Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Burning Topics

ضرورت فقہ اورمقامِ امام اعظم


ضرورت فقہ اورمقامِ امام اعظم

 

������ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنْ، وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَيِدِ الْاَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنْ، وَعَلٰی آلِهِ الطَّيِّبِيْنَ الطَّاهِرِيْنْ، وَاَصْحَابِهِ الْاَکْرَميِنَ اَجْمَعِيْنْ،وَعَلٰی مَنْ اَحَبَّهُمْ وَتَبِعَهُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی يَوْمِ الدِّيْنْ .

������ اَمَّا بَعْدُ!

�فاَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ، بِسمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ :

وَمَاکَانَ الْمُوْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا کَافَّةً . فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنْ.صدق الله العظيم

اسلامی عقائد،دینی فرائض،شرعی واجبات،عبادات اور معاملات سے متعلق بنیادی معلومات حاصل کرنا ہرمسلمان کے لئے لازم وضروری ہے ، البتہ دین میں �تفقہ حاصل کرنا،اس کی گہرائی وگیرائی میں �اترنا،خالصۃًاس کے لئے� فارغ ہوجانا اور اس میں �کامل عبورحاصل کرنا،تاکہ نت نئے مسائل کاقرآن وحدیث کی روشنی میں �جواب دیاجاسکے ،یہ فرض کفایہ کے درجہ میں �ہے، ہرشخص علم دین میں �کامل تفقہ حاصل کرنے کے لئے مکمل طورپر وقت نہیں �دے سکتا، مسلمانوں �کے تمام افراد فقہ واستنباط کے لئے فارغ نہیں �ہوسکتے، اگر سارے لوگ فقہ وبصیرت کے حصول کے لئے مصروف ہوجائیں تو معاشی معاملات میں �خلل واقع ہوگا، امورمعیشت متاثر ہوں �گے، جبکہ مسلمانوں �کے لئے کسبِ معاش بھی لازمی وضروری ہے، اسی لئے مسلمانوں �کی ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو علم دین کے تفقہ کے لئے فارغ ہوجائے، دین کی سمجھ بوجھ کے لئے اپنے آپ کو وقف کردے ، دین کی فقہ وفہم میں �مہارت حاصل کرے، تاکہ نت نئے مسائل کاقرآن وسنت کی روشنی میں �جواب دے سکے۔جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

�وَمَاکَانَ الْمُوْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا کَافَّةً . فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنْ.

ترجمہ:اور تمام اہل ایمان تو ایک ساتھ نکل نہیں �سکتے ،ایسا کیوں �نہیں �ہوا کہ ہر بڑی جماعت سے کچھ خاص لوگ نکل جاتے ،تاکہ وہ دین کی فقہ وفہم کو حاصل کریں اور اپنی قوم کو ڈرائیں �جب ان کی طرف واپس ہوں �،تاکہ وہ(گناہوں �کی زندگی سے) بچیں ۔(سورۃ التوبۃ:122)

فقہ کی اصل قرآن کریم سے

���� اللہ تعالی نے تفقّہ فی الدین حاصل کرنے کاحکم فرمایا ، اس سے فقہ کی اہمیت ووقعت عیاں �وآشکار ہوتی ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

کُوْنُوْا رَبَّا نِيِّيْنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَبِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنْ .

ترجمہ:تم اللہ والے بن جاؤ کیونکہ تم کتاب الہی کی تعلیم دیتے ہو اور خود بھی اسے پڑھتے ہو۔ (سورۃ ال عمران۔79)

���� امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں �لکھا ہے:

وقال ابن عباس ’’کونوا ربانيين،، حکماء فقهاءْ.

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما Ù†Û’ فرمایاکہ ’’کُوْنُوْا رَبَّانِیِّیْنَ،، کا معنی یہ ہے کہ تم حکمت وبصیرت والے ،فقہ واستنباط والے بن جاؤ۔

������ (صحیح البخاری ، کتاب العلم، باب العلم قبل القول والعمل)

���� اس تفسیر سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی فقہ واستنباط والے بننے کا حکم دے رہاہے، صحیح بخاری شریف میں �اس کی تفسیر یہی بیان کی گئی ہے کہ فقہا ء بن جاؤ ،حکمت وبصیرت والے بن جاؤ، فکر وتدبر والے بن جاؤ، دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والے بن جاؤ۔

فقہ کی اصل حدیث شریف سے

���� حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمد انوار اللہ فاروقی بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے حقیقۃ الفقہ کے عنوان سے دو جلدوں �میں �ایک تحقیقی کتاب لکھی ہیں ، ان میں �آپ نے نہایت ایمان افروز بحثیں �فرمائی ہیں �،آپ نے فقہ کی حقیقت اور فقہ کی اہمیت نیز فقہاء کرام کے منصب جلیل سے متعلق مباحث انتہائی شرح وبسط کے ساتھ درج کئے ہیں ، فی زمانہ اس کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔

���� تاجدار کائنات، سیدالانبیاء والمرسلین ،حامل علوم اولین وآخرین صلی اللہ علیہ وسلم ارواحنا فداہ ارشاد فرماتے ہیں :

عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اِنَّ لِکُلِّ شَيْئٍ دِعَامَةً وَدِعَامَةَ هٰذَا الدِّيْنِ الْفِقْهُ .

������ ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں �نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر چیز کا ایک ستون ہوتا ہے اور دین کا ستون تو فقہ ہی ہے۔

������ (جامع الاحادیث، حدیث نمبر: 8154۔ الجامع الکبیر، حدیث نمبر:1504۔ کنزالعمال ،حرف العین ، حدیث نمبر:28768۔ العلل المتناہیۃ، باب فضل الفقہ علی العبادۃ، حدیث نمبر:194)

فقہ کتاب وسنت کا لب لباب

���� اس حدیث پاک میں �اسی بات کی صراحت کی گئی کہ دین کا نچوڑ فقہ ہے ،دین کا مدار فقہ ہے ،دین کا سرمایہ فقہ ہے، فقہ قرآن وحدیث کے مقابل کسی چیز کانام نہیں �ہے بلکہ قرآن کریم وحدیث شریف کے صحیح فہم وادراک کانام فقہ ہے ،فقہ تو دین کا سہارا ہے، دین کا ستون ہی موجود نہیں �تو دین کہاں �رہا؟ سہارا ٹوٹ گیا تو دین کہا ں �رہا؟

فقہ کے بارے میں �کہا جاتاہے کہ فقہ کی طرف نہ جاؤ جب فقہ کی طرف نہ جائیں �گے تو پھر فقہ سے خالی رہ کر قرآن کریم وحدیث شریف کیسے سیکھیں �گے؟ کیونکہ قران وسنت سے رشد وہدایت حاصل کرنے کے لئے محض کلمات کا ترجمہ جان لینا کافی نہیں �بلکہ اس کے حقیقی معنی ومفہوم کو سمجھنا ضروری ہے اور فقہ دراصل قرآن کریم وحدیث شریف کے منشا کو پانے کا نام ہے۔

���� قرآن کریم اور احادیث شریفہ اسلامی قانون کی اساس وبنیاد ہیں ، جن میں �انسانی زندگی کے تمام شعبوں �کا مکمل حل موجود ہے ،قرآن کریم عام فہم اور آسان ہونے کے باوجود اس میں �آیات محکمات بھی ہیں �اور متشابہات بھی ہیں ، آیات قرآنیہ کو سمجھنا اور ان سے مسائل کا حل نکالنا عام انسان تو کجا ایک ماہرِ زبان کے لئے بھی آسان بات نہیں �کیونکہ محض زبان پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے قانون کی نزاکتوں �کو سمجھنا آسان نہیں �ہے،جیسے انگریزی ادب (English literature) کا ماہر شخص ہندوستانی دستور (Indian constitution) یا کسی بھی ملک کے قانون کی باریکیوں �کو نہیں �سمجھ سکتا، زبان کی مہارت اور تقریروتحریر پر زبردست ملکہ کے باوجود قانونی نزاکتوں �کو سمجھنا،دستوری پیچیدگیوں �کو دور کرنا، نہایت دشوار ہوتاہے ، اس کے لئے کسی ماہر قانون سے رجوع ہونا ضروری ہے ۔

ضرورت فقہ ' قرآن کریم کی روشنی میں

���� چونکہ ہر دور کے تقاضے مختلف رہے ہیں �جس کی بنا انسان کو ہر وقت نئے مسائل درپیش ہوتے رہتے ہیں �، مثلاً دور حاضر کے مسائل میں �شیر بزنس(Share business ) کو دیکھ لیجئے، اس کی کونسی صورتیں �جائز ہیں �اور کونسی ناجائز ہیں �؟ فکسڈ ڈپازٹ (Fixed deposit )کروانا کیسا ہے؟ کسی چیز کی آن لائن خرید وفروخت ، اپنے قبضہ میں �آنے سے قبل کسی چیز کو بیچ دینا ، لائف انشورنس (life insurance) کا شرعی حکم ، اس طرح کے سینکڑوں �مسائل ہیں �،جن کو عام انسان اپنے علم ودانش ، فہم وادراک سے حل نہیں �کرسکتا اور ایسے بے شمارجدید مسائل سے متعلق قرآن وحدیث میں �موجود اشاروں �کو اپنی ناقص عقل سے سمجھ نہیں �سکتا، لہذا ضروری ہے کہ وہ کسی ایسے امامِ مجتہد کی طرف رجوع کرے جو، ان مسائل کا حل قرآن کریم و حدیث شریف کی روشنی میں �بیان کرتے ہوں ۔

���� ائمہ کرام Ùˆ فقہاء عظام Ù†Û’ قرآن کریم اور احادیث شریفہ Ú©ÛŒ روشنی میں �اصول وضوابط ØŒ قواعد Ùˆ احکام بیان کئے ہیں ونیز انسانی زندگی میں �پیدائش سے موت تک پیش آنے والے تمام مسائل واحکام Ú©Ùˆ انہوں �نے باب واری ’’کتاب الطھارۃ،،سے� ’’کتاب الفرائض،، تک مدون کیا ØŒ جس Ú©Û’ مجموعہ Ú©Ùˆ فقہ کہا جاتا ہے ØŒ اسی لئے ان بااعتماد ائمہ کرام ومجتہدین Ú©ÛŒ پیروی وتقلید دراصل کتاب وسنت ہی Ú©ÛŒ پیروی ہے Û”

���� اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

يَا اَيُّهَا الَّذِيْنَ آَمَنُوا اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاُولِی الْامْرِ مِنْکُمْ .

���� ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور تم میں �جو اولی الامرہیں �ان کی اطاعت کرو ۔

������ �(سورۃالنساء۔59)

���� امام ابو جعفر طبری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی :310) نے اپنی کتاب جامع البیان فی تفسیر القرآن میں �حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما،حضرت مجاہد ،حضرت ابن ابونجیح ،حضرت عطاء بن سائب،حضرت حسن بصری اور حضرت ابو العالیہ رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے کہ اولی الامر سے مراد فقہاء واہل علم حضرات ہیں �۔

������ عن مجاهد فی قوله : ( اطيعوا الله واطيعوا الرسول واولی الامر منکم ) قال : اولی الفقه منکم ۔ ۔ ۔� عن ابن ابی نجيح : ( واولی الامر منکم ) قال: اولی الفقه فی الدين والعقل ۔ ۔ ۔� عن ابن عباس قوله : ( اطيعوا الله واطيعوا الرسول واولی الامر منکم ) يعنی : اهل الفقه والدين ۔ ۔ ۔� عن عطاء بن السائب فی قوله : ( اطيعوا الله واطيعوا الرسول واولی الامر منکم ) قال : اولی العلم والفقه ۔ ۔ ۔� عن عطاء : ( واولی الامر منکم ) قال : الفقهاء والعلماء ۔ ۔ ۔�� عن الحسن فی قوله : ( واولی الامر منکم ) قال : هم العلماء ۔ ۔ ۔� عن ابی العالية فی قوله : ( واولی الامر منکم ) قال : هم اهل العلم الا تری انه يقول : ( ولو ردوه إلی الرسول وإلی اولی الامر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم )

������ (تفسیر الطبری، سورۃ النساء۔59)

���� حضرت ابن ابو نجیح رحمۃ اللہ علیہ نے امام مجاہد مکی تابعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت نقل کی ہے:

عن ابن ابی نجيح عن مجاهد فی قوله عزوجل واولی الامرمنکم يعنی اولی الفقه فی الدين والعقلْ.

