلَالِ شَعْبَانَ اَکَبُّوْا عَلَی الْمَصَاحِفِ یَقْرَءُوْنَهَا وَاَخْرَجَ الْمُسْلِمُوْنَ زَکَوةَ اَمْوَالِهِمْ لِیَتَقَوَّی بِهَا الضَّعِیْفُ وَالْمِسْکِیْنُ عَلَی صِیَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ ،وَدَعَا الْوُلَاةُ اَهْلَ السِّجْنِ فَمَنْ کَانَ عَلَيْهِ حَدٌّ اَقَامُوْهُ عَلَيْهِ وَاِلَّاخَلُّوْا سَبِیْلَهُ ،وَانْطَلَقَ التُّجَّارُ فَقَضَوْا مَا عَلَيْهِمْ وَقَبَضُوْا مَالَهُمْ حَتَّی اِذَا نَظَرُوْا اِلَی هِلَالِ رَمَضَانَ اِغْتَسَلُوْا وَاعْتَکِفُوْا.

ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام جب ماہ شعبان کا چاند دیکھتے تو قرآن شریف کو سینہ سے لگائے رہتے اور تلاوت میں مصروف رہتے ، مسلمان اپنے اموال کی زکاۃ نکالتے تاکہ کمزور اور مسکین اس کو حاصل کرکے ماہ رمضان کے روزے رکھنے کی قوت حاصل کرے ،حکام و ذمہ داران ، قیدیوں کو طلب کرتے اور ان میں جوحدشرعی کے مستحق تھے، ان پر حد جاری کرتے، ورنہ ان کورہاکردیتے،تاجر حضرات اپنے ذمہ جو حقوق ہیں انہیں ادا کردیتے اور جو چیزیں وصول طلب تھیں انہیں حاصل کرلیتے یہاں تک کہ جب رمضان کاچانددیکھ لیتے تو غسل کرکے یکسوئی کے ساتھ عبادت میں مشغول ہوجاتے ۔(الغنیۃ لطالبی طریق الحق ج1، ص 188)

مذکورہ روایت سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان ماہ شعبان میں ہرسطح پر ماہ رمضان کی تیاری کرتے، عملی اعتبار سے تیاری کے لئے تلاوت قرآن کا خصوصی اہتمام کرتے ، معاشی سطح پر تیاری کرتے ہوئے لین دین کے معاملات کی تکمیل کرتے ، اپنے ذمہ جو حقوق باقی ہیں انہیں ادا کرتے ، وصول طلب رقوم حاصل کرتے، سماجی سطح پر تیاری کرتے، یہ بزرگ حضرات اپنی تیاری کے ساتھ ساتھ دوسروں کی تیاری کا لحاظ رکھتے ، شعبان میں مال کی زکوٰۃ نکالتے ، تاکہ تنگدست افراد ، روزہ رکھنے کے لئے زکوٰۃ کی رقوم کے ذریعہ تیاری کرلیں، جن قیدیوں سے متعلق شرعی سزائیں نہیں،انہیں رہا کرتے تاکہ وہ بھی ماہ رمضان کی تیاری کرلیں، ہرطرح سے تیاری کرنے کے بعد جب ماہ رمضان کا چاند دیکھتے تو ہمہ تن متوجہ ہوجاتے ، مکمل اہتمام کے ساتھ غسل کرکے ہمہ تن عبادت میں مشغول ہوجاتے۔

﴿استقبال رمضان پر تیسرا طویل ترین خطبہ ﴾

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ رمضان کی فضیلت ،روزوں کی فرضیت ، تراویح کی اہمیت اورشب قدر کی افضلیت پرمشتمل ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا،یہ استقبال رمضان کے عنوان پر طویل ترین خطبہ ہے،جس کی روایت امام بیہقی نے شعب الایمان میں کی ہے:

عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ،قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرَ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ ، فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ! قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ ، شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ، جَعَلَ اللهُ صِيَامَهُ فَرِيْضَةً ، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا ، مَنْ تَقَرَّبَ فِيْهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ اَدَّى فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ ، وَمَنْ اَدَّى فَرِيْضَةً فِيْهِ كَانَ كَمَنْ اَدَّى سَبْعِيْنَ فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ ، وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ اَلْجَنَّةُ ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ ، وَشَهْرٌ يُزَادُ فِيْهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ ، مَنْ فَطَّرَ فِيْهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوْبِهِ ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَن يَّنْقُصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ ، قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ ! لَيْسَ كُلُّنَا يَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُعْطِي اللهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمَرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِن مَّاءٍ ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللهُ مِنْ حَوْضِيْ شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ ، وَآخِرِهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ، مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْكِهِ فِيْهِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ - زَادَ هَمَّامٌ فِيْ رِوَايَتِهِ -: فَاسْتَكْثِرُوْا فِيْهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ: خَصْلَتَانِ تَرْضَوْنَ بِهَا رَبَّكُمْ ، وَخَصْلَتَانِ لَا غِنَى لَكُمْ عَنْهُمَا ، فَاَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تَرْضَوْنَ بِهَا رَبَّكُمْ : فَشَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَتَسْتَغْفِرُوْنَهُ ، وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنَى لَكُمْ عَنْهُمَا: فَتَسْأَلُوْنَ اللهَ الْجَنَّةَ ، وَتُعَوِّذُوْنَ بِهِ مِنَ النَّارِ.

ترجمہ:حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخر ی دن ہم سے خطبہ ارشاد فرمایا،اور ارشاد فرمایا: اے لوگو!تم پر ایک عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہوچکاہے ، وہ برکت والا مہینہ ہے ،وہ ایسا مہینہ ہے جس میں ایک عظیم رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ تعالی نے اس کے روزوں کو فرض قرار دیا اور رات میں قیام کرنے کو نفل قراردیا، اس مہینہ میں جس شخص نے نفل عمل کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے دوسرے مہینہ میں فرض اداکیا اور جس شخص نے اس میں ایک فرض ادا کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے دوسرے مہینہ میں ستر(70) فرائض ادا کئے ۔اوروہ صبرکا مہینہ ہے اور صبرکا ثواب جنت ہے اور غمخواری کا مہینہ ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں مؤمن کا رزق بڑھادیا جاتاہے، اس مہینہ میں جس نے ایک روزہ دار کو افطار کروایا وہ اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے اس کی گردن کی آزادی کا سبب ہے اور اس کے لئے روزہ دار کے ثواب کے برابر اجر وثواب ہے؛ روزہ دار کے ثواب میں کمی کئے بغیر۔ ہم نے عرض کیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !ہم میں سے ہر شخص وہ نہیں پاتا جس کے ذریعہ وہ روزہ دار کو افطار کروائے،تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کوبھی دیتا ہے جس نے کسی روزہ دار کو دودھ کے گھونٹ یا ایک کھجوریا پانی کے گھونٹ پر افطار کروایا اور جو شخص کسی روزہ دار کو شکم سیر کرتا ہے اللہ تعالی اس کو میرے حوض سے ایسا گھونٹ پلائے گا کہ وہ پیاسانہ ہوگا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے ، اور یہ ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت کاہے، درمیانی حصہ مغفرت کاہے اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی کاہے اور جوشخص اس مہینہ میں اپنے غلام سے بوجھ کوکم کرے اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمائے گا اور اس کو دوزخ سے آزادفرمادے گا ۔اور حضرت ھمام کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے "ماہ رمضان میں چار چیزوں کی کثرت کرو!ان میں دوچیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ تم اپنے رب کو راضی کرسکتے ہو! اور دوچیزیں ایسی ہیں جن کے بغیر تمہارے لئے کوئی چارہ نہیں،اب رہی وہ دوچیزیں جن کے ذریعہ تم اپنے رب کو راضی کرسکتے ہو!وہ یہ ہیں:کلمۂ طیبہ- لاالہ اللہ محمد رسول اللہ- کا ورد کرنا اور اللہ سے مغفرت طلب کرنا۔ اب رہی وہ دوچیزیں جن کے بغیرتمہارے لئے کوئی چارہ نہیں، وہ یہ ہیں:تم اللہ تعالی سے جنت کا سوال کرتے رہو اور دوزخ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو"۔

(شعب الایمان للبیھقی،فضائل شھررمضان،حدیث نمبر3455، مشکوۃ المصابیح ، کتاب الصوم، ص 173/174،زجاجۃ المصابیح ج1،، کتاب الصوم،ص541)

