Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

News

اکلِ حلال اوراجتناب حرام کی برکتیں


اکلِ حلال اوراجتناب حرام کی برکتیں

���� حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:جو شخص چالیس (40)روز حلال روزی کھائے اور اس میں کسی قسم کی آمیزش نہ ہو تو حق سبحانہ و تعالیٰ اس کے دل کو نورِ معرفت سے بھر دیتااور اس کے دل سے حکمت کے چشمےجاری فرمادیتا ہے۔
���� اور فرمایا: جو شخص حرام روزی کھاتا ہے حق تعالیٰ اس کا نہ کوئی فرض قبول فرماتا ہے اور نہ سنت-

اور فرمایا: جس کا گوشت حرام مال سے بنا ہو اس کے لئے دوزخ ہی سزاوار ہے۔
���� حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کسی شخص کو بھی بلند مرتبہ صرف نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ و جہاد سے نہیں ملا، بلندی اسی کو حاصل ہوئی اورمعرفت بھی اسی کو ملی جس نے اپنی روزی حلال ذرائع سے حاصل کی اور یہ سمجھ لیا کہ وہ کیا کھاتا ہے۔ اس لئے کہ حرام لقمہ سے نہ دعا قبول ہوتی ہے اور نہ طاعت و عبادت میں ذوق و شوق پیداہوتاہے۔ خوب سمجھ لو کہ ہر نیک کام کی بنیاد حلال روزی پر ہے خواہ تجھے صائم الدہر اور قائم اللیل ہونے کا شرف حاصل ہو، رات بھر نماز پڑھنے اور دن بھر روزہ رکھنے کی توفیق ہو تو بھی فائدہ مند نہیں بجز اس کے کہ جو بھی کھائے وہ حلال روزی سے حاصل کیا گیا ہو۔
���� حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص چالیس (40)دن مال مشتبہ کھائے اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور حرام مال کا کھانا تمام بدن کو گناہ میں مبتلا کردیتا ہے، اور حلال کھانے سے تمام اعضاء بدن عبادت میں مشغول ہوجاتے اور اس کو خیر کی توفیق ہوتی ہے۔
���� حضرت شیخ ابو العباس نہاوندی رحمۃ اللہ علیہ ٹوپیاں تیار کیا کرتے تھے اورمعمول تھا کہ ایک ٹوپی سی کر دو (2) درہم میں فروخت کرکے ایک درہم اس شخص کو دیتے جو پہلے آپ کے پاس آتا اور ایک درہم کی روٹی خرید کر کسی درویش کے ساتھ تناول فرماتے اور کبھی آپ نے دو (2) درہم سے زائد قیمت پر ٹوپی فروخت نہیں کی اور نہ کبھی ایک ٹوپی فروخت ہونے سے پہلے دوسری ٹوپی سینا شروع کی۔
���� آپ کے ایک مرید، صاحبِِ نصاب نے آپ سے دریافت کیا کہ زکوٰۃ کا مال کسے دوں؟ آپ نے فرمایا جس پر تجھے اعتماد ہو کہ یہ مستحق زکوٰۃ ہے اس کو دے۔ وہ مرید چلا گیا، راہ میں اس کو ایک اندھا فقیر پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تباہ حال ملا، اس مرید نے اس کو ایک اشرفی دے دی۔ دوسرے دن دیکھا کہ وہ اندھا ایک شخص سے کہہ رہا ہے کہ کل ایک سخی مرد نے مجھے اشرفی دی تھی، میں شراب خانہ گیا شراب لے کر فلاں مطربہ(ناچنے گانے والی) کے ساتھ پی۔ وہ مرید حضرت کی خدمت میں واقعہ بیان کرنے حاضر ہوا، قبل اس کے کہ وہ کچھ کہے، آپ نے اپنی ٹوپی کی قیمت میں سے ایک درہم دے کر فرمایا: جاؤ جو شخص تمہیں پہلے ملے یہ درہم اس کو دے دینا۔ وہ مرید باہر آیا اور سب سے پہلے جو صاحب ملے وہ درہم انہیں دے دیا، انہوں نے وہ درہم لیاا ور چلے، وہ مرید بھی ان کے پیچھے ہوگیا، وہ صاحب جنگل میں گئے اور ایک مرا ہوا تیتر جو اُن کے دامن میں چھپا ہوا تھا اس کو وہاں پھینک دیا، یہ واقعہ دیکھ کر اس مرید نے ان سے اس کی وجہ پوچھی؟ انہوں نے فرمایا: آج تین دن سے میرے اہل وعیال فاقہ سے ہیں اور میں سوال کرنے کی ذلت پسند نہیں کرتا، روزی کی تلاش میں نکلا تھا کہ صحرا میں یہ مردہ تیتر ملا، اس کو اٹھالیا کہ اپنے اہل و عیال کو کھلاؤں گا، تم نے درہم دیا اس لئے میں نے اسے پھینک دیا۔ مرید حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ بیان کرنے کا قصد کیا، آپ نے فرمایا: بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے، آگاہ ہوجا کہ حرام کمائی اور ظلم سے حاصل کیا ہوا مال شراب خانہ میں صرف ہوتا ہے اور حلال کمائی اور حلال مال ایک سید زادہ اور اُس کے اہل و عیال کو مردار کھانے سے بچاتا ہے۔
���� حضرت شیخ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حرام مال ترک کرنے والا دوزخ سے نجات پائے گا اور مالِ شبہ سے دست بردار ہونے والا جنت میں داخل ہوگا، طلب زیادتی سے بچنے والا واصل اِلی اللہ ہوگا۔
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ معصیت ایک زبردست حجاب ہے، جو شخص گناہ کرنے پر مُصر ہوتا ہے، اس کا دل تاریک ہوجاتا ہے، اور خاص کرحرام روزی تو نہایت درجہ تباہ کردیتی ہے۔ حلال روزی سے جو نور دل میں پیدا ہوتا ہے وہ کسی اور عمل سے نہیں ہوسکتا، اس لئے سالک کو چاہئیے کہ حرام روزی سے بچے اور سوائے حلال کے کچھ نہ کھائے۔
����
���� حدیث شریف: حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں: جو شخص حرام کھانے سے پرہیز کرتا ہے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سے حساب لینے میں مجھے شرم آئے گی۔
اور فرمایا: جو شخص حلال روزی ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک کر رات کو اپنے گھر آتا ہے، جب وہ سوتا ہے تو اس کے سب گناہ بخشے ہوئے ہوتے ہیں اور جب صبح کو اٹھتا ہے تو حق تعالیٰ اس سے خوش ہوتے ہیں۔
اور فرمایا: جب تک مسلمان مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہونے کے اندیشے سے بے شبہ چیزوں کو بھی ترک نہ کردے گا اس وقت تک وہ اَتقیا کے درجہ پر ہرگز نہ پہنچے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رزق حرام کھاکر عبادت کرنا ایسا بے کار ہے جیسے بغیر بنیاد (پایہ) کے گھر بنانا جو مضبوط اور پائیدار نہ ہوگا۔

حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حرام غذا انسان کو دنیا میں مشغول کرتی اور گناہوں سے الفت پیدا کرتی ہے، طعامِ حلال آخرت کے کاموں میں دلچسپی اور اطاعت الٰہی سے محبت کرواتا ہے جس سے قربِ خداوند نصیب ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عابد اس قدر عبادت کرے کہ اس کی پیٹھ کمان کی طرح جھک جائے اور اس قدر روزے رکھے کہ مانند تیر کے دبلا ہوجائے، قسم ہے اللہ کی یہ عمل اس کو نفع نہ دے گا جب تک کہ وہ اَکلِ حلال (حلال روزی) اور صدق مقال (سچی بات کہنا) اختیار نہ کرے۔
حضرت ابو علی احمد بن محمد رودباری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حیاء دل کی واعظ ہے اور اللہ تعالیٰ سے حیاء کرنا سب اچھائیوں سے اچھا ہے۔
حضرت شیخ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حق بات کہنے سے خاموش رہنے والا مثل گونگے شیطان کے ہے ۔

ماخوذ:مواعظ حسنہ،از:حضرت ا بو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری محدث دکن رحمۃ اللہ تعالی علیہ –

www.ziaislamic.com

�

