Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Mufti Maulana Syed Zia Uddin Naqshbandi Quadri

Shaik-ul-Fiqh - Jamia Nizamia


Abul Hasanaat Islamic Research Center

Muhaddith-E-Deccan

Abul Hasanaat Syed Abdullah Shah Naqshbandi Mujaddidi Qadri

فقر و فاقہ

فقر و فاقہ

خواجہ ہبیرۃ البصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:درویش کو درہم و دینار سے کیا واسطہ!اس کو تو فقر و فاقہ و شکستگی کی ضرورت ہے۔ جس میں یہ اوصاف نہیں وہ درویش کہلانے کے لائق نہیں۔جو جویائے محبوب اور خواہان مطلوب ہو اس کے پاس اگر کوئی دوسری چیز آئے تو اس کے لئے ایسی زندگی سے موت بہتر ہے۔

اکثر آپ مسجد میں رہتے، اہل دنیا سے آپ کو سخت نفرت تھی، حتیٰ کہ ان کے پاس کھانے پینے سے بھی پرہیز کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ دولتمندوں کے پاس کھانا ہی زہر قاتل ہے جو دل کو سیاہ کرتاہے اور مقصد اصلی کی تباہی و بربادی کا باعث ہوتا ہے۔ آپ ذاکر و شاغل اور شب بیدار رہتے، اپنے بزرگان سلف کی پیروی میں تین لقموں سے زیادہ نہ کھاتے۔

حضرت خواجہ ممشاد دینوری رحمۃ اللہ علیہ اکثر سات(7)� دن کے بعد تھوڑی سی غذا کھالیتے، اور روزانہ تھوڑے پانی اور ایک کھجور سے سحر و افطار فرماتے۔

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:ہم فقیروں پر لازم ہے کہ ہمیشہ ذلیل Ùˆ محتاج ‘ عاجز ‘روتے اورا لتجاء کرتے رہیں، بندگی Ú©Û’ وظائف Ú©Ùˆ بجالائیں، شرعی حدود Ú©ÛŒ محافظت اور سنت سنیہ Ú©ÛŒ اتباع (پیروی) کریں، اور نیکیوں Ú©Û’ حاصل کرنے میں نیت Ú©Ùˆ درست رکھیں، اپنے باطن Ú©Ùˆ خالص اور اپنے ظاہر Ú©Ùˆ شرع Ú©Û’ موافق رکھیں، اور اپنے عیبوں پر نظر رکھیں اور گناہوں سے اجتناب کرتے رہیں، عین الغیوب (غیب Ú©Ùˆ دیکھنے والی آنکھ) Ú©Û’ انتقام سے ڈرتے رہیں، اپنی نیکیوں Ú©Ùˆ تھوڑا سمجھیں ؛اگرچہ کہ بہت ہوں، اپنی برائیوں Ú©Ùˆ بہت خیال کریں اگرچہ کہ تھوڑی ہوں، خلقت Ú©ÛŒ قبولیت اور شہرت سے ڈرتے رہیں۔ سالک Ú©Ùˆ چاہئے کہ فقر Ùˆ فاقہ سے ہرگز نہ گھبرائے، فقر Ùˆ فاقہ پیغمبروں Ú©ÛŒ میراث اور خاصۂ خاندان نبوت ہے۔ فقر Ùˆ فاقہ پر کبھی شکایت نہ کرنی چاہئے اور صبر Ùˆ شکر Ú©Û’ ساتھ اس Ú©Ùˆ مخفی رکھیں۔ اللہ تعالیٰ Ú©Û’ دوست فقر Ùˆ فاقہ Ú©Ùˆ بہت پسند کرتے ہیں اور اپنی دولت Ùˆ جائیداد سب راہِ خدا میں دے کر فقر Ùˆ فاقہ Ú©Ùˆ حاصل کرتے اور خوش ہوتے ہیں۔ اور یہ نعمت انہی Ú©Ùˆ دی جاتی ہے جن Ú©Û’ متعلق یہ جانتے ہیں کہ وہ اس Ú©Û’ اہل ہیں۔

حکایت:حضرت شاہ ابو المعالی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ان کے پیر و مرشد تشریف لائے،حضرت مکان پر تشریف نہ رکھتے تھے، بی بی نے تعظیم و تکریم سے پیر صاحب کو ٹہرایا لیکن حضرت شاہ صاحب کے یہاں اس روز بھی کچھ کھانے پینے کو نہ تھا۔ بی بی نے پڑوسی سے آٹا اُدھار مانگنے کے لئے خادمہ کو بھیجا، پڑوسیوں نے اُدھار بھی نہ دیاکہ ان کو ادھار دے کر کہاں سے لیں گے۔ پیر صاحب خادمہ کو برابر آتا جاتا دیکھ کر فراست سے سمجھ گئے اور پوچھا کس فکر میں ہو؟ بی بی نے سمجھا کہ ان سے کیا چھپانا واقعی یہ حضرت اللہ تعالیٰ کے نائب ہوتے ہیں ان سے اپنا کوئی حال چھپانا نہ چاہئے، اس لئے بی بی نے صاف کہہ دیا کہ: حضرت آج ہمارے یہاں کچھ نہیں ہے۔پیر صاحب نے ایک روپیہ عطا فرمایا۔ آج کل کے پیر تو مریدوں کا ہی کھا جاتے ہیں اور کچھ خیال نہیں کرتے کہ ان کے یہاں کہاں سے آتا ہے اور کس طرح بے چارے لے آتے ہیں۔

القصہ پیر صاحب نے فرمایا کہ اس ایک روپیہ کا غلہ منگواکر ہمارے پاس لے آؤ۔ چنانچہ غلہ حضرت پیر و مرشد کے پاس لایا گیا، حضرت نے ایک تعویذ لکھ کر غلہ میں رکھ دیا اور فرمایا کہ اس تعویذ کو غلہ سے نہ نکالنا۔ پیر صاحب تو رخصت ہوئے۔ اب روز مرہ اس میں سے غلہ نکالا جاتا تھا لیکن وہ کم نہ ہوتا تھا،کئی روز ہوگئے صبح و شام کھانا آنے لگا،یہ دیکھ کر حضرت ابو المعالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ کیا بات ہے کئی روز سے فقر و فاقہ نہیں ہے؟ بی بی نے عرض کیا کہ پیر صاحب تعویذ دے کر گئے تھے، اس کی برکت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا فقر و فاقہ اختیاری ہے اضطراری نہیں ہے۔ اب یہ مقام بڑی کشمکش کا تھا کہ پیر کا تعویذاگر رکھا جائے تو اپنے مزاج کے خلاف اور نہ رکھیں تو پیر کے تعویذ کی بے ادبی۔ مگر سبحان اللہ ان حضرات کو حق تعالیٰ ایسا نور باطن عطا فرماتا ہے کہ اُن کی فہم نہایت صحیح اور عقل کامل ہوجاتی ہے۔

فرمایا کہ:اس تعویذ کا حقدار تو ہمارا سر ہے غلہ کا مٹکا نہیں ہے، لاؤ وہ تعویذ اس کو میں اپنے سر میں رکھوں گا۔ تعویذ منگاکر اپنے سر میں رکھ لیا اور غلہ فقراء میں تقسیم فرما دیا۔ شام کو پھر فقر و فاقہ ہوا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شکر حق تعالیٰ ادا کیا۔

اور بعضوں کو جانتے ہیں کہ اگر ان کو صبح و شام کھانے کو نہ ملے گا تو پریشان ہوجائیں گے اور ان سے برداشت نہ ہوسکے گی تو ان کو خوب رزق دیتے ہیں۔ غرض اولیاء اللہ کے مختلف طبقات ہیں مگر جو جس حال میں ہیں خوش ہیں۔

