Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

News

قسم کس لئے کھائی جاتی ہے؟


قسم ایک پر عظمت کلمہ ہے جس کو متکلم اپنی بات کی صحت و حقانیت ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتا ہےٗ اور وہ اس طرح کہ اللہ کا واسطہ دے کر اپنی بات کو مؤثق ومؤکد بناتا ہےٗ گویا اللہ کو جو عالم الغیب ہے اپنی بات کی صداقت پر گواہ ٹھیراتا ہےٗ اسی لئے اہلِ اسلام کو غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا گیا ہےٗ کیونکہ جب غیر اللہ کی قسم کھائی جائے تو وہ دو حال سے خالی نہیںٗ یا تو یہ کہ قسم کھانے والا مقسم بہ کو عالم الغیب سمجھتا ہے یا نہیں سمجھتاٗ اگر سمجھتا ہے تو غیر اللہ کو اللہ کا ہمسر و شریک بنانا لازم آئے گا جو شرک ہےٗ اور شرک حرام قطعی ہےٗ اگر نہیں سمجھتا تو پھر قسم کھانا ہی درست نہ ہوگاٗ کیونکہ ناواقف کو گواہ نہیں بنایا جاسکتا۔

علم فقہ میں قسم کی تین قسمیں کی گئی ہیں: قسم غموسٗ قسم منعقدٗ قسم لغوٗ اور اس تقسیم کی بنیاد قرآن مجید کی یہ آیت ہے:لایؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم۔

اللہ تعالی لغو قسموں پر تم کو نہیں پکڑتاٗ بلکہ ایسی قسموں پر مواخذہ فرماتا ہے جو دل کے ارادے کے ساتھ کھائی جائیں۔

اب ہم ان تین قسموں کی مختصر تعریف لکھتے ہیں تاکہ تقریب مقصود میں مدد ملے:

قسم غموس  :کسی گزری ہوئی بات پر جان بوجھ کر واقعہ Ú©Û’ خلاف جھوٹی قسم کھاناٗ ایسی قسم کھانے والا شرعاً گنہگار ہوتا ہے۔

قسم منعقد  :کسی آنے والی بات پر اس Ú©Û’ کرنے یا نہ کرنے Ú©Û’ متعلق قسم کھاناٗ شرعاً صرف یہی قسم معتبر ہے اور اسی پر احکام مرتب ہوتے ہیں۔

قسم لغو  :کسی امر ماضی پر اس Ú©Ùˆ واقعہ Ú©Û’ موافق سمجھتے ہوئے قسم کھاناٗ درآنحالیکہ وہ اس Ú©Û’ مخالف تھاٗ _______Ùˆ نیز بات بات پر واللہ یا باللہ کہنا جیسا کہ عام بولی اور تکیہ کلام Ú©Û’ طورپر یہ لفظ Ú†Ù„ نکلا ہے قسم لغو میں داخل ہےٗ شرعاً ایسی قسم پر مواخذہ نہیں۔

جب ہم فقہ میں کی گئی ان تعریفات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کو جھوٹی قسم کھانے سے باز رکھنا اور قسم کھانے میں احتیاط پر تنے کی جانب توجہ دلانا ہےٗ قرآنِ مجید کی قسموں کا ان تعریفات سے کوئی تعلق نہیںٗ کیونکہ ان کا کہنے والا اللہ جل شانۂ ہے پھر لازمی طورپر یہ سوال پیدا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی کھائی ہوئی قرآنی قسموں کو کیا نام دینا چاہئے؟ اس سوال کا جواب ہم آئندہ سطروں میں دیں گے۔

رہا یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اتنی قسمیں کیوں کھائیں؟ سورۂ والصفت سے شروع کرکے آخر قرآن مجید تک جابجا اللہ تعالیٰ نے مختلف کائناتی اشیاء کی قسمیں کھائی ہیں۔ اول یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ قرآن مجید جو کلامِ الٰہی ہےٗ انسانوں کی زبان اور محاورہ میں نازل ہوا ہےٗ اور اس کا طرز کلام بعینہ ایسا ہے جیسا کہ ایک نہایت فصیح و بلیغ شخص عربی زبان میں بات کرتا ہو اور اس کی فصاحت و بلاغت بے مثل ہوٗ جس طرح انسانوں کو زبانوں میں مجازٗ حقیقتٗ تمثیلٗ استعارہ و کنایہ پایا جاتا ہے اسی طرح کلام اللہ میں بھی موجود ہےٗ یہاں تک کہ عربی زبان میںٗ دوسری زبانوں کے جو الفاظ شامل ہوگئے تھے وہ بھی قرآنِ مجید میں موجود ہیں۔

مثال Ú©Û’ طورپر لفظ  فیل (بمعنی ہاتھی) جو سورۃ الفیل میں ہےٗ عربی زبان کا لفط نہیں ہےٗ بلکہ ’’پیل‘‘ کا معرب ہے جو فارسی لفظ ’’آبریز‘‘ کا معرب ہے۔

استبرق (بمعنی د بیزریشم) اور سرادق (بمعنی پردہ یا چلمن) کے الفاظ جو سورۃ الکہف اور دیگر سورتوں میں آئے ہیں عربی زبان کی نہیں ہیںٗ بلکہ ’’استردہ‘‘ اور ’’سراپردہ‘‘ سے ماخوذ ہیں جو فارسی الفاظ ہیں۔

اسی طرح کنز کا لفظ جو فارسی زبان کے لفط ’’گنج‘‘ سے معرب ہوتا ہےٗ نہ صرف اس کی جمع ’’کنوز‘‘ (بمعنی خزانے) قرآنِ مجید میں آئی ہے بلکہ بطورِ فعل اس کے صیغے بھی آئے ہیںٗ جیسا کہ اس آیت میں: والذین یکنزون الذھب والفضۃ۔ (الآیۃ)

فردوس (جنت کا نام)کا لفظ بھی قرآنِ مجید میں کئی سورتوں میں آیاہےٗ یہ عربی زبان کا لفظ نہیں بلکہ آریائی زبان سے لیا گیا ہےٗ جس کے معنی انگور کا باغ ہے۔ اور جو سنسکرت میں آکر ’’پردیش‘‘ بن گیاٗ جس کے معنی ’’اجنبی ملک‘‘ کے ہیںٗ اور اسی لفظ کی شکل انگریزی زبان میں ’’پیرا ڈائز‘‘ بن گئی ہے۔

اسی طرح بہت سے الفاظ قرآنِ مجید میں ایسے ہیں جو عربی زبان Ú©Û’ لفظ نہیں ہیں بلکہ عبرانیٗ سریانیٗ قبطیٗ فارسیٗ لاطینیٗ یونانی زبانوں سے معرب ہوکر عربی میں شامل ہوگئے ہیںٗ امام جلال الدین سیوطی Ù†Û’ اپنی کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں ایک مستقل باب ان الفاظ Ú©Û’ لئے باندھا ہےٗ جو غیر زبانوں سے معرب ہوکر عربی میں شامل ہوگئے ہیں اور قرآنِ مجید میں موجود ہیںٗ اور یہ کوئی تعجب Ú©ÛŒ بات نہیںٗ کیونکہ ایک زبان میں دوسری زبان Ú©Û’ الفاظ کا استعمال ہونا ماحول اور مختلف بولیاں بولنے والوں Ú©Û’ باہمی اختلاط کا نتیجہ ہوتاہے عرب تجارت Ú©Û’ لئے مختلف ممالک میں جاتے تھے سامان Ú©Û’ ساتھ Ú©Ú†Ú¾ الفاظ کا سرمایہ بھی لاتے تھے جو ان Ú©ÛŒ زبان میں نہ تھےٗ اس لحاظ سے ایک زبان کا اپنی پڑوسی زبان سے متاثر ہونا فطری ہےٗ اور یہ تاثر عیب نہیں بلکہ زبان Ú©Û’ حلقہ Ú©Ùˆ وسیع کرتا اور اس Ú©ÛŒ حیاتِ نو کا سبب بنتا ہےٗ ایک زندہ زبان Ú©ÛŒ علامت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر دیگر زبانوں Ú©Û’ الفاط Ú©Ùˆ جذب کرسکے۔ چنانچہ آج دنیا میں جو زبانیں بڑی مانی جاتی ہیں وہ اپنے گرد Ùˆ پیش Ú©ÛŒ زبانوں سے ضرور متاثر ہیںٗ خود انگریزی میں کئی الفاظ ایسے ہیں جو عربی سے لئے گئے ہیںٗ مثال Ú©Û’ طورپر انگریزی میں کاٹن(Cotton)   کا لفظٗ عربی لفظ قطن (بمعنی روئی) سے ماخوذ ہےٗ اور اسی طرح ’’ڈیموکرٹیک‘‘ (بمعنی جمہوریت) کا لفظ ’’دیمقرا طیس ‘‘(Û²)سے لیا گیا ہے جو یونانی لفظ ہے۔

غرض کہ کلام مجید ایسی زبان میں نازل ہوا ہے جو اس زمانے کے اہلِ عرب کی زبان تھی۔

كلامِ مجید کا طرز بھی اسی زمانے کے طرز کلام پر ہےٗ اس زمانے میں کاہنوں اور خطیبوںکی جو عرب میں موقر اور مقدس گنے جاتے تھے یہ عادت تھی کہ عموما فصیح کلام کرتے تھے اور اکثر مقفی و مسجع کلام بولتے تھےٗ چنانچہ قیس بن ساعدہ الایادی جس کو ’’حکیم العرب‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہےٗ عرب کا ایک مشہور خطیب تھاٗ اس نے سوق عکاظ میں جو مشہور خطبہ دیا تھا اس کے بعض فقرے یہ ہیں:

ایھا النسا! اسمعوا ودعوا واذا وعیتم فانتفعواٗ انہ من عاش ماتٗ ومن مات فاتٗ وکل ماھوآت آتٗ مطر و نباتٗ وارزاق و اقواتٗ و آباء وامھاتٗ وأحیاء وامواتٗ وجمع و شتاتٗ ان فی السماء لخبراٗ و ان فی الارض لعبراٗ لیل داجٗ وسماء ذات أبراجٗ وبحار ذات أمواجٗ مالی أری الناس یذھبون فلا یرجعونٗ أرضوا بالمقام فأقامواٗ أم ترکوا ھناک فنا مواٗ این من بنی وشیدٗ وزخرف ونجدٗ وعد المال والولدٗ أین من بغی و طغی۔

ائے لوگو! سنو اور یاد رکھوٗ اور جب یاد رکھو تو فائدہ اٹھاؤ  (حق بات یہ ہے کہ) جو بھی زندہ ہے وہ (ایک دن ضرور) مرے گاٗ اور جو مرے گا وہ فنا ہوجائے گاٗ اور ہر آنے والی چیز آکر رہے گیٗ بارش اور کھیتیاںٗ روزیاں اور پونجیاںٗ باپ دادا اور مائیںٗ زندے اور مردےٗ اکٹھے اور پراگندہٗ بے Ø´Ú© آسمان میں خبریں (محفوظ) ہیںٗ اور زمین میں عبرت (Ú©Û’ سامان) ہیںٗ اندھیری راتٗ اور برجوں والا آسمانٗ موجیں مارنے والے سمندرٗ مجھے تعجب ہے کہ میں ان لوگوں Ú©Ùˆ دیکھ نہیں پاتا جو لوگ جاتے ہیں پھر واپس آتے نہیںٗ کیا انہیں مقام پسند آگیا ہے کہ وہیں مقیم ہوگئے یا (Ù„Û’ جائے جاکے) وہاں وہ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دئیے گئے کہ وہیں سوگئے کہاں ہیں وہ لوگ جو عمارتیں بناتے اور ان Ú©Ùˆ Ú¯Ú† چونے سے مضبوط کرتے اور زروسیم سے آراستہ Ùˆ بلند کرتے تھے اور سونا چاندی جمع کرتے تھےٗ اور مال Ùˆ اولاد Ú©Ùˆ گنتے تھےٗ کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں Ù†Û’ بغاوت پھیلائی اور سرکشی کی۔

