Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

News

شب قدر اسرار وحقائق


اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ۔پ 30 ، سورہ قدر، رکوع1)

ترجمہ : ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل (کرنا شروع)کیا ۔

حکایت :

ایک روز مجنو ں نے ہرنی کو دیکھا ، تڑپنے لگا اور بے ہوش ہوگیا ، جب ہوش آیا تو لوگوں نے پوچھا کہ تم کو کیا ہوا ؟ مجنوں نے کہا کہ کیا پوچھتے ہو ، اس ہرنی کی آنکھ دیکھ کر مجھ کو میری لیلی کی آنکھ یاد آگئی ، اس ہرنی کی آنکھ پر بھی مجھ کو محبت آنے لگی۔

کچھ سمجھے آپ کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ سنئے! ایک شخص کو کسی سے محبت ہے تو جب اس کو کوئی اور چیز اس کے محبوب کے مانندنظر آتی ہے تو اس چیز سے بھی محبت کرنے لگتا ہے ، ہرنی کی آنکھ ، لیلی کی آنکھ جیسی تھی بس اسی علاقہ کی وجہ سے ہرنی کی آنکھ پر بھی محبت آنے لگی۔ ہائے اگر اس وقت لیلی کی کوئی چیز ، خواہ اس کا جوتا ہی سہی اگر کہیں نظر آجائے تو اس وقت مجنون کی تڑپ کا کیا پوچھنا۔کیوں ؟ اس لئے کہ پیارےکی ہر چیز پیاری ہوتی ہے۔

اس گئے گزرے زمانے میں بھی، مسلمانوں کی اس ناقص حالت پر بھی اگر اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر مبارک یا نعلین مبارک لاکر سب کے سامنے رکھ دیں تو ہر ایک مسلمان اس کو دیکھ کر اس قدر تڑپے گا کہ کسی کو کچھ سدھ ہی نہ رہے گی ، کیوں ؟ پیارے کی ہر چیز پیاری ہوتی ہے۔

حدیث شریف:

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے رات میں سوتے وقت تخت کے نیچے ایک پیالہ رکھ دیتے تھے ، آپ رات کو اس میں پیشاب فرماتے تھے ، ایک وقت پیالہ میں حضرت کا پیشاب بھرا تھا ، ابن عباس رضي اللہ عنہما آگئے، لوگ ہاں ہاں ہی کرتے رہے اور آپ وہ حضرت کا پیشاب اٹھاکر پی گئے ، کیوں ؟ پیارے کی ہر چیز پیاری ہوتی ہے ، پھر یہ پیشاب پینے کا یہ اثر ہوا کہ شرح صدر ہوگیا، دل کھل گیا، لوح محفوظ سامنے تھا ۔ آج تک کوئی ایسا قرآن کی تفسیر کرنے والا نہ ہوا ۔

�ہائے! یہ تو انسان تھے، جانوروں کو بھی معلوم ہے کہ پیارے کی ہر چیز پیاری ہوتی ہے۔

حدیث شریف:

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کرکے سو (100)اونٹ قربانی کئے ، اونٹوں کا گلہ کھڑا تھا، آپ ایک ایک اونٹ لے کر قربانی فرماتے تھے ، صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ ہر ایک اونٹ دوسرے پر گرتا تھا اور یہ چاہتا تھا کہ اس چھری کے نیچے میں پہلے ذبح ہوجاؤں۔ کیوں ؟ پیارے کی ہر چیز پیاری ہوتی ہے، یہ معاملہ کچھ مخلوق ہی کے پاس نہیں ہے بلکہ خالق کو بھی پیارے کی ہر چیز پیاری معلوم ہوتی ہے ۔

سنئے!قسم اس چیز Ú©ÛŒ کھایا کرتے ہیں کہ جو قسم کھانے والے Ú©Û’ پاس سب سے زیادہ پیاری ہو ØŒ کہتے ہیں "تمہارے سر Ú©ÛŒ قسم"(Ú¯Ùˆ مسئلہ نہیں ہے)’’لَعَمْرُکَ‘‘(Ù¾ 14ØŒ سورہ حجر، رکوع 5)

ترجمہ :( اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)آپ کے جان کی قسم۔

