Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

News

صدقۂ فطر فضائل واحکام


صدقۂ فطر فضائل واحکام

صدقۂ فطرکے مسائل

اسلام نے معاشرہ کے ضرورتمند وتنگدست افراد کو خوشیوں میں شریک کرنے کی تاکید کی اور بڑے چھوٹے مردوعورت پر صدقہ واجب کردیا تاکہ غریب ونادار افراد کو بھی عید کی خوشیوں سے حصہ مل سکے۔

صدقۂ فطرکی فضیلت

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غنی اور فقیر کی جانب سے صدقۂ فطر اداکرنے کاحکم فرمایا پھر ارشاد فرمایا:

عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ أَبِی صُعَیْرٍ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ۔ ۔ ۔ أَمَّا غَنِیُّکُمْ فَیُزَکِّیہِ اللَّہُ وَأَمَّا فَقِیرُکُمْ فَیُرَدُّ عَلَیْہِ أَکْثَرُ مِمَّا یُعْطِی .

ترجمہ:اب رہا تم میں کامال دار و غنی شخص !تو اللہ تعالی اس کو پاک کردیتا ہے اورتم میں کاتنگدست! جتنا وہ صدقہ کرے اللہ تعالی اسے اس سے زیادہ عطا فرماتا ہے۔

(مسندالامام احمد ، باقی مسند الانصار ، حدیث نمبر:22553)

علامہ علی متقی ہندی حنفی (متوفی 974؁ھ )رحمۃ اللہ علیہ نے کنزالعمال میں خطیب اور ابن عساکر کے حوالہ سے حدیث پاک ذکر فرمائی:

لا یزال صیام العبد معلقا بین السماء والأرض حتی یؤدی صدقۃ الفطر". "الخطیب وابن عساکر عن أنس".

ترجمہ:بندۂ  مؤمن کا روزہ اس وقت تک آسمان وزمین Ú©Û’ درمیان معلق رہتا ہے جب تک کہ وہ صدقۂ فطر ادانہ کرے Û”

(کنزالعمال ، کتاب الصوم من قسم الاقوال ، حدیث نمبر:24130)

صدقۂ فطرکا حکم

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے موقع پر ہر چھوٹے بڑے مرد وعورت کی جانب سے صدقۂ فطر دینے کا حکم فرمایا اور نماز عید سے پہلے ہی صدقہ کرنے کی تاکید فرمائی۔

جیسا کہ مسند امام احمد میں حد یث پا ک مذکور ہے:

عن الحسن قال خطب ابن عباس الناس فی آخر رمضان فقال یا اھل البصرۃ ادوا زکاۃ صومکم قال فجعل الناس ینظر بعضھم الی بعض قال من ھاھنا من اھل المدینۃ قوموا فعلموا اخوانکم فانھم لا یعلمون ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض صدقۃ رمضان نصف صاع من بر او صاعا من شعیر او صاعا من تمر علی العبد والحر والذکر والانثی۔

ترجمہ:حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں Ù†Û’ فرمایا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما Ù†Û’ ماہ رمضان Ú©Û’ آخرمیں لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا:اے اہل بصرہ! تم اپنے روزوں Ú©ÛŒ زکوۃ اداکرو۔ راوی کہتے ہیں لوگ ایک دوسرے کودیکھنے Ù„Ú¯Û’ØŒ توآپ Ù†Û’ فرمایا: یہاں اہل مدینہ میں سے کون ہیں؟ اٹھو اور اپنے بھائیوں Ú©Ùˆ سکھاؤ ! کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم Ù†Û’ غلام وآزاد  مردوعوت پر رمضان کا صدقہ آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع جَویا ایک صاع کھجور مقررفرمایا ہے۔

 (مسند الامام احمد‘ حدیث نمبر3349)

صدقۂ فطر کا وجوب

صدقۂ فطر واجب ہے ،اس کے واجب ہونے کے لئے صرف تین چیزیں شرط ہیں:(1) آزاد ہونا۔(2)مسلمان ہونا۔(3)کسی ایسے نصاب کا مالک ہونا جو اصلی حاجت سے زائد ہو اور قرض سے محفوظ ہو۔

صدقۂ فطر اس آزاد مسلمان شخص پر واجب ہے جس کے پاس اتنا مال ہو جو نصاب تک پہنچتا ہو، اصلی حاجت سے زائداورقرض سے فارغ ہو۔

صدقہ فطر اور زکوۃ کا نصاب ایک ہی ہے‘ البتہ صدقہ فطر واجب ہونے کیلئے مال کا نامی (بڑھنے والا)ہونا اور اس پر ایک سال گزر نا شرط نہیں ہے جبکہ زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے مال کا نامی (بڑھنے والا)ہونا اور اس پر ایک سال گزرنا شرط ہے۔

جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے :

وہی واجبۃ علی الحر المسلم المالک لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجہ الأصلیۃ کذا فی الاختیار شرح المختار، ولا یعتبر فیہ وصف النماء ویتعلق بہذا النصاب وجوب الأضحیۃ  ووجوب نفقۃ الأقارب ہکذا فی فتاوی قاضی خان-

(فتاوی عالمگیری ج1‘ کتاب الزکوٰۃ ، الباب الثامن فی صدقۃ الفطر، ص191)

صدقۂ فطرکی مقدار

صدقۂ فطر گیہوں کی شکل میں ادا کرنا ہوتو آدھا صاع اور اگر جَو یا کھجوریا مُنقّٰی ہوتو ایک صاع دیناچاہئے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

وانما تجب صدقۃ الفطر من اربعۃ اشیاء من الحنطۃ والشعیروالتمروالزبیب۔ Û” Û”  وہی نصف صاع من براوصاع من شعیراوتمر۔

 (فتاوی عالمگیری ج1‘ کتاب الزکوٰۃ ØŒ الباب الثامن فی صدقۃ الفطر، ص191 )

فقہ حنفی کی مشہور کتاب درمختار میں صاع کی مقدار کا تعین درہم کے ذریعہ کیا گیا ہے، اس سے متعلق حضرت مولانا عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ملامبین رحمۃ اللہ علیہ نے تحقیق فرمائی ہے کہ حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمدانوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کے تربیت یافتہ شاگرد حضرت مفتی محمد رکن الدین رحمۃاللہ علیہ مفتی اول جامعہ نظامیہ نے اپنے فتوی میں اس کی صراحت کی ہے کہ ایک درہم دوماشہ دیڑھ رتی کا ہوتا ہے، اس حساب سے آدھا صاع پانچ سو بیس (520) درہم کے برابر ہے‘ جس کی مقدار چورانوے (94) تولے نو(9) ماشے چار (4) رتی ہوتی ہے۔(فتاوی نظامیہ ص126)

در مختار ج2ص 83/84 میں ہے:

الصاع المعتبر (مایسع الفاواربعین درھما من ماش اوعدس)۔

مروجہ گراموں میں اس کا وزن ایک کلو 106گرام کے معادل ہوتا ہے۔ صدقۂ فطر گیہوں دینے کی صورت میں بتقاضۂ احتیاط سوا کلو ادا کیا جائے !۔

شمالی ہند کے علماء کی تحقیق کے مطابق آدھاصاع دو(2)کلو سینتالیس(47)گرام کے معادل ہے ۔

قیمت دینا افضل ہے

گیہوں‘ جَواور کھجور وغیرہ میں سے کوئی چیز دینے کے بجائے اس کی قیمت دینا افضل ہے تاکہ عیدکے موقع پر فقراء ومساکین رقم کے ذریعہ اپنی متعلقہ ضرورت کی تکمیل کرسکیں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

ان اداء القیمۃ افضل من عین المنصوص علیہ و علیہ الفتوی۔

(فتاوی عالمگیری ج1‘ کتاب الزکوٰۃ ، الباب الثامن فی صدقۃ الفطر، ص192)

صدقۂ فطرکی ادائیگی کا وقت

عید الفطر کی صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقۂ فطر واجب ہوجاتا ہے ،صدقۂ فطر کی ادائی کا وقت تمام عمر ہے‘ زندگی بھر میں کسی بھی وقت ادا کیا جاسکتا ہے ‘لیکن مستحب یہ ہے کہ عیدگاہ جانے سے پہلے ادا کیا جائے اور نماز کے بعدبھی دیا جاسکتا ہے جب تک ادا نہ کیا جائے برابر واجب الاداء رہے گا، خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے ‘ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔ فتاوی عالمگیری میں ہے:

ووقت الوجوب بعد طلوع الفجر الثانی من یوم الفطر۔

(فتاوی عالمگیری‘ ج1‘ کتاب الزکوٰۃ ، الباب الثامن فی صدقۃ الفطر‘ ص192)

اور بدائع الصنائع میں ہے:

واما وقت ادائھا فجمیع العمر عند عامۃ اصحابنا ، ولا تسقط بالتاخیر عن یوم الفطر ۔

(بدائع الصنائع کتاب الزکاۃ,فصل وقت اداء صدقۃ الفطر‘ ج 2‘ ص207)

کوئی شخص عید الفطر کے بعد مالدار ہو توکیا صدقۂ فطر واجب ہے؟

اگر کوئی شخص عید الفطر کی صبح مذکورہ نصاب کامالک نہ رہا اور بعد میں نصاب کا مالک ہوا تواُس پر اس سال صدقۂ فطر واجب نہیں ،لیکن اگر کوئی شخص نفل صدقہ کرنے کا ارادہ رکھتاہے تو جتنا چاہے کرسکتاہے ،ہاں جس سال وہ عید الفطر کی صبح مذکورہ نصاب کا مالک رہا اس سال اس پر صدقۂ فطر واجب ہے ‘ اس کے ذمہ صدقۂ فطرکا ادا کرنا ضروری ہے، خواہ کتنا ہی عرصہ گزر چکا ہو۔

صدقۂ فطر ادا کرنے کی وصیت

اگر کوئی صاحب حسب صراحت بالا صاحب نصاب تھے اور انہوں نے انتقال سے پہلے وصیت کی کہ ان کے مال سے ان کے ذمہ واجب صدقۂ فطر ادا کیا جائے تو وصیت کے مطابق مال کے ایک تہائی حصہ سے فطرہ ادا کیا جائیگا ، اگر انہوں نے وصیت نہیں کی تھی تو ان کے مال سے صدقۂ فطر دینا ضروری نہیں‘ البتہ اگر ورثہ خوش دلی سے ادا کریں تو بہتر ہے جو ان کی سعادتمندی و حسن سلوک کی علامت ہے۔

جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

وإذا مات من علیہ زکاۃ أو فطرۃ أو کفارۃ أو نذر لم یؤخذ من ترکتہ عندنا إلا أن یتبرع ورثتہ بذلک وہم من أہل التبرع فإن امتنعوا لم یجبروا علیہ  وإن أوصی بذلک یجوز وینفذ من ثلث مالہ کذا فی الجوہرۃ النیرۃ .

(فتاوی عالمگیری ، ج 1،کتاب الزکاۃ ،الباب الثامن فی صدقۃ الفطر‘ ص193)

اگر انتقال کرنے والے صاحب نصاب نہیں تھے تو پھر ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری نہیں ،البتہ صدقہ نافلہ ، خیرات و غیرہ کے ذریعہ ان کے لئے ایصال ثواب کیا جاسکتاہے ۔

افراد خانہ کی طرف سے صدقۂ فطر دینے کا حکم

آدمی جن افرادِخانہ کی ولایت وکفالت کا ذمہ دار ہوتا ہے ،جیسے نابالغ اولاد ، ان کا صدقۂفطر اس سے متعلق ہوتا ہے ،لہذا اپنی جانب سے اور نابالغ اولاد کی جانب سے صدقۂ فطر دینا چاہئے، بالغ اولاد اور بیوی کی جانب سے صدقۂ فطر ادا کرنا اس کے ذمہ نہیں ہے ۔

بالغ اولاد اور بیوی کی جانب سے صدقۂ فطر کی ادائیگی کے لئے ان سے اجازت لینا ضروری نہیں !اگر ان کی اجازت کے بغیر بھی فطر ہ ادا کردے تو درست ہے ۔

فتاو ی عالمگیری میں ہے:

ولا یؤدی عن زوجتہ ولا عن اولادہ الکبار وان کانوا فی عیالہ ولوادی عنہم او عن زوجتہ بغیر امر ہم اجزأہم استحساناکذا فی الہدایۃوعلیہ الفتاوی کذا فی فتاوی قاضیخان ۔

(فتاو ی عالمگیری ج 1 ،کتاب الزکوٰۃ ، الباب الثامن فی صدقۃ الفطر‘ ص 193)

دوسروں کی جانب سے صدقۂ فطر دینے کا حکم

اگر کوئی دوسروں کی طرف سے فطرہ ادا کرنا چاہتا ہو تو ان سے اس کی اجازت حاصل کرلے ورنہ ان کی جانب سے صدقہ فطر ادا نہ ہوگا۔فتاوی عالمگیری میں ہے:

ولا یجوزان یعطی عن غیر عیالہ الا بامرہ ۔ ۔ ۔ والاصل ان صدقۃ الفطر متعلقۃ بالولایۃ والمؤنۃ۔

(فتاوی عالمگیر ی ج 1 ، کتاب الزکوٰۃ ، الباب الثامن فی صدقۃ الفطر‘ ص193)

اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ حضرت نبی اکرم حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ وطفیل میں ہمیں اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے ، اس کی رضا وخوشنودی کے لئے زکوۃ ادا کرنے اورصدقات وخیرات کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین

بجاہ طہ ویس صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ اجمعین ۔

از:مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی مجددی قادری صاحب  Ø¯Ø§Ù…ت برکاتہم العالیہ

 Ø´ÛŒØ® الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر

www.ziaislamic.com