چنانچہ قرآنِ مجید بھی از ابتدا تا انتہا اسی طرز کلام پر مقفی ومسجع نازل کیا گیا ہے کیوں کہ یہ اس زمانے کے فصحاء کا طرز تھا اور یہ طرز اہلِ عرب میں مقبول تھا۔

اسی طرح قسموں کا استعمال بھی عربوں میں عام تھاٗ جس بات کو وہ سچ سمجھتے تھے اور دوسروں کو اس کے سچ ہونے کا یقین دلانا چاہتے تھے اس کو قسموں کے ساتھ بیان کرتے تھے۔

زمانہ جاہلیت کا کلام ہم تک بہت کم پہنچا ہےٗ مگر ابنِ اثیر نے اپنی کتاب کامل میں قبیلۂ بنی خزاعہ کے ایک کاہن کا قول ہاشم کی فضیلت اور امیہ کی منقصت میں نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کس قدر قسمیں کھائیں اور وہ قول یہ ہے:والقمر الباھرٗ والکواکب الزاھرٗ والغمام الماطرٗ وما بالجر من طائرٗ ومااھتدی بعلم مسافرٗ من منجد دغائرٗ لقد سبق ھاشم امیۃ فی المآثرٗ اول منہ و آخرٗ وابو ھمھمۃ بذلک خابر۔

قسم ہے روشن چاند کیٗ قسم ہے روشن ستاروں کیٗ قسم ہے برستے بادلوں کیٗ قسم ہے آسمان میں اڑنے والے پرندوں کیٗ قسم ہے دور دراز راستون پر چلنے والے مسافروں کے نشانوں سے ہدایت پانے کیٗ کہ ہاشم امیہ پر مقابلہ میں سبقت لے گیاٗ پہلا بھی انہی سے ہے اور پچھلا بھی انہیں سےٗ اور ابو ہمہمہ کو اس بات کی خبر ہے۔

چنانچہ اسی طرز کلام پر جو عربوں کو عام طورپر مرغوب اور دل پسند تھا اور جو نہایت فصیح طرزِ کلام سمجھا جاتا تھاٗ قرآن مجید نازل ہوا ہےٗ اور اس میں بھی جن باتوں کا یقین دلانا منظور ہے ان کو قسموں کے ساتھ بیان کیا ہےٗ جیسا کہ مندرجۂ ذیل آیات میں:والشمس وضحھا۔ والقمر اذا تلھا۔ والنھار اذا جلھا۔ والیل اذا یغشھا۔ والسماء وما بنھا۔ والارض وما طحھا۔ ونفس وما سوھا۔فألھمھا فجورھا و تقوھا۔ قد افلج من زکھا۔ وقد خاب من دسھا۔

قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی قسم ہے چاند کی جب وہ سورج کے پیچھے نکلتا ہےٗ قسم ہے دن کی جب کہ سورج اس کو روشن کرتا ہےٗ قسم ہے رات کی جب کہ وہ سورج کو چھپالیتی ہےٗ قسم ہے آسمان کی اور اس کے بنانے والے کیٗ قسم ہے زمین اور اس کو بچھانے والے کیٗ قسم ہے نفس کی اور اس کو ٹھیک سے سنوار نے والے کی پس اس نے (یعنی خدانے) نفس کو فرمانبرداری اور نافرمانی کی راہ بتادی ہےٗ بے شک وہ (انسان) فلاح پایا جو (اپنے) نفس کو پاک کیا (رذائل سے)ٗ اور بلاشبہ نقصان میں رہا جو اپنے نفس کو گندگی میں دبائے رکھا۔