پیارے تمہارے جان کی قسم ۔

کہیں فرماتا ہے ’’وَالْعَصْرِ‘‘(Ù¾ 30ØŒ سورہ العصر، رکوع 1)ترجمہ :آپ جس زمانہ میں ہیں اس زمانہ Ú©ÛŒ قسم Û”

’’لَا اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ o وَاَنْتَ حِلٌّ بِهٰذَا الْبَلَدِ o (Ù¾ 30ØŒ سورہ بلد، رکوع 1)ترجمہ :پیارے نبی اس شہر Ú©ÛŒ قسم جس شہر میں آپ ہیں۔

غرض اللہ تعالیٰ کو بھی پیارے کی ہر چیز پیاری معلوم ہوتی ہے ، ہائے! اگر وہ چیز پیارے کو بھی پیاری ہے تو پھر کچھ نہ پوچھو کہ وہ چیز کس قدر پیاری ہوگی؟ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر چیز سے زیادہ یہ امت پیاری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب چیزیں جیسے آپ کا زمانہ، آپ کا شہر جب خدا کو پیارا ہے تو اب سونچو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری امت اللہ تعالیٰ کو کس قدر پیاری معلوم ہوتی ہوگی؟

مسلمانو!تم خدا کے کس قدر خوش تقدیر ہو کہ تم خدا کے محبوب کے محبوب ہو، اس لئے سونچو کہ تم خداکے کس درجہ محبوب ہوں گے ؟ اسی لئے خدا تعالیٰ کو تم سے اس قدر محبت ہے کہ کسی اور پیغمبر کی امت سے ایسی محبت نہیں ہے ۔

’’عشق Ùˆ مشک را نتواں نہفتن ‘‘(ترجمہ :محبت اور مشک چھپانے سے بھی نہیں Ú†Ú¾Ù¾ سکتے)Û”

خدائے تعالیٰ کی ہر بات سے معلوم ہوتاہے کہ اس کو تم سے بے حد محبت ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک بچہ ریٹ میں لت پت، میلے کپڑے اور غلیظ حالت ہے ، ساری دنیا گھن کررہی ہے ، مگر ذرا اس محبت بھری ماں سے پوچھو ،وہ کہتی ہے کہ اس کا ریٹ تمہارے پاس ریٹ ہے لیکن میرے پاس صندل سے زیادہ پیارا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگو!روزہ دار کے منھ کی بو تمہارے پاس بدبو دار ہے مگر میرے پاس مشک سے زیادہ پیاری ہے ، دیکھا آپ نے ان لفظوں سے کس قدر محبت ٹپکتی ہے۔

شب قدر عطا کئے جانےکی وجہ

حدیث :

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت غمگین تھے ، یہ فکر تھی کہ معلوم نہیں میری امت کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جاتا ہے ۔ فوراً جبرئیل علیہ السلام پیام لائے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے پیارے نبی آپ مغموم نہ ہوں ، آپ کی پیاری امت میرے پاس بھی پیاری ہے، جب تک میں دنیامیں آپ کی امت کو نبیوں کے درجہ نہ دیدوں گا دنیا سے نہ اٹھاؤں گا ۔ کیوں نبی اب تو خوش ہوئے۔ اس کا آپ سجدۂ شکر بجالائے ۔

شب قدر میں ہر سال اللہ تعالیٰ اس امت کو سلام بول بھیجتا ہے۔

تمام نبیوں کو سلام کی بدولت ایک ایک چیز ملی۔

اس امت کو بھی سلام کی بدولت ایک چیز ملی۔ صاحبو!وہ کیا ہے سنئے :جب یہ امتی قیامت میں دوزخ پر سے گذرے گا تو دوزخ چلائے گی ۔ اے امتی! تجھے خدا سلام بول بھیجا ہے ،اب تو میرے قابل نہ رہا ۔ جلد مجھ پر سے گذر جا۔

بادشاہوں کے پاس کا قاعدہ ہے کہ ایک روز ایسا ہوتا ہے کہ جس میں عنایات خسروانہ زیادہ ہوتے ہیں ، انعامات بٹتے ہیں ، فرماں برداروں کے لئے ترقی درجات ہوتے ہیں ، ایسا ہی بندہ کو اعتکاف ، روزہ ، تراویح کا بدلہ دینے کا وقت آگیا۔ اسی کا نام شب قدر یعنی روزہ دار کی ،تراویح پڑھنے والوں کی ، قدر کی جانے کی رات ہے ، وہ رات ہم مقرر نہیں کرتے ، اس لئے کہ معشوق ملتا ہے تو بول کر نہیں ملتا۔

