Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

News

ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبت،عظمت اور تابعداری


ایک شخص طبیب Ú©ÛŒ بہت تعریف کیا کرتا ہے مگر جب نسخہ Ù„Ú©Ú¾ کر دے تو استعمال نہیں کرتا،کیا ایسے شخص Ú©Ùˆ اچھا سمجھیں Ú¯Û’ ØŸ ایسا ہی ایک شخص خود Ú©Ùˆ عاشق رسول کہے اور آپ Ú©ÛŒ بہت تعریف کرے مگر آپ Ú©Û’ کہنے پر عمل نہ کرے تو کیا آپ اس Ú©ÛŒ محبت کا اعتبار کریں Ú¯Û’ ØŸ محبت کا تو دعویٰ؛ لیکن تابعداری کا یہ حال!عظمت کا دل میں نام Ùˆ نشان نہیں ‘حالانکہ محبوب Ú©ÛŒ عظمت لوازم محبت سے ہے ‘ بادشاہ Ú©ÛŒ عظمت ‘ بادشاہ Ú©Û’ قانون کا خلاف نہیں کرنے دیتی۔ اگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ï¿½Ú©ÛŒ عظمت ہوتی تو سینکڑوں احکام کیوں برباد ہوتے ‘ خوب سونچئے اشعار سے پتہ لگتا ہے کہ کیسے کیسے الفاظ آپ Ú©ÛŒ شان میں کہے گئے ہیں، کیا عظمت والا ایسا ہی کرتا ہے ØŸ اسی واسطے اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ÙˆÙŽØ§ØªÙ‘َبِعُوْهُ (اتباع کرو آپ Ú©ÛŒ )رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©ÛŒ محبت کا دعوی کرنے والو ! تمہاری محبت Ú©ÛŒ علامت یہ ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم Ú©ÛŒ تابعداری کرو!

�ایک مقام پر فرمایا:"وَعَزَّرُوْهُ " ( اور عظمت کرو آپ Ú©ÛŒ ) فلاح اسی Ú©Ùˆ ملے Ú¯ÛŒ جو آپ Ú©ÛŒ تعظیم کرے وبعض تو وہ ہیں کہ جو تابعداری تو کررہے ہیں ‘تابعداری کا اہتمام بھی ہے مگر ان میں محبت نہیں ‘جس Ú©Û’ سبب تواضع Ùˆ نرمی نہیں ‘تابعداری تو کرتے ہیں مگر تابعداری کا مزہ نہ ملا کیونکہ وہ تو محبت سے ملتا ہے ‘ان Ú©Û’ دل میں حضرت Ú©ÛŒ تعظیم کا نام نہیں ‘جن Ú©ÛŒ تابعداری کا دعوی ہے نہ ان کا نام مبارک ادب سے لیتے ہیں ‘نہ کبھی آپ کا ذکر مبارک شوق سے کرتے ہیں، نہ کبھی ذکر مبارک سن کر دل پر Ú©Ú†Ú¾ اثر ہوتا ہے ‘ نہ درود شریف کا کوئی معمول ٹھرائے ہیں، نہ آپ Ú©Û’ محبوبوں سے یعنی Ø¹Ù„ماء ‘اولیاء اﷲ،صحابہ Ùˆ اہل بیت وآئمہ سے ان Ú©Ùˆ کوئی تعلق ہے، نہ محبت ہے نہ عزت Ùˆ احترام Û” ایسوں Ú©Û’ لئے فرماتا ہے :فَآمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهِ (ایمان لاؤ ï¿½Ø§ï·²Ù¾Ø± اور اس Ú©Û’ رسول پر )اور تابعداری کرنے والو فقط تابعداری Ú©Ú†Ú¾ کام نہ آئیگی، آپ Ú©ÛŒ محبت بھی رکھو اس لئے کہ ایمان کہتے ہیں" Ú¯Ø±ÙˆÛŒØ¯Ù† "Ú©Ùˆ یعنی فریفتہ ہونے Ú©ÙˆÛ”

�دوسری آیت میں ہے: " ÙˆÙŽØ§Ù„َّذِيْنَ آمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّهِ" ( جواللہ پر ایمان لاتے ہیں وہ سب سے زیادہ اﷲسے محبت کرنے والے ہوتے ہیں )

�محبت خدا و ررسول لازم وملزوم ہے ۔

حدیث شریف:-

������ Ù„َايُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتَّی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ ÙˆÙŽ مِنْ وَلَدِهِ ÙˆÙŽ وَالِدِهِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ .

(تم میں سے کوئی مومن نہ ہوگا جب تک کہ میں اس کے پاس اس کی ذات سے، اس کی اولاد سے ،اس کے والدین سے اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں)مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میری محبت سب سے زیادہ نہ ہو ۔

حدیث شریف :-

" Ù„َنْ يُؤْمِنَ اَحَدُکُمْ حَتَّی يَکُوْنَ اﷲُ وَرَسُوْلُهُ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمُا "

ہرگز مومن نہ ہوگا تم سے کوئی جب تک کہ اﷲاور اس کا رسول اس کے پاس زیادہ محبوب نہ ہو )

���� Ø§ÛŒØ³Ø§ ہی تعظیم بھی ہونی چاہيئے، ا س لئے فرمایا "وَعَزَّرُوْهُ"( آپ Ú©ÛŒ عظمت کرو)

�تیسری جماعت :وہ زمانہ Ú©Û’ نئے ر Ù†Ú¯ میں رنگی ہوئی ہے، آپ Ú©ÛŒ اور آپ Ú©Û’ قانون Ú©ÛŒ عظمت بہت Ú©Ú†Ú¾ ان Ú©Û’ دل میں ہے ،دوسرے اقوام سے مقابلہ ہوجائے تو آپ Ú©Û’ اقوال Ùˆ افعال Ú©ÛŒ حکمتیں بیان کر Ú©Û’ آپ Ú©ÛŒ عظمت دکھاتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ Ù†Ú©Ù„ سکتا ہے کہ دوسری قوموں پر فائق ہو کر شوکت سے زندگی بسر کر سکیں۔ باقی نہ کوئی تابعداری کا خیال ہے نہ ہی محبت Ú©Ùˆ کوئی اثر پایا جاتا ہے چونکہ دنیا ان Ú©Û’ پیش نظر ہے ØŒ بس دنیا ہی Ú©Û’ متعلق آپ Ú©ÛŒ سلطنت رانی وغیرہ Ú©Û’ احوال تلاش کر Ú©Û’ آپ Ú©ÛŒ عظمت کرتے ہیں اس لئے فرماتا ہے :" Ø¢ÙŽÙ…َنُوا .... وَاتَّبَعُوا "

( ایمان لاؤ ۔۔۔اور ï¿½Ø¢Ù¾ Ú©ÛŒ اتباع کرو )

حضرت کی عظمت کرنے والو !صرف عظمت سے کام نہیں چلے گا ، عظمت کے ساتھ تابعداری اور محبت بھی کرو ‘غرض پورے پورے حقوق حضور کے ادا کرو !

ہم مدعیان محبت یامدعیان عظمت یا مدعیان اطاعت کہیں کہ ہم سے اصلی محبت و اطاعت و عظمت کیا ہوتی ؟ ہم تو نقلی محبت و عظمت و تابعداری رکھتے ہیں، ہم میں اصل کہاں ؟

�تو صاحبو !نقل ہی سہی مگر نقل میں کم از کم وہی صورت اور ویسی ہيئت بنالینی چاہيئے!

حکایت :-

���� Ø¹Ø§Ù„مگیر رحمتہ اﷲعلیہ Ú©ÛŒ تخت نشینی کا جلسہ ہوا ،تمام کام Ú©Û’ لوگوں Ú©Ùˆ عطا یا ديئے گئے Û” ایک بہروپیہ بھی مانگنے آیا ‘ مگر عالمگیر بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ عالم تھے، کس مد سے دیتے ‘انکار کرنا بھی آداب شاہی Ú©Û’ خلاف تھا، حیلے سے ٹالنا چاہے، اس لئے فرمایا: انعام تو کسی کمال پر ہونا چاہيئے ‘تمہارا کمال یہ ہے کہ ایسی صورت بنا کر آؤ کہ میں تم کونہ پہچان سکوں !

�جب وہ بھیس بدل کر آتاعالمگیر پہچان لیتے، کبھی دھوکا نہ کھاتے ‘ دھوکا دے تو انعام ملنا ٹھرا تھا ۔

�اتفاق سے عالمگیررحمۃ اللہ علیہ کو سفر دکن درپیش ہوا ‘بہروپیہ داڑھی بڑھا کر مقدس لوگوں کی صورت بناکر راستہ میں کسی گاؤں میں جا بیٹھا، کچھ روز کے بعد شہرت ہوگئی ، عالمگیررحمۃ اللہ علیہ كی عادت تھی جہاں جاتے وہاں کے علماء اور فقراء سے ملتے ‘جب وہاں پہنچے تو شہرت سن کر اول وزیر کو بھیجے‘ وزیر نے کچھ مسائل تصوف پوچھا، سب کا جواب معقول دیا ۔

�بات یہ تھی کہ اس وقت کے بہروپئے ہر فن کو حاصل کرتے تھے ۔ وزیر نے عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ سے آکر بہت تعریف کی ‘عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ خود ملنے گئے، بہت دیر تک گفتگو رہی ‘عالمگیر سمجھ گئے کہ شاہ صاحب کامل شخص ہیں ،چلتے وقت ہزار اشرفیاں نذر پیش کئے ۔ اس نے لات ماردی اور کہا: تو اپنی طرح ہم کو بھی دنیا کا کتا خیال کرتا ہے!