اور اسی طرز کلام اور غیبی امور کی اطلاع دہی کے سبب سے عرب کے مشرکین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر اور کاہن خیال کرتے تھے جس کی قرآنِ مجید میں سخت تردید کردی گئیٗ چنانچہ فرمایا:

فلا اقسم بما تبصرون۔ وبما لا تبصرون۔ انہ لقول رسول کریم۔ وما ھو بقول شاعر قلیلا ما تؤمنون۔ ولا بقول کاھن قلیلا ما تذکرون۔ تنزیل من رب العلمین۔

قسم ہے اس چیز کی جو تم کو دکھائی دیتی ہے اور جو دکھائی نہیں دیتیٗ کہ یہ (قرآن مجید) بزرگ پیغمبر (کی زبان سے نکلا ہوا خدا) کا کلام ہے یہ کسی شاعر کاکلام نہیںٗ مگر تم بہت کم یقین کرتے ہوٗ اور نہ کسی کاہن کا قول ہے مگر تم بہت کم غور کرتے ہوٗ (بلکہ یہ) پروردگار عالم کی طرف سے اتارا ہوا ہے۔

اس تردید کو بھی اللہ تعالیٰ نے قسم ہی کے ساتھ بیان فرمایا ہےٗ اور قسم بھی ایسی جوان کی سمجھ کے عین مطابق تھی۔ دوسری جگہ خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے فرمایا:

فذکر فما انت بنعمۃ ربک بکاھن ولا مجنون۔

آپ نصیحت کئے جائیےٗ خدا کے فضل سے نہ تو آپ کاہن ہیں اور نہ مجنون۔

مختصر یہ کہ یہ قسمیں اسی طرزِ کلام پر واقع ہوئی ہیں جو عرب کا طرزِ کلام تھاٗ ہاں البتہ اس طرح قسمیں کھانے پر اس بات کا شبہ ہوتاہے کہ ہر گاہ اللہ کے نام کے سوا کسی اور کی قسم کھانی منع کی گئی ہےٗ تو خود اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ کی قسمیں کیوں کھائیں؟ اس شبہ کا ازالہ یہ ہے کہ غیر اللہ کی قسمیں کھانے کا امتناع جیسا کہ ہم قبل ازیں بیان کرچکے ہیںٗ اس سبب سے ہے کہ اس میں شان الوہیت کا شائبہ پایا جاتا ہےٗ اور قسم کھانے والے پر شرک میں آلودہ ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہےٗ مگر جب یہ مسلم ہے کہ تمام چیزیں مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سب کا خالق ہےٗ تو اگر خالق اپنی مخلوق کی قسم کھائے توکسی طرح شائبہ الوہیت اس مخلوق میں نہیں سمجھا جاسکتاٗاگر کچھ سمجھا جاتا ہے تو اسی قدر سمجھا جاتاہے کہ وہ چیزیں اپنی خلقت میں یا انسانوں کے لئے مفید ہونے میں عظیم الشان وعظیم القدر ہیںٗ لیکن اگر انسان جو مخلوق ہے ان میں سے کسی کی قسم کھائےٗ خصوصاً ایسی چیزوں کی جن کو مشرکین پوجتے تھے تو ان میں شانِ الوہیت کے ماننے کا شبہ جاتا ہےٗ پس اسی لئے مسلمانوں کو جو الہ واحد کے ماننے والے ہیں غیر اللہ کی قسم کھانے سے روکا گیا۔ اور یہ کہ اللہ کے عظیم الشان نام کو خلاف واقعہ امور کے اثبات میں استعمال نہ کریںٗ اور بلا سوچے سمجھے کسی واقعہ کی خبر دینے میں قسم کا استعمال کریں۔

از: مولانا حافظ سید خورشید علی صاحب حفظہ اللہ ،کامل التفسیر جامعہ نظامیہ