���� ترجمہ:حضرت ابن ابو نجیح رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں �کہ اولی الامر سے مراد دین میں �تفقہ اور فہم وبصیرت رکھنے والے فقہاء کرام ہیں ۔

���� امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاذ،امام عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:211) فرماتے ہیں :

عبد الرزاق قال :نا معمرعن ابن ابی نجيح عن مجاهد فی قوله تعالی� ’’واولی الامرمنکم ،،قال :هم اهل الفقه والعلم . اولی الامر سے مراد فقہاء واہل علم ہیں Û”

������ صاحب تفسیر کبیر علامہ فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،حضرت حسن بصری ،امام مجاہد اور امام ضحاک رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے کہ اولی الامر سے مراد وہ علماء ہیں �جوشریعت کے احکام بتاتے ہیں �اورلوگوں �کودین سکھاتے ہے ۔ :

المراد العلماء الذين يفتون فی الاحکام الشرعية ويعلمون الناس دينهم ۔وهذه رواية الثعلبی عن ابن عباس وقول الحسن ومجاهد وضحاک .

(التفسیرالکبیر۔سورۃالنساء:59)

���� ونیزفرماتے ہیں �کہ اس میں �کوئی اختلاف نہیں �کہ صحابہ کرام وتابعین عظام کی ایک جماعت نے اولی الامرسے علماء مراد لیاہے:

انه لانزاع ان جماعة من الصحابة والتابعين حملوا قوله واولی الامرمنکم علی العلماء .

(التفسیرالکبیر۔سورۃالنساء )

 

اولی الامر سے مراد فقہاء ہیں 'علامہ ابن کثیر کی وضاحت!

علامہ ابن کثیر اس آیت کریمہ کی تفسیر میں �لکھتے ہیں �:

وقال علی ابن ابی طلحة ،عن ابن عباس واولی الامرمنکم يعنی اهل الفقه والدين ، وکذا قال مجاهد وعطاء والحسن البصری وابوالعالية و اولی الامرمنکم يعنی العلماء .

���� ترجمہ:حضرت علی بن ابو طلحۃ ،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ واولی الامرمنکم کی تفسیر سے متعلق روایت بیان فرماتے ہیں �کہ اس سے مراد متدیّن فقہاء کرام ہیں ۔اور اسی طرح امام مجاہد،حضرت عطاء ،حضرت حسن بصری اور ابوالعالیہ رحمہم اللہ نے فرمایا کہ اولی الامر سے مراد علماء ہیں �۔

������ �(تفسیر ابن کثیر، ج2ص345، سورۃالنساء :59)

 

امام اعظم 'آیتِ قرآنی وحدیث بخاری کی بشارت کا مصداق

�فقہ اورتقلید سے متعلق ضروی تفصیل سماعت کرنے کے بعد ہم اما م الائمہ ،سراج الامہ،امام اعظم ابوحنیفہ حضرت نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی عظمت وحقانیت اور آپ کا علمی وفقہی مقام ملاحظہ کریں ! چونکہ یہ ماہ شعبان ہے اورامام اعظم کے وصال کا مہینہ ہے ، اس مناسبت سے آپ کا تذکرہ کیا جاتاہے، آپ کی ولادت سنہ 61 یا70یا80ہجری میں �ہوئی ، اور وصال مبارک 2شعبان المعظم 150ہجری میں �ہوا۔

صحیح بخاری ، صحیح مسلم ،جامع ترمذی وغیرہ کتب حدیث شریف میں �ہے کہ جب سورہ جمعہ کی ابتدائی آیات کریمہ کا نزول ہوا جس میں �ارشاد ہے :

���� �هُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْامِّيِّينَ� رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آَيَاتِهِ وَيُزَکِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِينٍ،وَآَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَکِيمْ . قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ� فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتَّی سَالَ ثَلاَثًا ،� وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ، وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله عليه وسلم� يَدَهُ عَلَی سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ� لَوْ کَانَ الإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ اوْ رَجُلٌ� مِنْ هَؤُلاَءِ .

ترجمہ:وہی شان والا خدا ہے جس نے ناواقف لوگوں کے درمیان ان ہی کی جنس سے ایک عظیم رسول کو بھیجا ،جو اُن کو اس کی آیتیں �پڑھ کر سناتے ہیں �،انہیں �پاک کرتے ہیں �اور کتاب و حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں ،بیشک وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں �تھے،اوریہ عظیم رسول ان میں �سے اوروں �کو بھی پاک کرتے اور کتاب و حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں ، جوپہلوں �سے نہیں �ملے اور وہی غالب حکمت والا ہے (سورۂ جمعہ2/3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، میں �حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ(بعد میں �آنے والے کون ہیں �جن پر آپ آیات کی تلاوت فرمائینگے اور ان کے نفس کا تزکیہ� اور کتاب وحکمت کی� تعلیم فرمائینگے؟) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب عنایت نہیں �فرمایا ، یہاں �تک کہ آپ نے تین مرتبہ دریافت کیا ، (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں )اس وقت ہم میں �حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ موجود تھے ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر رکھ کر ارشاد فرمایا :اگر ایمان ثریا کی بلندی پر بھی ہو تو اِن میں �سے کچھ لوگ بلکہ ایک ہی شخص اسے وہاں �سے بھی حاصل کرلے گا۔

������ (صحیح البخاری ،کتاب التفسیر،باب قولہ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم،حدیث نمبر:4897)

���� حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ نے زجاجۃ المصابیح میں �امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تبییض الصحیفہ سے روایت بیان کی ہے :

������ قال رسول الله صلی الله عليه وسلم: "والذی نفسی بيده! لو کان الدين معلقا بالثريا لتناوله رجل من فارس".۔ ۔ ۔� وقال الحافظ السيوطی: هذا الحديث الذی رواه الشيخان� اصل صحيح، يعتمد عليه فی الإشارة لابی حنيفة، وهو متفق علی صحته. وفی حاشية الشبراملسی علی "المواهب" عن العلامة الشامی تلميذ الحافظ السيوطی قال: ما جزم به شيخنا من ان ابا حنيفة هو المراد من هذا الحديث ظاهر لا شک فيه؛ لانه لم يبلغ من ابناء فارس فی العلم مبلغه احد.