�اس سے اور بھی بادشاہ کا اعتقاد بڑھا ‘واقعی استغنا عجیب چیز ہے ‘عالمگیر لشکر میں واپس چلے آئے ،پیچھے پیچھے وہ بہروپیہ بھی پہنچا ۔

�عرض کیا :خدا حضور کو سلامت رکھے ؛لايئے انعام! عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: ’’ ارے تو تھا ‘‘ انعام ديئے اور کہا: وہ اشرفیاں کیوں نہ لیا، اس سے بڑھ کر تھیں، کیا میں تیرے سے واپس لے لیتا تھا ؟ اس نے کہا :حضور! اگر میں لیتا تو نقل صحیح نہیں ہوتی کیونکہ فقیری کا روپ تھا، لینا فقیری کی شان کے خلاف ہے !

�نقل اس کو کہتے ہیں، اگر نقل کر رہے ہو تو پوری شکل بناؤ کہ تابعداری بھی ہو،عظمت بھی ہو اور محبت بھی ہو ۔

حکایت :-

���� Ø­Ø¶Ø±Øª سید احمد رفاعی رحمتہ اﷲعلیہ Ú©Û’ اس واقعہ Ú©Ùˆ امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اﷲعلیہ Ù†Û’ اپنے ایک رسالہ میں حدیث Ú©ÛŒ طرح سلسلہ وار سند سے لکھا ہے کہ سید احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ روضہۂ مبارک پر عرض کئے:" Ø§ÙŽÙ„سَّلَامُ عَلَيْکُمْ يَا جَدِّیْ!"( سلام عرض کرتا ہوں میں اے میر Û’ جد ) جواب عطا ہوا" ÙˆÙŽØ¹ÙŽÙ„َيْکَ السَّلَامُ يَا وَلَدِیْ " ( وعلیکم السلام اے میرے بچے )Û” حضور سے جواب ملا جس Ú©Ùˆ تمام اہل مسجد Ù†Û’ سنا Û”

�سید احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ پر وجد کا شدید غلبہ ہوا ‘بڑی دیر تک روتے رہے ‘ شدت شوق میں عرض کئے: نانا جان! دور تھا تو اپنی روح Ú©Ùˆ حضور میں بھیج دیا کرتا تھا ‘ وہ میری نائب بن کر زمین بوسی کرتی تھی ‘اب جسم� Ú©Ùˆ لایا ہوں ‘ذرا سیدھا ہاتھ بڑھايئے کہ اس Ú©Û’ بوسہ سے مشرف ہوں ! فوراً سیدھا ہاتھ، دست مبارک Ú†Ù…Ú© دمک سے قبر شریف سے نکلا ‘ ہزاروں آدمیوں Ù†Û’ زیارت Ú©ÛŒ اور حضرت سید احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ Ù†Û’ بوسہ لیا، پھر دوسرے سال حاضر ہوئے عرض کئے کہ اگر لوگ پوچھیں Ú¯Û’ تم زیارت کر Ú©Û’ آئے تو کیا Ù„Û’ کر آئے تو میں جواب میں کیا کہوں ØŸ

قبر شریف سے آواز آئی جس کو تمام حاضرین نے سنا:’’ تو یوں کہنا کہ ہم ہر طرح کی خیر وبرکت لے کر آئے، فروع (سید احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ یعنی ولد ) اصول ( حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یعنی جد ) کے ساتھ جمع ہوئے اور بھی تو سادات ہیں ‘ ان کو یہ بات کیوں حاصل نہ ہوئی ؟

�کمالِ اتباع ‘ کمالِ محبت ‘ کمال عظمت اس دولت کا سبب تھی ۔

������ ÙˆÙŽÙÙÙŠ ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ

���� ( اس میں ایک دوسرے پر سبقت کرنے والے ایک دوسرے پر سبقت کریں )

از:میلاد نامہ،مؤلفہ حضرت ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ 

www.ziaislamic.com