بدرد و صاف ترا حکم نیست دم درگش

کہ آنچہ ساقیٔ ما ریخت عینِ الطاف است

(ترجمہ: تل چھٹ یا صاف شراب میں دم مارنے کا حکم نہیں۔ جو کچھ ہمارے ساقی نے پیالے میں ڈالا وہی اس کی عنایت ہے) ۔

تو بندگی چوگدایاں بشرطِ مزد مکن

کہ خواجہ خود روشِ بندہ پروری داند

(ترجمہ: تو سائلوں کی طرح بھیک کی امید میں بندگی نہ کر،اس لئے کہ مالک خود بندہ پروری جانتے ہیں)۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: امیروں کے دروازے پر کھڑے ہونے سے پرہیز کرو کہ وہ فتنہ کی جگہ ہوتی ہے۔ فقیر کے دروازے پر امیر اچھا، مگر امیر کے دروازے پر فقیر اچھا نہیں بہت برا۔

حضرت ابوحمزہ محمد بن ابراہیم بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: فقراء سے دوستی کرنا بہت دشوار ہے اور سوائے صدیقوں کے کوئی ان کی دوستی پر صبر نہیں کرسکتا۔

اور فرمایا: جس کو اللہ تعالیٰ راہ بتلاتے ہیں اس کو اس راہ پر چلنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا راستہ دلیل اور کسی کے وسیلہ سے طلب کرتا ہے وہ کبھی راہِ خطاء پر اور کبھی راہِ صواب پر چلتا ہے۔

اور فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے یہ تین چیزیں عطا فرماتاہے وہ بہت ساری آفتوں سے محفوظ رہتا ہے، اور وہ تین چیزیں یہ ہیں:

(1)�� ایک: خالی پیٹ رہنا�� (2)� دوسرے : دل کا قانع رہنا����� ������ (3)� تیسرے : فقر دائم

اور فرماتے ہیں: فاقہ اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے، اُسے بخوشی قبول کرنا چاہئے۔

حضرت شیخ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ ایک دن عمدہ مرقع پہنے بیٹھے تھے کہ حضرت شیخ ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ نہایت بوسیدہ اور پرانا پوستین پہنے ہوئے آپ کے پاس آئے۔ آپ نے ہنس کر ان سے پوچھا :ائے ابو الحسن !تم نے یہ پوستین کتنے میں خریدی ہے؟� انہوں نے ایک نعرہ مارا اور کہا :میں نے تمام دنیا کے عوض اس کو خریدا ہے اور اس قدر اس کو عزیز رکھتا ہوں کہ اگر کل جنتیں اس کے عوض میں مجھے دی جائیں تو میں اپنا پوستین نہ دوں گا۔ حضرت شیخ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ رونے لگے اور فرمایا: اب کبھی میں کسی درویش کو حقیر نہ سمجھوں گا اور نہ کسی درویش کے حال پر ہنسوں گا۔

حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آج کل ایسا کوئی زاہد نظر نہیں آتا جس کے دیدار سے آنکھوں میں ٹھنڈک ہو۔ ہم نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو ترکِ دنیا کے ایسے ہی خواہشمند تھے جیسے کہ لوگ آج کل حصول دنیا کے درپئے ہیں۔ جو محض مخلوق پر بھروسہ کرے وہ ہمیشہ ناکام رہے گا۔

درویش سے مراد وہ ہے جو حق سبحانہ، و تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف نگاہ نہ اٹھائے، اور دنیا و آخرت میں مبتلا نہ ہو۔ وہ جب اس مقام پر پہنچتا ہے تو جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ملِک ہوجاتا ہے۔

حضرت ابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فقیر کسی شئے کی آرزو میں جس کے پورا کرنے سے وہ عاجز ہو ایک دم سرد آہ جو بھرتا ہے تو اس کا فعل تونگر کی ہزار سالہ عبادت سے بہتر ہے۔

از:مواعظ حسنہ ، حضرت ابوالحسنات محدث دکن رحمة اللہ علیہ