حکایت:

لیلی پہلے مرگئی ، مجنوں کو اس کا علم ہوا ، لیلی کی قبر معلوم کرناچاہا۔ لوگوں نے اس کے ہلاک ہونے کے خیال سے نہیں بتلایا ۔ اس نے جابجا کے قبروں کی مٹی سونگھ کر پتہ لگاہی لیا۔ اور یہ شعر بار بار پڑھتے پڑھتے آخر جان دیدی؂

اَرَادُوْا لِیُخْفُوْا قَبْرَہَا عَنْ مُحِبِّہَا

وَطِیْبُ تُرَابِ الْقَبْرِدَلَّ عَلَی الْقَبْرِ

ترجمہ :لوگوں نے یہ چاہاتھا کہ لیلی کی قبر کو اس کے عاشق سے مخفی رکھیں لیکن اس کے قبر کی خاک کی خوشبو نے عاشق کو راستہ بتلاہی دیا۔

وہ تو شخص تھا اور اتنی سی محبت تھی مگر کیا رنگ لائی ۔ ایسا ہی شب قدر بھی ہم مقرر نہیں کرتے ، اگر عشق ہے تو مجنوں کی طرح پتہ لگالو۔ اگر سچا عاشق ہے تو ہم جو راتیں بتلاتے ہیں اس میں جاگے گا ، وصل کا مزہ لے گا۔ اور ناقص سوکر پچھتائے گا، وہ پانچ راتیں ہیں، 21رمضان سے ختم رمضان تک ، وہ وصل کی رات ہے اس لئے ہجر کی ہزار راتوں سے افضل ہے: لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ۔(پ30 ، سورہ قدر، رکوع 1)

ترجمہ :شب قدر ہزار مہینے سے افضل ہے۔

اگلی امتوں کی ہزار رات کی عبادت سے اس امت کی اس ایک رات کی عبادت افضل ہے۔

حدیث :

ایک مزدور صبح سے ظہر تک اور دوسرا مزدور ظہر سے عصر تک کام کیا اور تیسرا مزدور عصر سے مغرب تک کام کیا ۔ مثلاً پہلے مزدو ر کو ایک روپیہ مزدوری دی گئی، دوسرے مزدور کو بھی ایک روپیہ مزدوری دی گئی لیکن تیسرے مزدور کو دو روپے مزدوری دی گئی ۔ تب پہلے اور دوسرے مزدورنے شکایت کی کہ کام بھی ہم سے زیادہ لئے اور مزدوری بھی کم دئیے لیکن تیسرے مزدور سے کام بھی کم لئے اور مزدوری بھی زیادہ دئیے، تو مالک نے کہا کہ کیا تمہاری مزدوری میں کچھ کم کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نہیں ، تب مالک نے کہا کہ یہ میرا فضل ہے، جس کو چاہا زیادہ دیا ، تم کو کیوں شکایت ہے ؟ ایسا ہی پہلے اور دوسرے مزدور یہود و نصاری ہیں ،تیسرے مزدور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اس امت سے کام کم اور مزدوری زائد ، یہ فضل ہے کسی کو شکایت کا حق نہیں ، اسی واسطے اس امت کی ایک رات یعنی شب قدر کی عبادت اور امتوں کے ہزار رات کی عبادت سے افضل ہے ۔

�یا یوں سمجھئے کہ موسی علیہ السلام کے وقت بیل گاڑی،عیسیٰ علیہ السلام کے وقت گھوڑا گاڑی اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ریل گاڑی ۔

شب قدر کی وجہ تسمیہ:

پہلی وجہ:قدر کے معنی ہیں اندازہ ، اس رات سال بھر کے سب کاموں کا اندازہ ہوتا ہے ۔

دوسری وجہ:یا قدر کے معنی تنگی کے ہیں ، اس رات اس قدر فرشتے زمین پرآتے ہیں کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے ۔

تیسری وجہ: یا قدر اس لئے کہ کتاب قابل قدر ، رسول قابل قدر کی معرفت ، امت قابل قدر پر اتارا ، اس لئے سورہ قدر میں"لَيْلَةُ الْقَدْر" کا لفظ تین(3) وقت آیا ہے۔