���� ترجمہ:حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں �میری جان ہے ! اگردین ثریا پر بھی معلق ہوتا توابنائے فارس سے ایک شخص اس کو پالیتا۔۔ ۔ ۔� امام حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں �کہ یہ حدیث پاک جس کوامام بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے اصل صحیح ہے جس کی روشنی میں �پورے وثوق کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ اس میں �امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اشارہ ہے اوراس کی صحت پر سب کااتفاق ہے۔� امام سیوطی کے شاگرد علامہ شامی کا بیان ہے :ہمارے شیخ کا یقین ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ہی اس (حدیث)کے مصداق ہیں �جس میں �کسی شک کی گنجائش نہیں �، کیونکہ اہل فارس میں �آپ جیسے علم وکمال کو کوئی نہیں �پہنچا۔

(زجاجۃ المصابیح ، ج1،کتاب العلم)

 

امام اعظم کی تحقیقات کوامام جعفرصادق رضی للہ عنہ کی توثیق

حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ حضرات اہل بیت کرام کا بیحد احترام فرمایا کرتے اور آپ کی فقہی تحقیقات کو اہلبیت کرام کی تائید حاصل ہے۔

"وعن" ابی يوسف ان الإمام کان يفتی فی المسجد الحرام� إذ وقف عليه الإمام جعفر الصادق بن محمد الباقر الإمام رضی الله عنهما وعن آبائهما الکرام ففطن الإمام فقام فقال يا ابن رسول الله لو علمت اول ما وقفت لما قعدت وانت قائم فقال اجلس وافت الناس علی هذا ادرکت آبائی.

���� ترجمہ:اما م ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں �کہ ایک مرتبہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ مسجد حرام میں �بیٹھے ہوئے تھے ،لوگ آتے اور مسائل پوچھتے اور آپ جواب دیتے جاتے تھے ، اتنے میں �حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ وہاں �تشریف لائے اور یہ حالت کھڑے ہوکر دیکھ رہے تھے ، جیسے ہی حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کی نظر آپ پر پڑی ، فراست سے سمجھ گئے کہ آپ تشریف لائے ہیں ، تو فوراً کھڑے ہوگئے اور عرض کیا :ائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہزادے!اگر پہلے سے مجھے معلوم ہوتا کہ آپ یہاں �کھڑے ہوئے ہیں �تو میں �ہرگز نہیں �بیٹھتا ، جبکہ آپ کھڑے ہوں ۔ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:آپ تشریف رکھیں �اور لوگوں �کو احکام بتلائیں ، میں �نے اپنے آباء واجداد کو بھی اسی حالت پر پایا ہے۔

(الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیۃ)

���� حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایاکہ دیکھئے !امام صاحب جو جواب دیتے جاتے وہ سب مسائل فقہیہ تھے'جن کو تقلیداً سب مان رہے تھے اور امام جعفرصادق رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی تحسین کی ۔ (حقیقۃ الفقہ ،ج2،ص49)

امام اعظم کے اخلاق کریمانہ

�حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ جہاں علم وفضل میں �یکتائے روزگار ہیں ، قرآن وحدیث کے علوم وفنون کے بحرذخار ہیں �، ایسی بلندی وکمال پرفائز ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاق عالیہ کے پیکر تھے ، حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ آپ کے اخلاق عالیہ اورفیاضی وسخاوت سے متعلق ایک واقعہ' امام موفق اور امام کردری کی مناقب الامام الاعظم کے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں �:حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ کہتے ہیں �کہ ایک بار میں �ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کسی کی عیادت کو جارہاتھا،راستہ میں �ایک شخص آپ کو دیکھ کر چھپ گیا اور دوسرے راستہ سے نکل جاناچاہا۔ آپ نے اُس کو پکار کر کہا :دوسرے راستہ سے کیوں �جاتے ہو؟ اُ س نے دیکھا کہ امام صاحب پہچان گئے ' شرمندہ ہوکر کھڑا ہوگیا ، آپ نے جب مکرر سبب دریافت کیا تو اُس نے کہا کہ مجھ پر آپ کے دس ہزار درہم ہیں ، اور باوجود مدت گزرجانے کے تنگدستی کی وجہ سے ادا نہ کرسکا اِس لئے روبرو آنے سے مجھے شرم آئی ۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:سبحان اللہ اُن درہموں �سے چھپنے کی نوبت پہنچ گئی ، وہ کُل میں �نے تمہیں �معاف کردیا،اور تم سے یہ درخواست ہے کہ میری طرف سے تمہارے دل پر جوگرانی گزری وہ تم معاف کردو۔

(حقیقۃ الفقہ ج1۔ص299)

 

امام اعظم اور تعظیم قرآن

���� امام موفق رحمۃ اللہ علیہ' امام اعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں �تعظیم قرآن پاک سے متعلق ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں :

واورد امام الائمة الزرنجری هذا الحديث مرسلا وقال لما تعلم ابنه حماد الفاتحة وهب للمعلم الف درهم۔ قلت : واورد ابن جبارة فی کتابه المعروف (بالکامل) فقال المعلم ماصنعت حتی انفذالی هذا ؟ وحضره واعتذر اليه ۔فقال يا هذا تستحقر ما علمت ولدی ، والله لو کان معنا اکثر من ذلک لدفعناه تعظيما للقرآن .

������ �ترجمہ: امام الائمہ زرنجری رحمۃ اللہ علیہ Ù†Û’ اس واقعہ Ú©Ùˆ مرسلاً روایت کرتے ہوئے فرمایا:امام صاحب Ú©Û’ فرزند حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ Ù†Û’ جب سورۂ فاتحہ ختم Ú©ÛŒ توامام اعظم رضی اللہ عنہ Ù†Û’ استاذ Ú©Û’ پاس ہزار درہم تحفۃًبھیجا۔امام موفق فرماتے ہیں �کہ ابن جبارہ Ù†Û’ اپنی مشہور کتاب ’’الکامل،، میں فرمایاکہ صاحبزادہ Ú©Û’ استاذ امام اعظم Ú©ÛŒ خدمت میں �حاضر ہوئے اور معذرت پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں �نے کیا کیا جو اتنے درہم مجھے عطا کئے گئے ØŸ امام اعظم رضی اللہ عنہ Ù†Û’ فرمایا:آپ Ù†Û’ جو میرے Ù„Ú‘Ú©Û’ Ú©Ùˆ تعلیم دی ہے کیا اس Ú©Ùˆ معمولی سمجھ رہے ہو؟اللہ Ú©ÛŒ قسم!اگر ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی ہوتے تو تعظیمِ قرآن Ú©Û’ لحاظ سے وہ سب آپ Ú©Ùˆ پیش کردیتے Û”

�� (مناقب الامام الاعظم للموفق۔ ص:257/256۔حقیقۃ الفقہ ج1۔ص299)

 

امام اعظم 'تقوی وطہارت کے پیکر

���� امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تفسیر کبیر میں �امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے زہد وورع سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے:

������ روی ان ابا حنيفة رضی الله عنه کان له علی بعض المجوس مال فذهب إلی داره ليطالبه به ، فلما وصل إلی باب داره وقع علی نعله نجاسة ، فنفض نعله فارتفعت النجاسة عن فعله ووقعت علی حائط دار المجوسی� فتحير ابو حنيفة وقال : إن ترکتها کان ذلک سبباً لقبح جدار هذا المجوسی ، وإن حککتها انحدر التراب من الحائط ، فدق الباب فخرجت الجارية فقال لها : قولی لمولاک إن ابا حنيفة بالباب ، فخرج إليه وظن انه يطالبه بالمال ، فاخذ يعتذر ، فقال ابو حنيفة رضی الله عنه : ههنا ما هو اولی ؟ وذکر قصة الجدار ، وانه کيف السبيل إلی تطهيره؟ فقال المجوسی : فانا ابدا بتطهير نفسی فاسلم فی الحال.