ہم رمضان کی تیاری کیسے کریں؟

ہمارے لئے ضروری ہیکہ اس ماہ مبارک کی عظمت کے پیش نظر بارگاہ الہی میں توبہ و استغفار کرتے ہوئے اس کا استقبال کریں،ان عظمت و سعادت والے لمحات کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کے فیوض وبرکات حاصل کریں اور اپنے اوقات کو عبادت وریاضت اورنیک کام کرنے میں صرف کریں، تلاوت کلام مجیدکا خوب اہتمام کریں،متعلقہ افرادکے حقوق اداکردیں،معاملات کوصاف ستھرابنالیں، زکوٰۃ اداکرکے غریبوں کورمضان کی عبادت کے لئے فارغ ہوجانے کا موقع فراہم کریں۔

ماہ رمضان کی آمد سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ طویل خطبہ' استقبال رمضان کی اہمیت کو اُجاگر کرتاہے ، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد فرمایاہوا اک اک کلمہ اپنے اندر بڑی معنویت کو سمویا ہواہے ، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خطبہ کے آغاز میں ساری انسانیت سے خطاب فرمایا،آپ نے عالم انسانیت کو دعوت دی۔

ماہ رمضان کے بارے میں فرمایا:’’تم پر ایک عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہوچکا ہے ،، آمد کو بتلانے کے عربی زبان میں بہت سے الفاظ موجود ہیں ، لیکن حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم� نے "أَظَلَّ"(سایہ فگن ہونے )کا لفظ استعمال فرمایا، اس لئے کہ سایہ کے لفظ سے رحمت وشفقت ،لطف ومہربانی ذہن میں آتی ہے ،جس طرح گھنادرخت اپنے سایہ میں رہنے والوں کو دھوپ کی سختی اور بارش سے بچاتاہے اسی طرح جو شخص ماہ رمضان کے سایہ میں آتاہے، اس کے معمولات میں مصروف رہتاہے، ماہ رمضان اُسے قبر کی تنگی، حشر کی سختی اور دوزخ کی گرمی سے بچالیتاہے ۔ یہ لفظ بتلارہاہے کہ ماہ رمضان کا لمحہ لمحہ بندے، اللہ تعالی کی خصوصی رحمت وشفقت اور لطف ومہربانی سےمالامال ہوتے ہیں ۔

جہاں شفقت ومہربانی زیادہ ہوتی ہے وہاں بسا اوقات غفلت وتساہل ہوجاتاہے؛ جیسے والدین میں باپ کی بہ نسبت ماں اولاد پر زیادہ مہربان ہوتی ہے، اسی وجہ سے اولاد ماں کی اطاعت میں نسبۃً زیادہ سست دکھائی دیتی ہے ، اسی وجہ سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت کے ساتھ عظمت کو آشکار فرمایاکہ جو مہینہ تم پر سایہ فگن ہورہاہے وہ رحمتوں والا مہینہ ہے ، جو مہینہ تمہارے پاس آیا ہے وہ لطف ومہربانی والا مہینہ ہے اور یہ مہینہ عظمت والابھی ہے ، اس کے تقدس کو پامال نہ کیا جائے ، یہ بڑی شان والامہینہ ہے، اس کی قدردانی کی جائے ، جو اس کی عظمت وتقدس کو ملحوظ رکھتاہے ، اُس پر کرم دوبالاہوجاتاہے اور جو اس کی قدردانی نہیں کرتاوہ رحمت سے دور ہوجاتاہے ۔

ماہ رمضان کا احترام' نجات کاذریعہ

حضرت ابوالحسنات سید عبداللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب" فضائل رمضان" میں ماہ رمضان کی عظمت بجالانے سے متعلق ایک حکایت ذکرفرمائی ہے :

ایک پارسی تھے ، اپنے بیٹے کو دیکھے کہ رمضان کے مہینہ میں بازار میں کھاتاجارہاہے ، جیسے پان وغیرہ تو اپنے بیٹے کو مارے اور کہے کہ نالائق !مسلمانوں کے رمضان کی عزت نہیں کرتا! کسی نے پارسی کو اس کے مرنے کے بعد دیکھا کہ جنت میں تخت پر بیٹھا ہے ، پوچھا کہ جنت میں کیسے پہنچ گئے ؟ وہ کہے کہ جب میرا وقت قریب آیا، حکم ہوا کہ فرشتو!اس کو کفرپر مت رہنے دو ، اس سے کہو کہ تونے رمضان کی عزت کی ہے اس لئے ہم کہتے ہیں کہ تو ہماری خاطر مسلمان ہوجا ! میں مسلمان ہونے کے بعد سکرات شروع ہوئی ۔(فضائل رمضان ، ص:25)

ماہ رمضان کی ناقدری 'مغفرت سے محرومی

جو شخص ماہ رمضان کی قدر نہیں کرتا اور اس مہینہ میں اپنے لئے سامان مغفرت حاصل نہیں کرتا ،اُس کے لئے ہلاکت بتلائی گئی ہے ، جیساکہ مستدرک علی الصحیحین میں حدیث پاک ہے :

عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اُحْضُرُوْا الْمِنْبَرَ ، فَحَضَرْنَا فَلَمَّا ارْتَقَى دَرَجَةُ قَالَ : آمِيْنْ ، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّانِيَةَ قَالَ : آمِيْنْ ، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّالِثَةَ قَالَ : آمِيْنْ ، فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا:يَا رَسُوْلَ اللهِ ! لَقَدْ سَمِعْنَا مِنْكَ الْيَوْمَ شَيْئًا مَا كُنَّا نَسْمَعُهُ قَالَ : إِنَّ جِبْرِيْلَ عَلَيْهِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَرَضَ لِيْ فَقَالَ:بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ ،قُلْتُ : آمِيْنْ ، فَلَمَّا رَقِيْتُ الثَّانِيَةَ قَالَ : بُعْدًا لِمَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ قُلْتُ : آمِيْنْ ، فَلَمَّا رَقِيْتُ الثَّالِثَةَ قَالَ : بٌعْدًا لِمَنْ أَدْرَكَ أَبَوَاهُ الْكِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ أَحَدَهُمَا فَلَمْ يُدْخِلَاهُ الْجَنَّةَ قُلْتُ : آمِيْنْ.

ترجمہ:حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ نے کہا ، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:منبر کے پاس جمع ہوجاؤ، تو ہم منبر شریف کے پاس حاضر ہوگئے ، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر کی ایک سیڑھی پر قدم مبارک رکھے تو آمین فرمایا، جب دوسری سیڑھی پر قدم مبارک رکھے تو آمین فرمایا اور جب تیسری سیڑھی پر قدم مبارک رکھے تو آمین فرمایا۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر شریف سے نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!ہم نے آج منبر پر آپ کو تشریف لے جاتے وقت ایسے کلمات سنے کہ اس سے پہلے اس طرح نہ سنے تھے ؟ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ جبریل امین میرے پاس حاضر ہوئے اور کہا :جو شخص رمضان کو پائے اور اس کی مغفرت نہ ہو وہ رحمت الہی سے دور ہو ، میں نے کہا :آمین ۔ جب میں دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبریل نے کہا:جس شخص کے سامنے آپ کا نام مبارک ذکر کیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے وہ رحمت الہی سے دور ہو، میں نے کہا :آمین۔ جب میں تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبریل نے کہا :جس شخص کے والدین یا ان میں سے ایک بڑھاپے کو پہنچ جائے اور وہ ان کی خدمت کر کے جنت کا حقدارنہ بن سکے� وہ رحمت الہی سے دور ہو، میں نے کہا :آمین۔

(مستدرک علی الصحیحین ، کتاب البروالصلۃ،حدیث نمبر:7365)

ماہ رمضان میں ثواب کی شرح میں اضافہ

یہ مہینہ برکتوں کا سرچشمہ ہے ، اس ماہ مبارک میں کرم دوبالاہوتاہے ، دیگر گیارہ مہینوں میں نفل کا ثواب نفل کے برابراور فرض کا ثواب فرض کے برابر ہوتاہے لیکن اس مہینہ میں ثواب کی شرح بڑھادی جاتی ہے ، عمل وہی ہوتاہے ،ثواب بڑھادیا جاتاہے، جوشخص نفل ادا کرتاہے اُسے فرض کے برابر ثواب دیا جاتاہے ، جو شخص فرض ادا کرتاہے اُسے ستّر (70)فرائض کے برابر ثواب دیا جاتاہے ۔

