Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

News

ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے رہنمایانہ اصول


ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے رہنمایانہ اصول

ازدواجی رشتہ'ایمان،عزت وعصمت کی حفاظت اور گناہوں سے اجتناب اور نسل کی بقا کا ذریعہ ہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو اپنے آدھے دین کو مکمل کرلیتا ہے ؛چاہئیے کہ وہ باقی آدھے میں اللہ تعالی سے ڈرتا رہے۔

نکاح رشتۂ محبت والفت ہے جس سے نوع انسانی کی بقاء وابستہ ہے ، نکاح انسان کے لئے اخلاقی سدھار کا ذریعہ اور نفسیاتی توازن کا باعث ہے اور شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے لئے تسکین کا ذریعہ ہیں ،اس طرح نکاح زوجین کے لئے معاشرہ میں باعزت وپرُ وقار رہنے میں معا ون و مددگار ہے۔

نکاح کے بعد اس کا تقاضہ یہی ہے کہ شوہر اور بیوی خوش اخلاقی وحسن معاشرت کے ساتھ زندگی گزاریں ، ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں ، شوہر‘ بیوی کی رہائش، خوراک و پوشاک اور دیگر ضروریات کی تکمیل کرے اور بیوی دستور کے مطابق شوہر کی اطاعت کرے ، اگر زوجین ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے رہیں تو ان کے درمیان فرحت ومسرت کا ماحول قائم رہتا ہے ، ازدواجی زندگی میں کسی قسم کی حق تلفی ہو تو فریقین کو نرمی سے کام لینا چاہئے۔

سورۂ بقرہ کی آیت نمبر(228)میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:(ترجمہ)اوران (عورتوں)کے حقوق بھی(مردوں پر)ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان (عورتوں)پر ہیں ‘دستور کے مطابق۔(2،البقرۃ:228)

مذکورہ آیت کریمہ ‘ازدواجی حقوق وفرائض کے حوالہ سے نہایت اہم اور جامع ہے۔کلمات قرآنیہ پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے ترتیب کے لحاظ سے پہلے بیوی کے حق کو بیان کیا اور شوہر کے حق کو بعد میں بیان کیا۔

مفسرین کرام نے اس ترتیب کی حکمت بیان کرتے ہوئے ایک لطیف بات فرمائی کہ عورت کے حق کا بیان اس لئے مقدم رکھا گیا، مرد ‘اپنے حق کو حاصل کرنے میں طاقت وقوت کا مظاہر کرتا ہے،جب عورت ‘صنف نازک ہے،وہ طاقت وقوت کے ذریعہ اپنا حق حاصل نہیں کرتی،کہیں اس کا حق ضائع نہ ہوجائے اس لئے حق تعالی نے پہلے عورت کے حق کو بیان فرمایا۔

صنفی مساوات کے نام پر آج ایک شور بپا ہے کہ اسلام نے عورت کو نظرانداز کیا ہے،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اگر انصاف کی نظر سے اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام نے ہر مرحلہ میں عورت کو خصوصی رعایت دی ہے اور اسے عزت وحرمت عطا کی ہے۔

شوہر کا حق‘ بیوی کے ذمہ فرض ہے اور بیوی کا حق‘شوہر کے ذمہ فرض ہے،ہر کوئی اگر حسن وخوبی سے اپنا فرض اداکرے تو خودبخود‘ دوسرے کا حق ادا ہوجائے گا۔

شوہر،بیوی‘ہر دو کو چاہیئے کہ وہ عمدگی وشائستگی اور دستور اسلام کے مطابق اپنا اپنا حق اداکریں۔

عورت‘صنف نازک ہے،اس کی طبیعت وحالت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامی ذمہ داری اس کے حوالہ نہیں کی گئی بلکہ مرد کو انتظامی ذمہ داری دی گئی ،اور مرد‘کو جب منتظم اور نگہبان مقرر کیا گیا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ بلند حوصلہ رکھے،شدت وسختی سے گریز کرتے ہوئے عفو ودرگذر سے کام لے اور صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے۔

عورت کو بیرونی کاموں کا ذمہ دار مقرر نہ کرنا اس کے ساتھ ناانصافی نہیں بلکہ شفقت ورحمت ہے،اور حقیقی طور پر بلند وہ ہے جو تقوی کے اعتبار سے بلند ہو۔