ترجمہ:روایت بیان کی گئی ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کسی مجوسی پر قرض تھا، آپ اسے حاصل کرنے کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے، جب آپ اس کے گھر کے دروازہ پر پہنچے تو آپ کے جوتے پر نجاست گر گئی،جب آپ نے اسے اپنے جوتے سے نکالا تو نجاست کا چھینٹا اڑا اور مجوسی کے گھر کی دیوار پر گرا، تو امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ فکرمند ہوگئے ، اور سوچنے لگے کہ اگر میں �اسے ایسے ہی چھوڑدوں �تو یہ اس مجوسی کی دیوار پر عیب بنا رہے گا،اور اگر اسے کرید کر نکال دوں �تو دیوار کی مٹی گر جائے گی، پھر آپ نے دروازہ پر دستک دی،تو باندی باہر آئی،آپ نے اس سے کہا:اپنے آقا سے کہو کہ ابو حنیفہ دروازہ پر تمہارا� انتظار کررہے ہیں ،تو وہ شخص باہر آیا ،اس نے گمان کیا کہ آپ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کریں �گے ،وہ معذرت خواہی کرنے لگا، تو امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اس کو تو رہنے دو، اس سے زیادہ اہم چیز میرے سامنے ہے پھر آپ نے دیوار سے متعلق سارا قصہ بیان کیا، اور پوچھا کہ دیوار کو پاک کرنے کی کیا سبیل ہے؟ مجوسی نے کہا: میں �پہلے اپنے آپ کو پاک کرتا ہوں ، اور وہ اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔

������ (التفسیر الکبیر للرازی،سورۃ الفاتحہ۔7)

چالیس سال عشاء کے وضو سے نماز فجر کی ادائیگی

���� امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ عبادت کا غیر معمولی اہتمام فرماتے، رات بھر عبادت کیا کرتے تھے، قرآن کریم کی تلاوت کثرت سے فرماتے، بارگاہ الہی میں �گریہ وزاری کرتے، خطیب بغداد نے اپنی تاریخ میں �لکھا ہے:

حدثنا حماد بن قريش قال سمعت اسد بن عمر يقول صلی ابو حنيفة فيما حفظ عليه صلاة الفجر بوضوء صلاة العشاء اربعين سنة فکان عامة الليل يقرا جميع القرآن فی رکعة واحدة وکان يسمع بکاؤه بالليل حتی يرحمه جيرانه وحفظ عليه انه ختم القرآن فی الموضع الذی توفی فيه سبعة آلاف مرة.

���� ترجمہ:حضرت حماد بن قریش نے فرمایا: میں �نے اسد بن عمر سے یہ فرماتے سنا کہ یہ بات میرے ذہن نشین ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے چالیس سال نماز عشاء کے وضو سے نماز فجر ادا فرمائی، آپ رات بھر ایک رکعت میں �مکمل قرآن کریم کی تلاوت فرماتے اور رات میں �آپ کے رونے کی آواز سنائی دیتی، یہاں �تک کہ پڑوسیوں �کو آپ کی اس حالت پر ترس آجاتاتھا، امام اعظم کے بارے میں �یہ بات بھی یاد ہے کہ جس مقام پر آپ نے وصال فرمایا وہاں �آپ نے سات ہزار مرتبہ قرآن کریم ختم فرمایا۔

������ (تاریخ بغداد للخطیب البغدادی، باب النون، ذکر من اسمہ النعمان)

 

ایک شبہ اور اس کا ازالہ

���� چالیس سال امام اعظم کی شب بیداری کے بارے میں �بعض گوشوں �سے یہ شبہ پیدا کیا جاتاہے کہ اگر امام اعظم نے چالیس سال ہر رات مسلسل عبادت کی ہے ،عشاء کے وضو سے فجرکی نماز اداکی ہے تو پھر آپ کو اولاد نہیں �ہوتی تھی ۔

���� میں �اس شبہ کا ازالہ کرناضروری سمجھتاہوں �، اللہ تعالی کے بندے تین قسم کے ہوتے ہیں �:(1)کچھ تو وہ ہیں �جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں �، (2)کچھ درمیانی درجہ کے نیک لوگ ہیں �جو عمل صالح کرتے رہتے ہیں �، (3)اورکچھ لوگ وہ ہوتے ہیں �جو نیکیوں �میں �سبقت کرنے والے،خیروبھلائی میں �پہل کرنے والے ہیں ۔ (سورۃ الفاطر۔32)

حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ تیسری قسم سے ہیں ؛ آپ نیکی وبھلائی میں �بہت زیادہ سبقت کرنے والے ہیں �۔

نیک بندوں �کے صفات قرآن کریم کہتاہے :

وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا.

���� ترجمہ:اور وہ لوگ جو اپنے رب کے لئے حالت سجدہ میں �اور حالت قیام میں �رات گزارتے ہیں �۔

������ (سورۃ الفرقان ۔ 64)

 

���� اللہ تعالی اپنے کلام کے ذریعہ خبردے رہاہے کہ میرے نیک بندے ایسے بھی ہیں �جن کی راتیں �قیام وسجود میں �گزرتی ہیں �، کلام الہی کی خبر ہے ، خلاف واقعہ نہیں �ہوسکتی ۔

���� اس سے معلوم ہوا کہ رات رات بھر عبادت کرنا'نیک بندوں �کے صفات ہیں �اور امام اعظم تو سابق بالخیرات ہیں �، بھلائی میں �سبقت کرنے والے ہیں �۔

���� اب رہا حقِ زوجیت کی ادائیگی اور سنتِ حبیبِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرعمل آوری تو اس سلسلہ میں �اللہ تعالی کا ارشادہے :

�يَا ايُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِيَسْتَاذِنْکُمُ الَّذِينَ مَلَکَتْ اَيْمَانُکُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَکُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَکُمْ .

ترجمہ:اے ایمان والو!چاہئے کہ تمہارے زیر ملکیت غلام اور باندیاں �اورتمہارے وہ بچے جو بلوغ کو نہیں �پہنچے تم سے تین اوقات اجازت چاہیں �، نماز فجر سے پہلے،دوپہر کے وقت جب تم اپنے کپڑے اُتارتے ہو اور نماز عشاء کے بعد،یہ تین اوقات تمہارے لئے پردہ کے مواقع ہیں ۔

������ (سورۃ النور۔58)

���� اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتاہے کہ پردہ کے تین اوقات ہیں �، ان تین مخصوص اوقات میں �نابالغ بچے بھی آنا چاہتے ہوں �تو اُن کے لئے بھی اجازت لے کر آنا ضروری ہے ، بلااجازت آناجائز نہیں �، اُن تین اوقات میں �دواقات کا تعلق رات سے ہے ، آپ نے نماز عشاء کے بعد اورفجرسے پہلے ان دواوقات کو عبادت کے لئے فارغ کرلیاتھا اور قبل ظہر قیلولہ کا وقت بھی ستر کے اوقات میں �شامل ہے ، تو اس قرآنی وضاحت وصراحت کی روشنی میں �حق زوجیت کی عدم ادائیگی اورحصولِ اولاد کے سلسلہ میں �جو اعتراض کیا گیاوہ مرتفع ہوتاہے ، بہرحال بزرگوں �کے معاملات میں �اس طرح کے غلط تصورات کرنا کہ وہ ایک نیک کام کررہے ہوں �تو اُن سے دوسرا غلط عمل ہورہاہوگا،قابل اصلاح عمل ہے ، اس طرح کے اعتراضات سے گریز کرنا اور ان معاملات میں �کچھ کہنے سے پرہیز کرنا اور اللہ تعالی کاخوف رکھنا چاہئے ۔

 

�تیس(30) سال تک روزوں �کا اہتمام

���� امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ دن میں �روزہ رکھتے تھے اور رات میں �آرام نہیں �کرتے تھے جیسا کہ تاریخ بغداد میں �ہے:

������ حدثنا إسماعيل بن حماد بن ابی حنيفة عن ابيه قال لما مات ابی سالنا الحسن بن عمارة ان يتولی غسله ففعل فلما غسله قال: رحمک الله وغفر لک لم تفطر منذ ثلاثين سنة ولم تتوسد يمينک بالليل منذ اربعين سنة وقد اتعبت من بعدک وفضحت القراء .

�ترجمہ:امام اعظم رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت اسماعیل بن حماد اپنے والد حضرت حماد بن ابوحنیفہ سے روایت کرتے ہیں �جب میرے والد کا وصال ہوا تو ہم نے حضرت حسن بن عمارہ رحمۃ للہ علیہ سے درخواست کی کہ وہ والد گرامی کو غسل دیں �، انہوں �نے یہ درخواست قبول کی، جب غسل دیا تو یہ کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے اور آپ کے درجات بلند کرے، آپ نے تیس سال سے روزہ نہیں �چھوڑا اور چالیس سال سے آپ کے داہنے ہاتھ نے رات میں �ٹیک نہیں �لگایا، آپ نے اپنے بعد والوں �کے لئے مشقت والے کام کی راہ کھول دی اور حفاظ کو پیچھے چھوڑ دیا۔

(تاریخ بغداد للخطیب البغدادی، باب النون، ذکر من اسمہ النعمان)

 

علم حدیث میں �امام اعظم کامقام

یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کے جلیل القدر تلامذہ کی روایت کردہ احادیث شریفہ سے کتب احادیث مالامال ہیں ۔

���� امام اعظم رضی اللہ عنہ کے اساتذۂ حدیث چار ہزار 4000 ہیں �،آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے اساتذہ کرام میں �جلیل القدر صحا بہ موجود ہیں �۔ اسی طرح آپ نے بے شمار تابعین سے حدیث شریف کے علوم ومعارف کو حاصل کئے۔

���� جیساکہ علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ نے ردالمحتار کے مقدمہ میں �تحریر کیاہے :

�وَلَقَدْ کَانَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَی إمَامًا فِی ذَلِکَ ، فَإِنَّهُ رَضِیَ اللَّهُ تَعَالَی عَنْهُ اخَذَ الْحَدِيثَ عَنْ ارْبَعَةِ آلَافِ شَيْخٍ مِنْ ائِمَّةِ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ.

(رد المحتار،مقدمۃ)

 

امام بخاری کی بیس ثلاثیات امام اعظم کے شاگرد ومقلد محدثین سے مروی

 

صحیح بخاری کی سند میں �32 حنفی محدثین جنہوں �نے امام اعظم سے تلمذ حاصل کیا

���� امام بخاری علیہ الرحمہ نے صحیح بخاری میں �بائیس احادیث ایسی درج کی ہیں �جس میں �امام بخاری اورحضوراکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے درمیان صرف تین واسطے ہیں �،یہ ان کے لئے ایک عظیم شرف کی بات ہے اوران میں �سے بیس احادیث شریفہ کی سندوں �میں امام بخاری کے اساتذہ حنفی محدثین ہیں �،حضرت امام مکی بن ابراہیم حنفی محدث ہیں �اور امام اعظم رضی اللہ عنہ کے شاگرد خاص ہیں �جن سے امام بخاری نے گیارہ ثلاثیات لی ہیں �اور امام ابوعاصم ضحاک بن مخلد سے چھ ثلاثیات اور امام محمدبن عبداللہ انصاری سے تین ثلاثیات روایت کی ہیں ۔

���� ان بیس ثلاثیات میں �امام بخاری رضی اللہ عنہ کے جلیل القدر اساتذۂ محدثین وہ ہیں �جو امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے خاص شاگرد وفیض یافتگان ہیں ،گویا امام بخاری نے امام اعظم کے مقلد اور اپنے حنفی اساتذہ پر نازکیاہے ، کیوں �کہ آپ کی سند میں �اگر ان حنفی محدثین کی وساطت نہ رہے تو آپ کے پاس صرف دو ثلاثیات باقی رہ جاتی ہیں ۔ونیز امام بخاری نے صحیح بخاری میں �بتیس (32)حنفی محدثین سے روایات لی ہیں �جو براہ راست امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد وتلمیذ اور مسائل فقہیہ میں �آپ کے مقلد وپیرو ہیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فقہ حنفی وہ راستہ ہے جس کو ائمۂ محدثین نے اختیار کیا، زندگی بھر ذخائر حدیث کی حفاظت کرنے والوں �نے جن تحقیقات کو اختیار کیا ہو وہ کیونکر حدیث کے خلاف ہوسکتی ہیں ؟

مرویاتِ امام اعظم کی اہمیت

اما م موفق رحمۃ اللہ علیہ نے اسمٰعیل بن بشر کے حوالہ سے لکھا ہے:

قال :کنا فی مجلس المکی فقال حدثنا ابوحنيفة فصاح رجل غريب حدثنا عن ابن جريج ولاتحدثنا عن ابی حنيفة فقال المکی انا لانحدث السفهاء حرمت عليک ان تکتب عنی قم من مجلسی فلم يحدث حتی اقيم الرجل من مجلسه ثم قال حدثنا ابوحنيفة ومر فيه .

�ترجمہ:اسمٰعیل بن بشر نے کہا: ہم حضرت مکی بن ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ درس میں �موجود تھے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں �امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان فرمائی ،مجلس سے ایک اجنبی شخص کہنے لگا: ہمیں �بجائے ابو حنیفہ کے ابن جریج کی حدیث بیان کیجئے! تب امام مکی بن ابراہیم نے جلال کے عالم میں �فرمایا :ہم بے ادب اور نادانوں �کو درس نہیں �دیتے،� آپ اس وقت تک درس حدیث موقوف کردیاجب تک کہ اس کو مجلس سے نہ نکال دیا گیا جب وہ چلا گیا تو آپ امام اعظم سے مروی احادیث شریفہ بیان فرمانے لگے۔

�(مناقب الامام الاعظم للموفق، ج1، ص:204)

 

امام اعظم کے ایک شاگرد سے صحاح ستہ وغیرہ میں �دوہزار چار سو چھیانوے احادیث مروی

���� امام اعظم کے جلیل القدر شاگرد محدث عبد الرزاق جن کی نسبت دنیائے علم جانتی ہے کہ آپ علم حدیث شریف میں �مہارت تامہ رکھتے تھے ،جن سے صحاح ستہ صحیح بخاری ،صحیح مسلم،جامع ترمذی، سنن نسائی ،سنن ابوداود،سنن ابن ماجہ ، ونیز مسنداحمد بن حنبل اور سنن دارمی، ان آٹھ کتابوں �میں �2496روایات موجودہیں �۔ اس سے امام اعظم کے علم حدیث میں �اعلی مقام ومرتبہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔شاگرد کی یہ شان ہے کہ بڑے بڑے محدثین ان کے شاگر ہیں �، ائمہ محدثین ان سے حدیث لیتے ہیں �تو استاذ کی علمی شان کیا ہوگی۔

������ ان اصحاب الکتب الثمانية :البخاری ومسلم والترمذی والنسائی وابو داود وابن ماجه واحمد والدرامی. رووا عن عبد الرزاق بواسطة شيوخهم ما عدا احمد فروی عنه مباشرة احيانا ،وکان مجموع روايتهم بواسطة شيوخهم عن عبد الرزاق هو ست وتسعون حديثا واربعمئة بعد الالفين حديثا(2496)

������ (الامام ابو حنیفۃ النعمان محدثا فی کتب المحدثین ،لمحمد نور سوید،ص:58)

 

������ امام اعظم کے جس شاگرد محدث عبدالرزاق سے اس قدر کثرت سے روایات صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث میں �آئی ہیں �وہ خود امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مداح ہیں ، علم حدیث میں �امام اعظم کی یہ شان ہے کہ امام بخاری اورامام مسلم کے استاذ اوردیگر محدثین کے استاذ امام اعظم سے حدیث روایت کرتے ہیں �۔ انہوں �نے اپنی مصنف میں �امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے احادیث شریفہ روایت کی ہیں ۔

امام اعظم نے کتاب وسنت کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں �دیا ، شیخ ابن حزم کی وضاحت

���� �شیخ ابن حزم ظاہری نے بھی امام اعظم کے طریقۂ استدلال کے سلسلہ میں �واضح طورپر بیان کیا کہ آپ کتاب وسنت کے خلاف کبھی کوئی فیصلہ نہیں �کیا کرتے اور نہ اقوال صحابہ کے سوا کوئی رائے رکھتے تھے ،انہوں �نے امام اعظم کے اس قول کا حوالہ دیا ہے کہ آپ نے کہا ہے :

ما جاء عن الله تعالی فعلی الراس والعينين، وما جاء عن رسول الله صلی الله عليه وسلم فسمعا وطاعة، وما جاء عن الصحابة رضی الله عنهم، تخيرنا من اقوالهم ولم نخرج عنهم، وما جاء عن التابعين، فهم رجال ونحن رجال، فلم ينکر عن نفسه مخالفة التابعين، وإنما لم ير الخروج عن اقوال الصحابة توقيرا لهم .

ترجمہ:اللہ تعالی نے جو نازل فرمایاہے وہ سرآنکھوں �پرہے ، اور جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، اُسے ہم بسروچشم وقبول کئے اور اطاعت کرتے ہیں �اور صحابۂ کرام سے جو مختلف اقوال منقول ہیں ،ہم نے انہیں �میں سے کسی قول کو اختیار کیاہے اور ہم نے کبھی ان کے خلاف نہیں �کیا اور جو تابعین سے منقول ہے تو وہ تابعی ہیں �اور ہم بھی تابعی ہیں ۔اس طرح آپ نے تابعین سے اختلاف کو روا رکھا اور یہ حقیقت ہے کہ امام اعظم نے صحابۂ کرام کا احترام کرتے ہوئے ان کے اقوال نظر انداز کرنے کو جائز نہیں �رکھا۔

�(الاحکام لابن حزم ، فصل فیمن قال مالایعرف فیہ خلاف)

�گویا امام اعظم فرماتے ہیں :حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات ہم تک آئے ہیں �وہی ہمارا سرمایہ ہے ، مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث کے بعد میری کیا مجال کہ اپنی رائے کو پیش کروں �،حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سامنے ہوتا ہے تو سر جھکا دیتا ہوں �،جبینِ نیاز کو خم کردیتا ہوں ، میرے ماں �باپ آپ پر قربان میری کیا مجال کہ سر مو بھی اختلاف کر سکوں ۔

���� حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم Ú©Û’ ارشادات Ú©Û’ سامنے میں �نے اپنی جبین Ú©Ùˆ خم کردیا اسی Ú©Ùˆ سرمایہ بنایا اور اسی Ú©ÛŒ بنیاد پر مسئلہ بتادیا،’اور جب صحابہ کرام علیہم الرضوان Ú©Û’ اقوال آتے ہیں �ان Ú©ÛŒ تعظیم بجالاتے ہوئے میں اسی میں �سے ایک قول Ú©Ùˆ اختیار کرتاہوں ØŒ صحابہ Ú©Û’ اقوال سے ہٹ کر کسی اور Ú©Û’ قول پر مسئلہ نہیں �بتاتا،یعنی سب سے پہلا مصدر تو کتاب اللہ ہے دوسرا مصدر مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام Ú©ÛŒ سنتیں Ù— تیسرا مصدر صحابہ کرام Ú©Û’ آثار ہیں ØŒ یہی امام اعظم رضی اللہ عنہ کا سرمایہ ہے ØŒ اسی پر آپ Ú©Û’ مسائل Ú©ÛŒ بنیاد واساس ہے ØŒ آپ Ú©Û’ بیان کردہ مسائل Ú©Û’ دلائل یہی ہیں �۔

������ پھر فرمایا

"وما جاء عن غيرهم فهم رجال ونحن رجال"

صحابہ کے علاوہ کسی کی رائے ہوتی ہے ،کوئی بات خود تابعین کی بیان کردہ ہوتی ہے تو وہ بھی تابعین ہیں �اور میں �بھی تابعی ہوں ، جس طرح انہوں �نے قیاس کیا ہے میں �بھی قیاس کرتاہوں ۔

امام اعظم رضی اللہ عنہ نے تراسی ہزار مسائل مستنبط کئے

���� امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی مبارک زندگی زہد و ورع ،تقوی وطہارت ، خوف وخشیت اورتقرب وانابت میں �گزاری ، جس کی بدولت خالق کائنات نے آپ کے سینۂ اقدس کو علم فقہ کے لئے کھول دیا تھا ، اللہ تعالی نے آپ کو غیرمعمولی قوت حافظہ ،طاقت استدلال اورملکہ استنباط عطافرمایا، آپ نے بفیضان مصطفوی کتاب وسنت سے، تراسی ہزار( 83000)مسائل مستنبط فرمائے ہیں �، امام اعظم نے کتاب وسنت کے مقابل کبھی اپنی رائے نہیں �پیش کی، بلکہ آپ نے کتاب وسنت ہی سے مسائل کا حل نکالاہے ۔

امام بخاری کی توثیق کرنے والے محدثین نے بھی فقہ حنفی کو معتبر ماناہے

���� حضرت یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ عظیم محدث اور نقدوجرح اورتعدیل کے امام ہیں �اُن کا پایۂ علمی اس قدر مستحکم تھاکہ ان کی نسبت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

"کل حديث لايعرف ابن معين فليس هو بحديث"

���� ترجمہ:جس حدیث کو یحیی بن معین نہیں �جانتے وہ فی الواقع حدیث ہی نہیں ۔

���� ایسے جلیل القدرمحدث امام اعظم کے مسلک پرفتوی دیاکرتے تھے ،انکا بیان ہے:

والفقه فقه ابی حنيفة علی هذا ادرکت الناس.

���� ترجمہ:معتبر ومستند فقہ امام اعظم کی فقہ ہے ،اس پر میں �نے اپنے دور کے محدثین کرام کو عمل کرتے ہوئے پایاہے۔

(وفیات الاعیان ، حرف النون ، الامام ابوحنیفۃ۔الوافی بالوفیات ،حرف النون،الامام ابوحنیفۃ۔تاریخ بغداد ، باب النون ، مناقب ابی حنیفۃ۔حقیقۃالفقۃ، ج2،ص41)

���� امام اعظم کی فقہ کومعتبر ومستند قرار دینے والے یحیی بن معین ان ائمہ حدیث میں �سے ایک ہیں �جن کے سامنے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تالیف کرنے کے بعد پیش کی تھی، جب انہوں �نے تصدیق کی اورسندتصویب عطا فرمائی تب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو بازار علم میں �لایا، جس کی صراحت حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمۃ فتح الباری میں �فرمائی ہے۔ اگر امام اعظم کے پیروکاروں کو بدعتی ،گمراہ یا مشرک کہا جائے تو امام بخاری پر اعتراض وارد ہوگا کہ انہوں �نے گمراہ اور بدعتی محدثین سے صحیح بخاری میں �روایات لی ہیں ، اس طرح امام بخاری اور آپ کی کتاب کی فنی حیثیت بھی مجروح ہوجاتی ہے ، اس لئے ہم ازراہ خیرخواہی مشورہ دیتے ہیں �کہ اس طرح اختلاف وانتشار کا شکار ہونے کے بجائے اکابر پر کامل اعتماد و اعتبار کرتے ہوئے ان کی تحقیقات سے استفادہ کیا جائے، اگر کسی کو ائمہ مجتہدین کی فقہی تحقیقات سے اتفاق نہیں �ہے اور وہ اپنی تحقیق پر عمل چاہتاہے تو وہ اپنے عمل کا ذمہ دار ہے ،تاہم جو لوگ ائمہ کے بیان کردہ قرآن وحدیث سے ماخوذ فقہی مسائل پر عمل کررہے ہیں �انہیں �نشان ملامت نہ بنایاجائے۔

���� آج اعداء دین مختلف جہتوں �سے دین اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں ، تمام صلاحیتوں �کو جمع کرکے ان کے رکیک حملوں �کا جواب دینا وقت کا اہم تقاضہ ہے ،بجائے اس کے باہم ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کرناشرعاًبھی درست نہیں �اور عقلاً بھی درست نہیں �،دین ودیانت کے تقاضوں �پر عمل کرتے ہوئے اس طریقہ کو بالکلیہ ترک کردینا چاہئے۔

���� اللہ تعالی ہمیں �اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کی توفیق عطافرمائے،خیروبھلائی کو اپنانے اور بدی وبرائی سے اجتناب کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔

آمِيْنْ بِجَاهِ سَيِّدِنَا طٰهٰ ويٰس صَلَّی اللهُ تَعَالَی وَبَارَکَ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَعَلٰی آلِهِ وَصَحْبِهِ اَجْمَعِيْنَ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ .

���� از:مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر

www.ziaislamic