نماز کی ادائیگی کی بات ہوتو نماز کے ارکان وہی ہیں ، مال خرچ کرنے کا معاملہ ہویاکوئی عمل ہو،مشقت اسی قدر ہے، وہی ہے جو دوسرے مہینوں میں ہوتی ہے ، لیکن ماہ رمضان کی یہ خصوصی برکت ہے کہ اجروثواب بڑھادیاجاتاہے ۔

اہل ایمان کے رزق میں اضافہ

اس مبارک مہینہ میں ایمان والوں کا رزق بڑھادیاجاتاہے ، ظاہری رزق بھی بڑھایاجاتاہے اور باطنی رزق بھی ، جسمانی غذامیں بھی اضافہ ہوتاہے اور روحانی غذا میں بھی ، ظاہری رزق اضافہ ہوتوہمارا مشاہدہ ہے ، کسی شخص کے لئے سال بھر جو غذائیں ، میوہ جات وغیرہ میسر نہیں آتیں ،تنگدست سے تنگدست مسلمان کے لئے اس مبارک مہینہ میں بہ آسانی میسرآجاتی ہیں ، جگہ جگہ افطاری تقسیم کی جاتی ہے ، سحروافطار کے لئے مدعوکیاجاتاہے ، رزق کا بڑھنا رزق کے وسائل واسباب پر موقوف ہوتاہے ، اس ماہ میں کسب کے وسائل بڑھ جاتے ہیں ، معاشی اسباب میں غیرمعمولی اضافہ ہوتاہے ، بے روزگار افراد بھی کسب معاش کرکے بہت کچھ حاصل کرلیتے ہیں اور حدیث پاک کی برکت ہی ہے کہ رمضان کے مہینہ میں عام طورپر ملازمین کو بونس دیاجاتاہے ۔

باطنی رزق کے کیا کہنے !ہرمسلمان پر اللہ تعالی کی خصوصی عنایتیں ہوتی ہیں ، ماہ رمضان کے صبح وشام رحمتیں نازل ہوتی ہیں ، شب وروز رحمت الہی میں ڈوبے ہوئے رہتے ہیں لیکن اُسے اہل دل حضرات ہی جانتے ہیں ، اس سے اہل نظر واقفیت رکھتے ہیں، مشاہدہ کرتے ہیں ، خصوصی تجلیات الہی سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔

ماتحتوں کا بوجھ کم کرنے کی ہدایت

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ماہ مبارک میں غلاموں کے بوجھ کم کرنے کی تاکید فرمائی ، ارشاد فرمایا:جوشخص اس مہینہ میں اپنے غلام سے بوجھ کوکم کرے اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمائے گا اور اس کو دوزخ سے آزادفرمائے گا ۔

اس حدیث پاک کے ضمن میں ہروہ فرد آتاہے جس کے تحت کوئی کام کرتاہے ، جس کی نگرانی میں کوئی ذمہ داری پوری کرتاہے ، جو اپنے ماتحت افراد کی ذمہ داریوں کو کم کرتاہے ؛ اللہ تعالی سے امید ہے کہ اللہ تعالی اُسے بھی اجروثواب سے نوازدے۔

عہدہ دار اپنے ملازمین کی ذمہ داریوں کو کم کرے ، مینیجر اپنے ورکرس کا بوجھ ہلکا کرے ، ہروہ شخص جودوسروں پرانتظامی طورپر بالادستی رکھتاہے ، اُن کے لئے سہولت فراہم کرے ، آسانی کی راہ نکالے ۔

آخرمیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ماہ رمضان کا بہتر طورپر استقبال کرنے کی توفیق بخشے ، اس کے لئے کامل طورپر تیاری کرنے کی ہدایت عطا کرے ،اس مبارک مہینہ کے ہرلحظہ کی قدردانی کرنے والا بنائے ، اس کی خصوصی برکتوں سے ہمارے ظاہروباطن کو معمور کردے۔

آمِیْنْ بِجَاهِ سَیِّدِنَا طٰهٰ وَیٰس، صَلَّی اللهُ تَعَالی وَبَارَکَ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَعَلٰی آلِه وَصَحْبِه اَجْمَعِیْنَ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.