اسلام نے عورت کو معظم ومحترم گردانا ہے،شادی سے قبل جب وہ باپ کے گھر میں تھی تو اسے ایک جز(ممبر آف فیملی) کی حیثیت حاصل تھی اور شادی کے بعد وہ شوہر کے گھر کی ذمہ دار قرار پاتی ہے۔شوہر ‘گھر کے بیرونی معاملات کا اور بیوی‘اندرونی امور کی ذمہ دارہے۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بیوی اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دارہے،اور اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

بیوی اور اولاد کے خرچ کی ذمہ داری مرد پر عائد کی گئی ہے،سکونت ورہائش،لباس وپوشاک اور غذا وخوراک ‘شوہر کے ذمہ ہے۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو جو ہدایات عطا فرمائی ہیں اگر ان پر عمل کیا جائے تو زوجین کے درمیان نہ کبھی نامناسب حالات پیدا ہوں گے،نہ کورٹ کچہری کی نوبت آئے گی ،نہ کسی کو انگشت نمائی کا موقع ملے گا۔

حجۃ الوداع کے موقع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاکیدی طور پر فرمایا:اے لوگو! تمہارے اوپر تمہاری بیویوں کے حقوق واجب ہیں اور اُن کے ذمہ تمہارے حقوق ہیں، تمہاری عورتوں کے ذمہ تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم ناپسندکرتے ہو اور یہ بھی اُن کی ذمہ داری ہے کہ کوئی بے حیائی کا عمل نہ کریں ،اگر وہ ایسا کوئی عمل کریں تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کی اجازت دی ہے کہ تم انہیں خوابگاہوں میں چھوڑ دو اور انہیں ہلکی سی تنبیہ کرو‘ اگر وہ باز آجائیں تو دستور کے مطابق نان نفقہ اور لباس اُن کا حق ہے۔عورتوں سے متعلق بھلائی کی نصیحت قبول کرو! کیونکہ وہ تمہاری پابند اور تمہارے زیر فرماں ہیں۔ وہ خود اپنے لیے کچھ نہیں کرسکتیں، لہٰذا تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امان کے ساتھ حاصل کیاہے اور کلام الٰہی کی برکت سے وہ تمہارے لیے حلال ہوئی ہیں۔

اور ارشاد فرمایا:تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور میں اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں تم سب سے بہتر ہوں۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کا حکم فرمایا ہے،اگر بیوی میں کوئی عیب نظر آئے،کوئی ناپسندیدہ چیز ہوتو اس سے صرف نظر کرتے ہوئے اس میں موجود ‘دوسری بھلائیوں اور خوبیوں پر نظر رکھیں۔

اگر ازدواجی زندگی میں ناموافق حالات پیداہوں تو فوراً کوئی سنگین اقدام نہ کیا جائے ؛بلکہ قرآنی ہدایات اور نبوی ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے خیروصلح کی کوئی صورت اختیار کی جائے!پہلے مرحلہ میں سمجھایا جائے،نصیحت کی جائے۔

اگر یہ بھی کارگر نہ ہو تو دوسرے مرحلہ میں یہ کیا جائے کہ گھر میں رہتے ہوئے بستر علحدہ کردیں تاکہ تنہائی کا احساس ہوگا اور غلطی معلوم ہوگی اور یہ خیال پیدا ہوگا کہ عارضی طور پر علاحدہ نہیں رہ سکتے ہیں تو طلاق کے بعد مستقل کیسے جدا رہ سکیں گے؟اس طرح معافی تلافی کے بعد دوبارہ خوش گوار زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔

اور اگر یہ تدبیربھی سود مند نہ ہوتو پھر تیسرے مرحلہ میں حکم دیا گیا کہ اسے تنبیہ کی جائے،ایساہلکا مارا جائے کہ چوٹ نہ آئے،نہ خون نکلے نہ ہڈی کو نقصان پہنچے،نہ جسم پر نشان آئے۔اگر وہ اطاعت کرلے تو کوئی اور اقدام نہ کیا جائے،صبر وتحمل ،عفوو درگذر سے کام لے۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو عورت اپنے شوہر کی اذیت پر صبر کرتی ہے اللہ تعالی اس عورت کووہی ثواب دے گا جو (فرعون کی بیوی)حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کو عطا کرے گا۔نیز ارشاد فرمایا:جو کوئی مرد اپنی بیوی کی ایذارسانی پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے مماثل صبر عطا فرمائے گا۔

از:ضیاء ملت حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی مجددی قادری دامت برکاتہم العالیہ

شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر،حیدرآباد