صاحبو!اس کو غفلت میں نہ کھوئیے ، اس لئے کہ جس کو دربار کے روز بھی حضوری نصیب نہ ہوئی تو پھر اس کو کیا مل سکتا ہے، جیسے آفتاب معین برج میں آگیا تو بارش ہوتی ہے ، تمام جڑی بوٹیاں سرسبز ہوجاتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھول کھلتے ہیں ، ایسا ہی اس رات عالم بالا کو عالم سفلی کے ساتھ یہی کیفیت بہار کی پیدا ہوتی ہے۔

تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ۔(پ30، سورہ قدر، رکوع1)ترجمہ :یعنی روح الامین اور فرشتے اترتے ہیں یعنی فوجِ ملائکہ کے ساتھ جبرئیل اترتے ہیں ، سبز علم کعبہ پر نصب کرتے ہیں اور حمد کا جھنڈا آسمان اور زمین کے بیچ میں ۔ مغفرت کا جھنڈا قبر شریف پر حضرت کے ، کرم کا جھنڈا بیت المقدس پر ، رحمت کا جھنڈا کعبہ شریف پر ، آج کی رات جشنِ شاہانہ ہوتا ہے ، ملائکہ اس دن جو ذاکر اور شب بیدار ہیں ان سے مصافحہ کرتے ہیں ۔

ایک وہ وقت تھا کہ یہ منی کا قطرہ تھا ، خون کا لوتھڑا تھا ۔ ماں باپ کو گھن آتی تھی ، پھر اس کو خوب صورت شکل دی ، ماں کے پیٹ سے باہر آیا تو ماں باپ، قرابت دار اس پر شیدا ہوئے ،جب اس نے روزہ ، نماز ، تراویح ، اعتکاف سے روحانیت میں ترقی کی تو آج عالم بالا کے لوگ بھی اپنی مناسبت سے اس کو دیکھنے آتے ہیں ۔

تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب پر جبرئیل ایک بار اترے تھے ، اس امت پر ہر سال ، اس کی علامت یہ ہیکہ دل میں رقت ، آنکھوں میں آنسو اور بدن کے رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

یا روح سے مراد ، ارواحِ مومنین ہیں جو مومنین سے ملنے آتے ہیں ، اچھے حال میں دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں ، برے حال میں دیکھتے ہیں، تو فرشتوں سے شرماتے ہیں ، اور ان سے ناراض ہوتے ہیں ، جس کا اثر سال بھر خسارتِ مال اور دنیوی مصائب کی شکل میں ظاہر ہوتاہے ۔

یا روح سے مراد یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاتے ہیں یہ سب کیوں ؟سنو:

موسیٰ علیہ السلام معراج میں کئی بار حضرت کو لوٹائے ، نام تو نماز کم کرنے کا تھا ، حقیقت میں انعکاسِ انوارِ تجلی ذاتی کو دیکھنا تھا، اس رات خاص تجلی شب قدر کے جاگنے والوں پر ہوتی ہے، جدھر رب ادھر سب۔ جب تجلی خدا ہورہی ہے تو اس لئے جبرئیل بھی ، ملائکہ بھی ، ارواح مومنین بھی، اور روحِ مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تشریف آوری ہورہی ہے ، رہا یہ کہ خدائے تعالیٰ کیوں آتا ہے؟ سنو ! وہ روزہ داروں کو تسلی دینے کے لئے ہے ؂

رنج کئے ماند وے کہ ذوالمنن

گویدت چونی تو اے رنجورِ من

ترجمہ :احسان کرنے والا (یعنی اللہ تعالیٰ) جب فرمائے کہ اے میرے غم میں رہنے والے تو کیسا ہے اللہ تعالیٰ کا یہ جملہ سننے کے بعد غمگین کا غم کیسے باقی رہے گا؟

پہلے اور دوسرے دہے میں روزہ وغیرہ سے ضعف ہوگا اور آخر دہے میں ہمت پست ہوتی ہے، اس لئے ہمت بڑھانے کے لئے شب قدر مقرر ہوئی ۔ اس میں تجلی خاص فرمایا تاکہ ہمت بڑھے اور رمضان شریف کی تکمیل کرسکیں۔

ملخص از:فضائل رمضان،مؤلفہ زبدۃ المحدثین عارف باللہ ابوالحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ۔

www.ziaislamic.com

�

